حکمت آمیز باتیں-سترھواں حصہ

یہ تحریر فیس بک کے آفیشل پیج https://www.facebook.com/ZulfiqarAliBukhari پر میری کہی گئی باتوں کا مجموعہ ہے، میری سوچ سے سب کو اختلاف کا حق حاصل ہے۔جملہ حقوق بحق راقم محفوظ ہیں۔

بہترین استاد وہ ہے جو آپ کو اتنا طاقتور بنا دیتا ہے کہ آپ اپنے سب خواب پورے کر لیتے ہیں۔کیونکہ وہ آپ کی سمت کا درست تعین کر دیتا ہے۔

دوسروںپر اتنا اعتبار نہ کریں کہ وہ آپ کے رشتوں میں ہی دارڑ پیدا کرنا شروع کر دیں۔

حق چھوڑ دینا بدترین غلطی ہے۔

حق کی راہ میں جتنی بھی رکاوٹیں ڈالی جائیں وہ اپنا راستہ بنا کر خود سامنے آ کھڑہوتا ہے کہ سچائی بذات خود ایک دلیل ہوتی ہے جس کے آگے جھوٹ قائم نہیں رہ سکتا ہے۔

اگر ہم رمضان المبارک میں بھی خود کو سدھرنہیں سکتے تو سمجھ لینا چاہیے کہ ہم گمراہی کے گڑھے میں پھنس رہے ہیں، ہمیں اپنے بچاو کی کوشش ضرور کرنی چاہیے۔

ایک تجربے سے بخوبی سمجھ آیا ہے کہ ضرورت سے زیادہ نکتہ چینی اور سوچ بچار آپ کو اچھے کاموں کو سررانجام دینے سے دور کر دیتا ہے۔

بددیانتی اور بدعنوانی کو شروع میں ہی قابو نہ کیا جائے تو بڑے پیمانے پر معاشرے اس کی تقلید کرنا شروع کر دیتا ہے۔

نکاح ایک شرعی حکم کے تحت کیا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں اس کے لئے بھی اپنے ذاتی مفادات کو پیش ضرور رکھا جاتاہے۔ تب ہی آج زنا عام ہے اوربرائی پھیل رہی ہے جبکہ نکاح کو نمود ونمائش اورذاتی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔

صرف رمضان المبارک میں ہی مستحق افراد کی مدد نہ کریں بلکہ پورا سال کوشش کریں کہ آپ کی وجہ انکی زندگی خوشگوارگذر سکتے، ثواب اگرچہ رمضان میں زیادہ ملتا ہے مگر عام دنوں میں کی جانے والی نیکی بھی اہمیت رکھتی ہے۔لہذا اللہ کے دیئے ہوئے مال میں سے کچھ حصہ دوسروں پر خرچ کرنا سیکھیں۔

ہم ایماندار، مخلص اور اچھے سیاسی رہنماوں کو انتخابات میں ووٹ نہیں دینا چاہتے مگر یہ خواہش ضرور رکھتے ہیں کہ پاکستان مزید بہتری کی طرف جائے۔ووٹ کو عزت دیں نہ دیں مگر ملکی مفادات اور سلامتی کو ناعاقبت اندیش کے ہاتھوں میں نہ دیں۔

رمضان المبارک میں بھی ہم نفس کو قابو نہ کر سکٰیں تو یہ ہماری زندگی کا بڑا المیہ ہوگا۔

اکیلے لڑنے والے اکثر کامیاب ہوتے ہیں کہ سہارے اکثر عین وقت پر زمین بوس ہو جاتے ہیں۔

وقت لگتا ہے مگر خدا انصاف حقداروں کو ایک دن ضرور دے دیتا ہے۔

اللہ پر بھروسہ کرنے والوں کو معجزات دیکھنے کو ملتے ہیں۔

عقل کے اندھوں کے لئے ایک تصویر جان سے زیادہ پیاری ہے۔

ہمارا رب چاہتا ہے کہ ہم بار بار مانگیں، تب جا کر وہ عطا کرے،مگر ہم چند سو بار کی التجا پر ہی تھکاوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔اور شکوہ کرتے ہیں کہ ہمیں کچھ ملتا ہی نہیں ہے۔

ہمارے ہاں جب بھی کوئی حادثہ ہو جائے تو فورا سے حکومت پر الزامات لگنا شروع ہو جاتے ہیں، حقائق کو کم ہی دیکھا جاتا ہے، ابھی جو دریا نیلم کے پل گرنے کا جو واقع ہے اس پر ہماری سیاحت کےمحکمے کو ذمہ داری تو قبول کرنی چاہیے کہ اتنے سالوں میں وہاں پر بہترین اورمحفوظ پل کی تعمیر ممکن نہ ہو سکی۔مجموعی اعبتار سے یہ صوبائی و قومی حکومت دونوں کی نااہلی شمار ہوگی کہ اتنے عرصہ میں پورے پاکستان میں اس طرح کے واقعات سے بچاو کے لئے کوئی خاص اقدامات نہیں کئے گئے ہیں؟

رزیل انسان اپنی شناخت گھٹیا حرکتوں سے ظاہر کرتے ہیں۔

کوئی ملک کے خلاف بولے تو بھی ووٹ اسی کو، کوئی ادارے کے خلاف بولے تو بھی ووٹ اسی کو، ادارے خلاف قانون کاروائی کریں تو بھی ووٹ انہی اداروں کے سربراہان کو منتخب کرنے والوں کو آخر کب تک دیا جائے گا؟
ووٹ کو عزت دینی ہے تو مفادات کو پس پشت رکھ کر دیں۔بصورت دیگر لب پر قفل لگا کرتماشہ دیکھیں۔لب کشی کرنے کی زحمت تب کریں جب سچائی اورووٹ کوعزت دینے کے لئے قربانی کے لئے تیار ہوں۔

کسی بھی شخص کو کسی بھی حوالے سے بات کرنے کا حق حاصل ہے مگر اس شخص کی باتوں پر شور شرابہ کرنے سے بہتر ہوتا ہے کہ وقت کو اسے سچا یا جھوٹا ثابت کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔

ہار تو کسی بھی صورت میں نہیں ماننی چاہیے، ایسا کرنا اپنی موت کو خود گلے لگانا ہی ہے۔بہادر لوگ آخروقت تک جنگ لڑتے ہیں اور کامیابی کو گلے لگاتے ہیں۔

آپ اگر پریشان رہیں گے تو نقصان بھی آپ کو ہی ہوگا اورذہنی سکون الگ برباد ہوگا،جسمانی طور پر بھی کمزور ہو جائیں گے۔

محبت کرنے والے کبھی بھی دوسروں سے نفرت نہیں کر سکتے ہیں۔

اپنی منطق کو سامنے رکھ کر ہم دوسروں سے تعلقات توڑنے میں اتنی جلدی کرلیتے ہیں کہ پھر واپسی کے لئے کبھی قدم بڑھا نہیں سکتے ہیں۔ہم اپنے آپ سے ہی اتنے شرمسار ہو جاتے ہیں کہ تعلق بحال کرنے میں بھی اپنی توہین محسوس کرتے ہیں کہ پہلے کیوں غلطی کی،مگر یہ دوسری غلطی کا خمیازہ عمر بھر کی اکثر کسک بن جاتا ہے۔

ہمارے ہاں اپنے مفادات کی خاطر اصولوں کو بدل تو لیا جاتا ہے مگر اصول پر قائم رہتے ہوئے حالات کا مقابلہ کرنے کا رجحان کم ہوتا جا رہا ہے۔

محبت انسان کو حساس کر دیتی ہے۔

ایک وقت تھا جب سعادت حسین منٹو معاشرے میں ہونے والی نا انصافیوں، زندگی کے تلخ پہلو اوربرائیوں پر لکھ کر مقدمات کا سامنا کرتا تھا کہ انتی کڑوی سچائی کیوں بیان کر دی ہے، مگر یہاں سیاست کرنے والوں کی عقل کا ماتم کرنا پڑتا ہے کہ وہ عوام کا رجحان ایک خاص جماعت کی طرف جاتا دیکھ کرمحض مفادات کی خاطر خواتین کے ملک کی ترقی میں ہاتھ بٹانے اورسیاسی سرگرمیوں پر حصہ لینے پر عامیانہ رائے کا اظہار کرتے ہیں کیا ایسے افراد مزید حکمرانی کے اہل ہیں، اس پر ضرور سوچیں، جو خواتین کا احترام نہیں کر سکتا اس پراپنا ووٹ ضائع کرنا بدترین عمل ہے۔

عورت کی خاموشی کو رضا مندی سمجھ لی جاتی ہے مگر اس کے گرنے والے آنسو کسی کو دکھائی نہیں دیتے ہیں،آخر کب تک حوا کی بیٹیوں کو اپنی انا اورخاندان کے نام پر قربان کیا جائےگا؟
 

Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 392 Articles with 482091 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More