کیرالہ کی بیٹی

ایک ارب سے زائد آبادی والے ملک میں کروڑوں بچے ایسے ہیں جو کے گلیوں میں پیدا ہوتے ہیں، گلیوں میں ہی جوان ہوتے ہیں، اور گلیوں میں بوڑھا ہوکر مرتے ہیں، یہ لوگ ” سٹریٹ چائلڈ “ کہلاتے ہیں،

ریتا پانیسکر بھارت کی ریاست کیرالہ کے شہر کولام میں پیدا ہوئی، میٹرک اور پھر انٹر کی تعلیم کے بعد ٹیچنگ کیلئے ایک سکول جوائن کرلیا، وہ بہت ہی ذہین اور محنتی لڑکی تھی، اسکے نزدیک ہار اور ناممکن دو ایسے الفاظ تھے جنکا کوئی وجود نہیں، اسی جذبے سے وہ اسکول ٹیچر کے طور پر کام کرتی رہی، اور ساتھ ہی فاطمہ ماتھا کالج کولام سے گریجویشن مکمل کی، گریجویشن مکمل ہونے کے بعد اسکے والدین نے ریتا کی شادی کرنے کا فیصلہ کیا، اور ریتا کی شادی لیٹ گیری پنٹو سے کردی، پنٹو صاحب یونائیٹڈ نیشن کیلئے امریکہ میں کام کرتے تھے، وہ سال بعد بھارت آتے، شادی کے بعد جوڑے نے مکمل طور پر امریکہ شفٹ ہونے کا فیصلہ کیا، تب پنٹو صاحب امریکہ میں فیملی کی ایڈجسٹمنٹ کی سیٹنگ کررہے تھے، اور ریتا نے ٹاٹا انسٹیوٹ آف سوشل سائنس سے سوشل ویلفیئر ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز مکمل کرلیا، ریتا بچپن سے ہی فلاحی کاموں میں آگے آگے ہوتی، سو ٹاٹا انسٹیوٹ نے ریتا کو ماشل ( مہاراشٹر ایسوسیش فار سوشل ہاوسنگ ) کا ایم ڈی بنا دیا۔

وہ ممبئی میں سوشل ایکٹ کے کاموں میں پیش پیش رہنے لگی۔ انسانیت کی خدمت اسکو مزا دینے لگی، وہ خدمت خلق میں دن رات ایک کرنے لگی، اسکی نزدیک انسانیت سے بڑھ کر کچھ نہیں تھا، یہ سن 88 کی تپتی گرمیوں کا ایک دن تھا، صبح ناشتہ کرکے وہ معمول کے مطابق دفتر جانے کیلئے گھر سے نکلی، اس دن ممبئی میں سورج آگ برسا رہا تھا، وہ ریلوئے اسٹیشن پہنچی، گرمی سے اسکا برا حال تھا، وہ بار بار اپنے چہرے سے پسینا صاف کررہی تھی، گرمی نے اسکو ستایا ہوا تھا، اچانک اسکی نظر ریلوئے اسٹیشن پر موجود بچوں کے ایک گروہ پر پڑھ، یہ 15 سال سے کم عمر کے بچوں کا ایک گروہ تھا، وہ حیرت کے عالم میں یہ سوچے جارہی تھی کے اسکے اتنے مہنگے کپڑوں میں بھی اسکو گرمی محسوس ہو رہی ہے، اور وہ بچے جنکے کپڑے پھٹے پرانے ہیں، ان کا کوئی والی وارث بھی موجود نہیں، وہ اسٹیشن سے کوڑا کرکٹ چن رہے ہیں، لیکن وہ خوش ہیں، انکو موسم کی سختی کا کوئی احساس نہیں، ریتا بچوں کے پاس گئی، اس نے بچے سے ہنسی مذاق شروع کیا اور چند لمحوں میں انکی اندر گھل مل گںی، اس نے سب بچوں سے باری باری پوچھا تمھارے والدین کہاں ہیں، کسی کا جواب نفی میں تو کوئی نہیں جانتا تھا، پھر ریتا نے سوال کیا کے تمھارا گھر کہاں ہے تو سب کا جواب نفی میں تھا، بچوں کے ساتھ اس ملاقات نے ریتا کو جھنجوڑ کر رکھ دیا، اس نے اپنے شوہر کو کال کی سارا ماجرا سنایا، ساتھ ساتھ ہی اس نے زندگی کا سب پہلا انقلابی قدم اٹھایا، اس نے شوہر سے کہا میں بھارت میں بچوں کے حقوق کیلئے کام کرنا چاہتی ہوں، ہم ساری زندگی بے اولاد رہیں گے، اسکے شوہر کو بھی سلام جس نے انسانیت کی خدمت کیلئے ریتا کی ہاں میں ہاں ملادی، ریتا نے سب سے اپنے اسسٹنٹ مسٹر نانیگا کے ساتھ رابطہ کیا، ان لوگوں نے بھارت کی ساری ریاستوں کا دورہ کیا، کولکتہ سے لیکر ہریانہ اور چندی گڑھ سے لیکر وشاکاپٹنم تک ہر شہر گئے، انہوں نے ایک رپورٹ تیار کی، اس دوران ریتا کے شوہر کا ٹرانسفر نئی دہلی ہوگیا، یہ لوگ دہلی گئے، انہوں نے رپورٹ بھارتیہ سرکار کی لوگ سبھا ( پارلیمنٹیرین ) کو پیش کی، اس رپورٹ کے مطابق ایک ارب سے زائد آبادی والے ملک میں کروڑوں بچے ایسے ہیں جو کے گلیوں میں پیدا ہوتے ہیں، گلیوں میں ہی جوان ہوتے ہیں، اور گلیوں میں بوڑھا ہوکر مرتے ہیں، یہ لوگ ” سٹریٹ چائلڈ “ کہلاتے ہیں، ریتا نے حکومت سے ترجیحاتی بنیادوں پر کام کرنے کی درخواست کی، جیسے اکثر بھارت اور پاکستان میں ہوتا ہے ریتا کے ساتھ بھی وہی ٹال مٹول، کل پرسوں کی گیم کھیلی گئی، اور سکی درخواست بھی کروڑوں زیرالتوء درخواستوں میں دب گئی۔

وہ بہت ڈس ہرٹ ہوئی لیکن وہ ایک جنونی عورت ہے اس نے ہمت نہیں ہاری، ریتا نے ” بٹرفلائی “ نامی ایک تنظیم کی بنیاد رکھی، اس تنظیم کا بنیادی مقصد بچوں کے حقوق کا دفاع کرنا تھا، قریب ایک کروڑ لاوارث اور یتیم بچوں کو علم کی دولت سے آشنا کرنا تھا، جب یہ تنظیم زیادہ گہرائی میں گئی تو انکو پتہ چلا کے بھارت کے اندر سٹریٹ چائلڈ پانچ سے چھ سال کی عمر میں گلیوں میں کام کرنا شروع کردیتے ہیں، یہ عمر کے انتدائی حصے میں ہی سارا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھا لیتے ہیں، یہ بچپن میں ہی جوان ہو جاتے ہیں، ان پر ذمہ داریاں عائد ہوجاتی ہیں، کام کرنے کی انکو بہت کم اجرت ملتی ہے، یہ پیسے ان معصوم بچوں کے والدین، رشتے دار یا بڑے بچے ہڑپ کرجاتے ہیں، انکے پیسے چوری بھی ہوجاتے ہیں، ان بچوں کو جوئے، نشے یا مافیا کا حصہ بنا لیا جاتا ہے، ریتا اور اسکی تنظیم نے سوچا اگر ہم بچوں کو اچھی تعلیم نہیں دلوا سکتے، ڈاکٹر یا انجینئر نہیں بنا سکتے، تو کم سے کم ان بچوں کی محنت سے کمائے ہوئے پیسوں کا دفاع کرسکتے ہیں، اگر ان بچوں کی یہ کمائی بچ جائے تو بہت کچھ اچھا ہوسکتا ہے، بٹرفلائیز سے بچوں کی رقم کو محفوظ رکھنے کیلئے چلڈرن بنک کا تصور پیش کیا، بھارت کے دارلحکومت نئی دہلی کے علاقے فتح پور میں 2001 میں پہلا بینک قائم کیا گیا، اس بنک ک تمام اختیارات اور انتظامات بھی بچوں کے پاس ہیں، بچے اپنی رقم جمع کرا کر کسی بھی وقت ساڑھے تین فیصد منافع سے واپس نکلوا سکتے ہیں، بیک منیجر سونو نامی ایک بچہ ہے جو گھر سے بھاگ کر دہلی کے ایک ٹی اسٹال پر کام کرتا تھا، یہ آئیڈیا یہ تنظیم اور انکا کام پوری دنیا سے منفرد تھا سو یہ تنظیم جلد پوری دنیا کی ویلفیر آرگنازیشن کا محور بن گئی۔

آج اس تنظیم کے ماتحت لاکھوں بچھڑے بچے اپنے والدین سے مل پائے ہیں، کروڑوں بے گھر بچوں کے سر کا سایا ہے، لاکھوں بچے جن کے پیسے لٹ جاتے آج اچھی خاصی رقم کے مالک ہیں، کروڑوں یتیم بچوں کو ماں بن کر ریتا پال رہی ہے، آج اس تنظیم کی بدولت بھارت میں قریب 45 ہزار یتیم اور لاورث بچے اپنی تعلیم مکمل کرکے اچھی نوکریوں پر فائز ہیں. یہ تنظیم بچوں کو متعدل لون بھی دیتی ہے جسکی بدولت وہ اپنا کاروبار شروع کرسکتے ہیں، یہ تنظیم آج بھارت سے بنگلہ دیش، پاکستان سمیت اکتیس ترقی پزیز ممالک تک پھیل چکی ہے، یہ ہوتے ہیں انسانوں کے روپ میں فرشتے، اسے کہتے ہیں کام، اسے کہتے ہیں محنت، اسے کہتے ہیں لگن، اسے کہتے ہیں کامیابی، ریتا جو ایک معمولی کسان کی بیٹی اور ایک عام ڈپلومیٹ کی بیوی تھی آج کروڑوں بچوں کی ماں ہے، اسکی اپنی کوئی اولاد نہیں لیکن اربوں بچوں کی آنکھ کا تارا ہے، انکی ماں ہے، وہ چاہتی تو امریکہ سٹل ہوسکتی تھی، ایک لیول کی لائف گزار سکتی تھی، لیکن اس نے ممبئ کی گلیوں کو ترجیح دی، اپنے بچے جن سکتی تھی مگر لاوارث بچوں کا سہارا بنی، بعد ازاں ریتا کو بھارت کے سب سے بڑے سول اعزاز سے نوازا گیا، یہ پبلیسٹی سے دور بھاگتی ہے، انٹریٹ پر آپکو انکے بعد کم لائیو ویڈیوز ملیں گے، مگر افسوس ہم ایک پانی کا کولر تک لگانے سے ہچکاتے ہیں، ہم اتنا کام نہیں کرتے جتنا الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر ایڈورٹائز کرتے ہیں، ہمارے ہاں حقوق صرف بیٹوں کیلئے ہیں، بیٹی صرف رسوئی تک ہے، مگر پھر بھی ہماری ہزاروں بیٹیاں خدمت خلق میں سرگرم ہیں، کوئی سکول ٹیچر، کوئی نرس تو کوئی سوشل ایکٹوسٹ، یہ ہماری تنگ نظری کو بھی سہتی ہیں، گھر کے کام بھی کرتی ہیں، بچوں کا خیال بھی رکھتی ہیں، مگر یہ اپنی تہذیب اور اپنے مذہب کے عقائد کو بھی نہیں بھولتیں، یہ حجاب میں رہ کر کام کرتی ہیں، اپنی لگن کو پروتی ہیں، یہ کبھی کریڈٹ کی بھی بھوکی نہیں ہوتیں، یہ تصویروں میں دیوار کے ساتھ لگی ہوتیں ہیں، مگر انکا کام انکی محنت آسمان کو چھو رہی ہوتی ہے، سلام ہے میرا اس ملک کی ان سبھی ان سنگ بیٹیوں کو، بحرحال آج ریاست کیرالہ کی اس بیٹی پر پوری دنیا کو ناز ہے، اللھ انکو مزید اسقامت عطا فرمائیں۔

طالب دعا !

Danish Ali Awan
About the Author: Danish Ali Awan Read More Articles by Danish Ali Awan: 3 Articles with 2436 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.