اہل بیت رضی اللہ عنہن

خاتم المعصومین سید المرسلین، مربی الصحابہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے 23 سال کے مختصر عرصہ میں اپنی جان مبارک ہتھیلی پر رکھ کر ایک ایسی عظیم قدسی صفات جماعت تیار فرمائی جس کے وجود مسعود سے ایک مدت قبل ہی اللہ رب العزت نے تورات و انجیل جیسی مقد س کتب میں اس عظیم جماعت کے افراد کے فضائل و مناقب بیان فرما دیے تھے۔اوصاف حمیدہ کی حامل اس جماعت کو صحابہ کرامؓ کہا جاتا ہے۔ ہر وہ شخص صحابی ہے جس نے حالت ایمان میں نبیﷺ کے ساتھ کچھ وقت گزارا ہو اور اسی حالت میں وفات پائی ہو۔ انبیاءعلیہم السلام کے بعد صحابہ کرامؓ مخلوق باری تعالیٰ میں افضل و اشرف ترین طبقہ ہیں۔ صحابہ کرامؓ کے فضائل اور تائید و توصیف میں تقریباً 700آیات مبارکہ نازل ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ تمام صحابہؓ سے راضی ہوا اور سب سے جنت کا وعدہ فرمایا۔ اسی لیے اللہ رب العزت نے اپنی مقدس و محفوظ کتاب قرآن شریف میں صحابہؓ کے لیے اپنی رضا و جنت کا واضح اعلان فرمایا۔پس ثابت ہوا کہ تمام صحابہؓ نے اللہ کی رضا اور جنت حاصل کی۔ صحابہؓ ستاروں کے مثل ہیں۔ جیسے تمام ستارے روشن ہوتے ہیں مگر کوئی ستارہ باقی ستاروں سے زیادہ روشن ہوتا ہے اسی طرح کئی صحابہ کئی پہلوﺅں کے لحاظ سے دیگر صحابہؓ سے درجہ و رتبہ میں فوقیت کے حامل تھے۔ صحابہؓ میں فرق مراتب کے لحاظ سے کئی طبقات ہیں جن میں عشرہ مبشرہ، اہل بدر، اہل حدیبیہ، مہاجرین، انصار، اصحاب صفہ وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔ ہر طبقہ اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے باوجود بلا استثناءاللہ رب العزت نے قرآن مجید میں جماعت صحابہ کے ہر ہر فرد سے اپنی رضا وجنت کا اعلان فرمایا۔ کوئی روایت کسی راوی سے ہی کیوں نہ ہو اور کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہو وہ قرآن کریم کے بیان کے برابر ہو سکتی ہے اور نہ ہی ان روایتوں سے کلام اللہ کے معنی و مفہوم کو خلط ملط کیا جاسکتا ہے۔

طبقات صحابہ میں سے ایک طبقہ ”اہل بیت“ کہلاتا ہے۔ دیگر صحابہؓ کو جو بھی عمومی فضائل و مناقب اور اللہ کی رضا و جنت کا وعدہ حاصل ہے، وہ سب ”اہل بیت “کو بھی حاصل ہے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ کچھ فضائل و مناقب عمومی ہیں جو تمام صحابہؓ کے لیے ہوتے ہیں۔ جبکہ کچھ فضائل و مناقب صحابہ کرامؓ کے فرق مراتب کے لحاظ سے ہوتے ہیں، ان فضائل و مناقب میں خاص خاص صحابہؓ شامل ہیں۔ جیسے عشرہ مبشرہ کے خصوصی فضائل و مناقب میں فقط یہی دس حضرات صحابہؓ شامل ہیں مگر عمومی فضائل و مناقب کے اعتبار سے یہ حضرات باقی تمام صحابہؓ کے ساتھ شامل ہیں۔اسی طرح مہاجرین کے فضائل و مناقب میں کوئی اور صحابیؓ شامل نہیں مگر مہاجرین تمام صحابہؓ کے عمومی فضائل و مناقب میں یقیناً شامل ہیں۔ ایسے ہی ”اہل بیت“ تمام عمومی فضائل میں دیگر صحابہؓ کے ساتھ ہیں مگر ان کے کچھ ایسے خصوصی فضائل و مناقب ہیں کے کوئی دوسرا صحابیؓ ان فضائل و مناقب کا حامل نہیں۔

صحابہ کرامؓ کے اس ممتاز طبقہ ”اہل بیت“ میں فقط ازواج نبی شامل ہیں۔ یعنی امہات المومنین ، ازواج نبی اور اہل بیت تینوں الفاظ آپس میں مترادف ہیں۔ قرآن شریف میں ازواج رسول کو مومنوں کی مائیں کہا گیا ہے النبی اولیٰ بالمومنین من انفسہم و ازواجہ امہاتہم (احزاب:6) اسی سورت میں آگے اللہ رب العزت نے آیت 28 میں نبیﷺ سے فرمایا ہے کہ اپنی ازواج سے کہہ دیں کہ۔۔۔یعنی خالق ارض و سماء نے نبیﷺ سے اپنی ازواجؓ کو کچھ باتیں تعلیم کرنے کا حکم دیا۔اس کے بعد کی آیات مبارکہ میں ازواج مطہراتؓ کے لیے کچھ احکام و وعظ ہیں کچھ امور کا حکم اور کچھ سے منع کیا گیا۔ کچھ فضائل و بشارتیں بھی ذکر کی گئیں۔ نبیﷺ کی مقدس و مطہر ازواج سلام اللہ علیہن کے متعلق بیان کرتے کرتے اللہ رب العزت اسی سورت کی آیت 33 میں فرماتے ہیں انما یریداللہ لیذہب عنکم الرجس اہل البیت و یطہرکم تطہیرا یعنی اے اہل بیت اللہ تم سے نجاست کو دور کرنا چاہتا ہے اور تمہیں خوب پاک صاف کرنا چاہتا ہے۔اس آیت کے بعد بھی اللہ رب العزت ازواج مطہراتؓ کے لیے فرماتے ہیں کہ تمہارے گھروں میں جو آیات پڑھی جاتی ہیں ان کو یا د رکھو۔(اپنے عنوان کو واضح کرنے کے لیے فقط آیات کا مفہوم بیان کیا گیا ہے) سورہ احزاب کی یہ آیات ازواج مطہراتؓ کے لیے ہیں اور یقیناً اللہ نے اپنی مقدس ترین کتاب میں حضرت محمد کریم ﷺ کی پاکیزہ بیویوں کو ہی ”اہل بیت“ کہہ کر مخاطب کیا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ ”اہل بیت“ سے مراد نبیﷺ کی مقدس و مطہر ازواجؓ یعنی امہات المومنین ہی ہیں۔ ان آیات کے نزول کے وقت امہات المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ، سیدہ حفصہ، سیدہ ام حبیبہ، سیدہ ام سلمہ، سیدہ صفیہ، سیدہ میمونہ، سیدہ زینب اور سیدہ جویریہ رضی اللہ عنہن آپﷺ کی زوجیت میں تھیں۔ انہیں آیات کی تفسیر کرتے ہوئے فرمان علی، شیعہ اپنے اردو ترجمہ قرآن میں کفر تحریر کر گیا کہ یہ اہل بیت والی آیت اس مقام کی نہیں ہے بلکہ کسی خاص مقصد کے لیے یہاں داخل کی گئی ہے۔دیکھیے کیسے اس دشمن اسلام نے قرآن کے ترجمہ کے نام پر قرآن کی حقانیت کا انکار کیا ہے اور انکار بھی ترجمہ و تفسیر قرآن کے نام سے۔

اہل بیت عربی ، اہل خانہ فارسی اور گھر والے اردو زبان میں محض ایک ہی مفہوم و مطلب میں بولے جاتے ہی۔ کسی کے اہل بیت/گھر والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو عموماً ہمیشہ کے لیے کسی کے گھر میں رہتے ہوں۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کہ فقط بیوی ہی ایک ایسا فرد ہے جو کہ ہمیشہ کے لیے اپنے خاوند کے گھر رہتی ہے۔ یعنی اہل بیت، اہل خانہ اور گھر والوں سے عموماً بیوی ہی مراد ہوتی ہے بعینہ ان آیات مبارکہ میں بھی اہل بیت سے مراد ازواجؓ نبیﷺ ہیں۔اسی طرح قرآن میں سورہ ہود کی آیت 73میں ابولانبیا حضرت ابراہیم علیہ السلا م کی زوجہ مکرمہ کو بھی اہل بیت کہا گیا۔ اہل اسلام سے گزارش ہے کہ اس بات کو بخوبی ذہین میں رکھیں کہ قرآن میں اللہ رب العزت نے فقط پیغبرﷺ کی مقدس و مطہر ازواجؓ یعنی امہات المومنینؓ کے لیے ”اہل بیت“ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ اس اصطلاح کو غیر ازواج نبی کے لیے استعمال کرنا قرآن کی مخالفت ہے۔ اگر کوئی مخصوص اصطلاح کچھ مخصوص افراد کے لیے مستعمل ہوئی ہے تو اس کو فقط انہی کے ساتھ خاص رکھنا چاہیے۔ جیسے لسان نبوت سے”اسد اللہ“، ”اسد رسول اللہ“ اور ”سیدالشہدائ“ کے القاب عم رسول سیدنا حمزہؓ کے لیے ادا ہوئے مگر آج کل کے اچھے خاصے دینی شعور رکھنے اور اپنے کو اہل سنت کہلانے والے حضرات بھی اہل تشیع کی پھیلائی ہوئی گمراہی کا شکار ہو گئے اور یہ تینوں القاب بالترتیب سیدنا علی مرتضیٰؓ اور سیدنا حسینؓ کے لیے استعمال کرنے لگے۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں حق کو حق سمجھ کر اشاعت حق اور باطل کو باطل سمجھ کر اس کی مخالفت کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
Muhammad Irfan Ul Haq Advocate
About the Author: Muhammad Irfan Ul Haq Advocate Read More Articles by Muhammad Irfan Ul Haq Advocate: 30 Articles with 68419 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.