ریاست ِ مدینہ کی عدالت کا مثالی فیصلہ !

 ریاست ِمدینہ کے خلیفہ امیرالمومنین حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کی عدالت میں لوگوں کا بہت بڑاہجوم حاضری کی اجازت چاہتا تھا۔یہ ہجوم خون میں نہائی ہوئی ایک لاش کو امیرالمومنین سیدناحضرت علی کرم اﷲ وجہہ کے پاس لارہا تھا،جسے کچھ ہی دیر پہلے قتل کیا گیا تھا،کچھ محافظوں نے ایک شخص کوحراست میں لیا ہواتھا،جس کے ہاتھ میں آلہ قتل تھا،جس پرلگا تازہ خون صاف نظرآرہا تھا۔ہرطرف سے قصاص کے لئے آواز بلند ہورہی تھی۔جس شخص کوموقع واردات کے قریب سے گرفتارکیا گیاتھااس کا پوراجسم خوف سے کانپ رہا تھا،پیرلڑکھڑا رہے تھے،چہرہ کا رنگ اڑاہوا،بے چینی اورپریشانی سے براحال تھا۔اس خوفناک اورالمناک منظرکو جوبھی دیکھتاوہیں رک جاتا اورقاتل کے خلاف آوازیں بلندکرنے لگتا۔ہرکسی کامطالبہ تھا کہ قاتل کوفی الفورپھانسی دی جائے۔

اسلام زندگی کے ہرمعاملہ میں عدل وانصاف اورحق وصداقت کی تعلیم دیتا ہے۔عدل کسی بھی معاشرے کے استحکام،تحفظ اورترقی کی بنیاد ہے۔ اسلام میں دوسروں کی خیرخواہی سب سے اہم اوربنیادی چیزہے ۔ امیرالمومنین سیدناحضرت علی کرم اﷲ وجہہ کی خدمت میں حاضری کے بعد محافظ دستہ کے امیرنے بیان دیا ہے،ہم نے اس شخص کومقتول کے قریب کھڑااس حالت میں دیکھا کہ اس کے ہاتھ میں چھری تھی جس سے خون ٹپک رہا تھا اورمقتول کے جسم سے خون بہہ رہاتھا۔ہم نے موقع پراس شخص کے علاوہ کسی دوسرے شخص کونہیں دیکھا۔تحقیق کی گئی تومعلوم ہومقتول ایک عام ساآدمی تھا،جس کی کسی سے کوئی دُشمنی تھی اورنہ ہی اس کا کسی سے کوئی ایسا معاملہ چل رہاتھا۔وہ شخص اپنے گھر جا رہاتھا امکان یہی ہے کہ مقتول کا اس شخص سے کسی بات پر جھگڑا ہو گیا ہو اوراس شخص نے غصہ میں آکراس کاقتل کردیاہو۔
امیرالمومنین سیدناحضرت علی کرم اﷲ وجہہ نے گرفتارکئے گئے شخص سے اس قتل کی بابت دریافت فرمایا تواس شخص نے اعتراف تو کرلیا، مگر اس حوالہ سے کسی قسم کی تفصیل بتانے کی بجائے بالکل خاموشی اختیارکرلی اورقتل کے اقرارکے علاوہ کچھ بھی نہ کہا۔اگرچہ اس کی تفصیلات جاننے کے بارے میں امیرالمومنین سیدناحضرت علی کرم اﷲ وجہہ سمیت مجلس میں موجوددیگرحضرات کی طرف سے حتی الامکان کوشش کی گئی تاکہ معاملہ کی تہہ تک پہنچا جاسکے مگراس شخص نے مسلسل خاموشی اختیارکئے رکھی۔

امیرالمومنین سیدناحضرت علی کرم اﷲ وجہہ نے ظاہری دلیلوں اورملزم کے اعتراف جرم کے بعداس شخص کاقصاص میں قتل کافیصلہ فرمایاکہ عصرتک اسے جیل میں رکھا جائے اور عصرکے بعدمجمع کے سامنے اس فیصلہ پرعملدرآمدکیا جائے گا۔محافظ اس شخص کولے کرجانے ہی لگے تو مجمع میں سے ایک شخص نے امیرالمومنین سیدناحضرت علی کرم اﷲ وجہہ کی جانب بڑھتے ہوئے بلند آوازسے کہایہ شخص بے قصورہے ،قتل اس شخص نے نہیں کیا ۔پھر امیرالمومنین سیدناحضرت علی کرم اﷲ وجہہ کے سامنے کہنے لگا ،میں ایک غریب اورمفلس آدمی ہوں،میرے پاس گزر بسر کے لئے کچھ بھی نہیں۔میں پریشانی اوربھوک سے تنگ آچکاتھا۔میں نے اس شخص کوصبح سویرے دیکھاتوشیطان نے میرے دل میں وسوسہ ڈالا اوربہکایا کہ یہ شخص جواتنی سویرے سفرپرجا رہا ہے ،ضروراس کے پاس مال ہوگا،لہٰذامیں نے سوچا کیوں نہ اس اندھیرے اورسناٹے میں اسے قتل کرکے اس سے اس کی دولت چھین لی جائے ،اس کا کسی کوعلم ہی نہیں ہوگا۔انہی خیالات اورلالچ میں آکرمیں نے اپنے خنجر سے اس ویرانے اسے قتل کردیااورابھی تلاشی کاسوچ ہی رہاتھا کہ مجھے آہٹ محسوس ہوئی تومیں وہاں سے بھاگ کرکھنڈر میں جاکرچھپ گیا۔میں کیا دیکھتا ہوں کہ محافظوں نے اس شخص کواس جگہ کے قریب سے گرفتارکرلیا ہے۔وہاں سے نکل کرمیں بھی اس مجمع میں شامل ہوگیا۔اب جب آپ نے اس بے قصورشخص سے قصاص لئے جانے کا فیصلہ فرمایاتومیں نے سوچا اس طرح تومیں دوآدمیوں کے قتل کامرتکب ہورہا ہوں۔روز ِ قیامت مجھ سے دواشخاص کے خون ناحق کا حساب لیا جائے گا۔میرے دل میں یہ سوچ کرخوف پیداہوا ہے اس لئے میں اپنے قتل کااعتراف کرتاہوں یہ گرفتارکیا گیا شخص بالکل بے قصورہے۔

امیرالمومنین سیدناحضرت علی کرم اﷲ وجہہ نے پہلے سے گرفتارکئے گئے شخص سے فرمایا کہ اس قتل کا جھوٹا اعتراف کیوں کیا ،توملزم نے جواب میں عرض کیاامیرالمومنین میں قصاب ہوں،صبح اندھیرے میں اپنے کام پرآیا،گائے ذبح کی اوراس کی کھال اُتارنے لگا۔اسی دوران مجھے قضائے حاجت کے لئے اس طرف آنا پڑااورجلدی میں اپنی چھری بھی میرے ہاتھ میں رہ گئی۔میں وہاں سے واپس مڑا تواچانک میری نظرخون میں ڈوبے ہوئے اس شخص پرپڑی ،میں قریب ہوکراسے دیکھ ہی رہاتھا کہ اسی اثناء میں محافظوں کا دستہ میرے پاس آپہنچا اوریہ سب دیکھ کرمجھے اس جائے واردات پرگرفتارکرلیا،اس وقت مجھے جلدبازی میں کی گئی غلطی کا احساس ہوا،مگر اب میں گرفتارکیا جاچکا تھا،میرے ہاتھ میں چھری تھی،جس پرخون لگا ہوا تھا،جیسے ہی آبادی کے قریب پہنچے لوگ مجھے مقتول سمجھتے ہوئے میرے قتل کے نعرے لگا نے۔مجھے اس بات کا یقین ہوگیا کہ اب ان حالات میں میری بات کا کوئی یقین نہیں کرے گا،اب میں بچ نہیں سکتا۔لہٰذامیں نے اس قتل کا اعتراف کرلیا۔

امیرالمومنین سیدناحضرت علی کرم اﷲ وجہہ نے ایک بارپھر اس شخص سے دریافت کیا،غلط بات کوتم نے کیوں تسلیم کیا،جس پراس شخص نے کہا،اے امیرالمومنین میں مجبورتھامحافظ دستہ نے مجھے اس حا ل میں گرفتارکیاکہ میں مقتول کے پاس تھا،اس کے جسم سے خون بہہ رہاتھا اور میرے ہاتھوں میں خون بھری چھری تھی،دوسری اہم بات یہ کہ میرے علاوہ کوئی دوسراشخص جائے واردات پر موجود نہیں تھا۔مجھے یقین ہوگیا کہ میری بات کاکوئی یقین نہیں کرے گا،چناچہ مجھے اس مجبوری میں اعتراف کرنا پڑا۔اس کے بعدمیں اﷲ کی بارگاہ میں حفاظت وپناہ اوراس مشکل سے نکلنے کی دعاکرنے لگا۔

عجیب صورتحال تھی دواشخاص تھے اوردونوں نے قتل کااعتراف بھی کیا،اس مجلس میں نواسہ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم حضرت حسن ابن علی ؓ بھی موجودتھے۔ امیرالمومنین سیدناحضرت علی کرم اﷲ وجہہ نے حضرت حسن ؓ سے دریافت فرمایا کہ اس حوالہ سے آپ کی رائے کیا ہے؟ حضرت حسن ؓ نے تھوڑی دیر سوچنے کے بعدعرض کیا،امیرالمومنین اس دوسرے شخص نے اگرچہ ایک آدمی کوقتل کیا ہے،مگراپنے اعتراف سے دوسرے ایک آدمی کی جان بچا لی ہے۔اﷲ رب العزت کا ارشادہے۔ ترجمہ:(جس شخص نے ایک نفس کوزندہ کیاگویا اس نے تمام انسانوں کوزندگی عطاء کی)۔ امیرالمومنین سیدناحضرت علی کرم اﷲ وجہہ نے سیدناحضرت حسن ؓ کی اس رائے کوپسندفرمایااوراس کی توثیق کرکے دونوں آدمیوں کورہا کردیااوربیت المال سے مقتول کی دیت ادا کردی۔
 

MUHAMMAD AKRAM AWAN
About the Author: MUHAMMAD AKRAM AWAN Read More Articles by MUHAMMAD AKRAM AWAN: 99 Articles with 83245 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.