وہ بات ہمارے بس کی نہ تھی جس بات کی ہمت کر بیٹھے

 قضاو قدر کے مسائل لوگوں کو جلدی جلدی سمجھ نہیں آتے چنانچہ اس حساس مسئلے کے متعلق وہ غلط فہمی کا شکار ہوکر ایک ایسے راستے پرچل پڑتے ہیں جس نا اختتام سراسر حماقت اور خسارے پر ہوتاہے ۔آج ہم آپ کو اس موضوع پر بہت سے مفید معلومات پیش کریں گے ۔لیکن آپ کاتوجہ سے سننابہت ضروری ہے ۔آپ نے اللہ عزوجل کی ایک صفت قدیر سنی یا پڑھی ہوگی۔آئیے پہلے اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔عالم میںجو کچھ برایا بھلا ہوتا ہے اور بندے جو کچھ نیکی یا بدی کے کام کرتے ہیں، وہ سب اللہ عزوجل کے علم ازلی کے مطابق ہوتا ہے، ہر بھلائی برائی اس نے اپنے علم ازلی کے موافق مقدر فرماد ی ہے یعنی جیسا ہونے والاتھا اور جو جیسا کرنے والا تھا اللہ نے اسے اپنے علم سے جانا اور وہی لکھ لیا تو وہ سب کچھ اللہ کے علم میں ہے اور اس کے پاس لکھا ہوا ۔ اسی کا نام تقدیر ہے۔

اللہ عزوجل نے بندوں کو کان، آنکھ ، ہاتھ، پاؤں ، زبان وغیرہ عطا فرمائے اور انھیں کام میںلانے کا طریقہ الہام فرمایا پھر اعلیٰ درجے کے شریف جوہر یعنی عقل سے ممتاز فرمایا جس نے تمام حیوانات پر انسان کا مرتبہ بڑھایا۔ پھر لاکھوں باتیں ہیں جن کا عقل ادراک نہ کر سکتی تھی لہٰذاانبیاء بھیج کر کتابیں اتار کر زراذرا سی بات جتا دی اور کسی کو عذر کی کوئی جگہ باقی نہ چھوڑی۔ آدمی جس طرح نہ آپ سے آپ بن سکتا تھا نہ اپنے لیے کان، ہاتھ، پاؤں، زبان وغیرہ بنا سکتا تھا یونہی اپنے لیے طاقت ،قوت، ارادہ، اختیار بھی نہیں بنا سکتا، سب کچھ اسی نے دیا اور اسی نے بنایا۔ انسان کو ایک نوع اختیار دیا کہ ایک کام چاہے کرے چاہے نہ کرے، تو اس ارادہ اختیار کے پیدا ہونے سے آدمی صاحبِ ارادہ وصاحب اختیار ہوا نہ کہ مضطر ، مجبور، ناچار، آدمی اور پتھر کی حرکت میں فرق کیا ہے، یہی کہ وہ ارادہ اختیار نہیں رکھتا اور آدمی میں اللہ تعالیٰ نے یہ صفت پید اکی تو یہ کیسی الٹی مت ہے کہ جس صفت کے پیدا ہونے نے انسان کو پتھر سے ممتاز کیا۔ اسی کی پیدائش کو اپنے پتھر ہو جانے کا سبب سمجھے اور دیگر جمادات کی طرح اپنے آپ کو بے حس و حرکت اور مجبور جانے۔یہ سراسر غلط ہے ۔

ہمارے ہاں ہوتاکیاہے کہ بات بات پر قدرت ،تقدیر ،مقدر پر ابحاث چھیڑ لی جاتی ہیں ۔وہ شخص بھی اس پر زبان چلاتاہے جسے شاید تقدیر کامعنی و مفہوم بھی معلوم نہ ہو۔آئیے ہم آپ کو ایک حدیث مبارکہ بتاتے ہیں ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم لوگ تقدیر کے مسئلہ میں بحث کر رہے تھے کہ رسول خدا صلي اللہ عليہ وسلم تشریف لے آئے تو شدت جلال سے آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا کہ گویا انار کے دانے آپ کے رخسار مبارکہ پر نچوڑ دیئے گئے ہوں۔ آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمایا:کیا تم کو اسی کا حکم دیا گیا ہے؟ کیا میں تمہاری طرف اسی چیز کے ساتھ بھیجا گیا ہوں؟ تم سے پہلی قومیں قضا و قدر کے مسئلہ میں مباحثہ کے سبب ہلاک ہوئیں ، میں تمہیں قسم دیتا ہوں اور مکرر قسم دیتا ہوں آئندہ اس مسئلے میں کبھی بحث نہ کرنا۔(ترمذی،کتاب القدر،رقم۲۱۴۰،ج۴،ص۵۱)

قضا و قدر کے مسائل عام لوگ نہیں سمجھ سکتے اس میں زیادہ غور و فکر کرنا دین و ایمان کے لیے خطرہ ہونے کے مترادف ہے ۔ حضرتِ سیدنا ابو بکر صدیق و عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما جیسے جلیل القدر صحابہ بھی اس مسئلہ میں بحث کرنے سے منع فرمائے گئے تو پھر ہم لوگ کس گنتی میں ہیں۔ اتنا سمجھ لینا چاہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدمی کو پتھر اور دیگر جمادات کے مثل بے حس و حرکت پیدا نہیں کیا بلکہ اس کو ایک قسم کا اختیار دیا ہے کہ ایک کام چاہے کرے نہ کرے اور اس کے ساتھ عقل بھی دی ہے کہ بھلے برے نفع و نقصان کو پہچان سکےر ہر قسم کے سامان اور اسباب مہیا کر دیئے کہ جب آدمی کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو اسی قسم کے سامان مہیا ہو جاتے ہیں اور اسی وجہ سے اس پر مواخذہ ہے اپنے کو بالکل مجبور یا بالکل مختار سمجھنا دونوں گمراہی ہیں۔ (بہار شریعت،حصہ ۱،ص۲۶ملخصاً)

اللہ عزوجل کے ہر فعل میں کثیر حکمتیں ہیں، خواہ ہم کو معلوم ہوں یا نہ ہوں اور اُس کے فعل کے لیے غرض نہیں، کہ غرض اُس فائدہ کو کہتے ہیں جو فاعل کی طرف رجوع کرے، نہ اُس کے فعل کے لیے غایت، کہ غایت کا حاصل بھی وہی غرض ہے اور نہ اُس کے افعال علّت و سبب کے محتاج، اُس نے اپنی حکمتِ بالغہ کے مطابق عالَمِ اسباب میں مسبّبات کو اسباب سے ربط فرمادیا ہے( في ''المسامرۃ''، للہ تعالٰی في کل فعل حکمۃ، ص۲۱۵۔۲۱۶: )

سبحان اللہ !امام اہلسنّت اعلی حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تقدیر کی باریک اور گہری توجہ طلب بات کو کس انداز میں سمجھایاہے ۔ایک عام عقل بھی اسے قبول کرلے ۔۔آپ فرماتے ہیں :’’ آنکھ دیکھتی ہے، کان سنتا ہے، آ گ جلاتی ہے، پانی پیاس بجھاتا ہے، وہ چاہے تو آنکھ سُنے، کان دیکھے، پانی جلائے، آگ پیاس بجھائے، نہ چاہے تو لاکھ آنکھیں ہوں دن کو پہاڑ نہ سُوجھے، کروڑآگیں ہوں ایک تنکے پر داغ نہ آئے۔ (الفتاوی الرضویۃ، ج ۱، ص۴۹۰۔ (رضا اکیڈمی بمبئی)۔)

ایک وہم اور ایک خیال جوکبھی کسی نجی محفل میں کچھ آزاد منش لوگوں کی زبان سے سناہوگا۔۔

آدمی جب مختار ہے تو اعمال کی بازپرس کس بنا پر ہوگی؟یہ پوچھ گوش کیوں؟

یہ ارادہ و اختیار جس کا انسان میں پایا جانا روشن اور بدیہی امر ہے قطعاً یقینا اللہ عزوجل ہی کا پیدا کیا ہوا ہے، اس نے ہم میں اررادہ واختیار پیدا کیا اس سے ہم اس کی عطا کے لائق مختار و صاحب اختیار ہوئے۔ یہ ارادہ و اختیار ہماری اپنی ذات سے نہیں تو ہم ’’مختارکردہ‘‘ ہوئے ’’خود مختار‘‘ نہ ہوئے کہ شتر بے مہار بنے پھریں اور بندہ کی یہ شان بھی نہیں کہ خود مختار ہو سکے۔ بس یہی ارادہ اور یہی اختیار جو ہر شخص اپنے نفس میںدیکھ رہا ہے، عقل کے ساتھ اس کا پایا جانا یہی دنیا میں شریعت کے احکام کا مدار ہے اور اسی نباء پر آخرت میں جز و سزا او ر ثواب و عذاب اور اعمال کی پرسش و حساب ہے۔ جزا اوسزا کے لیے جتنا اختیار چاہے و ہ بندے کو حاصل ہے۔

اؒلغرض اللہ تعالیٰ نے آدمی کو مثل پتھر او ر دیگر جمادات کے بے حس و حرکت پیدا نہیں کیا بلکہ اس کو ایک نوع اختیار دیا ہے اور اس کے ساتھ عقل بھی دی ہے کہ بھلے برے اور نفع و نقصان کو پہچان سکے اور ہر قسم کے سامان اور اسباب مہیا فرما دئیے ہیں کہ جب کوئی کام کرنا چاہتا ہے اسی قسم کے سامان مہیا ہو جاتے ہیں اور اسی بناء پر اس سے مواخذ ہ ہے اپنے آپ کو بالکل مجبور یا بالکل مختار سمجھنا ، دونوں گمراہی ہیں۔قضاوقدر ایسا حساس موضوع ہے نا کہ اس پر بات کرتے ہوئے دل کانپتاہے ۔ڈر لگتاہے کہیں کوئی حد پارنہ ہوجائے ۔لیکن چونکہ ہماراعزم ہے کہ مجھے اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے چنانچہ اسی نیت اور ارادے کے پیش نظر آپ تک یہ معلومات پہنچانابھی وقت کی اہم ضرورت ہے ۔

تقدیری امور یعنی قضاء وقدر کے مسائل عام عقلوں میں نہیں آسکتے۔ ان میں زیادہ تر غور و فکر کرنا یا انھیں کسی مجلس میں زریعہ بحث بنا لینا ہلاکت و نامرادی کا سبب ہے۔ تقدیر ایک گہرے سمندر کی مانند ہے۔ جس کی تہہ تک کسی کی رسائی نہیں ۔ یہ ایک تاریک راستہ ہے جس سے گزرنے کی کوئی راہ نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ایک راز ہے جس پر انسان کی عقل کو دسترس نہیں۔

تقدیر کے انکار کرنے والوں کو نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس اُمت کا مجوس بتایا۔ ن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: ((القدریۃ مجوس ہذہ الأمۃ)) وقال:(لکل أمۃ مجوس ومجوس ہذہ الأمۃ الذین یقولون لا قدرَ)).
(سنن أبي داود''، کتاب السنۃ، باب الدلیل علی زیادۃ الإیمان ونقصانہ، الحدیث:۴۶۹۱، ۴۶۹۲، ص۱۵۶۷. )

اپنی علمیت اور قابلیت کے جوہر دکھانے کے لیے لوگ تقدیر جیسے حُساس ترین موضوع پر بھی بحث کرنے سے گریز نہیں کرتے ۔بلکہ ایسی ایسی باتیں کرگزرتے ہیں جو قابل مذمت ہی نہیں قابل گرفت بھی ہوتی ہیں ۔وقتی طور پر اس طرح کی ابحاث میں شیطان لذات کا شیرہ پھینکتاہے۔بندے کو مزاآرہاہوتاہے ۔

لیکن میرے پیارے بھائیو!!!یہ عارضی مزایہ عارضی بلے بلے کس کام کی ۔آخر حاضر تو اسی رب کی بارگاہ میں ہوناہے ۔جس کے بھیجے ہوئے نبی ﷺ ہمیں تقدیر میں ابحاث سے منع فرماتے ہیں ۔آپ طالب علم ہیں یا پھر کسی اور پیشہ سے وابستہ ہیں ۔۔ایک بات ذہن نشین کرلیں ۔بغیر علم اور درست معلومات کے کسی بحث میں محض اپنی انا کی وجہ سے یاشہرت کے حصول اور اپنی ناک رکھنے کی وجہ سے الجھ جانا سراسر خسارے اور نقصان کا سوداہے ۔قضاو قدر کے متعلق جاننے کے لیے آپ بہارشریت اور فتاوٰی رضویہ کا مطالعہ کرتے رہیں ۔

میرامشورہ ہے کہ قضا و قدر کے معاملے میں بحث نہ کریں۔میرا رب ہمارے مقدر میں اپنے رضاکے کام کرنے توفیق فرمادے۔
.
 

DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 380 Articles with 544607 views i am scholar.serve the humainbeing... View More