لوگوں میں رائٹر بن گئی

زندگی میں کچھ گزرنے اور لوگوں میں مشہور ہونے کے شوق, میں خود سے کیے گئے وعدوں کو توڑنے, رشتے داروں اور دوستوں کا ناطقہ بند کرنے., صبح شام نت نئے اعلانات کر کے واپس لینے, ایک دن ایک اور دوسرے دن دوسرے پروفیشن میں جانے اور زندگی کی تقریباً 50 بہاریں دیکھنے کے بعد بالآخر جب ہم نے رائیٹر بننے کا ارادہ کر ہی لیا تو اس سے پہلے کہ لوگوں میں اس کا اعلان کر کے مزید مذاق کا نشانہ بنتے, زندگی میں پہلی بار کچھ کرنے سے پہلے سوچنے کا ارادہ کیا. باوجود اس کے اندر سے آئی ہوئی آوازوں کو قابو کرنے میں ہم ہلکان ہو گئے , لیکن ماننا پڑے گا کہ سوچ سمجھ کے کام کرنے والوں کی کامیابی کو ان کو صرف ان کی اچھی قسمت سمجھنے کی جو غلطی ہم ساری زندگی کرتے رہے, آج اس نے ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا. تو بات ہو رہی تھی کرنے سے پہلے کچھ سوچنے کی تو کچھ چیزیں بولنے میں تو آسان ہوتی ہیں لیکن جب بات ان پر عمل کرنے کی ہو تو بندے کے چھکے چھڑا دیتی.

ایسا ہی کچھ ہمارے ساتھ ہوا جب ہم رائٹر بننے کے اپنے فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے پہلا قدم اٹھانے کو اٹھے تو ہمارے چاروں طبق روشن ہوگئے کہ ہماری اس فول فول کو بھلا کوئی چھاپے گا کیوں اور اگر حادثاتی طور پر کسی نے اتنا بڑا رسک لے ہی لیا تو لوگوں کو اسے پڑھنے اور برداشت کرنے پر راضی کون کریگا. اس تکلیف دہ حقیقت کا ادراک ہم پہ پوری طرح ہو بھی نہ پایا تھا کہ ایک اور سوال غضب بن کے ہم پر ٹوٹ پڑا کہ اگر لوگ ہمیں عزت دینے پر تیار ہو بھی گئے تو آخر ہم لکھیں گے کس پر؟ عالمی سیاست پر قلم اٹھانے کا سوچا تو یہ سوچ کے آبدیدہ ہوگئے کہ آج بھی ترقی یافتہ قوموں نے پچھلی قوموں کے حشر سے کچھ نہ سیکھا اور اتنی زیادہ معاشی اور سائنسی ترقی کر لینے کے باوجود یہ طاقتیں یہ نا سمجھ سکے کے طاقت کا توازن ہمیشہ کسی ایک پلڑے میں نہیں رہتا ہاں اگر اس طاقت کو کوئی چیز دوا بخش سکتی ہیں تو وہ کسی کے وسائل اور زمین پر قبضہ کر کے نہیں بلکہ ان کے دلوں کو جیتنے سے حاصل ہو سکتی ہے . جب بڑی ملکی سیاست کی آئی تو سمجھ میں آیا کے لفظ سیاست کے معنی سے آج کی نسل بے بہرہ کیوں ہیں. سیاست جس جذبہ, خدمت, متابت, زبردست قوت فیصلہ اور قوموں کی قسمت بدل دینے کی خواہش کا نام ہے, آج ہمارے نوجوان اس بات کو سمجھنے سے کاصر ہیں کے ہمارے سیاستدان اپنی انسپائریشن گھریلو سیاست سے حاصل کر رہے ہوں یا گھریلو خواتین ان قومی سیاست دانوں سے بہرحال جب طبیعت کی مایوسی اور بے زاری بنے لگی تو سوچا کہ کیوں نہ معاشیات کو اپنا ٹاپک بنایا جائے, ابھی یہ سوچتے ہوئے چند سیکنڈ ہی گزرے تھے کہ انٹر اور بی اے میں اکنامکس میں حاصل کیے گئے اپنے مارکس یاد آ گئے . اخلاقیات اور کچھ لکھنے کا سوچا تو ضمیر اور گریبان سے اٹھتی چیخوں نے پریشان کر دیا. لکھتے تو آخر کس ٹاپک پر لکھتے .جب یہ سوچتے تھک گئے تو سو چا کے ہمارے پاس دوسروں کا ظرف آزمانے کے علاوہ کو اور آپشن بھی تو نہیں ؟ ایک طرف بالآخر کچھ بن جانے کا شوق اور دوسری کسی لائق نہ ہونے کا یقین . آخر کار ہم میدان میں کود ہی گئے اور آج آپ کے سامنے ہیں, اس دعا کے ساتھ کہ کوئی معجزہ ہو جائے اور ہم بالآخر رائٹر بن جائیں. آپ کی مسکراہٹ تو یہی بتا رہی ہے کے اب آپ کا اور ہمارا ساتھ زندگی بھر رہنے والا ہے انشاء اللہ.

Shazia Rehman
About the Author: Shazia Rehman Read More Articles by Shazia Rehman: 4 Articles with 6162 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.