پاکستانی ٹیم کی سیمی فائنل میں ہارنے کی وجوہات

قومی ٹیم المعروف گرین شرٹس بڑی محنت وکوشش اور تگ دو کے بعد سیمی فائنل میں پہنچی اور سیمی فائنل سے فائنل تک کا سفر ادھورا رہا آگے بڑھنے کی بجائے واپس لوٹنا پڑا ۔قومی ٹیم بڑے عرصہ کے بعد شاندار انداز میں اپنی صلاحیتیں منواتی ہوئی نظر آرہی تھی مگر منزل کے قریب آکر گوہر مقصود سے دور ہوگئی ۔

قومی ٹیم کی محبت میں کیا بوڑھے ،جوان ،بچے اور عورتیں سبھی دعا گو اور ا ن کی کامیابی کے لیے صدقات اور وظائف کا سہار ا لیتے ہوئے نظر آئے ۔اور بالخصوص انڈیا کے ساتھ میچ میں تو بوڑھے بھی اپنی رگوں میں خون کی حدت کو محسوس کرتے ہیں ۔اور جوانوں کا حال کیا ہوگا ؟وہ تو بیان نہیں کیا جاسکتا ۔مگراس کے باوجود بہت بڑا کڑوا سچ یہی ہے کہ پاکستا ن سابقہ روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ورلڈکپ کے میچز میں ایک بار پھر انڈیا کے ہاتھوں شکست سے دوچا ر ہوا ۔

ماہر ین کہتے ہیں کہ کامیابیوں سے ہمکنار ہونے کے لیے ناکامیوں سے دوچا ر ہونا پڑتا ہے ۔فاتح بننے کے لیے شکستہ ہونا پڑتا ہے مگر یہ اصول ان لوگوں کے لیے کارآمد ہوتا ہے جو ایک شکست اور ناکامی کے بعد اگلے مقابلہ کے لیے خود کو اس طرح تیار کرتے ہیں کہ سابقہ غلطیاں نہ دہرائی جاسکیں ۔مگر ہماری قومی ٹیم نے ابتدائی میچز کی غلطیوں سے کچھ نہ سیکھا ،بالخصوص نیوزی لینڈ سے شکست کے بعد مس فیلڈ کی توقع نہیں تھی جس کا نتیجہ سیمی فائنل میں ناکامی کی صورت میں نظر آیا ۔چلیں اللہ خیر کرے انشاء اللہ آئندہ ورلڈکپ پاکستان کا ہوگا ۔

قومی ٹیم کی تعمیر وتشکیل میں سلیکشن بورڈ کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے مگر یہ سمجھ نہیں آرہا کہ قومی ٹیم چند اہم کھلاڑیوں کو جن میں محمد یوسف ،شعیب ملک ،عمران نذیر شامل ہیں کن بنیادوں پر ڈراپ کیا گیا اور ان کے متباد ل جو لوگ تھے وہ کیا جوہر دکھا چکے تھے ؟اس کا صحیح جواب تو کرکٹ بورڈ ہی دے سکتا ہے ۔

کامران اکمل کی مسلسل ناقص کیپنگ کو کیوں نظرانداز کیا جاتا رہا ؟یونس خان سلپ میں ہوں یا دیگر مقامات پر کیچ چھوڑ کر ہنسنا کیوں شروع ہوجاتے ہیں ؟عمر اکمل ،محمد حفیظ ،مصباح یہ لوگ ایک لمبی اننگز جو سینچری تک پہنچا دے کیوں نہ کھیل سکے ؟شعیب اختر کو باوجود ریٹائرمنٹ کے اعلان کے کیوں نہ موقع دیا گیا ؟عمر گل کی سیمی فائنل میں پرانے ردھم اور اسٹائل سے کیوں مختلف تھے ؟یہ چند سوالات ہیں جس کا جواب آنے والے دنوں میں سامنے آسکے گا ۔

قومی ٹیم کو سب سے بڑی غلط فہمی یہ ہوئی کہ اس نے ابتدائی میچز جیت کر خود کو آسٹریلیا سے زیادہ مضبوط اور ناقابل تسخیر سمجھ لیا ۔اور قبل ازوقت بعض کھلاڑیوں نے تو ایسے بیان دینا شرو ع کردیے جیسے وہ اپنے سے اپنی تقدیر لکھ کر آئے ہیں یا وہ مستقبل کو دیکھ چکے ہیں ۔اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جیتے ہوئے میچز کو سوچ سوچ کر دل خوش کیا جاتا رہا مگر اگلے میچز کی پلاننگ کچھ بہتر انداز میں نہ ہوسکی ۔ناکام بیٹنگ ،مسلسل مس فیلڈ اور ناقص کیپنگ کے باوجود ،شکستہ دل باؤلرز نے آخری آپشن کو استعمال کرتے ہوئے کلین بولڈ اور ایل بی ڈبلیو کی صورت میں اس ہچکولے کھاتی ہوئی گاڑی کی اسپیڈ برقرار رکھی ۔

مگر یہ بات واضح ہے کہ کرکٹ میں جب تک بیٹنگ وباؤلنگ اور فیلڈنگ میں ہم آہنگی نہیں ہوتی تب تک کامیابی کو حتمی قرار نہیں دیا جاسکتا بسااوقات ایک کیچ یا اسٹمپ میچ کی تقدیر بدل دیتا ہے چہ جائیکہ کیچ پہ کیچ چھوڑا جائے ۔

سیمی فائنل میں گرین شرٹس کی کاکردگی انتہائی افسوسناک رہی ۔عمر گل صاحب نے قبل ازوقت ٹنڈولکر اور سہواگ کو بری طرح آؤٹ کرنے کے بیان داغ دیے تھے لیکن جب سہواگ نے ان کو ایک اوور میں پانچ چوکے لگائے تو ان کی ہمت تھی وہ کس طرح اپنے پاؤں پر کھڑے رہے ۔پھر اسی پر اکتفاء نہیں پورے میچ میں ان کی کارکردگی انتہائی ناقص رہی ،مس فیلڈ ان سے ہوئی ،باؤلنگ میں توقعات سے بڑھ کر اسکور دیا ۔فیلڈنگ لیگ پر تھی اور وہ بال آف پر کر رہے تھے ،ا ٓف پر فیلڈنگ سیٹ کی گئی تو لیگ کی جانب باؤلنگ شروع ہوگئی ۔

فل ٹاس پر فل ٹاس بال ،الحفظ والامان ،عمر گل صاحب کیا نظر آرہا تھا ؟اور وہ ایسا کیوں کر رہے تھے ؟انڈین اٹیک ظہیر خان کو ابتدائی اووز میں رن پڑے تو ان کو روک لیا گیا اور پھر جب دوبار ہ وہ باؤلنگ پر آئے تو وہ سنبھل چکے تھے مگر عمر گل کو آفرید ی نے آخر تک آزمایا مگر وہ اپنی صحیح لائن پر نہ آسکے ۔وہاب ریاض نے بہت عمدہ انداز میں بڑی لائن لینتھ کے ساتھ باؤلنگ کی اور ا ن کے منجھے ہوئے کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا ۔مگر عمر گل ان کا ساتھ نہ دے سکے ۔

اور پاکستانی ٹیم کے اوپنرز نے بڑے اچھے انداز میں اننگز کا آغاز کیا مگر وہ ایک لمبی پارٹنز شپ نہ دے سکے ۔تاہم ایک امید کی فضا قائم ہورہی تھی کہ محمد حفیظ نے غیر ذمہ دار شاٹ کھیل کر ٹیم کو ہار کی جانب پہلا مو ڑ دیا اور اس کے بعد ہر آنے والا کھلاڑی اسی روش پر چلتا ہوا نظر آیا ،اگر کامران اکمل اور محمد حفیظ ویونس خان کی غیر محتاط بیٹنگ نے ہار سے ہمکنار کرنے میں اہم کردار ادا کیا تو مصباح الحق کا حد سے زیادہ محتاط رویہ بھی اس کی وجہ ہے ۔

کرکٹ بورڈ کو نئے سرے سے غوروخوض کرنا چاہیے فیلڈنگ اور بیٹنگ کو کیسے بہتر بنا یا جاسکتا ہے ۔اور اوپننگ کے لیے دائیں ہاتھ والے بیٹسمین تو بہت سارے ہیں کچھ بائیں ہاتھ والے بیٹسمین بھی تیار کرنے چاہئیں ۔اور اسی طرح کسی ایک فاسٹ باؤلر پر پوری توجہ دینے کی بجائے تین چار باؤلر اسی ردھم اور ورائٹی کے ساتھ باؤلنگ کرنے والے موجود ہوں ۔جیسا کہ وسیم اکرم ،وقار یونس ،شعیب اختر جیسے باؤلر بھی ایک وقت میں اکھٹے باؤلنگ کرتے رہے ہیں ۔

بہرکیف ہار جیت کھیل کا حصہ ہے جس میں ایک کا جیتنا لازمی ہےاور موجود ہ حالات میں پاکستانی ٹیم کا سیمی فائنل تک پہنچ جانا بھی بہت بڑی بات تھی یقیناً اس پر شاہد آفریدی اور پوری ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے مگر دکھ اس وقت ہوتا ہے جب ہم خود دوسروں کے ہاتھ میں فتح اور اپنے ہاتھ میں شکست لے لیتے ہیں۔
ghazi abdul rehman qasmi
About the Author: ghazi abdul rehman qasmi Read More Articles by ghazi abdul rehman qasmi: 31 Articles with 258686 views نام:غازی عبدالرحمن قاسمی
تعلیمی قابلیت:فاضل درس نظامی ،الشہادۃ العالمیہ،ایم اے اسلامیات گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان،
ایم فل اسلامیات بہاء الدی
.. View More