سندھ کی جامعات کو بچانا ہے

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جنا ح نے 25مارچ1948کو چٹاگانگ میں سرکاری افسران سے خطاب میں کہا تھا کہ ’’آپ کو ایک ملازم کی حیثیت سے اپنے فرائض سرانجام دینے ہیں آپ کا سیا ست اور سیاسی جماعتوں سے کوئی سروکار نہیں ہے۔آپ کی کسی سیاسی جماعت سے کوئی وابستگی نہیں ہونی چاہیے۔ آپ صرف ریاست کے ملازم ہیں۔بدقسمتی سے قائداعظم کو قیام پاکستان کے بعد ملک کا آئینی ڈھانچہ قائم کرنے کیلئے زیادہ مہلت نہیں مل سکی۔ ایک سال کی قلیل مدت میں ناسازی طبیعت کے باوجود آپ نے ریاست کوقانون کے مطابق چلانے کے لئے رہنما اصول بیان کردئیے تھے جن پر عمل کرکے ہی پاکستان کو ایک ایسی ریاست بنایا جاسکتا ہے جو اپنے شہریوں کی فلاح و بہبود اور تحفظ کا فریضہ انجام دے سکتی ہے۔

سرکاری ملازمین کی ریاست سے وفاداری اولین شرط ہے جس کے لئے ضروری ہے کہ صوبائی اور وفاقی اداروں میں چھوٹے بڑے تمام گریڈ کے ملازمین کا تقرر’’ وفاقی اور صوبائی پبلک سروس کمیشن‘‘ کے ذریعے میرٹ پر کیا جائے۔ مگر بدقسمتی سے گذشتہ دو دہائیوں سے منصفانہ اور غیرجانبدارانہ انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہوسکا۔ ان اسمبلیوں میں موجود سیاسی جماعتیں بھی انتخابات کی شفافیت پر عدم اعتماد کا اظہار کر چکی ہیں اور ان انتخابات کے ذریعے حکومتوں کے قیام میں اندرونی اور بیرونی مداخلت اور آشیرواد کو واضح طور پر محسوس کیا گیا تھا جس کی وجہ سے ملک بھربالخصوص صوبہ سندھ میں بدعنوانی ، اقرباء پروری اور رشوت خوری بڑی تیزی سے پروان چڑھی ہے۔

شہید بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعدسابق صدر آصف علی زرداری کی قیادت میں پیپلز پارٹی کی چوتھی وفاقی حکومت میں ’’صوبائی خود مختاری ‘‘ کے نام پر دراصل ’’صوبائی کرپشن بل‘‘ پاس کیا گیا تھا۔پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے اپنی شخصیت پر بمبینو سنیما کی سرگرمیوں کے پڑنے والے اثرات سے نکلنے کی کبھی کوشش نہیں کی جس کا خمیازہ پاکستان کے عوام نے ہی نہیں بھگتا ہے بلکہ پاکستان پیپلز پارٹی کا مقام اور شہید بے نظیر بھٹو کی زندگی بھی اس سے متاثر ہوئی ہیں۔ دیہی اکثریت کی بنیاد پر صوبہ میں مسلسل حکومت بنانے کا مقصد حاصل کرنے کیلئے گذشتہ دس سالوں میں بہت بڑے پیمانے پر سندھ پولیس سمیت دیگر تمام صوبائی اداروں میں سیاسی بنیادوں، اقرباء پروری اور رشوت کے عوض بھرتیاں کی گئی ہیں تاکہ عام انتخابات میں دھاندلی کے ذریعے برسراقتدار آنے میں کوئی رکاوٹ نہ رہے۔پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن جسے زرداری اور ن لیگ کہنا زیادہ بہتر ہوگا اس وقت جمہوریت میں موروثی سیاست اور اقرباء پروری کی بدترین مثالیں ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے سابقہ پانچ سالہ دور میں پی آئی اے اور اسٹیل مل جیسے قومی ادارے تباہ کرنے کے بعد اب سندھ کی جامعات کو تباہ کرنے کیلئے حملہ کیا گیا ہے تاکہ عام شہریوں کے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے اعلیٰ سرکاری عہدوں تک نہ پہنچ سکیں اور ان کے اقتدار اور کرپشن کی راہ میں معمولی سی بھی رکاوٹ نہ رہے۔صوبوں میں گورنروں کا تقرر وفاق کے نمائندے کی علامت کے طور پر کیا جاتا ہے۔ صوبائی خودمختاری کے نام پر پیپلز پارٹی کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے جو وہ صوبہ سے وفاق کی علامتوں کو مٹانے میں مصروف ہے۔

پاسبان کی سیاست عام آدمی کی حالت بہتربنانے کیلئے ہے اس لئے ہم نے سندھ یونیورسٹیوں کے قانون میں غیرجمہوری انداز میں ترمیم2018 کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں آئینی پٹیشن2018/2009 دائر کردی ہے ۔ پاسبان نے درخواست میں موٗقف اختیار کیا ہے کہ اس بل کی منظوری خلاف ضابطہ حاصل کی گئی ہے کیونکہ سندھ اسمبلی کا فورم نا مکمل تھا۔ صرف 28ممبران نے منظوری میں حصہ لیا تھا جو کہ خلاف ضابطہ ہے۔سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1973میں یونیورسٹیز ایکٹ کے تحت گورنر کی معرفت وفاق کے کنٹرول میں دیا تھا ۔سندھ اسمبلی کا اقدام وفاقی اختیارات سے بغاوت کے مترادف اور اعلیٰ تعلیم کے خلا ف سازش ہے جس کے ذریعے شہریوں پر اعلیٰ تعلیم کے دروازے بند کرنا مقصود ہے اورجس سے کرپشن کو فروغ ملے گا ۔درخواست میں یہ موٗقف بھی اختیار کیا گیا ہے کہ سندھ کی جامعات کو سیاسی دباؤ سے آزاد رکھا جائے تاکہ نوجوان نسل کے مستقبل کو محفوظ بنایا جاسکے اور جامعات کے انتظام کوبہتر طور پر چلانے کیلئے تجربہ کار اور ماہر تعلیم وائس چانسلرز تعینات کیئے جاسکیں ۔جن میں قومی سطح پر معروف تین اسکالرز ، سپریم کورٹ کے دو ججز اور اس شعبہ کے دوماہر ارکان شامل ہونے چاہئیں۔

جب تک ہم اپنی درسگاہوں کو خودمختاری نہیں دیں گے ہمارے نوجوانوں کا مستقبل خطرے میں رہے گا۔ یونیورسٹیوں کو وزیر اعلی کے مکمل کنٹرول میں دینے سے اعلیٰ تعلیم کا نظام زوال پذیر ہوگا۔ دنیا بھر میں یونیورسٹیوں کو خودمختاری دی جاتی ہے اورانہیں چلانے کیلئے بدعنوان اور کرپٹ سیاستدان نہیں بلکہ اعلیٰ ترین ماہرین تعلیم اوراسکالرزمقرر کئے جاتے ہیں۔ سندھ کی سرکاری یونیورسٹیوں میں سیاسی بنیادوں پر نااہل افراد کی ہول سیل بھرتی نے یونیورسٹیوں کو کرپشن اور بدانتظامی کے دوہرے عذاب میں مبتلا کردیا ہے۔ نیب اور دیگر نگران ادارے صوبائی محکموں میں اربوں روپے کی بدعنوانی کی تحقیقات کر رہے ہیں جن میں کراچی ، سندھ ، خیرپور اور نوابشاہ یونیورسٹیاں شامل ہیں۔ وزیر اعلی کی ما تحتی میں یونیورسٹیز میں کرپشن کے نئے سیلابی دروازے کھولنے کا موقع ملے گا کیونکہ سندھ میں پاکستان کے کسی دوسرے صوبہ کے مقابلے میں پہلے سے کہیں زیادہ بدعنوانی، اقرباء پروری اور بدانتظامی پائی جاتی ہے۔ اعلیٰ تعلیم کو فروغ دے کر ہی سندھ اورپورے پاکستان کی تعمیرنو کی جاسکتی ہے اس لئے سندھ کی جامعات کو بچانا ہے۔
 

Altaf Shakoor
About the Author: Altaf Shakoor Read More Articles by Altaf Shakoor: 2 Articles with 1167 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.