ایک چھپا ہوا خزانہ

حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی اپنی کتاب ”البدائع“ میں رقم طراز ہیں” حدیث میں ہے کہ اللہ جمیل ہے اور جمال مقتضی ہوتا ہے ظہور کو یعنی ظہور اسکے مناسب ہے۔ اللہ حکیم ہیں اس امر کی رعایت سے با اختیار مخلوق کو پیدا فرمایا جس سے اپنے افعال کا اور انکے واسطے سے اپنی صفات کا اور انکے واسطے سے اپنی ذات کا ظہور فرمایا پھر مخلوقات میں سب سے زیادہ اختصاص انسان کو دیا حتیٰ کہ خاص بندوں کو اپنی صفات کا فیض عام پہنچایا۔

تشریح میں لکھا ہے کہ اللہ خوبصورت ہیں اور خوبصورتی کا تقاضا ظاہر ہونا ہے اور ہر طرح کی خوبصورتی اور کامل خوبصورتی کے لازموں میں سے وسعت بھی ہے کیونکہ غیر محدود کا جمال بھی غیر محدود و نہائت کامل ہے (البدائع صفحہ نمبر:۰۴۱)

فائدہ میں لکھا ہے کہ حدیث کنت کنزا مخفیا فاحببت ان اعرف فخلقت الخلق(میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا پس میں نے ارادہ کیا کہ پہچانا جاﺅں تو میں نے مخلوق کو پیدا کر دیا ( کہ ان میں تمام اوصاف کی تجلیات کا ظہور ہو ہو کر معرفت و پہچان ہو سکے گی)۔

مولانا روم اسکی تشریح میں لکھتے ہیں:۔ گر بغرد غرہ اش کف شود۔۔جوش احببت ان اعرف شود
ترجمہ:۔ اگر سمندر جوش و خروش کرتا ہے تو اس کا خروش جھاگ بن جاتا ہے(اور)وہ جھاگ بظاہر اپنے آپ کو شناسا کرانے کے شوق کا جوش بن جاتے ہیں۔

مطلب:۔ جب دریا یا سمندر جوش زن ہوتا ہے تو حقیقت بحر کو معلوم کرنے کا شائق سمجھتا ہے کہ یہ بحر کا اپنے آپکو شناسا کرانے کا شوق ہے بس اب اسی جوش وخروش کے ذریعہ اسکی حقیقت معلوم ہو جائے گی۔ مگر اس جوس وخروش کا نتیجہ کیا ہوتا ہے جھاگ کے تہہ بتہہ حجابات جن سے بحر کی باطنی حقیقت تو درکنار رہا پانی کی بیرونی سطح بھی مخفی ہو جاتی ہے اسی طرح جوش بیان اور ولولہ اظہار الٹا حجاب بن جاتا ہے۔
(مثنوی مولانا رومؒ جلد۵ ص۴۸۱)

باالفاظ دیگر اس ذات قدسی کو یہ خیال آیا کہ میں جو جلال و جمال، لطف و عطااور جود وکرم کا ایک لا محدود ولامتناہی خزانہ ہوں تو کوئی اسے دیکھنے والا بھی تو کوئی ہو،کوئی ایسی آنکھ بھی تو ہوجو ذوق نظارہ لئے مشاہدہ جمال میں ایسی کھو جائے کہ اسے اپنی خبر بھی نہ ہو ،اور کوئی ایسا بھی تو ہو جو میری بے پایاں رحمت کا طلبگار ہو اور جب بھیگی آنکھیں لئے میرے در پر آئے تو میری رحمت بھی جوش میں آئے اور میری صفت بخشش وغفران کا اظہار ہو، اور پھر کوئی حرماں نصیب اگرتمرد و عصیاں کی اتھاہ گہرایوں میں اترتا ہی چلا جائے تو پھر میری صفت جلالیت و قہاری کا اظہار ہو، غرض کوئی ایسی مخلوق پیدا کی جائے تو بات بنتی ہے یہ سوچ کر حضرت انسان کو عدم سے وجود میں لایا گیا اور اسکے دل میں اپنی محبت کو جاگزیں کیا تاکہ اسے پتہ چلے کہ میرا خالق و مالک اور محبوب حقیقی وہی ذات اقدس ہے اور اسے پانا ہی اصل زندگی ہے۔
Muhammad Rafique Etesame
About the Author: Muhammad Rafique Etesame Read More Articles by Muhammad Rafique Etesame: 184 Articles with 287748 views
بندہ دینی اور اصلاحی موضوعات پر لکھتا ہے مقصد یہ ہے کہ امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کے فریضہ کی ادایئگی کیلئے ایسے اسلامی مضامین کو عام کیا جائے جو
.. View More