سرکاری اسکولز میں سیکس ایجوکیشن! ذمہ دار کون؟

پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں پر ڈرون حملوں کا سلسلہ ایک عرصہ سے جاری ہے جس کے نتیجے میں بے شمار معصوم پاکستانی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں،اب سرکاری اسکولوں میں سیکس ایجوکیشن پڑھا کر اخلاقی سرحدیں پامال کی جارہی ہیں ۔

خبر یہ ہے کہ سرکاری اسکولوں میں چھٹی سے دسویں جماعت تک کے طلبہ و طالبات کو” زندگی گزارنے کی مہارتوں پر مبنی تعلیم “نامی جنسی مواد پر مشتمل متنازعہ کتاب پڑھائی جارہی ہے ۔ماضی میں اس سے قبل نجی اسکولوں میں جنسی مواد پر مشتمل متنازع کتابیں پڑھانے کی بے شمار کوششیں کی گئیں ہیں ، تاہم اس مرتبہ براہ راست سرکاری اسکولوں کو نشانہ بنایا گیا ہے جہاں غریب اور مڈل کلاس طبقہ کے طلبہ و طالبات تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے آتے ہیں ۔ جنسی مواد پر مشتمل کتاب ”زندگی گزارنے کی مہارتوں پر مبنی تعلیم “وطن عزیز کے تین شہروں کراچی ،ملتان اور مٹیاری میں پڑھائی جارہی ہے۔ جس کا مقصد نئی نسل کو اخلاقی وذہنی طور پر بانجھ کرنا ہے۔

کتاب کے بارہویں باب میں چھپن ویں صفحہ پر طلبہ کو اپنے ساتھی کے ساتھ جنسی تعلقات کے محفوظ طریقوں کے متعلق رہنمائی دی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ محفوظ طریقے سے جنسی تعلقات سے ایڈز اور ہیپاٹائٹس جیسی بیماریاں لاحق نہیں ہوتیں۔ اگلے پیراگراف میں بتایا گیا ہے کہ کسی بھی ایسے فرد کے ساتھ جسے آپ نہ جانتے ہوں یا پھر بیماری سے متاثرہ فرد کے ساتھ جنسی تعلقات کے دوران کنڈوم ضرور استعمال کیا جائے۔ متنازعہ مواد صرف بارہویں باب میں ہی نہیں بلکہ باب نمبر آٹھ کے صفحہ نمبر سینتیس ،دسویں باب کے صفحہ نمبر چوالیس اور گیارہویں باب کے صفحہ نمبر اڑتالیس پر بھی موجود ہے ۔جبکہ ایک شادی کی تقریب کی تصاویر بھی ہیں،تاہم اس میں بھی روایتی شادی کے برعکس کورٹ میرج ہوتے دکھائی گئی ہے جبکہ سولہویں باب کے سترویں صفحہ پر ایک ماموں کے اپنی بھانجی سے مشتبہ رویے کو زیر بحث لایا گیا ہے۔

کتاب لائف اسکل بیسڈ ایجوکیشن پروگرام کے تحت شائع کی گئی ہے یہ پروگرام ورلڈ پاپولیشن فاؤنڈیشن چلا رہی ہے۔جو یورپی یونین کے تحت چلنے والے ایک ادارہ ہے۔ ورلڈ پاپولیشن فاؤنڈیشن کو امداد یورپی یونین، عالمی بینک، ہالینڈ کی حکومت اور ہالینڈ کے بادشاہ کی جانب سے دی جاتی ہے۔یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ کتاب متعارف کرانے سے پہلے معروف مقامی ہوٹل میں اساتذہ کی تین روزہ تربیتی ورکشاپ بھی منعقد کی گئی تھی۔

سال دو ہزار نو میں شہری حکومتوں کی سرپرستی میں مذکورہ این جی او نے ہمارا کل نامی پروگرام شروع کیا ،جس کے تحت تین ہزار سے زائد اساتذہ کو تربیت دی گئی اور سال دو ہزار دس میں خاموشی سے جنسی تعلیم پر مشتمل قابل اعتراض مواد اسکولوں میں پڑھانا شروع کردیا۔ محکمہ تعلیم کے ایک افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ورلڈ پاپولیشن فاؤنڈیشن اور آہنگ نے اس پروگرام کی دستاویزات پر دستخط کے وقت ایسی کوئی چیز منصوبے میں ظاہر نہیں کی تھی اور دو ہزار نو میں پہلے مرحلے میں بچوں کو کوئی ایسی چیز نہیں پڑھائی گئی تاہم دوسرے مرحلے میں انہوں نے ہمارے علم میں لائے بغیر متنازع کتاب پڑھانا شروع کر دی ہے۔جبکہ ایک اور اطلاع کے مطابق سرکاری اسکولوں میں پڑھانے سے قبل منظوری کے لیے محکمہ تعلیم کے افسران کے پاس بھیجا گیا تھا لیکن محکمہ تعلیم کے افسران نے اس کتاب کو کھول کر پڑھنا بھی گوارا نہیں کیا اور اس کی منظوری دے دی گئی۔

لائف اسکل بیسڈ ایجوکیشن پروگرام کے تحت جن اسکولوں میں یہ کتاب پڑھائی جانی تھی انہیں پچاس ہزار روپے فی اسکول بھی دیے گئے۔متعدد ٹیچرز نے کتاب متعارف ہونے کے بعد اسے پڑھا اور پڑھانے سے معذرت کرلی۔کتاب پر محکمہ تعلیم کے اندرونی حلقوں میں بھی شدید تنقید کے باوجود یہ کتاب نامعلوم وجوہات کی بناء پر شہر کے کئی اسکولوں میں متعارف کرائی گئی ہے۔ہمارے ہاں تعلیمی اداروں میں جنسی تعلیم کا تصور مغرب سے مرعوبیت کے سبب منتقل ہو رہا ہے۔مغرب میں جنسی تعلیم کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس بات کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے ۔ مغرب کا خاندانی نظام تباہ ہو چکا ہے ،مغربی معاشرہ آزاد جنسی معاشرہ بن چکا ہے۔ بالغ ہوتے ہی جنسی تسکین کے لیے مخالف جنس کے آمادہ فرد سے تعلقات رکھنا وہاں روز مرہ کا معمول ہے۔ لہٰذا مغرب میں جنسی تعلیم اْن کے اپنے معاشرے کے نوبالغ بچے اور بچیوں کو ضروری معلومات اور حفاظتی تدابیر سکھانے پر مرکوز ہے۔بلوغت کی سیڑھی پر قدم رکھنے والے بچے اور بچیوں کو محفوظ جنسیت کی تربیت دی جائے، انہیں بیماریوں اور وائریسز سے بچاؤ کے لیے تربیت دی جائے ، مغربی معاشرے نے اس پس منظر میں جنسی تعلیم کے نصاب اور معلومات کو اپنے معاشرے کے مسائل پر طویل تحقیق کے بعد ترتیب دیا ہے۔

اسلام کے تصور شرم و حیا اور ستر (پردے )کے بنیادی احکامات سے ہی ایسا مواد نکالا جا سکتا ہے جو بچے کو ذہنی طور پر محتاط بنا دے گا۔ اور وہ کسی بدبخت کی بری حر کت یا کوشش کو محسوس کر سکے گا۔ ہم نے مشاہدہ کیا ہے کہ بہت سے بچے اپنے والدین کے علاوہ کسی اور سے بوسہ لینے میں شرم محسوس کرتے ہیں۔ اسلام غیر ضروری جنسی اختلاط کو ناپسند کرتا ہے۔ لہٰذا پرائمری سے بالا ئی سطح پر مخلوط تعلیم نہ صرف اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ نہیں بلکہ اس سے بے شمار جنسی و نفسیاتی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ لہٰذا اس سطح پر بڑھتے ہوئے مخلوط تعلیم کے رجحان کا سد باب ہمیں بے شمار جنسی مسائل و مشکلات سے بچا سکتا ہے جن کا مغربی معاشرہ آج شکار ہے اور جس کے حل کے لیے وہ بچوں کی معصومیت سے کھیلتے ہوئے انہیں چار پانچ سال کی عمر سے ہی باقاعدہ جنسی تعلیم دینے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ انٹر میڈیٹ اور ڈگری سطح پر بچے مکمل بالغ ہو چکے ہوتے ہیں۔ لہٰذا اس سطح پر ان کو وہ ضروری معلومات دینے میں کوئی حرج نہیں جن کا جاننا ہر بالغ فرد کے لیے ضروری ہے۔

ماہرین تعلیم اور طلبہ و طالبات کے والدین نے بھی کمسن بچوں کو جنسی تعلیم دینے پر شدید غم و غصہ کا اظہار کیا ہے ۔

یقیناً پاکستانی قانون کے مطابق جن جرائم پر سزا ہے ان موضوعات پر تعلیم دے کر حکومت انتہائی سنگین جرم کی مرتکب ہو رہی ہے ۔پاکستان ایک اسلامی مملکت ہے‘ کیا ہم نے اس لیے پاکستان حاصل کیا تھا کہ یہاں مغربی تہذیب کی نقالی کی جائے۔ اس طرح کی تعلیم چھٹی ، ساتویں اور آٹھویں جماعت کے سطح پر پڑھانے کی کیا ضرورت ہے۔آخر کس نے حکومت کو کہا ہے کہ ایسی کتاب اس سطح کی کلاسز کے نصاب میں شامل کی جائے۔

مذکورہ بالا تحریر محترم حامد الرحمان صاحب کی ہے جو کہ روزنامہ جسارت سنڈے میگزین میں شائع ہوئی تھی۔ اس کی اہمیت کے پیش نظر ہم نے اس کو یہاں پیش کیا ہے۔
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 534 Articles with 1448862 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More