ایک بہت بڑا گفٹ

تما م پڑھنے والوں کی خدمت میں سلام پہنچے!آج سے کچھ عرصہ پہلے کے دور کو سائنسی دور کہا جاتا تھا لیکن آج کل میڈیا کا دور کہا جا تا ہے ہم میں سے اگر کسی کو کہا جائے کہ میڈیا کے بارے میں لکھو تو شاید ہمارے پاس کاغذ ختم ہو جائیں لیکن ہمارے الفاظ کبھی ختم نہ ہوں۔اس دور میں کہا جاتا ہے کہ میڈیا نے انسان کے درمیان فاصلوں کو مٹا دیا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ نہیں جونہی ہمارا میڈیا فاسٹ ہوتا جارہا ہے انسان ایک دوسرے سے کے نزدیک تو درکنار اپنے سے بھی دور ہوتا جارہا ہے۔زیادہ نہیں آج سے صرف کچھ عرصہ قبل جب ہمارے ہاں رمضان کا مہینہ شروع ہوتا تو ہمارے ہاں دکانوں پر عید کارڈز کے اسٹال لگتے اور ہم ایک دوسرے کو عید کارڈ کا تحفہ دیتے۔تو چاہے وہ ہمارا عزیز ہمارے گھر کے بالکل پاس ہی کیوں نہ رہتا لیکن اس کو یہ تحفہ ضرور دیا جاتا اور اس وقت جو خوشی ہمیں محسوس ہوتی تھی شاید کبھی نہ ہو لیکن پھر ہمارا میڈیا فاسٹ ہو گیا اور پھر موبائل کا دور آگیا لیکن یقین کریں جو مزہ اس وقت آتا تھا شاید کبھی نہ آئے۔یہ تحفے تحائف تو اصل میں محبت بڑھانے کا زریعہ ہوتے ہیں حتیٰ کہ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ آپس میں تحفے تحائف دیا کرو اس طرح آپس میں محبت بڑھے گی۔لیکن آج کل ہمارے ہاں تحفے کا اصل مقصد ہی ختم ہو گیا ہے۔

آج کے دور میں یہ کہا جاتا ہے کہ تحفہ ہمیشہ ایسا ہونا چاہیے کہ جسے دیکھ کر اگلے کا دل خوش ہو جائے۔ اور اس کے لیے مہنگے سے مہنگا تحفہ لیا جاتا ہے لیکن ایک ایسی چیز ہے جس کو ہم ہمیشہ بھول جاتے ہیں جو تحفے میں کوئی بھی دینا پسند نہیں کرتا۔آپ یقین مانیں آپ کا اس تحفے پہ کوئی خرچ نہیں آئے گا اور اس سے اگلے کا دل سب سے زیادہ خوش ہو جائے گا تو وہ تحفہ جس کو آج ہم نے بالکل چھوڑ دیا ہے جو آج ہمارے ہاں بہت کم لوگوں میں نظر آتا ہے تو وہ تحفہ ہے مسکراہٹ۔ دنیا کا سب سے حسین تحفہ۔میں نے آج تک جن لوگوں کو بھی دیکھا تو ان کے چہرے اس چیز سے محروم نظر آئے۔حتیٰ کہ اس تحفے کے لیے ہمارے کوئی خرچہ بھی نہیں ہوتا۔

ہم جب آٹھویں جماعت میں پڑھتے تھے تو ہمارے بورڈ کے پیپرز تھے ہم سب لڑکے جا رہے تھے تو راستے میں ایک بابا جی بیٹھے تھے جو سید خاندان سے تعلق رکھتے تھے تو ایک لڑکا کہنے لگا چلو یا ر ان بابا جی سے دعا لیتے ہیں تو انہوں نے بابا جی کو سلام دیا تو بابے نے تھوڑی دیر بعد ان لڑکوں کو بجا ئے دعا دینے کے ان کے بازو سے پکڑ کر ان کو مکیاں مارنا شروع کردیں تو ہم لوگ بڑے مایو س ہو ئے تو میں سوچنے لگا کہ اگر یہ بابا جی مسکر ا کر ایک دعا دے دیتے تو ہو سکتا تھا کہ ان بچوں کے اوپر اچھا اثر پڑتا۔لیکن اس کے ایک رویے نے ان کے اندر ایک بہت بری فضا پیدا کردی۔جو میں سمجھتا ہوں کہ اچھی نہیں اب وہ بابا جی اکثر ہمار مسجد میں نماز پڑھنے آتے ہیں تو لوگ ان کو پکڑ کر لاتے ہیں کہ ان کی نظر کا فی کمزور ہے لیکن آپ یقین کریں کہ میں خود بڑی کوشش کر تا ہوں کہ ان کو پکڑ کر لا سکوں لیکن اس ایک رویے نے میرے اندر ایک ایسا احساس پیدا کر دیا ہے کہ کوشش کے باوجود ایسا نہیں کرسکتا۔

میری ایک عادت تھی کہ میں جب فارغ ہوتا تو اپنے گیٹ کے باہر کھڑا ہو جاتا اور آتے جاتے لوگوں کو دیکھتا تو مجھے زیادہ ایسے بندے نظر آئے جن کے چہرے مسکراہٹ سے محروم تھے۔ہمارے ہاں ایک آدمی آتا تھا جو بجلی کا بل دینے آتا تھا تو وہ بندہ میٹھا پان کھاتا تھا اور اس کے ہونٹ سرخ ہوتے تھے تو میں اس بندے سے بہت متاثر تھا دو باتوں سے ایک اس کے ہونٹوں سے دوسرا اس کی مسکراہٹ سے کہ وہ ہر وقت اپنے چہرے پر مسکراہٹ سجائے رکھتا ۔یہ بات طے ہے کہ ایک انسان کی مسکراہٹ دوسرے انسان پر ایک اچھا اثر ڈالتی ہے ہو سکتا ہے کہ آپ کی ایک مسکراہٹ کسی کی زندگی تبدیل کردے۔یہ تو ایک ایسا تحفہ ہے کہ جو آپ سے کوئی قیمت نہیں مانگتا بس ہونٹوں کی تھوڑی سی جنبش ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دوسری طرف ہمارے پیارے نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی سنت بھی پوری ہو جائے گی آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے چہرے پرہر وقت مسکراہٹ ہوا کرتی تھی۔

ہم جب چھوٹے تھے تو اپنی گلیوں میں کھیلا کرتے تھے زیا دہ تر ہمارے کھیل ایسے ہوتے تھے کہ ایک جگہ سے بھا گ کر دوسری طرف بھاگ کر جانا تو مجھے آج تک یاد ہے کہ جب میں بھا گ رہا ہوتا تو اچانک ایک گھر کے آگے سے پانی کھڑا ہو تا اب میں بھاگتا بھا گتا فوراً اس جگہ پر رک جاتا کہ اب اسے کیسے پار کروں تو میں ابھی اسی خیال میں ہوتا کہ ایک بزرگ شخصیت جن کا چہرہ مجھے آج تک یاد ہے دراز قد چھوٹی چھوٹی سفید داڑھی اور سفید کپڑے پہنے ہوئے اکثر گزر رہے ہوتے تو وہ جب مجھے دیکھتے کہ پانی کی وجہ سے میں آگے نہیں جا سکتا تو مسکرا کر میری طرف دیکھتے اور مجھے اٹھا کر دوسری طرف لے جا کر پھر مسکرا کر آگے چلے جاتے ۔وہ مجھے نہیں جانتے تھے اور نہ میں ان کو لیکن ان کے اندر ایک محبت اور پیار کا جذبہ تھا کہ مسکرا کر مجھے آگے لے جاتے تو پھر جب میں کچھ ہوش سنبھالا تو میں اکثر آج بھی ان کو یا د کرتا ہوں پھر گھر سے نکل کر دروازے پہ کھڑا ہوجاتا ہوں کہ شاید وہ آج پھر گزریں لیکن ایک مدت گزر گئی میں ان کو نہ دیکھ سکا لیکن آج بھی ان کو اپنی دعاؤں میں یا د کرتا ہوں کہ جن کی وجہ سے مجھے ایک بہت بڑا تحفہ ملا جو مسکراہٹ تھا ۔

لیکن دوسری طرف کچھ لوگ مجھے ایسے نظر آتے ہیں جن کے چہرے مجھے مردہ ہی نظر آتے ہیں نہ جانے لوگوں نے ان کا کیا بگاڑا ہے کہ آپ جونہی ان کو دیکھیں گے کہ غصہ اور حقارت ان کے چہرے پر نظر آرہی ہوگی۔ہمارے ایک ٹیچر تھے وہ بڑی پیاری بات کرتے تھے جب بھی کسی لڑکے کا کوئی کالج میں مسئلہ بنتا اور پرنسپل اور دوسرے ٹیچر اس کو غصے ہو رہے ہوتے تو وہ کہتے کہ یا ر اب ان لڑکوں نے اس عمر میں شرارتیں نہیں کرنیں تو کیا بڑھاپے میں کرنی ہیں؟پھر پوچھتے کہ کیا کبھی کسی نے کسی بابے کو بھی دیکھا ہے کہ جو چوک پہ کھڑا ہو کر لڑکیوں کو سیٹیاں مار رہا ہو تو وہ پھر پرنسپل اور ٹیچر ہنس ہنس کر اس لڑکے کو چھوڑ دیتے۔تو میرے خیال میں جب بندہ اپنے چہرے پہ غصے اور نفرت کاخول چڑھاتا ہے تو وہ اللہ کی نعمت کی ناشکری کر رہا ہے اگر وہ کسی کو کچھ نہیں دے سکتا تو کم از کم ایک چھوٹی سی مسکراہٹ ہی چہرے پہ سجا لے۔

تو اگر رہنا چاہتے ہو تو پھولوں کی طرح رہو آپ کو پھول ہمیشہ مسکراتے ہوئے اور خوشبو پھرتا ہو ا نظر آئے گا تو جب کوئی اس پھول کی طرح زندگی کزارتا ہے تو پھر ہر کوئی اس کی خوشبو سونگھنے کی کوشش کر تا ہے ۔تو اسی طرح جب کوئی شخص مسکرا ہٹ اپنے چہرے پر سجاتا ہو ا نظر آتا ہے تو ہر کسی کا دل چا ہتا ہے کہ میں اس سے ملوں میں اس سے بات کروں۔

ٹھیک ہے آج کا میڈیا اتنا فاسٹ ہو گیا ہے کہ ہم ایک دوسرے کو کارڈز وغیرہ نہیں بھیج سکتے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس میسج سے بہتر ہے کہ آپ ہر روز اپنے بھائی کو مسکراہٹ کا تحفہ دیں۔مجھے بڑا افسوس ہوتا ہے کہ یہ عادت بھی دوسری اچھی عادتوں کی طرح انگریزوں میں بہت ہے آپ کو کئی انگریز ایسے نظر آئیں گے کہ ان کے چہرے پر مسکراہٹ ہوگی اور اگر آپ کے قریب سے گزریں گے تو مسکراتے ہوئے ضرور ویلکم کہیں گے۔تو اگر ہم اپنے آپ کو ایڈوانس کہلوانے کے لیے ان کی دوسری عادتیں اپنا سکتے ہیں تو ایسی اچھی عادتیں ہم کیوں نہیں اپنی زندگی کا حصہ بناتے۔ہم لوگ دوسروں کو Inspireکرنے کے لیے اور دوسروں کی توجہ اپنی طرف کروانے کے لیے کہ ہر کوئی میری طرف دیکھے ہر قدم اٹھا لیں گے لیکن ایک ایسی چیز کہ جس کے لیے ہمارا کچھ نہیں جاتا ہم اسے چھوڑ دیتے ہیں۔ہم دوسروں کو تحفہ دینے کے لیے لاکھوں بلکہ کروڑوں روپے کی لے کر تحفے میں دے دیں گے لیکن ایک ایسی چیز کہ جس کے اوپر ہمارا ایک روپیہ نہیں لگتا اسے ہم چھوڑ دیتے ہیں تو اگر ہم اپنی زندگی میں مسکراہٹیں بکھیرتے ہوئے جائیں تو جونہی ہم گزریں گے لوگ دروازوں پہ کھڑا ہو کر ہمارا انتظار کر یں گے کہ کاش وہ آج پھر یہاں سے گزرے کاش میری اس سے بات ہو جائے۔تو میری یہ دعا ہے کہ اللہ آپ کو مسکراہٹ کا یہ دیا عطا فرمائے اور آج آپ کے ساتھ میری طرف سے یہ تحفہ ضرور جائے۔

اللہ آپ کو اس دیے سے دیا جلانے کی تو فیق دے ﴿آمین﴾
Young Writer and Columnist
About the Author: Young Writer and Columnist Read More Articles by Young Writer and Columnist: 15 Articles with 13671 views Hafiz Muhammad Naeem Abbas.A young writer from Dist Khushab.
Columnist, Script Writer and Fiction, NON FICTION Writer.
Always write to raise the sel
.. View More