قہقہوں سے رلا گیا کوئی ۔۔۔!

سبھی کی مسکراہٹیں اور ہنسی ایک جیسی نہیں ہوا کرتی۔کوئی بڑا گرتاہےتو چھوٹے ٹھٹھے لگاتے ہیں۔قومیں جب اللہ کی زمین پر اترا ترا کر چلنے لگتی ہیں تو زمین اپنی زہر خند سے شق ہو جاتی ہے اور تہذیبیں اس میں سماجاتی ہیں ۔فالسٹاف قہقہہ لگاتا ہے تو روم روم مسکرا اٹھتا ہے۔ شیر خوار بچے خوش ہوتے ہیں تو کلکاریاں مارتے ہمک کر ماں کی گود میں چلے جاتے ہیں ۔ادھر مونا لیزاہے کہ صدیوں سے مسکرا ئے چلی جا رہی ہے اور ایک مسکراہٹ وہ بھی ہے جو نروان کے بعد گوتم بدھ کے لبوں کو ہلکا سا خمیدہ کر کے اس کی نظریں جھکا دیتی ہے۔(تزک یوسفی (مقدمہ)زرگذشت)

دنیا ئے ادب میں یوں تو بے شمارادباگزرے ہیںجنہوں نے رشحات قلم سے اردو کو ایک نیا رنگ دیا ہے ۔ بر صغیر میں قلم کارو ں کی تعداد ہمیشہ خاصی رہی ہے ۔ بلا شبہ شوکت تھانوی، غلام احمد فرقت کاکوروی، مرزا فرحت اللہ بیگ، شفیق ا لرحمن، کرنل محمد خان اور مجتبیٰ حسین بھی اقلیم طنز و مزاح کے حکمرانوں میں سے ہیں لیکن مشتاق یوسفی بھی اپنے پانچ ادبی شہ پاروں سے عصر حاضرکے بے تاج بادشاہ بن کر مملکت ادب پر راج کیا ہے ۔

مشتاق احمد یوسفی اس ممتاز مزاح نگار شخصیت کا نام ہےجس نے اردو ادب کی شگفتہ تحریروں میں بذلہ سنجی، برجستگی، شیفتگی، ندرت خیال، متناسب الفاظ کا بر محل استعمال اورواقعات کی تصویر کشی وغیرہ بنحو احسن انجام دی ہے۔ جس سے یوسفی کی شخصیت نمایاں ہوتی ہے۔

انہوں نے اپنے قلم کی جولانیوں کو مہمیز کرکے اردو زبان کے مزاحیہ ادب کو نہ صرف فروغ دیا بلکہ اس کے پیچ دار گیسووں کو سنوارا اور اسے بام عروج پر پہنچایا۔ بھرپور طنز و مزاح کے قالب میں روشن معنویت کو سپرد قرطاس کر کے اردو ادب کو ہمالیائی بلندی عطا کی اور قارئین کے ذوقِ مطالعہ اور حسِ مزاح میں بھی بے پناہ اضافہ کیا ہے۔

ان کی ولادت ۴؍ستمبر۱۹۲۳ کو متحدہ ہندوستان کے ریاست راجستھان کے شہر ٹونک ،جے پور میں ہوئی۔ آبائی وطن جے پور تھا جہاں انہوں نے گریجویشن کی تعلیم پائی ۔آگرہ یونیورسٹی سے ایم-اے (فلسفہ) اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایل ایل بیکیا ۔ تعلیم یہ بتارہی ہے کہ ان کا دلخواہ موضوع فلسفہ اور قانو ن تھا ۔ یعنی ان کی تعلیم فلسفہ اور قانون کے اردگرد گردش کرتی رہی ہے ۔

۱۹۵۰ ء تک وہ بھارت میں سکون کے لمحات گزارتے رہے لیکن ہندو پاک کے بٹوارے میں والدین کی تقلید میں وہ پاکستان ہجرت کرگئے ۔ اور زندگی کے بقایا سال کو کراچی میں بسر کیا۔وہاں انہوں نے بینک میں ملازمت کے ذریعہ معقول آمدنی کی صورت پیدا کر لی ۔ ۱۹۹۰ ء میں ملازمت سے سبکدوش ہوکر اپنے مہاجر شہر میں زندگی کے شب و روز گزارتے رہے ۔

1961ء میں 40 برس کی عمر میں اپنے مضامین کو اکٹھا کرکے ان کے نوک پلک کو سنوارا اور اس طرح اپنے پہلے مجموعے’چراغ تلے‘ کے ساتھ اردو ادب کے سنگھاسن پر براجمان ہوئےاور یوں ان کے ادبی سفر کا آغاز ہو جا تا ہے۔ یہ کتاب عام و خاصدونوں حلقوں میں یکساں مقبول ہو ئی اور اس طرح ان کی شہر ت میں روز بروز اضافہ ہوتا گیا ۔لاہور سے شائع ہونے والے رسالے میں بھی ان کے مضامین قابل مطالعہ قرار پائے۔
انہوں نے اردوادب کو پانچ نایاب تحفے عطا کئے ہیں:
چراغ تلے (1961ء)
خاکم بدہن (1969ء)
زرگزشت (1976ء)
آبِ گم (1990ء)
شامِ شعرِ یاراں (2014ء)

مشتاق احمد یوسفی کی نگارشات کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہو تی ہے کہ دور حاضر میں ان کی فن مزاح نگاری لاثانی حیثیت کی مالک ہے اوراس اچھوتے اسلوب سے تلخی کا خفیف سا احساس تک بھی نہیں ہو تا ۔ ان کے قلمی آثار میں مزاحیہ تحریریں کافی اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔ طنز و مزاح کا یہ حسن امتزاج ان کی شخصیت کو ممتاز کرگیاہے۔ جابجا طنز و مزاح کا سہارا لے کر معاشرہ کی ابتری کاگلہ اور سیاسی کھیل تماشے کو بڑے ہی انوکھے اور جاذب انداز میں پیش کیا ہے ۔ انہوں نے سیاست میں نہاں انسان سوزی، سماج میں جابجا پھیلی کج فہمی اور کوتاہ فکری اور دیگر شعبہ ہائے حیات میں پائی جانے والی خامیوں کو ہدف بنا کر بھر پور طنز کیا اور اس طرح سماجی بے راہ روی کو آشکار کیا۔ ان کی طنزنگاری میں ہمدردی کا خاصا جذبہ شامل ہے۔ قوم وملت کا درد ہی طنز بنتا ہے اور پھر یہی طنز ترقی کے باب وا کرتا ہے ۔ انہوں نے معاشرے کی ان بے راہ رویوں کی بڑی سنجیدگی کے ساتھ پیش کیا جن سے انسانی معاشرے ہر روز نبردآزما ہوتا رہتا ہے ۔

ان کی کتاب ’آب گم‘ ظرافت نگاری کا ایسا شاہکار ہے جس میں یوسفی نے جگہ جگہ اپنے مختلف کرداروں کے ذریعے معاشرے کی ان برائیوں کو بے نقاب کیا ہے جو سماج کے لیے ناسور بن چکی تھیں۔ رشوت خوری کے تعلق سے مکالماتی انداز میں ان کا مضمون ’اسکول ماسٹر کا خواب‘، ’کار کابلی والا‘ اور’ الہ دین بے چراغ‘ جس میں ایک کھٹارا کار اور ان پڑھ پٹھان وغیرہ پر مشتمل داستان اور اس کے علاوہ دیگر مضامین صرف داستان نہیں بلکہ فکشن اور سچے واقعات کا دلآویز مرقع ہیں۔

ان تحریروں نے معاشرے کی ان خامیوں کو اجاگر کر دیا جو معاشرے کو آلودہ کیے ہوئے تھیں۔ روح کش وبا نے سماج کو یکسر سلادیا تھا اور لوگوں کے ضمیر خوابیدہ ہو گئے تھے ۔مگر ادب کے مسیحا نے اپنے نوک قلم سے ان خوابیدہ ضمیروں کو جگایا اور حیات نو عطاکی ۔

ان کی ادبی کاوشوں کو مقبول بنانے میں رنگا رنگ موضوعات کے ساتھ ان کے دلکش اندازبیاں، شوخ اورشگفتہ طرز ادا نے کافی اہم رول ادا کیا ہے ۔

ان کیگراں قدر ادبی خدمات کے پیش نظر حکومت پاکستان نےانہیں 1999ء میں ’ستارہ امتیاز‘ اور’ ہلال امتیاز‘ کے تمغوں سے نوازا۔

9 دہائیاں پار کرلینے کے بعد ان کی جسمانی حالت میں کمزوری آنے لگی لیکن ان کے لہجہ میں وہی کاٹ اور وہی سحر بیانی باقی رہی ۔اواخر عمر میں طبیعت کافی نا ساز ہوچلی تھی۔لیکنان کے الفاظ، ان کا لہجہ اور ان کی زندہ دلی کسی طور ہار ماننے کو تیار نہ تھی۔مگر یہ ایک اٹل حقیقت ہے جس سے انکار و مفر کا امکان نہیں ۔رفتہ رفتہ مرض کے عفریتی پنجوں نے اپنے حصار کو بڑھا نا شروع کردیا جس کے سبب دمکتی پیشانی پر دم واپسین کے پسینے کے قطرات نے ہجرت کی بگل بجادی اور کائنات ادب کو قہقہوں کاانمول خزانہ عطا کرنے والا جاتے جاتے آنسووں کی قطار دے گیا ۔