جب زندگی شروع ہوئی۔۔۔۔۔ حصہ ۲۵

احتساب اور فیصلوں کے عمل میں بعض عجیب و غریب اور ناقابل تصور باتیں سامنے آ رہی تھیں ۔ دنیا میں ہونے والی سازشوں ، معروف لوگوں کے قتل، گھریلو، دفتری، ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ہونے والے واقعات کے پیچھے کارفرما عوامل، ان میں ملوث افراد، خفیہ ملاقاتوں کی روداد، بند کمروں کی سرگوشیاں ، غرض ہر چیز آج کے دن کھل رہی تھی۔ عزت دار ذلیل بن رہے تھے ، شرفا بدکار نکل رہے تھے ، معصوم گناہ گار ثابت ہورہے تھے ۔ لوگ زندگی بھر جس پروردگار کو بھول کر جیتے رہے ، وہ ان کے ہر ہر لمحے کا گواہ تھا۔ کوئی لفظ نہ تھا جو ریکارڈ نہ ہوا ہو اور کوئی نیت اور خیال ایسا نہ تھا جو اس کے علم میں نہ آیا ہو۔ رائی کے دانے کے برابر بھی کوئی عمل نہ تھا جو کیا گیا اور اس کا اندراج ایک کتاب میں نہ کر لیا گیا ہو۔ اور آج کے دن یہ سب کچھ سب لوگوں کے سامنے اس طرح کھول دیا گیا تھا کہ ہر انسان گویا بالکل برہنہ کھڑ ا ہوا تھا۔

میں یہ سب کچھ سوچ رہا تھا اور دل میں لرز رہا تھا کہ اگر میری غلطیاں اور کوتاہیاں بھی آج سامنے آ گئیں تو کیا ہو گا؟ کوئی اور سزا نہ ملے ، انسان کو صرف بے پردہ ہی کر دیا جائے ، یہی آج کے دن کی سب سے بڑ ی سزا بن جائے گی۔ صالح نے غالباً میرے خیالات کو پڑھ لیا تھا۔ وہ میری پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے بولا:

’’پروردگار عالم کی کریم ہستی آج اپنے نیک بندوں کو رسوا نہیں کرے گی۔ اس کی کرم نوازی اپنے صالح بندوں کی اس طرح پردہ پوشی کرے گی کہ ان کی کوئی خطا اور گناہ، کوئی لغزش اور بھول لوگوں کے سامنے نہیں آئے گی۔ تم بے فکر رہو۔ خدا سے زیادہ اعلیٰ ظرف ہستی تم کسی اور کی نہ دیکھو گے ۔‘‘

’’بے شک۔ مگر اس وقت تو میں خدا کی گرفت دیکھ رہا ہوں ۔ اس طرح کہ جہنم کی سزا سنانے سے قبل بدکاروں کے چہرے سے شرافت اور معصومیت کا نقاب نوچ کر پھینکا جاتا ہے اور پھر ان کو عذاب کی نذر کیا جاتا ہے ۔‘‘، میں نے اندیشہ ناک لہجے میں جواب دیا۔

صالح نے مجھے اطمینان دلاتے ہوئے کہا:

’’یہ صرف مجرموں کے ساتھ ہورہا ہے ۔ جسمانی عذاب سے قبل انہیں رسوائی کا ذہنی عذاب دیا جاتا ہے ۔ صالحین کے ساتھ یہ ہرگز نہیں ہو گا۔‘‘

ہم یہ گفتگو کر رہے تھے کہ ایک اور شخص کو بارگاہ الوہیت میں پیش کیا گیا۔ اس نے پیش ہوتے ہی بارگاہ ایزدی میں عرض کیا:

’’پروردگار! میں بہت غریب گھرانے میں پیدا ہوا تھا۔ بچپن بہت غربت میں گزرا۔ جوانی میں مجھ سے کچھ غلطیاں ہوگئیں تھیں ، لیکن تو مجھے معاف کر دے ۔‘‘

فرشتے سے مخاطب ہوکر پوچھا گیا:

’’کیا واقعی اسے میں نے غربت سے آزمایا تھا؟‘‘

فرشتے نے ادب سے عرض کیا:

’’مالک! یہ ٹھیک کہتا ہے ، لیکن یہ جنھیں غلطیاں کہہ رہا ہے وہ اس کے بدترین جرائم ہیں ۔ یہ ایک رہزن بن گیا تھا۔ چند روپوں ، نقدی اور موبائل جیسی معمولی چیزیں چھیننے کے لیے اس نے کئی لوگوں کو مار ڈالا اور کئی لوگوں کو زخمی کیا تھا۔‘‘

’’اچھا‘‘، مالک ذوالجلال نے فرمایا۔

اس اچھا میں جو غضب تھا، اس میں اس شخص کا انجام صاف نظر آ گیا تھا۔ پھر قہر الٰہی بھڑ ک اٹھا:

’’اے ملعون شخص! میں نے تجھے غریب تو پیدا کیا تھا لیکن بہترین جسمانی صحت اور صلاحیت سے یہ موقع دیا تھا کہ تو زندگی میں ترقی کی کوشش کرتا۔ تو یہ کرتا تو میں تجھے مال سے نواز دیتا۔ کیونکہ تجھے اتنا ہی رزق ملنا تھا جو تیرے لیے مقدر تھا۔ مگر تو نے اس رزق کو خون بہا کر اور ظلم کر کے حاصل کیا۔ آج تیرا بدلہ یہ ہے کہ ہر وہ شخص جس کو تونے قتل کیا اور جس پر ظلم کیا، اس کے گنا ہوں کا بوجھ بھی تجھے اٹھانا ہو گا۔ تیرے لیے ابدی جہنم کا فیصلہ ہے ۔ تجھ پر لعنت ہے ۔ تیرے لیے ختم نہ ہونے والا دردناک عذاب ہے ۔‘‘

یہ الفاظ ختم ہوئے ہی تھے کہ فرشتے تیر کی طرح اس کی طرف لپکے اور اسے انتہائی بے دردی سے مارتے پیٹتے اور گھسیٹتے ہوئے جہنم کی سمت لے گئے ۔

اگلی شخصیت جسے حساب کے لیے پیش کیا گیا اسے دیکھ کر میری اپنی حالت خراب ہوگئی۔ یہ کوئی اور نہیں میری بیٹی لیلیٰ کی سہیلی عاصمہ تھی۔ اس کی حالت پہلے سے بھی زیادہ ابتر تھی۔ اسے بارگاہ احدیت میں پیش کیا گیا۔

پہلا سوال ہوا:

’’پانچ وقت نماز پڑ ھی یا نہیں ؟‘‘

اس کے جواب میں وہ بالکل خاموش کھڑ ی رہی۔ دوبارہ کہا گیا:

’’کیا تم مفلوج تھی؟ کیا تم خدا کو نہیں مانتی تھی؟ کیا تم خود کو معبود سمجھتی تھی؟ کیا تمھارے پاس ہمارے لیے وقت نہیں تھا؟ یا ہمارے سوا کوئی اور تھا جس نے تمھیں دنیا بھر کی نعمتیں دی تھیں ؟‘‘

عاصمہ کو اپنی صفائی میں پیش کرنے کے لیے الفاظ نہیں مل رہے تھے ۔

اس کی جگہ فرشتے نے کہا:

’’پروردگار! یہ کہتی تھی کہ خدا کو ہماری نماز کی ضرورت نہیں ہے ۔‘‘

’’خوب! اس نے ٹھیک کہا تھا۔ مگر اب اس کو یہ معلوم ہو گیا ہو گا کہ نماز کی ضرورت ہمیں نہیں خود اس کو تھی۔ نماز جنت کی کنجی ہے ۔ اس کے بغیر کوئی جنت میں کیسے داخل ہو سکتا ہے ۔‘‘

اس کے بعد عاصمہ سے اگلے سوالات شروع ہوئے ۔ زندگی کن کاموں میں گزاری؟ جوانی کیسے گزاری؟ مال کہاں سے کمایا کیسے خرچ کیا؟ علم کتنا حاصل کیا اس پر کتنا عمل کیا؟ زکوۃ، انسانوں کی مدد، روزہ، حج۔ یہ اور ان جیسے دیگر سوالات ایک کے بعد ایک کیے جاتے رہے ۔ مگر ہر سوال اس کی ذلت اور رسوائی میں اضافہ کرتا گیا۔

آخرکار عاصمہ چیخیں مار کر رونے لگی۔ وہ کہنے لگی:

’’پروردگار! میں آج کے دن سے غافل رہی۔ ساری زندگی جانوروں کی طرح گزاری۔ عمر بھر دولت، فیشن، دوستیوں ، رشتوں اور مزوں میں مشغول رہی۔ تیری عظمت اور اس دن کی ملاقات کو بھولی رہی۔ میرے رب مجھے معاف کر دے ۔ بس ایک دفعہ مجھے دوبارہ دنیا میں بھیج دے ۔ پھر دیکھ میں ساری زندگی تیری بندگی کروں گی۔ کبھی نافرمانی نہیں کروں گی۔ بس مجھے ایک موقع اور دے دے ۔‘‘، یہ کہہ کر وہ زمین پر گر کر تڑ پنے لگی۔

’’میں تمھیں دوبارہ دنیا میں بھیج دوں تب بھی تم وہی کرو گی۔ اگر تمھیں ایک موقع اور دے دوں تب بھی تمھارے رویے میں تبدیلی نہیں آئے گی۔ میں نے اپنا پیغام تم تک پہنچا دیا تھا۔ مگر تمھاری آنکھوں پر پٹی بندھی رہی۔ تم اندھی بنی رہی۔ اس لیے آج تم جہنم کے تاریک گھڑ ے میں پھینکی جاؤگی۔ تمہارے لیے نہ کوئی معافی ہے اور نہ دوسرا موقع۔‘‘، پھر اس کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوا جو اس سے پہلے لوگوں کے ساتھ ہو چکا تھا۔

عاصمہ کا انجام دیکھ کر میری حالت دگرگوں ہوگئی۔ میرے لاشعور میں یہ خوف پوری طرح موجزن تھا کہ اگر اسی طرح میرے بیٹے جمشید کے ساتھ ہوا تو یہ منظر میں دیکھ نہ سکوں گا۔ میں نے صالح سے کہا:

’’میں اب یہاں ٹھہرنے کی ہمت نہیں پاتا۔ مجھے یہاں سے لے چلو۔‘‘

صالح میری کیفیت کو سمجھ رہا تھا۔ وہ بغیر کوئی سوال کیے میرا ہاتھ پکڑ ے ایک سمت روانہ ہو گیا۔ راستے میں جگہ جگہ انتہائی عبرتناک مناظر تھے ۔ ان گنت صدیوں تک میدان حشر کے سخت ترین ماحول کی اذیتیں اٹھا کر لوگ آخری درجے میں بدحال ہو چکے تھے ۔ دولتمند، طاقتور، بارسوخ، ذہین، حسین، صاحب اقتدار اور ہر طرح کی صلاحیت کے حاملین اس میدان میں زبوں حال پھر رہے تھے ۔ ان کے پاس دنیا میں سب کچھ تھا۔ بس ایمان و عمل صالح کا ذخیرہ نہیں تھا۔ یہ پائے ہوئے لوگ آج سب سے زیادہ محروم تھے ۔ یہ خوشحال لوگ آج سب سے زیادہ دکھی تھے ۔ یہ آسودہ حال لوگ آج سب سے زیادہ بدحال تھے ۔ ہزاروں برس سے خراب و خاسر یہ لوگ موت کی دعائیں کرتے ، رحم کی امید باندھے ، کوئی سفارش اور شفاعت ڈھونڈتے ہوئے پریشان حال گھوم رہے تھے ۔ کہیں عذاب کے فرشتوں سے مار کھاتے ، کہیں بھوک اور پیاس سے نڈھال ہوتے ، کہیں دھوپ کی شدت سے بے حال ہوتے یہ لوگ نجات کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار تھے ۔ اپنی اولادوں کو، اپنے بیوی بچوں کو، اپنی ساری دولت کو، ساری انسانیت کو فدیے میں دے کر آج کے دن کی پکڑ سے بچنا چاہتے تھے ۔ مگر یہ ممکن نہ تھا۔ وہ وقت تو گزر گیا جب چند روپے خرچ کر کے ، کچھ وقت دے کر جنت کی اعلیٰ ترین نعمتوں کا حصول ممکن تھا۔ یہ لوگ ساری زندگی، کیرئیر، اولاد اور جائیدادوں پر انویسٹ کرتے رہے ۔ کاش یہ لوگ آج کے اس دن کے لیے بھی انویسٹ کر لیتے تو اس حال کو نہ پہنچتے ۔

میدان حشر میں بار بار لوگوں کا نام پکارا جاتا۔ جس کا نام لیا جاتا دو فرشتے تیزی سے اس کی سمت جھپٹتے اور اس کو لے کر پروردگار کے حضور پیش کر دیتے ۔ لگتا تھا کہ فرشتے مسلسل اپنے شکار پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں اور لاکھوں کروڑ وں کے اس مجمع سے بلا تردد اپنے مطلوب شخص کو ڈھونڈ لیتے ہیں ۔ میری متلاشی نگاہیں لاشعوری طور پر جمشید کو ڈھونڈ رہی تھیں ۔ مگر وہ مجھے کہیں نظر نہ آیا۔ صالح میری کیفیت کو بھانپ کر بولا:

’’میں جان بوجھ کر تمھیں اس کے پاس نہیں لے جا رہا۔ اس کی بیوی، بچے ، ساس، سسر سب کے لیے پہلے ہی جہنم کا فیصلہ سنایا جا چکا ہے اور کچھ نہیں معلوم کہ اس کا کیا انجام ہو گا۔ بہتر یہ ہے کہ تم اس سے نہ ملو۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ خود کوئی فیصلہ کر دیں ۔‘‘

اس کی بات سن کر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ میری کیفیت بہت اداس اور غمگین ہوجاتی۔ لیکن نہ جانے کیوں میرے دل میں ایک احساس پیدا ہوا۔ میں صالح سے کہنے لگا:

’’میرے رب کا جو فیصلہ ہو گا وہ مجھے قبول ہے ۔ میں اپنے بیٹے سے جتنی محبت کرتا ہوں میرا مالک میرا ان داتا اس سے ہزاروں گنا اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے ۔ بلکہ ساری مخلوقات اپنی اولاد کو جتنا چاہتی ہے ، میرا رب اس سے بڑ ھ کر اپنے بندوں پہ شفقت فرمانے والا ہے ۔ جمشید کی معافی کی اگر ایک فیصد بھی گنجائش ہے تو یقیناً اسے معاف کر دیا جائے گا۔ اور اگر وہ کسی صورت معافی کے لائق نہیں تو رب کے ایسے کسی مجرم سے مجھے کوئی ہمدردی نہیں ۔ چاہے وہ میرا اپنا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔‘‘

میری بات سن کر صالح مسکرایا اور بولا:

’’تم بھی بہت عجیب ہو۔ اتنے عجیب ہو کہ بس۔ ۔ ۔ ‘‘

’’نہیں عجیب میں نہیں میرا رب ہے ۔ اس نے میرے قلب پر سکینت نازل کر دی ہے ۔ اب مجھے کسی کی کوئی پروا نہیں ۔ ویسے ہم جا کہاں رہے ہیں ؟‘‘

’’یہ ہوئی نا بات۔ اب تم لوٹے ہو۔ اب تم دوبارہ ایک باپ سے عبد اللہ بنے ہو۔ لیکن میں تمھیں یہ بتادوں کہ ابھی بھی لوگوں کی نجات کا امکان ہے ۔ اللہ تعالیٰ میدان حشر کی اس سختی کو بہت سے لوگوں کے گنا ہوں کی معافی کا سبب بنا کر ان کے نیک اعمال کی بنا پر انھیں معاف کر رہے ہیں ۔ تم نے اتفاق سے سارے مجرموں کا حساب کتاب ہوتے دیکھ لیا، مگر کچھ لوگوں کو ابھی بھی معاف کیا جا رہا ہے ۔ اس لیے کہ خدا کے انصاف میں کوئی سچی نیکی کبھی ضائع نہیں جاتی۔‘‘

میں نے صالح کی بات کے جواب میں کہا:

’’بے شک میرا رب بڑ ا قدردان ہے ، مگر ہم کہاں جا رہے ہیں ؟‘‘

’’ہم دراصل جہنم کی سمت جا رہے ہیں ۔ میں تمھیں اب اہل جہنم سے ملوانا چاہ رہا ہوں ۔‘‘

’’تو کیا ہم جہنم میں جائیں گے ؟‘‘

’’نہیں نہیں ۔ یہ بات نہیں ۔ اس وقت اہل جہنم کو جہنم کے قریب پہنچا دیا گیا ہے ۔ یہ جو تم میدان دیکھ رہے ہو اس میں الٹے ہاتھ کی سمت ایک راستہ بتدریج گہرا ہوکر کھائی کی شکل اختیار کر لیتا ہے ۔ جہنم کے ساتوں دروازے اسی کھائی سے نکلتے ہیں ۔ جیسا کہ تم نے قرآن میں پڑ ھا ہے کہ ان سات دروازوں میں سات مختلف قسم کے مجرم داخل کیے جائیں گے ۔‘‘

صالح مجھے یہ تفصیلات بتا ہی رہا تھا کہ میں نے محسوس کیا کہ میدان میں نشیب کی سمت ایک راستہ اتر رہا تھا۔ ہم اس راستے پر نہیں گئے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ جو بلند زمین تھی اس پر چلتے رہے ۔ تھوڑ ی دیر میں یہ راستہ تنگ ہوکر کھائی کی شکل میں تبدیل ہو گیا۔ ہم اوپر ہی تھے جہاں سے ہمیں نیچے کا منظر بالکل صاف نظر آ رہا تھا۔ اس راستے پر جگہ جگہ فرشتے تعینات تھے جو مجرموں کو مارتے گھسیٹتے ہوئے لا رہے تھے ۔

تھوڑ ا آگے جا کر اس تنگ راستے یا کھائی پر رش بڑ ھنے لگا۔ یہاں کھوے سے کھوا چھل رہا تھا۔ بدہیبت اور بدشکل مرد و عورت اس جگہ ٹھسے پڑ ے تھے ۔ یہ وہ ظالم اور فاسق و فاجر لوگ تھے جن کے انجام کا اعلان ہو چکا تھا اور جہنم میں داخلے سے قبل انہیں جانوروں کی طرح ایک جگہ ٹھونس دیا گیا تھا۔

وقفے وقفے سے جہنم کے شعلے بھڑ کتے اور آسمان تک بلند ہوتے چلے جاتے ۔ ان کے اثر سے یہاں کا سارا آسمان سرخ ہورہا تھا۔ جبکہ ان کے دہکنے کی آواز ان مجرموں کے دلوں کو دہلا رہی تھی۔ کبھی کبھار کوئی چنگاری جو کسی بڑ ے محل جتنی وسیع ہوتی اس کھائی میں جاگرتی جس سے زبردست ہلچل مچ جاتی۔ لوگ آگ کے اس گولے سے بچنے کے لیے ایک دوسرے کو کچلتے اور پھلانگتے ہوئے بھاگتے ۔ ایسا زیادہ تر اس وقت ہوتا جب کچھ بڑ ے مجرم اس گروہ کی طرف لائے جاتے تو آگ کا یہ گولہ ان کا استقبال کرنے آتا۔ جس کے نتیجے میں ان لوگوں کی اذیت اور تکلیف میں اور اضافہ ہوجاتا۔

صالح نے ایک سمت اشارہ کر کے مجھ سے کہا:

’’وہاں دیکھو۔‘‘

جیسے ہی میں نے اس سمت دیکھا تو مجھے وہاں کی ساری آوازیں صاف سنائی دینے لگیں ۔ یہ کچھ لیڈر اور ان کے پیروکار تھے جو آپس میں جھگڑ رہے تھے ۔ پیروکار اپنے لیڈروں سے کہہ رہے تھے کہ ہم نے تمھارے کہنے پر حق کی مخالفت کی تھی۔ تم کہتے تھے کہ ہماری بات مانو تمھیں اگر کوئی عذاب ہو گا تو ہم بچالیں گے ۔ کیا آج ہمارے حصے کا کوئی عذاب تم اٹھا سکتے ہو یا کم از کم اس سے نکلنے کا کوئی راستہ ہی بتادو؟ تم تو بڑ ے ذہین اور ہر مسئلے کا حل نکال لینے والے لوگ تھے ۔

وہ لیڈر جواب دیتے ۔ اگر ہمیں کوئی راستہ معلوم ہوتا تو پہلے خود نہ بچتے ۔ ویسے ہم نے تو تم سے نہیں کہا تھا کہ جو ہم کہیں وہ ضرور مانو۔ ہم نے زبردستی تو نہیں کی تھی۔ ہمارے راستے پر چلنے میں تمھارے بھی اپنے مفادات تھے ۔ اب تو ہم سب کو مل کر اس عذاب کو بھگتا ہو گا۔ اس پر پیروکار کہتے ۔ اے اللہ ہمارے ان لیڈروں نے ہم کو گمراہ کیا۔ ان کو دوگنا عذاب دے ۔ اس پر وہ لیڈر غصے میں آ کر کہتے کہ ہمیں بد دعا دے کر تمھاری اپنی حالت کونسی بہتر ہوجانی ہے ۔

اس گفتگو پر صالح نے یہ تبصرہ کیا:

ان سب کے لیے ہی دوگنا عذاب ہو گا کیونکہ جو پیروکار تھے وہ بعد والوں کے لیڈر بن گئے اور ان کو اسی طرح گمراہ کیا۔ دیکھو ان کے مزید پیروکار آ رہے ہیں ۔

میں نے دیکھا تو واقعی اس ہجوم میں دھکم پیل شروع ہوگئی کیوں کہ کچھ اور لوگ ان کی طرف آئے تھے ۔ وہ لیڈر بولے ۔ ان بدبختوں کو بھی یہیں آنا تھا۔ پہلے ہی جگہ اتنی تنگ ہے یہ بدبو دار لوگ اور آ گئے ۔ نئے آنے والے اس بدترین استقبال پر آپے سے باہر ہوگئے اور ایک نیا جھگڑ ا شروع ہو گیا۔ جو تھوڑ ی دیر میں مار پیٹ میں تبدیل ہو گیا۔ اہل جہنم ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے ، گالیاں بکتے باہم دست و گریباں ہوگئے ۔ لاتیں گھونسے ، دھکم پیل اور چیخ و پکار کے اس حبس زدہ ماحول میں لوگوں کی جو حالت ہورہی تھی، ظاہر ہے میں صرف دیکھ اور سن کر اس کا اندازہ نہیں کرسکتا تھا۔ مگر مجھے یقین تھا کہ یہ لوگ اپنی دنیا کی زندگی کو یاد کر کے ضرور رو رہے ہوں گے جس میں ان کے پاس سارے مواقع تھے ، مگر جنت کی نعمت کو چھوڑ کر انھوں نے اپنے لیے جہنم کی اس وحشت کو پسند کر لیا۔ صرف چند روزہ مزوں اور فائدوں کی خاطر۔

صالح مجھ سے کہنے لگا:

’’ابھی تو یہ لوگ جہنم میں گئے ہی نہیں ۔ وہاں تو اس سے کہیں بڑھ کر عذاب ہو گا۔ ان کے گلے میں غلامی اور ذلت کی علامت کے طور پر طوق پڑ ا ہوگا۔ پہننے کے لیے گندھک اور تارکول کے کپڑ ے ملیں گے جو دور ہی سے آگ کو پکڑ لیں گے ۔ یہ آگ ان کے چہرے اور جسم کو جھلسا دے گی۔ وہ اذیت سے تڑ پتے رہیں گے مگر کوئی ان کی مدد کو نہ آئے گا نہ ان پر ترس کھائے گا۔ پھر ان کی جھلسی ہوئی جلد کی جگہ نئی جلد پیدا ہو گی جس سے انھیں شدید خارش ہو گی۔ یہ اپنے آپ کو کھجاتے کھجاتے لہو لہان کر لیں گے ، مگر کھجلی کم نہ ہو گی۔

جب کبھی انہیں بھوک لگے گی تو انھیں کھانے کے لیے خاردار جھاڑ یاں اور کڑ وے زہریلے تھوہر کے درخت کے وہ پھل دیے جائیں گے جن پر کانٹے لگے ہوں گے ۔ جبکہ پینے کے لیے غلیظ اور بدبودار پیپ، ابلتا پانی اور کھولتے تیل کی تلچھٹ ہو گی جو پیٹ میں جا کر آگ کی طرح کھولے گا اور پیاس کا عالم یہ ہو گا کہ یہ لوگ اس کو تونس لگے ہوئے اونٹ کی طرح پینے پر مجبور ہوں گے ۔ وہ پانی ان کی پیٹ کی انتڑ یاں کاٹ کر باہر نکال دے گا۔

جہنم میں فرشتے انھیں بڑ ے بڑ ے ہتھوڑ وں سے ماریں گے ۔ جس سے ان کا جسم بری طرح زخمی ہوجائے گا۔ ان کے زخموں سے جو لہو اور پیپ نکلے گی وہ دوسرے مجرموں کو پلائی جائے گی۔ پھر ان کو زنجیروں میں باندھ کر کسی تنگ جگہ پر ڈال دیا جائے گا۔ وہاں ہر جگہ سے موت آئے گی مگر وہ مریں گے نہیں ۔ اس وقت ان کے لیے سب سے بڑ ی خوش خبری موت کی خبر ہو گی مگر وہاں انھیں موت نہیں آئے گی۔ وقفے وقفے سے یہ سارے عذاب وہ ہمیشہ بھگتتے رہیں گے ۔‘‘

میں یہ تفصیلات سن کر لرز اٹھا۔ صالح نے مزید کہا:

’’اہل جہنم کو جہنم میں داخل کرنے سے قبل یہاں اوپر لایا جائے گا اور انہیں جہنم کے اردگرد گھٹنوں کے بل بٹھا دیا جائے گا۔ چنانچہ ان کے لیے سب سے پہلا عذاب یہ ہو گا کہ وہ اپنی آنکھوں سے سارے عذاب دیکھ لیں گے ۔ پھر گروہ در گروہ اہل جہنم کو جہنم کی تنگ و تاریک جگہوں پر لے جا کر ٹھونس دیا جائے گا اور عذاب کا وہ سلسلہ شروع ہو گا جس کی تفصیل میں نے ابھی بیان کی ہے ۔‘‘

’’تو کیا سارے اہل جہنم کا یہی انجام ہو گا؟‘‘

’’نہیں یہ تو بڑ ے مجرموں کے ساتھ ہو گا۔ دوسروں کے ساتھ ہلکا معاملہ ہو گا مگر یہ ہلکا معاملہ بھی بہرحال ناقابل برداشت عذاب ہی ہو گا۔‘‘

پھر اس نے ایک اور سمت اشارہ کیا۔ تو میں نے دیکھا کہ وہاں بعض انتہائی بدہیبت اور مکروہ شکل کے لوگ موجود ہیں ۔ صالح ایک ایک کر کے مجھے بتانے لگا کہ ان میں سے کون شخص کس رسول کا کافر اور مخالف تھا۔ میں نے خاص طور پر نمرود اور فرعون کو دیکھا کیونکہ ان کا ذکر بہت سنا تھا۔ انھی کے ساتھ ابوجہل، ابولہب اور قریش کے دیگر سردار موجود تھے ۔ ان سب کی حالت ناقابل بیان حد تک بری ہو چکی تھی۔ وقت کے یہ سردار اس وقت بدترین غلاموں سے بھی بری حالت میں تھے ۔ ان کا جرم یہ تھا کہ سچائی آخری درجے میں ان کے سامنے آ چکی تھی مگر انہوں نے اسے قبول نہیں کیا۔ خدا کے مقابلے میں سرکشی کی اور مخلوق خدا پر ظلم و ستم کا راستہ اختیار کیا۔

اس وقت صالح نے مجھے ایک بہت ہی عجیب مشاہدہ کرایا۔ اس کے توجہ دلانے پر میں نے دیکھا کہ ان سب کے وسط میں ایک بہت بڑ ا دیو ہیکل شخص کھڑ ا تھا۔ اس کے جسم سے آگ کے شعلے نکل رہے تھے اور پورا جسم زنجیروں سے جکڑ ا ہوا تھا۔ وہ ان سب سے مخاطب ہوکر کہہ رہا تھا کہ دیکھو اللہ نے تم سے جو وعدہ کیا تھا وہ سچا تھا اور جو وعدے میں نے کیے تھے وہ سب جھوٹے تھے ۔ آج مجھے برا بھلا نہ کہو۔ میں تمھارے سارے اعمال سے بری ہوں ۔ میری کوئی غلطی نہیں ہے ۔ میرا تم پر کوئی اختیار نہ تھا۔ تم نے جو کیا اپنی مرضی سے کیا۔ اگر تم نے میری بات مانی تو اس میں میرا کیا قصور۔ تم لوگ مجھے مت کوسو بلکہ خود کو ملامت کرو۔ آج نہ میں تمھارے لیے کچھ کرسکتا ہوں اور نہ تم میرے لیے کچھ کرسکتے ہو۔

مجھے اس گفتگو سے اندازہ ہو گیا کہ یہ موصوف کون ہیں ۔ میں نے اپنے اندازے کی تصدیق کے لیے صالح کو دیکھا تو وہ بولا:

’’تم ٹھیک سمجھے ۔ یہ ابلیس ہے ۔ اللہ کا سب سے بڑ ا نافرمان۔ آج سب سے بڑ ھ کر عذاب بھی اسی کو ہو گا۔ مگر باقی لوگوں کو بھی ان کے کیے کی سزا ملے گی۔‘‘

میں اوپر کھڑ ا یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا اور دل ہی دل میں اپنے عظیم رب کی شکر گزاری کر رہا تھا جس نے مجھے شیطان کے شر اور دھوکے سے بچالیا وگرنہ زندگی میں بارہا اس ملعون نے مجھے گمراہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ مگر اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنی عافیت میں رکھا۔ میرا ہمیشہ یہ معمول رہا کہ میں شیطان کے شر سے اللہ کی پناہ مانگتا تھا۔ سو میرے اللہ نے میری لاج رکھی۔ مگر جنھوں نے اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کی اور شیطان کو اپنا دوست بنایا وہ بدترین انجام سے دوچار ہوگئے ۔

اسی اثنا میں صالح میری طرف مڑ ا اور بولا:

’’عبد اللہ چلو تمھیں بلایا جا رہا ہے ۔‘‘

میں نے پوچھا کیوں ؟

’’وہ بولا جمشید کو حساب کتاب کے لیے پیش کیا جانے والا ہے ۔ تمھیں گواہی کے لیے بلایا جا رہا ہے ۔‘‘

’’میری گواہی؟‘‘

’’ہاں تمھاری گواہی۔‘‘

’’میری گواہی اس کے حق میں ہو گی یا اس کے خلاف۔‘‘

’’دیکھو اگر اللہ نے اسے معاف کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو پھر وہ تم سے کوئی ایسی بات پوچھیں گے جس کا جواب اس کے حق میں جائے گا۔ اور اگر اس کے گنا ہوں کی بنا پر اسے پکڑ نے کا فیصلہ کیا ہے تو وہ تم سے کوئی ایسی بات پوچھیں گے جو اس کے خلاف جائے گی۔ یا ہو سکتا ہے کہ وہ کوئی اور معاملہ کریں ۔ حتمی بات صرف وہی جانتے ہیں ۔‘‘

میری حالت جو ٹھہری ہوئی تھی ایک دفعہ پھر دگرگوں ہوگئی اور میں لزرتے دل اور کانپتے قدموں کے ساتھ صالح کے ہمراہ روانہ ہو گیا۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔
Owais
About the Author: Owais Read More Articles by Owais: 27 Articles with 26497 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.