ہماری قومی موسیقی۔۔۔۔۔۔۔بھینس کے آگے بین

موسیقی کو کبھی روح کی غذا سمجھا جاتا تھا لیکن اب بد ہضمی کی وبا محسوس ہوتی ہے۔ پہلے یہ سننے کی اور اب دیکھنے کی چیز ہے۔ ٹی وی آن کرتے ہی اکثر اوقات کسی اذیت میں مبتلا مخلوق عجیب و غریب اور کبھی عجیب و امیر حرکات و سکنات کرتی نظر آتی ہے۔ بہت گہرا غور کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ یہ حضرت نغمہ گو ہیں۔ جیسے جیسے ملکی ذراعت میں فصلوں کی کمی واقع ہو رہی ہے ویسے ویسے نئے نئے اور رنگ برنگے گلوکاروں کی فصل تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ غالباً یہ واحد شعبہ ہے جس میں وطن عزیز کے خود کفیل ہونے کے امکانات ہیں۔

موسیقی کے کئی شعبے ہیں۔ ہر طبقہ فکر کی پسندیدہ موسیقی اپنے اپنے مزاج اور ضرورت کے مطابق ہے۔
سیاستدان حضرات خصوصاً کابینہ کے ارکان کی پسندیدہ موسیقی میں سر فہرست راگ درباری ہے۔ وزارتوں کو ڈاواں ڈول ہونے سے بچانے اور ان کو زیادہ سے زیادہ منافع بخش بنانے کے لئے اس راگ کا ریاض بہت ضروری سمجھا جاتا ہے۔ راگ درباری چھوڑنے کا مطلب عہدے اور وزارت سے دستبرداری ہوتا ہے۔ بعض ناگہانی صورتوں میں راگ الاپتے ہوئے بھی دستبرداری ہو سکتی ہے۔ اعظم سواتی اور قبلہ حامد کاظمی اسکی تازہ مثالیں ہیں۔

عوام الناس کی پسندیدہ موسیقی بین ہے جو کہ بھینس کے آگے بجائی جاتی ہے۔ بھینس چونکہ شریف جانور ہے چنانچہ اس پر اسکا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ البتہ اگر بین زیادہ بجانا شروع کر دیں تو یہ سینگوں سے سواگت بھی کر سکتی ہے۔ اسی لئے سیانے کہتے ہیں کہ بھینس کے آگے اتنی ہی بین بجائیں کہ بھینس آپکی بین نہ چبا ڈالے اور حکومتی پالیسیوں پر اتنا ہی شور مچائیں کہ آپکا گلہ ہی نہ دبا دیا جائے۔

حکمرانوں کی پسندیدہ موسیقی چین کی بانسری ہے۔ جو ریلکس ہو کر بجائی جاتی ہے۔ حکومتی اداروں میں یہ بانسری ہر وقت بجتی رہتی ہے۔ عوام کی بین کا اس بانسری کی لے پر کوئی اثر نہیں ہوتا چنانچہ مہنگائی اور دوسرے مسائل ڈارون کے نظریہ ارتقاء کے تحت کافی ترقی کر رہے ہیں۔

پالیسی ساز اداروں کی پسندیدہ موسیقی ڈھول ہے جو کہ دور سے بجائے جاتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ سہانے لگیں۔ اس سلسلے میں ٹی وی پر بھی سہانے ڈھول بجانے کے پروگرام نشر کئے جاتے ہیں جیسا کہ پی ٹی وی کا خبرنامہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔۔۔

دور کے ڈھولوں کی مختلف تھاپیں ہوتی ہیں جیسا کہ ریلیف تھاپ۔

باقی آئندہ