سوالیہ نشان؟

ماہره کالج کے لیے نکلنے کو تیار تھی. سکن ٹائٹ جینز، سلیو لیز گہرے گلے کی ٹی شرٹ. اچانک سیل فون کی گھنٹی بجی تو اس کی سہیلی نمرہ دوسری طرف تھی. اس نے چیختے ہوئے کہا :
تم بھول گئی آج ہم حقوق نسواں کے لیے پروٹیسٹ کر رہے ہیں. "
ماہره نے فوراً کہا کہ وہ دس منٹ میں پہنچ رہی ہے.
حقوق نسواں کا سوال ہو اور وہ اس کی سہیلیوں کا ٹولہ موجود نہ ہو. مقررہ جگہ پر پہنچ کر بڑی تن دہی سے ماہره اور اس کی دوستوں نے وہ بینر ہلائے جس پر موٹا موٹا لکھا تھا :
"میرا جسم! میری مرضی. "
شام کو سب دوست تهک ہار کر برگر جوائنٹ میں اکٹھے ہوئے فاسٹ فوڈ اور سگریٹ کے مرغولوں میں اپنی آج کی کامیابی پر خوشی مناتے رہے. ماہره نے بڑے فلسفیانہ انداز میں کہا :
ہماری سوسائٹی کو اب جاگ جانا چاہئے. ہم عورتوں کو پورا حق ہے کہ ہم جیسے چاہے زندگی گزاریں. "
سننے والے بھی وجد میں سر دهننے میں مصروف تھے. ابھی کچھ عرصہ پہلے انهوں نے اپنے تعلیمی ادارے میں اپنے کپڑوں پر سرخ روشنائی لگا کر بھی ایک مظاہرہ کیا تھا اور میڈیا میں ان کو بہت کوریج ملی تھی.
ماہره کی نظر اچانک ہی اپنی ساتھ والی ٹیبل پر بیٹھی خواتین پر پڑی. ان تمام خواتین کے سر پر حجاب تھا اور آہستہ آواز میں وہ آپس میں بات چیت میں مصروف تھیں. آج کے پروٹیسٹ کی کامیابی اور مرد حضرات کو تلملاتے دیکھ کر اس کا دماغ ساتویں آسمان پر پہنچا ہوا تھا. منہ بنا کر بولی :
ان جیسی بزدل اور قدامت پسند عورتوں نے باقی عورتوں کی زندگی عذاب کردی ہے. ایسی عورتیں ہماری آزادی کی راہ میں رکاوٹ ہیں.
اس کے پورے گروپ نے ان خواتین پر نعرے کسنے شروع کردیئے.
اچانک اس دوسرے گروہ سے ایک عورت کهڑی ہو کر شستہ انگریزی میں بولی :
"میرا نام اینا تھا میں کینیڈا کی باسی ہوں.الحمد اللہ مجھے اسلام قبول کیے پانچ سال ہوگئے ہیں.میرا اسلامی نام فاطمہ ہے. میں آپ کے تمام اعتراضات کا جواب دینا چاہونگی. جو ہمارا حجاب اور لباس دیکھ کر آپ سب نے کئے ہیں."
ماہره اور اس کی دوستیں بولنے والے کی نیلی آنکھیں، شستہ انگریزی سن کر چکرا گئی تھیں.
عائشہ (اینا) نے مسکرا کر کہا :
آپ خواتین اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ مغرب کی عورت آزاد ہے.مغرب کی عورت سے بڑا مظلوم کوئی نہیں. صرف ایک سکرٹ یا پینٹ پہننے سے یا دو چار بوائے فرینڈز بدلنے کی آزادی، آزادی نہیں. یہ درحقیقت غلامی ہے. مغرب کی عورت دل بہلانے کا سامان ہے اس کو وہ عزت اور تحفظ حاصل نہیں جو آپ خواتین کو اسلام دیتا ہے. مغربی معاشرے. میں گهر کی اکائی ٹوٹ گئی ہے. ہمارے بیشتر بچے عورتیں بطور سنگل مام کے پال رہی ہیں.ہمارے بیشتر بچوں کے باپوں کا نام ان کی ماووں کو بھی نہیں پتا.شراب اور نشے میں ڈولتی، ننگے لباس میں ملبوس مغرب کی عورت تنہا اور دل گرفتہ ہے. اس کے سر پر کمانے سے لے کر بچے پالنے کی زمہ داری تک اس کے سر پر ہے. بڑهاپا اس کا اولڈ ایج ہوم میں تنہا گزرتا ہے. وہ تنہا پروان چڑھتی ہے. اس کو گھر میں بھی ڈومیسٹک وائلنس کا سامنا ہے. مجھے تو اسلام نے فلاح کا راستہ دکھایا ہے. یہ کپڑے، یہ حجاب کسی مرد کا حکم نہیں یہ تو میرے اللہ کا حکم ہے.

قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ
آپ کہہ دیں کہ میرے پروردگار نے بےحیائی کے کاموں کو حرام کیا ہے، ان میں سے جو
ظاہر ہوں (ان کو بھی) اور جو چھپے ہوئے ہوں (ان کو بھی)
اعراف – 33


نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ سے زیادہ اور کوئی غیرت مند نہیں ہے۔ اسی لیے اس نے بےحیائیوں کو حرام کیا خواہ ظاہر میں ہوں یا پوشیدہ۔
صحیح بخاری - 4637

اِنَّ الَّذِیۡنَ یُحِبُّوۡنَ اَنۡ تَشِیۡعَ الۡفَاحِشَۃُ فِی الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ۙ فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ وَ اَنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ
جو لوگ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانے کے آرزو مند رہتے ہیں ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہیں اللہ سب کچھ جانتا ہے اور تم کچھ بھی نہیں جانتے ۔
سورہ نور.
عائشہ مسکرائی اور بولی :
جو دین عورت کی میت کا بھی سر ڈھانپتا ہے، وہ کسی مرد کی خوشی کے لیے نہیں بلکہ اللہ کے احکامات کی پیروی ہے. میں جب سے اسلام کے دائرے میں آئی ہوں تو جو عزت و احترام مجھے ملا ہے، میری زندگی اس سے عاری تهی. آپ لوگوں کو تو مذہب اسلام نے جو آزادی اور خودمختاری دی ہے مجھے تو وہ کہیں اور نظر نہیں آتی.
عائشہ (اینا) کے ان باتوں پر ماہره اور اس کی دوستوں کے پاس کوئی جواب نہیں تھا. صرف ایک سوالیہ نشان ان کی آنکھوں کے آگے گهوم رہا تھا.وہ اپنی اس ڈھٹائی کا کیا جواب ایک نومسلم مغربی لڑکی کو دیں.

Mona Shehzad
About the Author: Mona Shehzad Read More Articles by Mona Shehzad: 168 Articles with 263706 views I used to write with my maiden name during my student life. After marriage we came to Canada, I got occupied in making and bringing up of my family. .. View More