اسامہ کی زندگی پر ایک نظر

کسی کے لیے ہیرو اور کسی کے لیے دہشت گردی کا منبہ سمجھے جانے والے بین الاقوامی شدت پسند تنظیم القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں ڈرامائی انداز میں ایک فوجی کاروائی کے دوران ہلاک ہوگئے ہیں۔

اسامہ بن لادن دس مارچ 1957 کو سعودی عرب میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد محمد بن لادن ایک معروف کنسٹرکشن کمپنی کے مالک اور سعودی عرب کی ایک امیر شخصیت سمجھے جاتے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ محمد بن لادن کی کمپنی نے سعودی عرب کی اسی فیصد سڑکیں بنائی ہیں۔

اسامہ بن لادن کی والدہ کا تعلق یمن سے بتایا جاتا ہے۔

1968 میں ہیلی کاپٹر حادثے میں اپنے والد کی ہلاکت کے بعد اسامہ بن لادن اور ان کے بھائیوں کو تقریباً پچیس کروڑ ڈالر کے اثاثے ملے۔

بتایا جاتا ہے کہ اسامہ بن لادن کنگ عبد العزیز یونیورسٹی میں سول انجنئرنگ کے طالب علم تھے۔ اس دوران ان کی ملاقات شدت پسند اور سخت گیر سمجھے جانے والے طالب علموں اور اساتذہ سے ہوئی جس سے طالب علمی کے زمانے ہی میں اس کے نظریات میں تبدیلی آنی شروع ہوگئی۔

انیس سو اناسی میں جب سابق سویت یونین نے افغانستان پر یلغار کی تو اس نے اسامہ بن لادن کی زندگی پر گہرے اثرات چھوڑے۔ وہ اسی کے دہائی میں افغانستان آئے اور کمیونزم کے خلاف جنگ میں بھر پور حصہ لیا اور تقریباً ایک عشرے تک افغانستان میں ’جہاد‘ کے کاموں سے منسلک رہے۔

سکیورٹی تـجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اسامہ بن لادن افغانستان میں امریکی سی آئی اے کے تعاون سے لڑے اور انہوں نے ہی ان کو تربیت دی اور اسلحہ فراہم کیا۔ بتایا جاتا ہے کہ اس جنگ کے اختتام پر بھی بن لادن کی سوچ میں کافی تبدیلی آئی ۔

امریکہ کے لیے اسامہ بن لادن میں شاید اس وقت نفرت پیدا ہوئی جب 1991 میں خلیجی جنگ کے دوران تین لاکھ امریکی فوجیوں نے پہلی مرتبہ سعودی عرب کی سرزمین پر قدم رکھا۔ امریکی فوجیوں کے داخلے کو وہ سعودی عرب جیسی’ پاک زمین‘ پر انتہائی توہین آمیز سمجھتے تھے اور اسی اقدام نے انہیں امریکہ کا جانی دشمن بنا دیا۔

اس اقدام کے خلاف انہوں نے اپنے ساتھیوں اور مشرق وسطی میں دیگر قوتوں کے ہمراہ امریکہ کے خلاف ایک محاذ بنانا شروع کیا۔ انیس سو چورانے میں امریکہ کے دباؤ پر سعودی عرب کی حکومت نے بن لادن کی سعودی عرب کی شہریت ختم کردی جس کے بعد وہ پھر کچھ عرصہ سوڈان میں رہے لیکن وہاں سے بھی نکالے گئے اور بالآخر دو سال بعد یعنی انیس سو چھیانوے میں دوبارہ اپنے بیوی بچوں سمیت افغانستان آگئے۔

اسامہ بن لادن جب افغانستان پہنچے تو ان دنوں وہاں طالبان تحریک عروج پر تھی اور چند ہی ماہ کے بعد طالبان عسکریت پسندوں نے دارالحکومت کابل پر قبضہ کرلیا تھا۔

افغانستان میں انہوں نے طالبان تحریک کے اہم رہنماؤں کے ساتھ مضبوط روابط قائم کرلیے اور القاعدہ تنظیم کے ذریعے سے ان کی ہر ممکن معاشی اور دوسری مدد کی جس سے یہ تعلق مضبوط ہوتا گیا۔

1998 میں بن لادن نے افغانستان میں ایک فتوے کے ذریعے امریکیوں اور یہودیوں کے خلاف جنگ کا اعلان کردیا اور بحیثیت مسلمان امریکیوں اور ان کے اتحادیوں کو قتل کرنا ایک فرض سے تعبیر کیا ۔

اس اعلان کے چھ ماہ بعد کینیا اور تنزانیہ میں امریکی سفارت خانوں پر حملے کیے گئے جس میں ڈھائی سو کے قریب افراد مارے گئے۔ ان حملوں کا شبہ اسامہ بن دلان اور ان کے سولہ ساتھیوں پر ظاہر کیا گیا۔

ان واقعات کے بعد وہ امریکی ایف بی آئی کے سب سے اہم اور مطلوب افراد میں شمار ہونے لگے اور ان کے سر کی قیمت پچیس ملین امریکی ڈالر مقرر کی گئی۔

ان دنوں مشرقی افغانستان میں ان کے ٹھکانوں اور تربیت گاہوں پر امریکی کروز میزائل سے حملے بھی کیے گئے جس میں پچاس سے زآئد میزائل داغے گئے تاہم حملوں میں خود محفوظ رہے۔

اسامہ بن لادن پر انیس سو ترانوے میں نیو یارک کے مقام پر ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور سعودی عرب میں امریکی شہریوں پر حملوں کے الزامات بھی لگائے گئے۔

اسامہ بن لادن ان حملوں کے بارے میں اکثر کہتے تھے کہ ’میں ہمیشہ سے امریکیوں کو مارتا ہوں کیونکہ وہ ہمیں مارتے ہیں لیکن امریکیوں پر حملوں کے وقت ہم دوسرے لوگوں کو نقصان نہیں پہنچاتے۔‘

گیارہ سمتبر 2001 میں امریکہ پر حملوں کی ذمہ داری اسامہ بن لادن اور ان کے القاعدہ تنظیم پر عائد کی گئی۔ ان کے حملوں کے نتیجے میں امریکہ نے دو ہزار ایک کے آخر میں افغانستان پر حملہ کردیا اور یہ شبہ ظاہر کیا گیا کہ اسامہ بن لادن تورہ بورہ میں ہونے والے آپریشن کے دوران مارے گئے ہیں لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ وہ اپنے ساتھیوں سمیت افغانستان سے پاکستان کی قبائلی پٹی میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے.

بتایا جاتا ہے کہ آخری مرتبہ بن لادن تورہ بورہ کی پہاڑیوں میں دیکھے گئے تھے۔ تاہم اس دوران امریکی اور پاکستانی سکیورٹی فورسز کی طرف سے ان کی تلاش جاری رہی۔ امریکی حکام کی طرف سے کئی مرتبہ یہ کہا گیا کہ القاعدہ کے سربراہ پاکستان اور افغانستان کے قبائلی علاقوں میں رو پوش ہیں تاہم پاکستان اس کی تردید کرتا رہا ہے۔

روپوشی کے بعد اسامہ بن لادن آڈیو یا وڈیو کسیٹوں کے ذریعے سے میڈیا کو وقتاً فوقتاً اپنے پیغامات جاری کرتے رہے ہیں۔ تاہم گزشتہ چار سال سے ان کی طرف سے پیغامات جاری کرنے کا سلسلہ بھی رک گیا تھا بلکہ ان کی جگہ بیانات جاری کرنے کی ذمہ داری القاعدہ کے دوسرے اہم رہنما ڈاکٹر ایمن الزواہری کے سپرد کی گئی تھی۔

اکثر تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ امریکی ڈرون حملوں میں القاعدہ جنگجوؤں کی ہلاکت اور اہم لیڈروں کی روپوشی کی وجہ سے القاعدہ کا تنظیمی ڈھانچہ کافی حد تک کمزوری کا شکار ہوگیا ہے جبکہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت یقینی طور پر اس تنظیم کےلیے ایک بہت بڑا دھچکا ہے۔
uzair mushtaq
About the Author: uzair mushtaq Read More Articles by uzair mushtaq: 2 Articles with 2250 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.