مفت کتابوں کا زہر - 2

سولہواں سوال۔پاکستان کے سکولوں میں پڑھانے والے سائنس اساتذہ،کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھانے والے لیکچرارز اور پروفیسرزسائنس پر کتابیں کیوں نہیں لکھتے؟کیا انگریز مصنفین کی سائنس پر لکھی ہوئی کتابیں بطور نصاب پڑھانا ہمارے ڈاکٹروں اور پروفیسروں کی اہلیت و قابلیت پر سوالیہ نشان نہیں ہے؟کیا یہ لوگ اس قابل نہیں ہیں کہ اپنے تعلیمی اداروں کے لیے خود نصاب تحریر کر سکیں؟کیا یہ بات ہمارے لیے باعث ندامت نہیں ہے؟کیا یہ علمی محتاجی و بے مائیگی کی بد ترین مثال نہیں ہے؟ یہ لوگ کتابیں نہیں لکھیں گے تو اور کون لکھے گا؟ کیا ان لوگوں نے اپنے پاؤں پر نہ کھڑا ہونے کا پختہ اور دائمی فیصلہ کر لیا ہے؟علمی ،تحقیقی اور تخلیقی مسکنت کے اس لق ودق صحرا میں رحمت خداوندی کی بارش کیونکر برسے گی؟اپنے دماغوں کو استعمال نہ کرنے والی قوم کو خدا کیونکر ذلّت ومسکنت کے گڑھوں سے نکالے گا؟دوسروں کی محنت ، تحقیق اور جستجو پر تکیہ کرنے والی اور دوسرون کے دماغوں سے سوچنے والی قوم کس طرح ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو سکتی ہے؟ غوروفکر کی دولت سے تہی دست قوم پر اپنے انعامات کی بارش کرنے کا خدا نے کہاں وعدہ کیا ہے؟

بڑی کلاسوں کی سائنسی نصابی کتب ڈالروں میں ان کی منہ مانگی قیمت ادا کرکے بیرون ممالک سے منگوائی جاتی ہیں۔ کیا خود انحصاری اور خود کفالت یہ نہیں کہ اپنی نصابی اور ہم نصابی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے وطن عزیز کے لوگ خود کتابیں تحریر کریں؟اور وہ رقم جو کتابوں کی صورت میں ان ممالک کو دی جاتی ہے اسے تعلیم و تحقیق کے لیے استعمال کیا جائے ۔اگر وہ جدید اسلحے کی طرح ہم پر ان کتابوں کی فروخت پر بھی پابندی لگادیں تو کتابوں کی کمی کے بحران کو حل کرنے کے لیے خود کتابیں لکھنا پڑیں گی کہ نہیں؟کیا اس برے وقت کا انتظار کیا جا رہا ہے؟کیا معیاری کتابوں کے نام سے انہیں کی لکھی ہوئی کتابیں شامل نصاب کرنا وطن عزیز کے نصاب سازوں ،پروفیسروں اور سائنس دانوں کے وجود کی نفی کرنے کے مترادف نہیں ہے؟۔کیا یہ لوگ اپنے ہمسایہ ملک بھارت کی طرف نہیں دیکھتے جس میں تمام سطح کے سائنسی نصابات ان کے اپنے لوگوں نے قومی زبان میں نہ سہی مگر آسان انگریزی میں تحریر کیے ہیں ؟ہمارے نصابی ٹھیکیداروں کو تو یہ توفیق بھی نصیب نہیں ہوئی۔یہ تو مشکل زبان میں لکھی ہوئی کتاب کو اپنے ملک کے طلباؤ طالبات کے لیے معیاری قرار دیتے ہیں۔ان کے نزدیک نصاب کو مشکل سے مشکل تر بنانا نصابی معیار قرار پایا ہے۔وہ لوگ کتابیں کس طرح لکھ سکتے ہیں جو اپنی زبان کے خوبصورت الفاظ چھوڑ کر نصاب کے لیے الفاظ کی بھیک مانگتے پھرتے ہیں؟

سترھواں سوال۔دنیا میں کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر لوگوں کی تعلیم و تربیت اور اصلاح و ہدائت کے لیے تشریف لائے۔ کیا خدا نے کوئی ایسا پیغمبر بھی مبعوث فرمایا ہے جس کی زبان ان لوگوں سے مختلف ہو جن کی طرف اسے بھیجا گیا ہو ؟نہیں ہر گز نہیں۔ اس لیے کہ زبان کے اختلاف سے ابلاغ(communication )ممکن نہیں تھا۔اچھے ابلاغ کی شرط ہے کہ مخاطب اور سامع دونوں کی زبان ایک ہو ورنہ اصلاح و تربیت کا عمل بخوبی انجام نہیں پا سکتا۔کیا بارگاہ خداوندی سے عنائت ہونے والا یہ اصول نصاب سازی کے لیے کار گر نہیں ہے؟ کیا غیر ملکی زبان کے غیر مانوس ،مشکل اور غیر فطری انداز میں لکھے ہوئے الفاظ شاملِ نصاب کر کے نفس مضمون کے فہم میں ایک بہت بڑا خلاء نہیں پید ا کر دیا گیا؟دنیا میں ہر ترقی یافتہ ملک نے نصاب سازی میں ابلاغیات کے اس فطری اصول کو اپنایا ہے۔پھر یہ لوگ کیوں نہیں سمجھتے کہ فطرت کے اصولوں سے روگردانی کرکے سائنس و ٹیکنالوجی میں ترقی کیسے ہو سکتی ہے؟فطرت کے اصولوں کی خلاف ورزی خدا کے ساتھ جنگ کے مترادف ہے اور جو لوگ اس خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں وہ ان اصولوں سے اپنا سر ٹکرا ٹکرا کر خود ہی تباہ ہو رہے ہیں۔بیشتر مسلمان ممالک کی طرح۔

اٹھارواں سوال۔کیا خدا نے کچھ زبانوں کو سائنس کی زبانیں بنایا ہے اور کچھ کو غیر سائنسی؟اگر یہ تفریق خدا نے رکھی ہے تو قصور خدا کا ہے جس نے ہمیں ایسی زبان عطا کی ہے جس کے ذریعے ہم سائنس نہیں پڑھ سکتے۔کیا ہم خدا کو اس تفریق کے لیے مورد الزام ٹھہرا سکتے ہیں؟اگر ہم یہی سوال براہ راست خدا سے کریں کہ " اے رب کریم تو نے غیر مسلموں کو تو سائنس اور ٹیکنالوجی کی زبانیں عطا کی ہیں مگر مسلمانوں کو کیوں غیر ترقی یافتہ اور غیر سائنسی زبانیں دے کرزبوں حالی کا شکار کر دیا ہے؟کیا تیری ان سے کوئی دشمنی ہے؟تو ان کو کیوں ترقی سے دور رکھنا چاہتا ہے؟"تو نے ان پر ایجادات و تخلیقات کے کیوں دروازے بند کر دیئے ہیں؟ان کے پاس جدید ترین اسلحہ کیوں نہیں جس سے یہ اپنے دشمنوں کو ڈرا سکیں؟ سائنس ان کی سمجھ میں کیوں نہیں آتی؟تو خدا کا جواب کیا یہ نہیں ہو گا کہ " اے میرے نادان بندے ۔میں نے تو سب زبانوں کو سائنس کی زبانیں بنایا ہے مگر یہ تم ہو جنہوں نے ان کوغیر سائنسی زبانیں بنایاہے۔میں نے تمہیں دماغ دیا تھا سوچنے سمجھنے اور غوروفکر کرنے کے لیے مگر تم نے اسے مقفّل کردیا ہے۔میں نے اپنی کتاب میں اسے استعمال کرنے کی بار بار دہائی دی ہے مگر تم ٹس سے مس نہیں ہوتے ہو۔جن لوگوں نے اپنی زبانوں میں جتنی محنت کی ہے میں نے اس کے مطابق ہی انہیں دیا ہے۔یہ اصول بھی میں نے اپنی کتاب میں تمہیں بتادیا ہے۔تم خود اپنی زبانوں میں کام نہ کرکے پسماندہ رہنا چاہتے ہو۔تم نے خود اپنے اوپر ذلت و مسکنت طاری کی ہے تم فطری طریقوں سے رو گردانی کر کے غیر فطری طریقوں سے ترقّی کرنا چاہتے ہو۔تمہارے دماغوں میں بھی میں نے سوچنے سمجھنے والے اُتنے ہی خلیے رکھے ہیں جتنے کہ ترقی یافتہ قوموں کے دماغوں میں" ۔بولو مجرم خدا ہے یا ہم خود؟ کیا اپنے فکری جرم کو چھپانے کے لیے انگریزی کو سائنس کی اور اردو کو غیر سائنسی زبان قرار دینا خدا پر جھوٹا الزام لگانے کے مترادف نہیں ہے؟

انیسواں سوال۔تحقیق و تخلیق اور ایجادات کا تعلق موئثر و مرتکز سوچ اور غوروفکر کے ساتھ ہے۔اور غورو فکر انسان ہمیشہ اس زبان میں کرتا ہے جسے وہ اچھی طرح سمجھتا،بولتا اور اس میں اظہار خیال کرتا ہے۔سب سے بہترین سوچ کی زبان اسکی مادری زبان ہوتی ہے۔سوچا بھی الفاظ و فقرات ہی میں جاتا ہے۔ایک تصور انسان کے دماغ میں الفاظ و فقرات کی صورت میں ہی آتا ہے ۔گفتگو کے ذریعے یا لکھ کر انسان ان الفاظ و فقرات میں ترتیب اور نکھار پیدا کرتا ہے ۔کیا جس زبان کو انسان اچھی طرح جانتا ہی نہیں اس میں سوچ سکتا ہے؟ہرگز نہیں ۔کسی غیر ملکی زبان میں سوچنا ناممکن بھی ہے ا ور خلاف فطرت بھی۔اسی لیے ہم پرتحقیق و تخلیق اور ایجادات کے دروازے ندہیں۔انگریزی میں لکھا ہوا سائنسی نصاب ہمیں انگریزی میں سوچنے پر مجبور کرتا ہے مگر قانون فطرت اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔کیا کسی ایسے ملک کی مثال دی جاسکتی ہے کہ جس کا نصاب تعلیم کسی غیر ملکی زبان میں ہو اور اس میں تحقیق و تخلیق اور ایجادات کے دروازے کھلے ہوں؟کیا اتنی بڑی اور نصف ا لنہار کی طرح روشن حقیقت کو تسلیم نہ کرنا عقل و فکر کا جنازہ نکالنے کے مترادف نہیں ہے؟نصاب مذکورہ میں استعمال کی گئی انگریزی اصطلاحات نسلِ نو کے دماغوں پر پہرہ بٹھا دینے کے مترادف نہیں ہے؟

بیسواں سوال۔پاکستان میں ادب ،شاعری ،ثقافت اورمذہب پرتواتر سے ہماری قومی زبان میں کتابیں لکھی جا رہی ہیں۔بے شمار ادبی شہ پاروں کے ہوتے ہوئے وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ نت نئے شہ پارے تخلیق ہو رہے ہیں۔مذہب پر بے شمار کتابیں لکھے جانے کے باوجود نئی نئی تحقیقی کتب اور قران پاک کے جدید انداز کے تراجم اور تفاسیر سامنے آرہی ہیں۔اس لیے کہ ان میں اپنی قومی زبان میں کام ہو رہا ہے۔موسیقی کے نت نئے انداز اور نئی نئی دھنیں وجود میں آرہی ہیں۔حمدو نعت بھی تسلسل کے ساتھ اپنی ہی زبان میں ترقی کر رہی ہے ۔اس لیے کہ مذکورہ تمام موضوعات پر لوگ اپنی زبان میں سوچتے ہیں۔معلوم نہیں کہ کل کلاں کوئی ایسا ادبی شہ پارہ ،کوئی ایسی شاعری، کوئی ایسی تفسیر، کوئی ایسا قران کا ترجمہ ،کوئی ایسی دھن، کوئی ایسا نغمہ، کوئی ایسی حمد اور کوئی ایسی نعت وجود میں آجائے جوسب سے انوکھی، موثر اور روایت سے ہٹ کر ہو۔بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شائد ان موضوعات پر سب کچھ لکھا جا چکا ہے مگر تحقیقی اور تخلیقی کا م مسلسل جاری و ساری ہے۔انہیں موضوعات پر پاکستان میں انگریزی زبان میں کام کیوں نہیں ہو رہا ہے؟کتنے لوگ انگریزی ادب تخلیق کر رہے ہیں؟ کتنے لوگ انگریزی میں شاعری کرتے ہیں؟کتنے لوگ انگریزی میں تفسیریں لکھتے ہیں؟ پاکستان میں گانے انگریزی میں کیوں نہیں لکھے ،گائے اور سنے جاتے؟ فلمیں انگریزی میں کیوں نہیں بنائی جاتیں؟حمدو نعت کیوں انگریزی میں لکھی ،پڑھی اور سنی نہیں جاتی؟اگر یہ سارا کام اردو کی بجائے انگریزی میں کرنا شروع کر دیا جائے تو کیا تحقیقی اور تخلیقی بحران اسی طرح پید ا نہیں ہو جائے گا جو آج سائنس میں ہے؟کیا اس سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ سائنس ہو یا کوئی اور چیز اپنی زبان کو ذریعہ تعلیم بنائے بغیر ترقی نہیں کر سکتی؟ اپنی زبان میں تعلیم حاصل کرنا ایک ایسا فطری،ابلاغی،عالمی،خدائی ،انسانی اور پیغمبرانہ اصول ہے کہ جس کے خلاف زمین و آسمان سے کوئی ایک دلیل بھی نہیں تلاش کی جا سکتی۔

اکیسواں سوال۔نصاب سازوں نے براہ راست انگریزی کے الفاظ اردو رسم الخط میں لکھے ہیں ۔جس کی متعدد مثالیں ابتدائی صفحات میں دی گئی ہیں۔کیا نصاب سازوں نے ان انگریزی الفاظ کو اردو میں شامل کر دیا ہے؟سٹیشن،شاپر،پنسل اور اس قبیل کے کئی دیگر انگریزی الفاظ اب اردو زبان میں بھی مستعمل ہیں اس لیے یہ اردو زبان کا حصہ بن چکے ہیں۔ان پڑھ بھی ان کو بولتے اور سمجھتے ہیں۔نصاب سازوں نے انگریزی کی اصطلاحات کو جو براہ راست اردو رسم الخط میں لکھا ہے۔کیا یہ الفاظ بھی مذکورہ الفاظ کی طرح مستعمل ہیں؟کیا انگریزی کا ہر لفظ اردو میں شامل ہو سکتا ہے؟اگر ہو سکتا ہے تو اردو اور انگریزی کی الگ الگ شناخت کیسے قائم رہے گی؟کیا کسی لغت میں ان الفاظ کو براہ راست اردو مین لکھا ہے؟ایسا کرتے ہوئے کن ماہرین اردو کی توثیق حاصل کی گئی ہے؟کیا یہ الفاظ اب اردو زبان کا حصہ بن چکے ہیں؟کیا ان کے پاس اپنی مذموم حرکت کے لیے کوئی دلیل ہے یا یہ کسی خود ساختہ منطق ، آمرانہ تصور یا ملکی مفاد کے خلاف کسی سازشی کوشش کا پیش خیمہ ہے؟

بائیسواں سوال۔بچے ذوق جمالیات اور تجسس و جستجو کی تسکین کے لیے کہانیاں، ترانے، نغمے، نعتیں، لطیفے، پہیلیاں اور دیگر سر گرمیاں اپنی قومی زبان میں کرتے ہیں۔اس کے علاوہ وہ اردو،معاشرتی علوم،دینیات جیسے مضامین اپنی قومی زبان میں پڑھتے ہیں۔ان سرگرمیوں میں سیکھے جانے والے الفاظ ا نہیں سائنس پڑھنے میں بھی معاونت کرتے ہیں۔سائنس میں ان الفاظ کی جگہ غیر مانوس اور غیر ملکی زبان کے الفاظ استعمال کرنا اپنی زبان کے پہلے سے سیکھے ہوئے الفاظ کی معاونت و مدد سے دست کش ہو جانے کے مترادف ہے۔جب مانوس الفاظ کے فہم کو غیر مانوس الفاظ کے عدم فہم سے بدل دیا جائے تو کیا فہم و ابلاغ کا خلاء پیدا نہیں ہو گا؟سائنس کا اپنی قومی زبان اور تہذیب و ثقافت سے رشتہ ٹوٹے گا کہ نہیں؟کیا ایسے نصاب کے ساتھ سائنس بطور ثقافت پھلے پھولے گی؟

تئیسواں سوال۔نصاب سازوں نے کچھ اصطلاحات کو اردو میں ہی رہنے دیا ہے۔مثلاً نمایاں ہندسے،عمود،شخصی غلطی، بے قاعدہ غلطی، باقاعدہ غلطی اورغیر یقینیت وغیرہ۔ سوال یہ ہے کہ کن اصطلاحات کو اردو میں رہنے دیا جائے گا اور کن کو انگریزی الفاظ میں اور وہ بھی اردو رسم الخط میں؟ اس کا فیصلہ کیسے کیا جائے گا؟اور کون کرے گا؟

چوبیسواں سوال۔کیا نصاب ساز اور ان کے صلاح کار کوئی ایسی سی ڈی تیار کر کے جاری کریں گے جس میں انگریزی کی اصطلاحات کو براہ راست استعمال کرکے بچوں کو مثالی سبق دیتے ہوئے دکھایا گیا ہو؟۔ایسا ان کو نصاب تیار کرنے سے پہلے کرنا چاہیے تھاتاکہ لوگوں پر ان کی علمی اور تخلیقی قابلیت کے علاوہ ان کا انداز تدریس بھی واضح ہو جاتا۔مگر یہ لوگ ایسا نہیں کر سکتے۔ بچوں کی ذہنی سطح پر اتر کر بات کرنا ان کے لیے بہت مشکل ہے۔اس لیے انہوں نے نصاب میں وہ انداز گفتگو اپنایا ہے جو ایم ایس سی اور پی ایچ ڈی کے بعد کہیں جا کر ان کی گفتگو کا حصہ بنا ہے۔یہی انداز انہوں نے معصوم بچوں کے لیے بھی تجویز کردیا ہے۔آخر بچوں کی نفسیات سے جو خوب واقف ٹھہرے۔

پچیسوں سوال۔ آج ان کا قبلہ و کعبہ امریکہ دنیا میں سپر طاقت ہے۔اور انگریزی اس کی زبان ہے۔جس کی وجہ سے انگریزی کی ہیبت ان کے دل و دماغ پر طاری ہے۔اسی ہیبت زدگی کی کیفیت میں اردو کے الفاظ کی ان کے نزدیک وقعت کم ہو گئی ہے۔سوال یہ ہے کہ مسقبل قریب میں انگریزی کے علاوہ کوئی اور زبان بولنے والا ملک سپر طاقت کے منصب پر فائز ہو جاتا ہے (کچھ لوگ پیشین گوئی کرتے ہیں کہ چین آئیندہ دس پندرہ برسوں میں امریکہ کے مدّمقابل آجائے گا) تو کیا انگریزی اصطلاحات کو چھوڑ کر اس ملک کی اصطلاحات اپنا لی جائیں گی۔؟کیا انگریزی کی بجائے اس زبان کی اصطلاحات میں وزن بڑھ جائے گا؟کیا ہمارا نصاب ہمیشہ اسی طرح سپر طاقتوں کے گرد طواف کرتا رہے گا؟ ہماری زبان کی اپنی کوئی شناخت باقی نہیں رہے گی ؟ کیا ہماری زبان کبھی بھی ترقّی کی زبان کا درجہ حاصل نہیں کر سکے گی ؟

چھبیسواں سوال۔پہلے تو یہ حضرات اردو اصطلاحات کے خوف سے ایف ایس سی اور اس سے بڑی کلاسوں کا نصاب اردو میں نہیں رائج کرتے تھے۔اب تو یہ خوف دور ہوجانا چاہیے ۔ کیا اب اعلیٰ تعلیم کا نصاب یہ لوگ اپنی خود ساختہ اردو کے سانچے میں ڈھال لیں گے؟اب تو بزعم ان کے ایسی اصطلاحات کے ذریعے نصاب تیار کیا گیا ہے جو اردو اصطلاحات سے بہترمعانی دیتی ہیں۔اب تو ہر سطح کے نصاب کو ان کی گلابی اردو میں رائج کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔مجھے خدشہ ہے کہ اب یہ لوگ یہ کہنا نہ شروع کر دیں کہ اصطلاحات کے علاوہ جو اردو کے باقی الفاظ ہیں وہ بھی انگریزی کے ہم پلہ معنی نہیں دیتے۔

ستائیسواں سوال۔کسی بھی چیز میں جدّت پسندانہ تبدیلی کا یہ خاصہ ہوتاہے کہ وہ اس چیز میں دلچسپی ،نئے اور انوکھے پن کے ذریعے اس کے فہم میں اضافہ کرے۔کیا ایسی کسی نصابی تبدیلی کو جدّت سے تعبیر کیا جا سکتا ہے جو غیر مانوس اور مشکل الفاظ کے ذریعے نفس مضمون کے فہم اور دلچسپی میں رکاوٹیں ڈالے؟جبکہ ہر کتاب کے شروع میں پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی چیئرمین نے اسے جدّت اور نئے پن سے تعبیر کیا ہے۔

اٹھائیسواں سوال۔کیا اصطلاحات کی اتنی بڑی تبدیلی کی وجوہات اور فوائد سے عوام النّاس کو آگاہ کرنا ضروری نہیں تھا؟اور کچھ نہیں تو ہر سائنسی نصابی کتاب کے آغاز میں ہی تین چار صفحات پر اس نئے اصطلاحات کے نظام کے فیوض و برکات کا تذکرہ کر دیا جاتا تاکہ اس کے پس پردہ دلائل و حقائق کا کچھ اندازہ ہو جاتا۔کیا اس نظام کے خالقین و نافذین پر یہ فرض عائد نہیں ہوتاکہ وہ مذکورہ دلائل و حقائق کو کسی پمفلٹ کے ذریعے منظر عام پر لائیں؟

انتیسواں سوال ۔غیر مانوس الفاظ کے معنی و مفہوم ذہن نشیں کرتے ہوئے بہت جلدیہ ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہو جاتے ہیں جبکہ مانوس اور اپنے معنی آپ دینے والے الفاظ کے معنی و مفہوم یاد کرتے ہوئے ایک دوسرے میں گڈ مڈ نہیں ہوتے۔مثلاًہربی وورز،کارنی وورز،اور اومنی وورز جیسے الفاظ بچوں کو مشکل سے یاد ہونگے۔یاد کرتے ہوئے ہربی وورز کو اومنی وورز کے معنوں میں لیں گے اور کبھی کارنی وورز کو ہربی وورز کے معنوں میں۔ جبکہ اپنے معنی خود دینے والے الفاظ مثلاً سبزہ خور،گوشت خور اور ہمہ خور مانوس الفاظ ہیں اور انہیں یاد کرتے ہوئے ان کے معنی ایک دوسرے میں گڈ مڈ نہیں ہوتے ۔اسی طرح ایکسکریٹری سسٹم،ڈائجیسٹو سسٹم، سرکولیٹری سسٹم وغیرہ کے معنی و مفہوم بھی ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہو جاتے ہیں جبکہ نظام اخراج،نظام ہضم،نظام دوران خون جیسے الفاط کے معنی و مفہوم آسانی سے یاد ہو جاتے ہیں کیونکہ یہ الفاظ اپنے معانی خود دیتے ہیں اور ان کے معنی و مفہوم ایک دوسرے میں گڈ مڈ نہیں ہوتے ۔اس بات کو ثابت کرنے کے لیے بچوں کا ایک ٹیسٹ بھی لیا جا سکتا ہے ۔ان کو دس مانوس الفاظ دے دیے جائیں اور دس غیر مانوس الفاظ۔بچہ مانوس الفاظ کو بہت جلدی یاد کر لے گا جبکہ غیر مانوس الفاظ کو یاد کرتے اور انہیں ذہن میں بٹھاتے ہوئے کئی گنا زیادہ وقت لگے گا۔روئے زمین پر کوئی شخص ہے جو غیر مانوس الفاط استعمال کر کے نصاب میں آسانی ثابت کر سکے؟

تیسواں سوال۔ساتویں جماعت کی سائنس کی کتاب کے صفحہ نمبر ۶۳ پر انگریزی کے لفظvariationsکو اردو میں ویری ایشنز ،جماعت نہم کی فزکس کے صفحہ نمبر۳۹ پر انگریزی کے لفظ displacementکوڈس پلیسمنٹ،صفحہ نمبر ۵۵ پر gravitaional accelerationکوگریوی ٹیشنل ایکسیلریشن،صفحہ نمبر۱۱۱پرequilibriumکو ایکوی لبریم لکھا ہے ۔اسی قبیل کے بے شمار دیگر الفاظ کی مثالیں بھی دی جا سکتی ہیں۔انگریزی کا لفظ variationایک لفظ ہے مگر اردو میں اسے دو ٹکڑے کرکے لکھا ہے ۔پہلا ویری اور دوسرا ایشنز۔انگریزی کے لفظ میں اکٹھا ہونے کی وجہ سے ایک تسلسل اور روانی ہے۔جبکہ اردو کے لفظ کے دو ٹکڑے ہونے کی وجہ سے ان کا تسلسل،روانی اور تلفظّ غلط ہو جاتا ہے۔اور اگر ویری اور ایشنز کو اکٹھا لکھا جائے تو ویریا یشنزبنتا ہے۔لہٰذ اانگریزی الفاظ کو اردو میں لکھنے سے ان کا تسلسل،روانی اور تلّفّظ بگڑنے کے ساتھ ساتھ الفاظ بھی بگڑ جاتے ہیں ۔ اسی طرح انگریزی کے الفاظ displacement,gravitational acceleration,equilibriumکو ٹکڑوں میں ڈس پلیسمنٹ،گریوی ٹیشنل ایکسیلریشن اور ایکوی لبریم لکھنے سے ان کا تسلسل،روانی اور تلّفّظ بگڑ جائے گا۔نصاب سازوں نے کس دلیل کی بنیاد پر انگریزی کے اکٹھے اور تسلسل و روانی رکھنے والے الفاظ کو اردو کے منقطع ،غیر مسلسل اورتلّفّظ کو درست ادا نہ کرنے والے الفاظ کی صورت میں لکھا ہے؟

اکّتیسواں سوال۔تدریس سائنس کو موثر بنانے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ سائنسی تصوّرات کو واضح کرنے کے لیے ان کو روز مرّہ زندگی سے ہی ایسی مثالیں دی جائیں جن کا بچے اکثرو بیشتر اپنے ماحول میں مشاہدہ کرتے ہوں۔اسی طرح ایسی عملی سرگرمیاں جو بچے کے ماحول سے مطابقت رکھتی ہوں،بھی بچے کے سائنسی تصّورات واضح کرتی ہیں۔دنیا بھر کے ماہرینِ تعلیم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ بچوں کی سائنس فہمی کیلیے الفاظ کیوں نہ ایسے استعمال کیے جائیں جو بچے روزمرّہ زندگی میں بولتے ہوں،ان کا مشاہدہ کرتے ہوں یا جن کا مبداء و منبع روزمرّہ زندگی کی بول چال ،تحریروتقریر اور زبان و ادب میں موجود ہو؟کیا روزمرّہ زندگی میں بچے سبزی خور بولتے ہیں اور سمجھتے ہیں یا ہربی وورز،گوشت خور بولتے اور سمجھتے ہیں ہیں یا کارنی وورز؟،ہمہ خور بولتے اور سمجھتے ہیں یااومنی وورز؟،آلودگی بولتے اور سمجھتے ہیں یا پولیوشن؟تبخیر بو لتے اورسمجھتے ہیں یاایویپوریشن؟ہلکا بولتے اور سمجھتے ہیںیا ڈائی لیوٹ؟توازن بولتے اور سمجھتے ہیں یا ایکوی لبریم؟براہ راست بولتے اور سمجھتے ہیں یا ڈائریکٹلی پروپورشنل؟

بتّیسواں سوال۔اگر کوئی طالب علم انگریزی کی اردو تحت الفظ میں لکھی گئی اصطلاحات کو لکھنے کی بجائے امتحان میں اردو زبان کی اصطلاحات کے ساتھ پرچہ حل کرے تو کیا اسے پورے نمبر دیے جائیں گے یا نمبر کاٹ لیے جائیں گے؟اصطلاحات تبدیل کرتے ہوئے اس بات کی وضاحت کیوں نہیں کی گئی؟
چند ممکنہ عذر ہائے لنگ اور ان کے جوابات۔

پہلا عذر۔نصاب ساز اور ان کے حواری کہتے ہیں کہ اردو کی بجائے انگریزی اصطلاحات براہ راست اس لیے استعمال کی گئیں چونکہ ایف ایس سی میں سائنس انگریزی میں پڑھنا پڑتی ہے اور میٹرک تک اردو میں۔جب طلباء و طالبات میٹرک سے ایف ایس سی میں جاتے ہیں تو ان کے لیے ذریعہ تعلیم یکدم اردو سے انگریزی اختیار کرنے کی وجہ سے ایک خلاء پیدا ہو جاتا ہے جس کو پر کرنے کے لیے ایسا کیا گیا ہے تاکہ طلباؤ طالبات ایف ایس سی میں پہنچنے سے پہلے ہی ان اصطلاحات سے واقف ہو جائیں اور ایف ۔ایس سی کسی حد تک آسان ہو جائے۔یہ دلیل مندرجہ ذیل وجوہات کی بنیاد پر باطل قرار پاتی ہے۔

پہلی وجہ۔یہ دلیل اس لیے عذر لنگ کا درجہ رکھتی ہے کیونکہ پہلی جماعت سے میٹرک تک تو ان انگریزی اصطلاحات کو اردو رسم ا لخط میں لکھنے کی مشق کروائی جا رہی ہے۔مگر ایف ۔ایس سی میں انگریزی اصطلاحات کو انگریزی رسم ا لخط میں ہی لکھا جا تا ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایف ایس سی میں اس پہلی سے دسویں تک دس سا لہ انگریزی الفاظ کو اردو رسم ا لخط میں لکھنے کی مشق کا کیا فائدہ پہنچے گا ؟ یہ مشق آگے چل کر ان کے کیا کام آئے گی؟کیا یہ حماقت نہیں کہ ضرورت کسی چیز کی ہے مگر سکھائی کوئی اور چیز جا رہی ہے۔

دوسری وجہ۔اگر بالفرض مان لیا جائے کہ ایف ایس سی کے مرحلے کو آسان بنانے کے لیے ایسا کیا گیا ہے تو ایک مرحلے کو آسان بنانے کے لیے پچھلے دس مرحلوں کو مشکل ترین بنا دینا کون سی عقلمندی ہے؟جب بنیادیں کمزور رہ جائیں تو خلاء کم ہونے کی بجائے اور بڑھنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔

تیسری وجہ۔کیا ایف ایس سی اور میٹرک کے درمیان ذریعہ ء تعلیم کے خلاء کو پر کرنے کا صرف یہی طریقہ تھا؟میٹرک کے بعد ایف ایس سی میں بھی ذریعہء تعلیم کو اردو کیوں نہیں کر دیا گیا ؟ میٹرک میں جو سائنسی اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں کم و بیش وہی اصطلاحات ایف ایس سی میں استعمال ہو تی ہیں۔باقی جو ایک دو فیصد اصطلاحات اضافی شامل ہوتی ہیں وہ بھی بڑی آسانی سے اردو کے سانچے میں ڈھالی جا سکتی ہیں۔ بلکہ ایم ایس سی تک کی اصطلاحات کو اردو کے سانچے میں ڈھالا جا چکا ہے۔ مقتدرہ قومی زبان کی انگریزی اردو قومی لغت ان مقاصد کو کافی حد تک پورا کرتی ہے ۔اس کے علاوہ اردو سائنس بورڈ اور انجمن ترقئی اردو کراچی نے سائنسی علوم کو قومی زبان کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے کافی کام کیا ہے ۔میٹرک اور ایف ایس سی کے درمیان خلاء کو ختم کرنے،نفس مضمون کے فہم میں اضافہ کرنے،ٹیوشن بزنس کا قلعہ قمع کرنے ،معیار سائنس بڑھانے اور بے شمار دیگرفوائد و برکات کے لیے سب سے اچھا اور دانشمندانہ فیصلہ یہی تھاکہ ایف ایس سی کے تمام سائنسی مضامین کو اردو میں رائج کر دیا جاتا۔

چوتھی وجہ۔موجودہ نصاب میں بے ہنگم اتھل پتھل کی بجائے اگر ایف ایس سی کی کتاب میں انگریزی اصطلاحات کے ساتھ بریکٹ میں اردو اصطلاحات لکھ دی جاتیں تو یہ مقصد بخوبی پورا ہو سکتا تھا۔ مثلاً(ایصالیت)conduction ،(توازن)equilibrium وغیرہ۔اصطلاحات کو غیر فطری انداز میں لکھ کر جو خلاء اب پر کرنے کی معکوس سمت میں کوشش کی گئی ہے اس سے کئی گنا کم محنت اور زیادہ ثمرات حاصل ہوسکتے تھے اور مذکورہ خلاء بھی زیادہ بہتر طریقے سے پرہو سکتا تھا۔ایک دوست نے اخبار میں میرے قسط وار شائع ہونے ولے مضامین پر اخبار کے ذریعے ہی تبصرہ فرمایا جس میں انہوں نے اصطلاحات کے اس انداز سے لکھنے کی مذمّت کی مگر چند تحفظات کا اظہار بھی کیا جن میں سے ایک یہ تھا ایف ایس سی کی درسی کتاب میں انگریزی اصطلاحات کے ساتھ بریکٹ میں اردو اصطلاحات لکھنے سے تو کتاب ایک خلاصے کا سا رنگ پیش کرنے لگے گی۔اس سلسلے میں گذارش ہے کہ اردو اصطلاحات کے ساتھ بریکٹ میں ان کی انگریزی لکھنے سے کتاب خلاصہ نہیں بنتی جیسا کہ پہلی سے میٹرک تک کی سائنس کی کتابوں میں انداز اپنایا گیا ہے۔لہٰذا اگر نفس مضمون کے فہم کے لیے ایف ایس سی کی کتاب میں انگریزی اصطلاحات کے ساتھ ان کا اردو ترجمہ لکھ دیا جائے تو کتاب کیسے خلاصہ بن جائے گی؟علاوہ ازیں خلاصوں پر کون سا حکومت نے پابندی لگائی ہے؟بلکہ جب کبھی بھی نصاب میں کوئی تبدیلی آتی ہے بازار میں اصل کتاب آنے سے پہلے اس کا خلاصہ چھپ کر آجاتاہے اور ہر جگہ دستیاب ہوتا ہے۔اگر ناگوار خاطر نہ ہو تو میں عرض کروں گا کہ ایشین بینک کے قرضے سے سائنس ایجوکیشن پراجیکٹ کی طرف سے گذشتہ چند سالوں میں اساتذہ کو جتنی بھی ٹریننگ دی گئی وہ ان خلاصے طبع کرنے والی کمپنیوں کے جھنڈے تلے ہی دی گئی ہے۔کیا ارباب اختیار اور پالیسی ساز ادارے اور افراداس سے بے خبر ہیں؟نہیں! بے خبر نہیں بلکہ بے بس ہیں۔کیونکہ کسی بھی کام کو جب مشکل اورغیر فطری انداز سے کریں گے تو اس میں کرپشن اور بد عنوانی کا پیدا ہونا ایک فطری اور بدیہی امر ہے ۔ٹیوشن بزنس اور یہ خلاصے دراصل مشکل اور غیر فطری نصاب کے ہی ذیلی حاصلات(byproducts)ہیں۔جنہوں نے سائنسی تعلیم کا پہیہ جام کر رکھا ہے۔

پانچویں وجہ۔ایف۔ ایس سی کی نصابی سائنسی کتب میں اگر ایک طرف انگریزی اور دوسری طرف سلیس اردو ترجمہ ہوتا تو بھی طلباء وطالبات کے لیے فہم سائنس میں خاصی آسانی ہو جاتی۔اس میں حرج ہی کیا ہے؟ مقصد تو نفس مضمون کا فہم حاصل کرنا ہے۔

چھٹی وجہ۔اگر مقصد مذکورہ خلاء ہی پر کرنا تھا تو اس کا طریقہ یہ بھی تھا کہ ابتدائی کلاسوں کے امتحان میں ایک سوال لازمی کر دیا جاتا جس میں اردو اصطلاحات سوال کی شکل میں پرچے کے ایک طرف لکھی ہوتیں اوردوسری طرف انہیں اصطلاحات کو انگریزی میں لکھنا ہوتا تاکہ اگلی کلاسوں کے لیے یہ اصطلاحات آسانی پید کر دیتیں۔

ساتویں وجہ۔تبدیلی کسی بھی نوع کی ہو اس کا یہ خاصہ ہے کہ اسے مرحلہ وار پایہء تکمیل تک پہنچایا جانا چاہیے۔ہر جماعت میں اصطلاحات کی یکدم تبدیلی پیدا کرناتبدیلی کے اصولوں کی ہی خلاف ورزی ہے۔چاہیے تو یہ تھا کہ پہلے سال فقظ پہلی جماعت کی سائنس کی کتاب میں اصطلاحات کی تبدیلی کی جاتی۔اگلے سال دوسری جماعت کی کتاب میں تبدیلی ہوتی تاکہ پہلی جماعت میں چند اصطلاحات کی مانوسیّت دوسری جماعت کے بچوں کے لیے آسانی پیدا کر دیتی۔اسی طرح ہر سال میں فقط ایک کلاس کا نصاب تبدیل ہوتا۔پہلی سے دسویں جماعت تک کی موجودہ تبدیلی کم از کم دس سال کے عرصے پر محیط ہونی چاہیے تھی مگر بے صبروں نے نہ جانے بے صبری کی کس قیمت پر سائنس کے ہر سطح کے نصاب کا یکدم تیا پانچا کر ڈالا؟اس غلط تبدیلی کو اگر درست انداز سے کر لیا جاتا تو شائد کسی طرح یہ قابل عمل اور کسی حد تک قابلِ فہم بن جاتی مگر" دانش مندوں"نے غلط کام کو غلط انداز سے کرکے کچھ زیادہ ہی دانش مندی کا ثبوت دے دیا ہے۔
آٹھویں وجہ۔ میٹرک میں جنرل سائنس پڑھنے والے طلباء و طالبات تو انٹرمیڈیٹ میں سائنس نہیں پڑھتے ۔تو میٹرک کی جنرل سائنس کی اصطلاحات کو کیوں تبدیل کیا گیا ہے؟لہٰذا ا یف ایس سی میں آسانی مقصود نہیں ہے بلکہ اس کے مقاصد ابھی تک لوگوں سے پوشیدہ رکھے گئے ہیں۔اس کا سب سے بڑا مقصدنونہالان وطن کے سائنسی فہم کو مشکلات کا شکار کرنا معلوم ہوتا ہے۔

نوٹ۔ایف ایس سی کے طلباء و طالبات نصابی کتب کی بجائے نوٹس پڑھنے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔بیشتر طلباء و طالبات تو نصابی کتب کو کھولنے تک کی زحمت گوارا نہیں کرتے کیونکہ نصاب سازوں نے انگریزی کتب سے پیرے چرا چرا کر شامل کیے ہیں اور نصاب کے تسلسل کو ختم کرکے خاصا مشکل بنا دیا ہے ۔ا س کے برعکس نوٹسوں میں قدرے آسان انگریزی استعمال کی جاتی ہے اور مشکل الفاظ و اصطلاحات کا بریکٹ میں اردو ترجمہ بھی لکھا ہو تا ہے۔اس لیے طلباء و طالبات پڑھنے اور یاد کرنے میں نسبتاً آسانی محسوس کرتے ہیں۔نصاب کو اس قدر آسان کیوں نہیں بنا دیا جاتا کہ نوٹسوں اور خلاصوں کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو؟

دوسرا عذر لنگ اور اس کی حقیقت۔کہا جاتا ہے کہ دیکھو جناب اردو زبان کی سائنسی اصطلاحات معانی و مفہوم کو اس طرح واضح نہیں کرتیں جس طرح انگریزی کی اصطلاحات واضح کرتی ہیں۔اس لیے بہتر ہے کہ انگریزی کے الفاظ و اصطلاحات کو براہ راست ہی اردو الفاظ و اصطلاحات کی جگہ استعمال کیا جائے۔
اگر اس عذر پر تھوڑا سا غور کیا جائے تویہ بھی دلیل و منطق کی طاقت سے بالکل تہی دست نظر آئے گا۔کیا انگریزی کے لفظreflection کا اردو کا لفظ انعکاس صحیح معنی نہیں دیتا؟کیوں نہیں دیتا؟ علاوہ ازیں زاویہ angleکے،وقوع incident کے،انعطاف refraction کے،کثافتdensity کے،توازن equilibrium کے،براہ راست متناسبdirectly proportional کے،انشقاق fissionکے،تابکاریradioactivityکے صحیح معانی کیوں نہیں ادا کرتے ؟۔علیٰ ھٰذالقیاس۔یہ ایسی بونگی اور بے تکّی بات ہے کوئی بھی ذی فہم انسان کہنا پسند نہیں کرتا۔کیا انگریزی کے الفاظ آسمان سے اترے ہیں جودوسری زبانوں سے بہتر معنی ادا کرتے ہیں؟۔انگریزی کی جگہ اردو کے الفاظ خود بخود اپنے معانی و مفہوم کو ادا کرتے ہیں کیونکہ ان میں سے بیشتر اردو ادب،شاعری ،اسلامیات اور عام بول چال میں مستعمل ہیں۔پاکستان میں رہنے والوں کے لیے اگر کوئی یہ کہے کہ کارنی وورز گوشت خور سے ،ہربی وورز سبزی خور سے اور اومنی وورز ہمہ خور سے ، ایکوی لبر یم توازن سے ورایکسکریٹری سسٹم نظامِ اخراج سے بہتر معنی ادا کرتا ہے تو اس کی عقل پر ماتم کیا جانا چاہیے اور ایسے ذہنی مریض کوکسی نفسیاتی ہسپتال میں داخل کروانا چاہیے۔

تیسرا عذر لنگ اور اس کا پوسٹ ماٹم۔کہتے ہیں کہ اردو کی اصطلاحات انگریزی سے بھی مشکل ہیں۔مثال کے لیے چند الفاظ کو انہوں نے اپنے ذہن پر سوار کیا ہوا ہے اور ان الفاظ سے یہ لوگوں کو ڈرانے کی کوشش کرتے ہیں۔کہتے ہیں کہ انگریزی کے لفظ تھرمامیٹر کا اردو ترجمہ مقیاس الحرارت ہے جو تھرمامیٹر سے بھی زیادہ مشکل ہے، simple hormonic motionکا ترجمہ سادہ موسیقائی حرکت انگریزی کی اصطلاح سے بھی زیادہ مشکل ہے۔اسی طرح fission سے زیادہ مشکل اس کا ترجمہ انشقاق ہے۔یہ اور اس طرح کی دیگر اصطلاحات انہیں مشکل کیوں نظر آتی ہیں؟اس کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ ان بیچاروں کا اردو کی طرف سے ہاتھ کچھ زیادہ ہی تنگ ہے۔اردو کو انگریزی کے مقابلے میں نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔انسان کی یہ فطرت ہے کہ وہ جس چیز سے نفرت کرتا ہے اسے سیکھنے کی کوشش بھی نہیں کرتا۔ورنہ اردو کی اصطلاحات انگریزی کی نسبت ہزار گنا آسا ن ہیں۔کیونکہ ان میں سے اکثر اصطلاحات ایسے الفاظ پر مشتمل ہیں جو روز مرّہ زندگی میں مستعمل ہیں اور ان کے نام سے ہی ان کے معانی و مفہوم واضح ہو جاتے ہیں۔ذر آپ ایمانداری سے بتائیے کہ ایکوی لبریم آسان ہے یا توازن،ڈینسٹی آسان ہے یا کثافت،ڈس پلیسمنٹ آسان ہے یا ہٹاؤ،ایکسیلریشن آسان ہے یا اسراع،انعکاس آسان ہے یا ریفلیکشن،فلوریسینس آسان ہے یا چمک،فورس آسان ہے یا قوّت،حرکت آسان ہے یا موشن،مقناطیس آسان ہے یا میگنیٹ،عمل تولید آسان ہے یا ریپروڈکشن،حشرات خور آسان ہے یا انسیکٹی وورس،یک دالہ آسان ہے یا مونو کاٹی لیڈن،عناصر آسان ہے یا ایلیمنٹس۔اسی طرح اردو اور انگریزی کی ہزاروں اصطلاحات کا تقابل کیا جاسکتا ہے جس میں ہمارے لیے اردو اصطلاحات کا لکھنا ،پڑھنا اور سمجھنا انگریزی کی نسبت کئی گنا زیادہ آسان ہے۔

اردو اصطلاحات کے آسا ن ہونے کی وجہ۔آئیے ذرا ان نام نہاد گندم نما جو فروشوں کے ذہن پر سوار چند اصطلاحات کا ہی تجزیہ کریں۔مقیاس الحرارت کو ہی لیجئے۔اردو میں عام مستعمل لفظ "قیاس"کے معنی ہیں" اندازہ"اور مقیاس لفظ قیاس سے نکلا ہے جس کے معنی اندازہ کرنے والے کے ہیں۔اور مقیاس الحرارت کے معنی ہیں حرارت کا اندازہ کرنے والا۔اس میں مشکل کیا ہے ۔یہ تو دو مستعمل اور عام فہم الفاظ کا مجموعہ ہے۔چلیں اگر یہ اصطلاح پسند نہیں آتی تو اس کی جگہ انتہائی عام فہم الفاظ " حرارت پیما" "حدّت پیما" یا " تپش پیما" استعمال کیے جا سکتے ہیں جو اپنے معنی آپ دیتے ہیں۔اردو کی اصطلاحات اس لیے اجنبی اور مشکل محسوس ہوتی ہیں کیونکہ انہیں نصاب کے ذریعے رائج کر کے مستعمل نہیں بنایا گیا۔اگر انہیں نصاب کے ذریعے رائج کر دیا جاتا تو انکے زیر استعمال آنے وجہ سے ان کی اجنبیت ختم ہو جاتی۔اس طرح ان کے ذریعے سائنس سمجھنا کئی گنا زیادہ آسان ہو جاتا۔اور ان کے مشکل ہونے کا تصور بھی با لکل ختم ہو جاتا۔پاکستان اگر خود تھرما میٹر تیار کرتا اور اس پر حرارت پیما لکھا ہوتا تو یہ لفظ بھی تھرما میٹر کی جگہ زباں زد عام ہو جاتا۔ہماری زبان و ثقافت کے اعتبار سے تھرمامیٹر اپنے معنی خود بخود واضح نہیں کرتا کیونکہ تھرما لاطینی زبان کے لفظ تھرماس سے ماخوذ ہے جس کے معنی گرمی کے ہیں اور میٹر کا مطلب ہے پیمائش کرنے والا۔اس لیے تھرما میٹر اپنے معنی خود بخود نہیں دیتا جب کہ حرارت پیما اپنے معنی خو ہی ظاہر کر دیتا ہے۔جیسے کوہ پیما۔توازن کا لفظ اس قدر مستعمل ہے کہ ان پڑھ بھی اس کے معنی اور مفہوم کو سمجھتا ہے۔مگر ایکوی لبریم بالکل غیر مستعمل اور اردو زبان و ادب میں اس کا کہیں بھی استعمال نہیں ہے۔اب آپ ہی بتائیں سائنس توازن کے ذریعے آسانی سے پڑھی جا سکتی ہے یا ایکوی لبریم کے ذریعے؟اب انشقاق کو لیجیے۔ یہ اردو میں مستعمل لفظ شق سے بنا ہے جس کا مطلب ٹوٹنا یا ٹکڑے ہونا ہے۔جیسے بیٹے کی موت کی خبر سن کر ماں کا کلیجہ شق ہو گیا۔قرآن پاک میں شقّ القمر کا واقعہ اور سورہ انشقاق بھی موجود ہیں۔اب اگر کوئی شخص یہ کہے کہ انشقاق کی بجائے انگریزی کا لفظ فشن(fission ) زیادہ آسان ہے اور آسانی سے زبان پر چڑھ جاتا ہے ۔تو ایسے شخص کو بد قسمت انسان ہی کہا جائے گا۔اسی طرح عدسہ (lens ) کا لفظ قرآن میں استعمال ہو ہے جس کے معنی مسور کے ہیں۔ذرا غور کریں تو مسور کے دانے اور عدسے میں خاصی مشابہت پائی جاتی ہے۔اس لیے عدسہ لینز(lens ) کی بجائے لکھنا ،پڑھنا اور سمجھنا زیادہ آسان ہے۔اسی طرح قرآن پاک میں بہت سے الفاظ ایسے استعمال ہوئے ہیں جنہیں ہم سائنس پڑھتے ہوئے بطور اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ایسے مستعمل اور عام فہم الفاظ کے ساتھ سائنس پڑھنا دراصل فہم سائنس کے ساتھ ساتھ اپنے مذہب اور ثقافت سے بھی رشتہ مضبوط کرنا ہے۔کوئی چیز اس وقت عام ہوتی اور پھلتی پھولتی ہے جب اسے بطور ثقافت پروان چڑھایا جائے۔اورزبان کے بغیر کوئی ثقافت پروان نہیں چڑھ سکتی۔ کیونکہ زبان ہر ثقافت کا اہم ترین حصہ ہوا کرتی ہے۔

چوتھا عذر لنگ اور اس کا تجزیہ۔کہتے ہیں دیکھیں جی اردو میں سائنس پڑھنے کا فیصلہ اگر کرنا تھا تو قیام پاکستان کے فوراً بعد کرنا چاہیے تھا۔اب تو اتنا سائنسی مواد انگریزی میں تیار ہو چکا ہے جس کا اردو میں منتقل کرنا ہی ناممکن ہے۔ یہ عذربھی ذہنی مرعوبیت ،کم ہمّتی اور کام نہ کرنے کے داعیے کی عکاسی کرتا ہے۔قوموں کو ترقی و خوشحالی اور آزادی سے ہم کنا ر ہونے کے لیے کسی نہ کسی وقت ایسا فیصلہ کرنا ہی پڑتا ہے۔جن قوموں نے سائنسی تحقیق وتخلیق کے عمل کوبام عروج تک پہنچایا آخر انہوں نے بھی کسی وقت سائنس کو اپنی زبانوں کے سانچے میں ڈھالنے کے کام کا آغاز کیا ہی ہو گا۔اور یہ کام کرنے سے پہلے ان کے ماہرین تعلیم نے خوب غورو خوض بھی کیا ہو گا۔اب پوری دنیاان کے اس فیصلے کے نتائج کو دیکھ چکی ہے۔اور یہ فیصلہ نہ کرنے والوں کی حالت زار بھی سب کے سامنے ہے۔پھر اس عذر لنگ کی کیا حقیقت باقی رہ جاتی ہے؟جس ملک نے بھی یہ فیصلہ کیا اس کے تیس چالیس سال بعد اس فیصلے کی برکات و نتائج عوام ا لنّاس کے سامنے آنا شروع ہوگئے اور جنہوں نے یہ فیصلہ نہیں کیا ان کی حالت اتنے عرصے میں بد سے بد تر ہوتی گئی۔پھر اب مزید کس نئے تجربے کی ضرورت باقی ہے؟بس اک خوف و دہشت اور عدم اعتمادی کی فضا ہے جو ہمیں اپنی زبان میں سائنس کا کام نہیں کرنے دیتی۔اور یہ فضا ان جیسے مرعوب ذہنوں ہی کی پیدا کردہ ہے ۔جس کی بنیاد پر نہ تو خود یہ کوئی تحقیقی کام کرتے ہیں اور نہ ہی کسی دوسرے کو کرتا دیکھ سکتے ہیں۔ناچیز نے خود مقتدرہ قومی زبان کی شاہکار قومی انگریزی اردو لغت جس نے سائنسی تراجم کے کام کو انتہائی آسان کردیا ہے،پر کچھ نام نہاد سکالروں کو تنقید کرتے سنا ہے۔ان لوگوں کا علمی پایہ ہے کہ یہ خود تو کچھ لکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے مگر جن لوگوں نے اپنی زندگیاں اس تحقیقی کام میں لگا دی ہیں ان کو ہدف تنقید بنا تے ہیں ۔ایسا کرکے دراصل یہ اپنی اہلیت کو خود ہی مشکوک بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔میں نے خود ایک سائنسی تربیتی پروگرام میں ایک زیر بحث مسئلے پر مقتدرہ قومی زبان کا نا م لے لیا۔ ہمارے سہولت کار(facilitator ) نے جھٹ سے فرما دیا کہ یہ مقتدرہ کا تو لفظ ہی بہت مشکل ہے۔آسانی سے زبان پر ہی نہیں چڑھتا۔میں نے عرض کیا کہ جناب المقتدر تو خدا کے ننانوے ناموں میں سے ایک نام ہے اور یہ لفظ اقتدار سے ماخو ذ ہے، قرآن میں اس وزن کے بے شمار الفاظ موجود ہیں جن کو ان پڑھ بھی پڑھنا سیکھ جاتے ہیں ۔خدا نخواستہ آپ کے لیے یہ لفظ کیوں مشکل ہو گیا؟اس پر انہوں نے مجھے کچھ جواب تو نہیں دیا مگر اندرہی اندر سٹپٹا کرضرور رہ گئے۔تومیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس مشکل پسندی کے مصنوعی اور جعلی تصور کو ذہنوں سے نکالنا بہت ضروری ہے۔اور فی الفور تمام سظح کے سائنسی نصاب کو اردو زبان کے قالب میں ڈھال کر عملی طور پر رائج کرنے کی ضرورت ہے۔اچھے کام کے آغاز کا کوئی وقت نہیں ہوتا ۔جتنی جلدی آغاز ہو جائے اتنی ہی جلدی فوائدو برکات نظر آنا شروع ہو جائیں گی ۔ایک غلطی جو ہم گذشتہ پچاس سال سے کرتے چلے آرہے ہیں۔کیا اس غلطی کو ہمیشہ دہرانے کا ہم نے عزم صمیم کر رکھا ہے؟کیا ہمیشہ اپنے آپ کو سنبھالہ دینے کی جدوجہد کی منصوبہ بندی سے اعراض کرتے رہیں گے؟یاد رکھیں جتنی چا ہے کتابیں مفت تقسیم کردیں۔جتنے مرضی تو انا پاکستان کے منصوبے شروع کرلیں ۔جتنے مرضی پی ایچ ڈی پیدا کرنے کے منصوبے بنا لیں۔ اس وقت تک خاطر خوہ نتائج برآمد نہیں ہو سکتے جب تک سائنسی تعلیم کو لوگوں کے لیے آسان نہیں بنادیا جاتا۔اور تعلیم کو آسان بنانے کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ ذریعہء تعلیم کو اردو کردیا جائے اور اس طرح کی غیر فطری تبدیلیوں سے احتراز کیا جائے جوسائنسی تعلیم کے حصول میں رکاوٹیں پیدا کرنے کا سبب ہیں۔

پانچواں عذر لنگ اور اس کا حشر۔کہتے ہیں کہ اردو بھی کوئی زبان ہے ؟اسے سیکھنے کی اب ضرورت نہیں ہے ۔بس جو انگریزی سیکھ جاتا ہے وہی علم حاصل کر سکتا ہے۔بعض غلام ابن غلام تویہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ انگریزی اردو سے آسان زبان ہے۔میری ان سے گذارش ہے کہ انگریزوں کا نرسری میں پڑھنے والا بچہ ہمارے ایم اے انگلش سے کئی گنا بہتر انگریزی بولتا اور سمجھتا ہے۔انگریزوں کا ان پڑھ بھی انگریزی ہی بولتا ہے۔کیا اس کے انگریزی بولنے کی بنیاد پر اسے پڑھا لکھا کہا جا سکتا ہے؟ انگریزی بھی باقی زبانوں کی طرح ایک زبان ہے ۔یہ سمجھنا کہ جو انگریزی بولتا ہے علم اور مہارت فقط اسی کے پاس ہے ،کس قدر احمقانہ سی بات ہے ۔یہ لوگ در اصل اپنی احساس کمتری اورعلمی کمزوری کو چھپانے کے لیے اس قبیل کے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔کبھی اردو کو گھٹیا زبان ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔کبھی اسے غیر سائنسی زبان کے طور پر لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ خود ان میں سے اکثر کا حال یہ ہے کہ کسی لیکچر کے شروع میں چند منٹ رٹی رٹّائی انگریزی بول کر شرکاء کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔بعد ازاں ان کی انگریزی بھی ختم ہو جاتی ہے اور علم بھی۔ پھر آئیں بائیں شائیں کے ساتھ اپنی علمیت کا بھانڈا خود ہی پھوڑ دیتے ہیں ۔ایک خول ہے جو انہوں نے اپنے اوپر چڑھایا ہوا ہے۔جن لوگوں نے اس خول کو اتار پھینکا ہے ۔انہوں نے اپنے تمام تر نصابات کو اپنی قومی زبانوں میں ڈھال لیا ہے۔اور جو ابھی تک اس خول میں بند ہیں وہ ابھی تک غلامی کا دم بھرتے ہیں ۔اور دوسروں کو بھی غلامی کا سبق پڑھاتے ہیں۔ دیگر ترقی یافتہ ممالک نے انگریزی سے مرعوب ہو کر اپنا نصاب انگریزی میں رائج نہیں کیا ۔کیا ان کے لیے انگریزی بین الا اقوامی زبان نہیں ہے؟کیا ان کے انگریز ممالک کے ساتھ تجارتی اور سفارتی روابط نہیں ہیں؟بین الاقوامی زبان کے نام پر انہوں نے تو اپنے سائنسی نصابات کو اپنے تعلیمی اداروں میں انگریزی میں رائج نہیں کیا۔ہاں بعض ترقی یافتہ ممالک میں انگریز ی بطور مضمون پڑھائی جاتی ہے نہ کہ ذریعہ تعلیم کے طور پر اختیار کی گئی ہے ۔کیا ان کی یہ روش ان نام نہاد جدّت پسندوں کے لیے قابل تقلید نہیں ہے؟یہ لوگ سوچتے کیوں نہیں؟کیوں اپنے آپ کو اندھے ،بہرے اور گونگے ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں؟ان کے دماغ کیوں کوئی دلیل قبول نہیں کرتے؟ کیوں یہ ایسا کام کرتے ہیں جو انسانوں اور قوموں کے وقار کے منافی ہے؟ ۔قومی زبان ماں کی طرح ہوتی ہے۔ اور ماں کی بے حرمتی کرنے والے اپنا مقام و مرتبہ خود متعین کر سکتے ہیں۔دوسری زبانوں سے سیکھا تو جا سکتا ہے مگر قومی زبان سے نفرت کی قیمت پرنہیں۔میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ اگر تمام سطح کے نصابات کو اردو زبان کے اندر رائج کر دیا جائے تو صرف چالیس سال کے عرصے میں اردو بھی بین الاقوامی زبان کا درجہ حاصل کر سکتی ہے۔سرکاری سر پرستی کے بغیر بھی اردو ایک بہت بڑی زبان ہے۔جو برّصغیر پاک و ہند کے علاوہ مشرق وسطیٰ کی بھی ایک بڑی زبان بن چکی ہے۔ کم و بیش دنیا کے ہر خطے میں بولی جاتی ہے۔ہندی بھی دراصل ۹۸ فیصد اردو ہی ہے۔بھارتی فلمیں پاکستان میں ان پڑھ بھی دیکھتے اور سمجھتے ہیں۔اردو جاپانی سے ،جرمن سے، فرانسیسی سے ،ہسپانوی سے اور بہت سے دیگر ترقی یافتہ ممالک کی زبانوں کئی ٰ گنابڑی زبان ہے ۔یہ چھوٹی چھوٹی زبانیں بولنے والے ملک تو اپنے تمام سطح کے سائنسی و غیر سائنسی نصابات کو اپنی زبانوں کے سانچے میں ڈھال سکتے ہیں اور اور سائنس پر لاکھوں کتابیں لکھ سکتے ہیں ۔ہم کیوں نہیں لکھ سکتے ؟بس فرق صرف یہ ہے کہ انہوں نے ایٹم بم کھا کراورلاکھوں جانیں گنوا کر بھی ذہنی غلامی قبول نہیں کی ۔ ایک ہم ہیں کہ یہ پٹا اپنے گلے سے اتارنے کے لیے ماریں کھانے کے بعد بھی تیار نہیں ہیں۔انشاء اللہ ان کی ایسی ہی بے وقوفیوں اور حماقتوں کے ردعمل میں ایک عظیم ا لشان سائنسی انقلاب برپا ہو گا۔اور اپنی قومی زبان میں ہوگا۔ایجادات کے مقفّل دروازے وا ہونگے۔زنگ آلود دماغوں کے نیم مردہ خلیے پھر سے نئی زندگی حاصل کریں گے اور سوچنے سمجھنے کے قابل بن جائیں گے۔

کیا اردو واقعی انگریزی سے مشکل ہے؟ذرا مختلف سطح کے امتحانات کے گزٹ اٹھا کر دیکھیئے ۔اردو میں پاس ہونے والوں کی شرح تقریباً سو فیصد کے برابر ہوتی ہے اور انگریزی میں پاس ہونے والوں کی شرح اس کے مقابلے میں بیس فیصد سے زیادہ نہیں ہوتی۔ٹیوشن کس مضمون کی زیادہ پڑھی جاتی ہے؟اردو کی یا انگریزی کی؟ملک میں ہر سال ہزاروں طلباء وطالبات ایسے ہوتے ہیں جو انگریزی کی وجہ سے میٹرک، ایف اے۔ اور بی اے ۔نہیں کر سکتے۔ایک ایم اے انگلش آدمی انگریزی اخبار کوبغیر ڈکشنری کے ایک ہی نشست میں نہیں پڑھ سکتا۔مگر اردو اخبار کو تھوڑا پڑھا لکھا آدمی بھی با آسانی پڑھ سکتا ہے۔گلی گلی محلّے محلّے کس مضمون کی اکیڈمیاں بنی ہوئی ہیں؟کسی انگریز کو اس کے اپنے لہجے میں بولتے ہوئے بڑے بڑے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بھی نہیں سمجھ سکتے۔مگر اردو میں ہونے والی گفتگو کو ان پڑھ بھی سمجھ لیتے ہیں؟بولو اہل پاکستان کے لیے کون سی زبان مشکل ہے؟اردو یا انگریزی؟اس میں زیادہ دلائل دینے کی ضرورت نہیں ہے ۔کیونکہ ایسی بات وہی کرتا ہے جس کا ذہنی توازن مسلسل غلامی کے ماحول میں رہ رہ کر بگڑ چکا ہو۔جس میں سوچنے اور غورو فکر کی صلاحیت دم توڑ چکی ہو۔

چھٹا عذر لنگ اور اس کا محاکمہ۔ بعض افراد یہ کہتے ہیں کہ دیکھیں جی ابھی تک تمام سائنس کی انگریزی اصطلاحات کی متبادل اردو اصطلاحات تیار نہیں کی جا سکی ہیں۔اس لیے اردو میں سائنس کا نصاب تیار کرنا مشکل ہے۔یہ اعتراض بھی محض ایک وہم ہے۔اس کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔موجودہ تحریف شدہ نصاب سے پہلے کا نصاب انتہائی جامع،آسان فہم اور مکمل اردو اصطلاحات کے ساتھ تھا۔یہ بات یاد رکھیں کہ پہلی جماعت سے ایم ایس سی تک سائنسی مضامین کی تمام اصطلاحات کا نوے فیصد میٹرک تک کے مضامین میں موجود ہے ۔باقی صرف دس فیصد اصطلاحات ہیں جو ایف ایس سے ایم ایس سی تک استعمال میں آتی ہیں۔ان کی بھی اردو زبان میں اصطلاحات و مترادفات موجود ہیں۔میں طبیعات کا ایک ادنیٰ سا طالب علم ہونے کے ناطے دعویٰ کرتا ہوں کی طبیعات کی تمام تر اصطلاحات اردو زبان کے اندر موجود ہیں ۔سوائے ان ایجادات کے جن کے نام سائنس دانوں نے اپنے نام کے ساتھ منسوب کر کے رکھے۔ان ایجادات کے نام تو کوئی بھی ملک تبدیل نہیں کرتا۔بہت سی جاپان ،جرمنی،فرانس اور کئی دیگر ممالک کی ایجاد کردہ اشیاء کے نام انگریزی میں بھی وہی ہیں جو ان ملکوں کے سائنس دانوں نے رکھے۔بہر حال یہ اور اس طرح کی دیگر باتیں اپنی قومی زبان میں سائنس کا کام نہ کرنے کے بہانے ہیں جو انگریزی کے چند فقرے رٹ کر دوسروں کو مرعوب کرنے والے افراد کی طرف سے پیش کیے جاتے ہیں۔

میں سائنسی نصاب کی اس تبدیلی کو پاکستان پر ایٹم بم سے بھی بڑا حملہ تصور کرتا ہوں۔ایٹم بم کھا کر قومیں سنبھل جاتی ہیں مگر نصابی بم انکو صدیوں تک مفلوج کر کے رکھ دیتا ہے۔ ۔پھر واپسی کا سفر اتنا طویل ہو جاتا ہے کہ انسانی سروں کی فصلیں بھی اسے مختصر نہیں کر پاتیں۔اے ارباب اختیار خدا کے لیے نسل نو پر اتنا بڑا ظلم نہ کرو ۔اسے آزادی کا درس دینے کی بجائے غلامی کی بیڑیوں میں مت جکڑو ۔اس کے پاؤں کے نیچے سے زمین مت کھینچو ۔اسے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے دو۔اتنی بڑی غلطی نہ کرو جس کی سزاجتماعی خود کشی کے مترادف ہو۔واپس مڑنے کی کوئی نہ کوئی پگڈنڈی ملک و قوم کے دشمنوں سے آزاد بھی رکھو۔ایک محب وطن معلّم کے دل کے درد کو سمجھو۔اس کے آنسووں سے مس کرکے صفحہء قرطاس پر گرنے والے الفاظ و فقرات کی ترشی کے مفہوم کا دل و دماغ کی آنکھیں کھول کر ادراک کرو۔معصوم نونہالان وطن کو اذیّت سے دوچار کر کے ان سے بد دعائیں نہ لو۔اس ملک کے نظام تعلیم کو تباہ کر کے جسے تم خوش کرنا چاہتے ہو وہ کبھی خوش نہیں ہوگا ۔تم غلط فہمی میں مبتلا ہو ۔تم زہر کو تریاق سمجھ رہے ہو۔کیوں ایسے لوگوں کو وہ فرائض سونپتے ہو جن کے وہ اہل نہیں ہیں؟ایک پرائمری ٹیچر کو بھرتی کرنے کے لیے تو بی ایڈ اور ایم ایڈ جیسی پیشہ وارانہ ڈگریاں مانگتے ہو مگر اس سے بھی مشکل کام یعنی نصاب سازی کے لیے ایسی کسی بھی اہلیت و قابلیت کا پاس نہیں کرتے ہو ؟۔خدا کا خوف کرو ۔کیوں ملک کے تعلیمی ،نصابی اور امتحانی اداروں کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہو ۔مانا کہ تم کوبندوقوں،گولیوں اور لاٹھیوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔اے صدر پاکستان،وزیر اعظم پاکستان،چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ،وفاقی وزیر تعلیم،صوبائی وزرائے تعلیم،ارکان قومی و صوبائی اسمبلی،حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے نمائندوں،ٹیکسٹ بک بورڈ کے افسروں اور ماتحتوں،موجودہ خطوط پر سائنس کا نصاب تیار کرنے کے احکامات جاری کرنے والوں اور ان احکامات پر عمل کرنے والوں،پاکستان کی تمام یونیورسٹیوں کے تمام پروفیسروں اور ڈاکٹروں،کالجوں کے تمام لیکچراروں اور پروفیسروں،ہائر سیکنڈری سکولوں میں پڑھانے والے ماہرین مضامین،سائنس ٹیچرز،تمام ایس ایس ٹی،ای ایس ٹی اور پی ٹی سی ٹیچرز،انگلش ٹیچرز،ایجو کیٹرز،پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے سربراہان اور اساتذہ ،اساتذہ کو تربیت دینے والے صدر مربّین(master trainers)،اخبارات اورسائل وجرائد شائع کرنے والے مدیران ، مصنّفین اور کالم نگار،شعراء و ادباء،اردو زبان کے ماہرین اور اس سے محبت کرنے والوں، ملک کے تمام تعلیم یافتہ ا فرادالغرض اس دنیا میں رہنے والے ہر شخص کو میں کھلا چیلنج کرتا ہوں کہ وہ سائنس کے اس نصاب کو نصابی اصول وضوابط کے مطابق ثابت کر ے۔

کوئی ہے جو میرے چیلنج کو قبول کرے؟
Ishtiaq Ahmad
About the Author: Ishtiaq Ahmad Read More Articles by Ishtiaq Ahmad: 52 Articles with 168453 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.