پاکستان کے شعبہ زراعت میں پنجاب کا حصہ

پاکستان کا مجموعی رقبہ 12کروڑ 85لاکھ 78ہزار3سو 8 ہیکٹر ہے۔ جس میں سے 7 کروڑ96 لاکھ 10ہزار ہیکٹر رقبہ زرعی اراضی اور جنگلات پر مشتمل ہے۔ جنگلات کا رقبہ28 لاکھ 90ہزار ہیکٹر ہے اور 23.7 ملین ایکڑ زراعی رقبہ ہے جو کل رقبے کا 28فیصد بنتا ہے،اس میں سے بھی8ملین ایکڑ رقبہ زیرِ کاشت نہ ہونے کے باعث بے کار پڑا ہے۔ملک کی مجموعی قومی پیداوارمیں زراعت کا حصہ 21فیصد ہے۔یہ شعبہ ملک کے 45فیصد لوگوں کے روزگارکا ذریعہ ہے۔زراعت کا شعبہ لوگوں کو خوراک اورصنعتوں کو خام مال کی فراہمی میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستانی برآمدات سے حاصل ہونے والے زرِ مبادلہ کا 45فیصد زرعی تجارت سے حاصل ہوتا ہے۔1980ء کی زراعت شماری کے مطابق اس وقت ملک میں 42لاکھ60ہزار سے زائد خاندان، جن کی کل افرادی قوت 2کروڑ 97لاکھ 50ہزار سے زائد تھی، 2کروڑ 6لاکھ30ہزار ہیکٹر رقبے پر کاشت کی سرگرمیوں میں مصروف تھے۔ اس عرصے میں ایک کروڑ27 لاکھ 60 ہزار افراد پر مشتمل 19 لاکھ 60ہزار خاندان مویشیوں کی افزائش کا کام کر رہے تھے یہ افرادی قوت ملک کی مجموعی آبادی کا 70فی صد ہے۔ براہ راست اور بالواسطہ طور پر ملک کی 80فیصد سے زائد آبادی زرعی سرگرمیوں سے روزی کماتا ہے۔زرعی ملک ہونے کے باوجودحکومت پاکستان نے مالی سال 2011-12ء میں 52کروڑ66لاکھ47ہزار6سو44کلو گرام مختلف سبزیاں ، 4لاکھ 36ہزار5سو94کلو گرام ادراک، 1کروڑ57لاکھ65 ہزار5 سو28 کلو گرام ٹماٹر اور 8لاکھ47ہزار3سو2کلو گرام لہسن امپورٹ کیا تھا۔جبکہ مالی سال 2015-16ء میں 1کھرب28کروڑ68لاکھ7ہزار4سو6کلوگرام سبزیاں، 9کروڑ 15لاکھ 64ہزار 7سو 92 کلوگرام ادراک، 23کروڑ32لاکھ45ہزار7سو13کلو گرام ٹماٹر اور3کروڑ43لاکھ75ہزار7سو30کلوگرام لہسن امپورٹ کیا تھا۔

٭صوبہ خیبر پختونخواہ میں گندم کی پیداوار اور ضرورت
صوبہ خیبر پختونخواہ میں گندم کی سالانہ ضروریات تقریبا38لاکھ ٹن ہے جبکہ مقامی گندم کی پیداوار صرف10لاکھ ٹن ہے اسطرح صوبہ خیبر پختونخواہ حکومت کو28لاکھ گندم کی کمی کا سامنا ہوتا ہے۔ مالی سال 2012-13میں حکومت نے23ہزار7سو58ٹن گندم مبلغ30ہزار روپے ٹن کے حساب سے مقامی کاشتکاروں سے خرید کی، مالی سال2013-14میں 71ہزار6سو40ٹن گندم 31250روپے ٹن کے حساب سے خرید کی، مالی سال2014-15ء میں 2لاکھ48ہزار2سو40ٹن گندم مبلغ32ہزار5سو روپے کے حساب سے خرید کی، مالی سال 2015-16ء میں 2لاکھ8سو 11ٹن گندم 32ہزار5سو روپے میں خرید کی اور مالی سال 2016-17ء میں 278567ٹن گندم بھی32ہزار5سو روپے میں مقامی کاشتکاروں سے خرید کی تھی۔ جبکہ حکومت خیبر پختونخواہ نے مالی سال 2013-14ء میں 5لاکھ ٹن گندم مبلغ37ہزار1سو25روپے میں پاسکو سے خرید کی۔ مالی سال 2014-15ء میں 1لاکھ ٹن گندم 38ہزار12روپے میں پاسکو اور 50ہزار ٹن گندم 35ہزار9سو92روپے میں پنجاب فوڈ سے خرید کی تھی۔ مالی سال 2016-17ء میں 1لاکھ ٹن گندم 32ہزار9سو48روپے کے حساب سے پنجاب فوڈ سے خرید کی تھی۔

٭ صوبہ پنجاب شعبہ زراعت میں نمبر ون
صوبہ پنجاب کا کل رقبہ5کروڑ9لاکھ89ہزار ایکڑ ہے جس میں سے زیر کاشت کل رقبہ3کروڑ9لاکھ78ہزار5سو18ایکڑ ہے ، مزید38لاکھ82ہزار6سو15ایکڑ اراضی کو زیر کاشت لایا جاسکتا ہے جبکہ71لاکھ77ہزار6سو67ایکڑ رقبہ ناقابل کاشت رقبہ ہے۔صوبہ پنجاب میں محکمہ زراعت کے زیر انتظام کل27ریسرچ سنٹر/انسٹیٹیوٹ اور36ذیلی ادارے کام کر رہے ہیں۔ صوبہ پنجاب کے نہری آبپاشی علاقوں میں سیم سے متاثرہ رقبہ 50ہزار ایکڑ ہے جبکہ کلر و تھور سے متاثر رقبہ 21لاکھ ایکڑ ہے ،لاہور ڈویژن میں 5لاکھ32ہزار18ایکڑ اراضی سیم وتھور سے متاثر ہے، جس میں سے ضلع لاہور میں 54ہزار116 ایکڑ، ضلع قصور میں1لاکھ12ہزار75ایکڑاور ضلع شیخوپورہ اور ننکانہ صاحب میں 3لاکھ65ہزار827ایکڑ اراضی ہے۔ سیم و تھور زدہ زمینوں میں سیم کے پانی کو نکالنے کیلئے نالوں کی کھدائی اور ٹیوب ویل لگائے جائیں، زمینوں میں ایسے درخت لگائے جائیں جو کہ زیادہ پانی استعمال کرتے ہوں جیسے سفیدہ ، کیکر اور فراش کے درخت وغیرہ۔ سیم و تھور زدہ زمینوں میں ایسی فصلات کاشت کی جائیں جو کہ زیادہ پانی استعمال کرتی ہوں اور نمکیات کے خلاف قوت مدافعت رکھتی ہوں جیسا کہ چاول ، کلر گراس، فالسہ ، بیر، جامن، امرود وغیرہ شامل ہیں۔ کلر اٹھی زمینوں میں جپسم کے استعمال کو فروغ دیا جائے توزمین کی حالت ٹھیک ہوسکتی ہے۔

٭محکمہ زراعت پنجاب زراعت کی ترقی میں مگن
محکمہ زراعت تجزیہ کی بنیاد پر شور زدہ اور کلر اٹھی زمینوں کی اصلاح کیلئے سفارشات مرتب کرتاہے،زمیندار کی زمین پر تحقیقاتی تجربات کیے جاتے ہیں اور ان تجربات کے نتائج کی بنیاد پر کھادوں کی درآمد، کھادوں کی سفارشات سے متعلق پالیسی بناتے ہیں۔گندم کی بیماریوں پر تحقیقی کام کے علاوہ بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت رکھنے والی اقسام دستیاب ہوتی ہے۔مختلف گھاس جو چارہ جات کے طورپر استعمال ہوتی ہیں، پر تحقیق کی جاتی ہے تاکہ کسان روایتی چارہ جات کے ساتھ ساتھ ان گھاس کی اقسام کو بھی زیر کاشت لاسکیں۔گنے پر بریڈنگ کا کام کیا جاتا ہے مزید برآں گنے کا بیج حاصل کیا جاتا ہے جس سے نئی اقسام دریافت کی جاسکیں جو زیادہ پیداوار اور شوگر کی حامل ہوں۔ باجرے کی زیادہ پیداوار والی اقسام دریافت کرنے پر کام کرنے کے علاوہ باجرہ اور مکئی کی پیداوار بڑھانے کیلئے بارانی علاقے کے کسانوں کی تکنیکی معاونت کی جاتی ہے۔پھلدار پودوں پر تحقیق کے علاوہ کسانوں کو مفت رہنمائی اور ارزاں نرخوں پر پھلدار پودون کی ترقی دار اقسام کے پودے فراہم کئے جاتے ہیں۔جدید ٹیکنالوجی کو کاشتکاروں تک پہنچانا اور اس پر عمل کی ترغیب دینا۔زرعی ٹیکنالوجی کو عام کرنے کیلئے نمائشی پلاٹ لگانا، فارمر ڈے منعقد کرنا اور زرعی لٹریچر زمینداران تک پہنچانا۔زرعی ٹیکنالوجی کو پرنٹ میڈیا اور الیکٹرک میڈیا کے ذریعے زمینداران تک منتقل کرنا۔پھلدار پودا جات اور سبزیات کے فروغ کیلئے اقدامات کرنا۔گورنمنٹ کی مختلف سبسڈی سکیموں کو زمینداران تک پہنچانا۔زرعی ادویات اور کھادوں کے معیار ، ترسیل اور قیمتوں کو کنٹرول کرنا۔زرعی قوانین کی پاسداری کرانا۔نقصان دہ کیڑوں اور بیماریوں سے فصلات کو بچانے کیلئے پیسٹ سکاؤٹنگ کرنا اور صیح مخصوص زرعی ادویات بمعہ ترکیب استعمال سے کاشتکاروں کو آگاہ کرنا تاکہ فصلات کا نقصان کم سے کم ہو۔ کاشتکاروں کو حکومت کی طرف سے دیئے گئے رقبہ اور پیداوار کے اہداف کو پورا کرانا۔ کسانوں کو جدید آبپاشی اور کاشتکاری کی مفت تربیت۔کسانوں کو خالص زرعی ادویات کی فراہمی کیلئے زرعی ادویات کی چیکنگ و سیمپلنگ محکمہ زراعت نے چھوٹے کاشتکاروں جن کا رقبہ12 1/2 ایکٹر سے کم ہے ان کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کو سبسڈی ریٹ 560روپے فی گھنٹہ کے حساب سے بلڈوزر مہیا کرتا ہے، ایسے چھوٹے کاشتکاروں کو ڈیزل محکمہ مہیا کرتا ہے۔ وہ کاشتکاران جن کا رقبہ 12 1/2ایکڑسے زیادہ ہے محکمہ کی پالیسی کے مطابق ایسے کاشتکار100روپے فی گھنٹہ جمع کراتا ہے اس کے علاوہ ڈیزل زمیندار خود مہیا کرتا ہے۔ کاشتکاروں ، کسانوں اور مگس بانوں کو شہد کی یورپی پالتو مکھیوں کی پرورش، ان سے بہتر پیداوار حاصل کرنے کیلئے پرورش کے جدید طریقوں اور عوام الناس میں جدید مگس پانی کا شعور پیدا کرنے کیلئے تربیتی کورس کا انعقاد کیا جاتا ہے۔

٭ حکومت پنجاب کسانوں پر مہربان
زراعت پاکستان کی خوشحالی ،برآمدات بڑھانے کی ضمانت اور زر مبادلہ کمانے کا ذریعہ ہے۔کسان خوشحال ہو گا تو پاکستان ترقی کرے گا۔کسان آگے بڑھے گا۔قومی معیشت مضبوط ہو گی۔حکومت کسانوں کی ترقی ،زراعت کے فروغ او ر فی ایکڑ پیداوار بڑھانے کیلئے شروع کئے گئے انقلابی پروگراموں سے زرعی ترقی کا خواب پورا ہو گا۔ پنجاب میں زراعت کی ترقی اور ترویج کیلئے خادم پنجاب محمد شہباز شریف نے دیگر صوبوں کی نسبت نا صرف زیادہ مراعات دی ہیں۔حکومت پنجاب نے کاشتکارو ں کو1ارب18کروڑ36لاکھ کے زرعی آلات کی50فیصدسبسڈی پر فراہمی کی۔ 14ارب روپے سے ٹیوب ویلز کے لیے بجلی کے رعائتی نرخوں کا اعلان کیا۔ پنجاب میں ایریگیٹڈ ایگریکلچر کی صلاحیت بڑھانے کیلئے رواں سال4ارب58کروڑ روپے مختص کیے۔ 40ارب روپے سے کپاس اور چاول کے چھوٹے کاشتکاروں کو فی ایکڑ 5000 روپے امدادی رقم کی ادائیگی کی گئی۔ حکومتی اقدامات کی نتیجے میں ڈی اے پی اور یوریا کھاد کی قیمت میں 500سے 700روپے تک کی کمی کی۔ زراعت کے شعبے کیلئے ریکارڈ144 ارب 39 کروڑ روپے کی رقم مختص کیے جو کل بجٹ کا 12.5فیصد ہے۔ زرعی شعبہ کیلئے قرض کی سہولت 300 ارب سے بڑھا کر500 ارب کر دی گئی جس میں ہر سال 100 ارب کا اضافہ ہو گا۔ زرعی قرضوں پر مارک اپ کی شرح میں 2فیصد کی بے مثال کمی کی گئی ۔ زرعی اجناس پھلوں ، سبزیوں اور مچھلی کی تجارت اور کولڈ چین کی حوصلہ افزائی کیلئے 3سال کی انکم ٹیکس چھوٹ دی گئی۔ پنجاب بھر کے کاشتکارو ں میں 1ارب 18کروڑ 36لاکھ روپے کے زرعی آلات50فیصد سبسڈی پر دینے کے پروگرام پر عملدرآمدجاری ہے،پروگرام کے تحت کاشتکاروں کوسبسڈی پر زرعی آلات کی فراہمی سے مشینی کاشت کو فروغ ملا گا اور پیداوار میں اضافہ ہوا۔ پنجاب کے36اضلاع کی 2486یونین کونسلز میں قرعہ اندازی کے ذریعے خوش نصیب کاشتکاروں کا انتخاب ہوا، ہر یونین کونسل میں جیتنے والے خوش نصیب کاشتکار کو علاقے اور فصل کی ضرورت کے مطابق زرعی آلات ڈسک ہیرو، روٹاویٹر، ربیع ڈرل، چیزل ہل، شوگر کین رجراور شوگر کین نائف پر 50فیصد سبسڈی پر دیا گیا۔ کسانوں کی بنیادی ضرورت کھاد کی قیمتیں کم کرنے کے لئے حکومت نے 20 ارب روپے کا فنڈ قائم کیا ہے جس میں صوبائی اور وفاقی حکومتیں برابر کی حصہ دار ہیں، پوٹاشیم اور فاسفیٹ کھاد زمین کی پیداواری صلاحیت کو بڑھانے میں اہمیت رکھتی ہیں ان دونوں کھادوں کی قیمتوں میں فی بوری کم از کم 500 روپے کمی کی گئی جبکہ حکومتی اقدامات کی نتیجے میں ڈی اے پی اور یوریا کھاد کی قیمت میں کل 500سے 700روپے تک کی کمی واقع ہوئی ہے، یوریا کھاد کی قیمتیں مستحکم رکھنے کے لئے حکومت ہر سال سرکاری خرچ پر یوریا درآمد کر تی ہے جو کسانوں کو سستے داموں فراہم کی جاتی ہے۔ ٹیوب ویلوں پر ڈیزل اور بجلی کے اخراجات کو کم کرنے کے لئے حکومت نے کسانوں کو سولر ٹیوب ویل نصب کرنے یا موجودہ ٹیوب ویل کو شمسی توانائی پر تبدیل کرنے کے لئے بلا سود قرضے فراہم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے اور ان قرضوں پر سات سال کا مارک اپ وفاقی حکومت ادا کرے گی جس پر ساڑھے 14 ارب روپے خرچ ہوں گے۔صوبہ پنجاب کا اہم ملکی فصلوں میں حصہ 70فیصد ہے، اسی طرح گندم کا 76فیصد، کپاس کا 74فیصد، 56فیصد دھان، 65فیصد گنا، 78فیصد مکئی، سٹرس کا 95فیصد اور آم کی 66فیصدپیداوار پنجاب سے حاصل ہوتی ہے۔

٭ گرین ٹریکٹر سکیم
صوبہ پنجاب میں 5ٹریکٹر ساز کارخانے ہیں ، ضلع شیخوپورہ میں ملت ٹریکٹر لمیٹڈ اور فیکٹو بیلارس پرائیویٹ لمیٹڈ، ضلع ڈیرہ غازی خان میں الغازی پرائیویٹ لمیٹڈ، ضلع لاہور میں خیبر ٹریکٹر پرائیویٹ لمیٹڈ اور ضلع قصور میں پاک پائی شان ٹریکٹر لمیٹڈ ٹریکٹر ساز کمپنیاں ہیں۔ مالی سال 2009-13ء تک 4سال میں پنجاب حکومت نے گرین ٹریکٹر سکیم کے تحت 30ہزار6ٹریکٹر غریب کاشتکاروں میں 2لاکھ روپے فی ٹریکٹرسبسڈی پر فراہم کئے ۔

٭پنجاب سیڈ کارپوریشن
پنجاب سیڈ کارپوریشن ایک نیم خود مختار ادارہ ہے، جس کا قیام پنجاب سیڈ کارپوریشن ایکٹ مجریہ1976کے تحت عمل میں لایا گیا تھا، یہ ادارہ اپنے مالی وسائل سے مختلف فصلات کے معیاری بیج تیار کرتا ہے اور انتہائی کم نرخوں پر تصدیق شدہ بیج کسانوں کو فراہم کرتا ہے، ادارہ مختلف اخراجات مثلا بیج کی تیاری، انتظامی امور پر اٹھنے والے اخراجات و دیگر گورنمنٹ ٹیکسز/محصولات کی ادائیگی کے بعد 3-5 %منافع لیتا ہے تاکہ محکمہ سیڈ کارپوریشن مستقل بنیادوں پر فعال رہ سکے۔اس کے علاوہ صوبہ پنجاب میں سیڈ مہیا کرنے کی 600رجسٹرڈ کمپنیاں ہیں ، جو وفاقی حکومت کے محکمہ فیڈرل سیڈ سرٹیفیکیشن و رجسٹریشن کے ماتحت ہیں ۔ ان کمپنیوں کو بین الاقوامی معیارکے مطابق ٹیسٹ کرکے رجسڑکیا جاتا ہے اور صرف منظورشدہ بیج تیارکرنے کی اجازت دی جاتی ہے، البتہ جو کمپنیاں یا افراد غیر قانونی کاروبار میں ملوث ہوتے ہیں ان کے خلاف فیڈرل سیڈ ایکٹ1976 کے تحت کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے۔

٭ پنجاب فوڈاتھارٹی
پنجاب فوڈاتھارٹی ضلع لاہور میں مورخہ 2جولائی 2012ء کو پنجاب فوڈ اتھارٹی ایکٹ 2011کے تحت معرض وجود میں آئی تاکہ لوگوں تک صاف اور معیاری اشیاء خوردونوش کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکے۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی کو مالی سال2015-16ء میں 12کروڑ89لاکھ75ہزار روپے، مالی سال2016-17ء میں 24کروڑ70لاکھ70ہزار5سو روپے اور مالی سال 2017-18ء میں 2ارب76کروڑ97لاکھ4ہزارروپے بجٹ ملا تھا۔لاہور میں پنجاب فوڈ اتھارٹی نے سال2014میں 1لاکھ4ہزار9سو99، سال2015ء میں 50ہزار9سو81اورسال2016ء میں 26ہزار5سو48مقامات بشمول ہوٹلوں اور شادی ہالز پر چھاپے مارے ہیں۔ 14اگست2017ء کے نوٹیفکیشن کے بعدپنجاب فوڈاتھارٹی کا دائرہ کار پورے پاکستان تک ہوگیا۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی میں گریڈ17 اور اس سے اوپر کی کل اسامیاں 325ہیں ، پنجاب فوڈ اتھارٹی میں فوڈ سیفٹی آفیسران کی تعداد74 ، اسسٹنٹ فوڈ سیفٹی آفیسران کی تعداد 158 ہے جبکہ کے ٹوٹل ٹیکنیکل آفیسران کی تعداد 236ہے۔ گذشتہ ماہ پنجاب فوڈ اتھارٹی نے صوبہ بھر میں تحصیل اور یونین کونسل کی سطح پر کاروائیاں کرتے ہوئے زہریلے پانی سے اگنے والی 2524 کنال سبزیاں ہل چلا کر تلف کر دیں۔ڈائریکٹر جنرل پنجاب فوڈ اتھارٹی نورالامین مینگل کی سربراہی میں فوڈ سیفٹی اور ویجیلنس ٹیم نے صوبہ پنجاب بھر میں تحصیل اور یونین کونسل کی سطح پر گندے نالوں، انڈسٹریل ویسٹ اور دیگر کیمیکل ملے پانی سے سیراب ہونے والے علاقوں میں کاروائیاں کرتے ہوئے لاہور میں 630 کنال، فیصل آباد میں 578 ، ملتان میں 210، راولپنڈی اور گوجرانوالہ میں مجموعی طور پر 278 کنال سبزیاں تلف کیں۔

٭صوبہ پنجاب میں شوگر ملیں
صوبہ پنجاب میں ٹوٹل 47شوگر ملیں ہیں جن میں سے43شوگر ملیں چالو ہیں، کرشنگ سیزن 2013-14میں پنجاب کی 44چالو شوگر ملوں نے مبلغ143.75ارب روپے کا گنا خرید کیا تھا، کرشنگ سیزن2014-15ء میں پنجاب کی 43چالو ملوں نے مبلغ133.982ارب روپے کا گنا خرید کیا تھا۔ مالی سال 2016-17ء میں پنجاب کی 41شوگر ملوں نے مبلغ1کھرب30ارب73کروڑ5 لاکھ76 ہزار3 سو32 روپے کا گنا خریدا تھا۔پنجاب شوگر کنٹرول رول 1950کی شق14(2)کے تحت ہر مل کاشتکار کو15 یوم کے اندر کسان کو ادائیگی کرنی کی پابندی ہے، اگر کوئی شوگر مل میعاد اندر15دن کاشتکار کو ادائیگی کرنے میں ناکام رہے تو پنجاب شوگر کنٹرول رول 1950کی شق14(10)کے تحت 11% منافع کے ساتھ کاشتکار کو ادائیگی کرنے کی پابند ہے، اگر کوئی شوگر مل گنے کے کاشتکاروں کو بروقت ادائیگی نہ کرے تو اس مل کے خلاف پنجاب شوگر فیکٹریز کنٹرول ایکٹ1950کی شق6(2)اور21کے تحت قانونی کارروائی میں لائی جاتی ہے۔مالی سال 2013-14ء میں 286.74ملین ڈالر کی شوگر ایکپسورٹ ہوئی، مالی سال 2014-15ء میں 322.10ملین ڈالر، مالی سال 2015-16ء میں 132.28ملین ڈالر اور مالی سال 2016-17ء میں 161.3ملین ڈالر کی شوگرایکسپورٹ ہوئی۔

٭ حکومت پنجاب گندم کی خریداری و ذخیرہ
محکمہ پنجاب میں ہر سال تقریبا 40لاکھ میٹرک ٹن گندم خرید کرنے کا ہدف مقررکیا جاتا ہے، جبکہ حکومت کے پاس گندم کو ذخیرہ کرنے کی معیاری ذخیرہ کاری گنجائش 21لاکھ35ہزار9سو میٹرک ٹن ہے، حکومت کے پاس1918ہاؤس نائب گودام ہے جن میں 16لاکھ99ہزار میٹرک ٹن گندم ذخیرہ ہوتی ہے ، 21سائیلوز میں 82ہزار میٹرک ٹن، 1151بنز میں 41ہزار4سو میٹرک ٹن اور211بنی شیل میں 3لاکھ13ہزار5سو میٹرک ٹن گندم ذخیرہ ہوسکتی ہے۔ حکومت پنجاب نے مالی سال 2006-07ء میں 2568803میٹرک ٹن گندم خرید کی، مالی سال2007-08ء میں 2557401میٹرک ٹن ، مالی سال2008-09ء میں 5781425میٹرک ٹن، مالی سال 2009-10ء میں 3721797میٹرک ٹن، مالی سال 2010-11میں 3191000میٹرک ٹن، مالی سال 2011-12ء میں 2784000میٹرک ٹن، مالی سال2012-13ء میں 3676650میٹرک ٹن، مالی سال 2013-14میں 3743340میٹرک ٹن، مالی سال 2014-15ء میں 2990237میٹرک ٹن اور مالی سال 2015-16ء میں 3234044میٹرک ٹن گندم خرید کی تھی۔ حکومت پنجاب نے مالی سال 2013-14ء میں گندم کی خریداری کیلئے 1158ارب میں مختص کیے گئے تھے ، گندم خریداری کیلئے 376مراکز قائم کیے گئے تھے جن میں سے 193مستقل اور183عارضی مراکز تھے۔ حکومت گندم خریداری کیلئے 20ہزار گانٹھیں یعنی60لاکھ بیگ وزن 100کلو گرام جیوٹ بیگ خرید کیے تھے اور 47.389گانٹھیں یعنی 4کروڑ73لاکھ80ہزار تھیلا وزن 50کلوگرام پولی پراپلین تھیلا خرید کیے تھے۔ 50بوری تک گندم کی قیمت کی فوری ادائیگی بذریعہ بنک کسان کو نقد ادا کی گئی جس کے لئے اکاؤئنٹ کا کھولنا ضروری نہ تھا، گندم کی قیمت کے علاوہ 7.50روپے فی 100کلوگرام ڈلیوری چارجز بھی ادا کئے گئے تھے۔ 50بوری تک باردانہ شخصی ضمانت پر دیا گیا تھا۔ کاشتکاروں کی فوری ازالہ کیلئے ڈسٹرکٹ ، تحصیل اور خریداری مراکز کی سطح پر کمیٹیاں تشکیل دی گئیں ، جو موقع پر کاشتکار کی شکایت کا ازالہ کرتی تھیں۔ گندم کی خرید اری کیلئے 45دن مقرر کئے گئے تھے۔ حکومت پاکستان نے مالی سال 2012-13میں 1لاکھ69ہزار4سو3میٹرک ٹن گندم 53ملین ڈالر میں ایکسپور ٹ کی تھی، مالی سال 2013-14ء میں 20ہزار37میٹرک ٹن گندم 7ملین ڈالر ،مالی سال2014-15ء میں 8ہزار2سو86میٹرک ٹن گندم 2.9ملین ڈالر اور مالی سال2015-16ء میں 450میٹرک ٹن گندم 0.16ملین ڈالر میں ایکسپورٹ کی تھی، گندم سری لنکا،انڈونیشیا، ملیشیا، افغانستان،میانمار ، تھائی لینڈ، متحدہ عرب امارات، ویت نام، یمن، سنگاپور، اومان، ہانگ گانگ، آسٹریلیا، فلپائن، قطر میں ایکسپورٹ کی گئی۔

٭کھالہ جات کی اصلاح وپختگی
پنجاب میں 58ہزارنہری کھالا جات ہیں، جس میں سے45ہزار کھال ابتک تقریبا پختہ کئے گئے ہیں۔ کھالہ جات کی اصلاح وپختگی مندرجہ ذیل طریقے سے ہوتی ہے۔شعبہ اصلاح آبپاشی کا عملہ زیر اصلاح کھال پر ایک انجمن اصلاح آبپاشاں تشکیل دیتا ہے جو کھال کے حصہ داروں پر مشتمل ہوتی ہے جسے اصلاح آبپاشی اور انجمن آبپاشاں آرڈیننس /ایکٹ مجریہ 1981کے تحت رجسٹرڈ کیا جاتا ہے۔انجمن آبپاشاں متعلقہ آفیسر سے ایک تحریری معاہدہ کرتی ہے جس میں محکمہ اور کاشتکاروں کے مابین فرائض اور ذمہ داریوں کا تعین درج ہوتا ہے، اس میں رقوم کی ادائیگی سمیت دیگر امور کی تفصیل درج ہوتی ہے۔ اصلاح آبپاشی کا عملہ انجمن آبپاشاں کے تعاون سے متعلقہ کھال کا سروے مکمل کرکے تعمیری لاگت کا تخمینہ تیار کرتا ہے جس کی مشاورتی ادارہ جو کہ اس وقت نیسپاک ہے تصدیق کرتا ہے جبکہ اس کی فنی منظوری مجاز اتھارٹی دیتی ہے۔انجمن آبپاشیاں کھال کو گرادیتی ہے اور کھال کے کناروں سے جملہ جھاڑیاں ، سرکنڈہ اور جڑی بوٹیاں صاف کرکے اسے محکمانہ معیار اور تصریحات کے مطابق نودوبارہ تعمیر کرتی ہے اور پختہ کھال کیلئے بیڈ تیار کرتی ہے۔ کچے کھال کی محکمانہ معیار کے مطابق اصلاح کے بعد اس میں منظور شدہ جگہوں پر پختہ نکے نصب کئے جاتے ہیں اور پلیاں تعمیر کی جاتی ہیں۔ کھال کو منظور شدہ ڈیزائن کے مطابق منتخب جگہوں سے پختہ تعمیر کیا جاتا ہے ، اصلاح آبپاشی کا عملہ کھال کی تعمیر کیلئے فنی معاونت فراہم کرتا ہے اور کام کے فنی معیار کو قائم رکھنے کیلئے کھال کا معائنہ کرتا رہتا ہے۔ کھال کے معیار اور تصریحات کے مطابق تکمیل کی تصدیق مشاورتی ادارے کے بعد ضلعی افسر کی رپورٹ کے بعد ہی مصدقہ تسلیم کی جاتی ہے۔ کھال کی پختگی کیلئے مطلوبہ رقم انجمن اصلاح آبپاشاں کے نامزد نمائندگان کے مشترکہ اکاؤنٹ میں 3اقساط میں مندرجہ بالا شرائط پوری کرنے کے بعد جاری ہوتے ہیں۔ کھال پکا کرنا میں راج، مستری اورمزدور کا خرچہ کمیٹی کے ذمہ ہوتا ہے جبکہ سامان محکمہ نے دینا ہوتا ہے۔ تقریبا 66% خرچہ محکمہ زراعت ادا کرتا ہے جبکہ 33%خرچہ کمیٹی کے ذمہ ہوتا ہے۔کھال کی پختگی کا اوسطا خرچ فی میٹر لاگت تقریبا1300سے1500روپے تک ہے۔

٭ محکمہ زراعت کے ضلعی دفاتر
ضلع گجرات میں محکمہ زراعت کے کل132دفاتر ہیں، 132دفاترمیں کسانوں کی خوشحالی اورفصلوں کی بہتری کیلئے مالی سال2015-16ء میں کل10کروڑ21لاکھ67ہزار1سو37روپے خرچ ہوئے۔ ضلع میں محکمہ زراعت کے پاس کل200کنال اراضی ہے جو مکمل سرکاری دفاتر پر مشتمل ہے۔ محکمہ زراعت نے ضلع گجرات میں مالی سال2015-16ء میں گندم ، دھان، سورج مکھی کے فارمر ٹریننگ پروگرام کے تحت کل 2532ٹریننگ پروگرام کئے گئے اور کل56ہزار75زمینداروں کو گندم ، دھان ، کماداور سورج مکھی کی کاشت کیلئے معیاری بیج کی فراہمی اور طریقہ کاشت اور فصل پر بیماریوں کے تدارک کے ساتھ ساتھ دوسری فصلوں کے بارے میں اہم مشور ہ جات دیئے گئے، اس کے علاوہ 1043گاؤں میں بیماریوں سے پاک بیج گندم کے4172بیگ 50کلوگرام کے زمینداروں میں مفت تقسیم کیے۔ ضلع شیخوپورہ میں محکمہ زراعت کے 07شعبہ جات کے کل130دفاتر ہیں جہاں 707ملازمین کام کر رہے ہیں۔ ضلع میں محکمہ زراعت کے پاس کل 705ایکڑ13کنال14مرلے جگہ ہے جس میں 76ایکڑ16کنال4مرلے جگہ دفاتر کے زیر استعمال ہے اور بقایا 628ایکڑ17کنال زرعی مقاصد /تحقیق/اجناس کی خرید و فروخت کیلئے استعمال ہورہی ہے۔ راولپنڈی میں محکمہ زراعت کے تمام شعبہ جات کے کل 47دفاتر کام کرتے ہیں جن میں 1096ملازمین کام کرتے ہیں۔ تحصیل ٹیکسلا ضلع راولپنڈی میں مالی سال 2015-16میں 176.300میٹرک ٹن گندم مبلغ57لاکھ42ہزار6سو1روپے میں خرید کی۔ضلع فیصل آباد میں محکمہ زراعت کے مختلف شعبہ جات کے60دفاتر ہیں، جو فیصل آباد،جڑانوالہ، سمندری ، تاندلیانوالہ، چک جھمرو اورماموں کانجن میں چل رہے ہیں، فیصل آباد میں محکمہ زراعت کے کل2640ملازمین ہیں۔ محکمہ زراعت ضلع نارووال میں منظور شدہ اسامیاں 395ہیں۔
 

Zeeshan Ansari
About the Author: Zeeshan Ansari Read More Articles by Zeeshan Ansari: 79 Articles with 81181 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.