’گدھے‘کا دخل ادب میں بھی

انسانی معاشرہ میں گدھو ں کا ذکر بڑی ذمہ داری کے ساتھ لیا جاتا رہا ہے کیونکہ بغیر گدھوں کے انسان کا کام بھی نہیں چل رہا تھا۔انسان! وہ چاہے جس قماش کا ہو اُسے پہننے کے لیے کپڑوں کی ضرورت رہتی ہے۔کپڑے اگر ہیں توان کو دھلانے کے لیے دھوبی کی ضرورت ہوگی اور دھوبی کا کام بغیر گدھے کے نہیں چل سکتا ۔کمہار بھی گدھا رکھتا ہے، لکڑہارے کا کام بھی بغیر گدھے کے نہیں چلتا ۔شہروں میں تنگ گلیوں میں عمارتی سامان ڈھونے کا کام گدھے سے ہی لیا جاتا ہے۔پہاڑی علاقوں میں بھی گدھوں سے پورا فائدہ اُٹھایا جاتا ہے۔سیرو تفریح گاہوں پراس کی پوری مدد لی جاتی ہے تھوڑا سا کَن اور ہری گھاس کے عیوض یہ پریواروں کی کفالت کا ذریعہ بنتے ہیں۔

بڑی متانت کے ساتھ اپنے کام سے کام رکھتا ہے ، خالی اوقات میں اگر وہ کھونٹے سے باندھ دیا گیا ہے تو وہ گائے بھینس کی طرح جگالی بھی نہیں کرتا، خاموش کھڑا رہتا ہے یا کبھی کبھی یوں ہی یا کسی کو یاد کر کے رینک لیتا ہے۔بھاری سے بھاری بوجھ اُٹھانا اس کی خوبی ہے اور سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ایک بار اگر کوئی راستہ دیکھ لیتا ہے تو کبھی نہیں بھولتا۔گھوڑے اور گدھے کی اولاد میں خچّر پیدا ہوتا ہے جو گدھے سے کئی گُنا زیادہ بوجھ اُٹھا سکتا ہے۔ایک خوبی یہ بھی ہے کہ قیامت تک اسکی نسل ختم نہیں ہوگی کیونکہ مسیح الذلالت یعنی دجّال کی یہ سواری گدھا بنے گا۔ ویسے یہ حضرت عیسیٰ کی سواری میں بھی رہا ہے حلانکہ پیغمبر کی سواری میں رہنے کے باوجود بھی یہ گدھا ہی تھا۔ اُس دور میں بڑے بڑے راھب اور پادری بھی گدھے کی سواری کو پسندکیا کرتے تھے۔

بہر حال پانچ ہزار سالوں سے یہ انسان کو اور اس کے سامان کو ڈھو رہا ہے اور دجّال کو بھی ڈھوئے گا۔دنیا بھر میں اس کی ۱۸۹؍ نسلیں بتائی جاتی ہیں۔چین میں ان کی آبادی سب سے زیادہ ہے۔ان کی اوسطاً عمر۴۰ سے ۵۰ سال تک رہتی ہے۔بدکنے والے گھوڑوں کو گدھوں کے ساتھ رکھنے پران کا بدکنا پن ختم ہو جاتا ہے۔گدھی کا دودھ بیمار بچوں کے لیے بہت فائدے مند ہوتا ہے۔اس کے دودھ میں گائے کے دودھ سے زیادہ پروٹین اور شکر ہوتی ہے اور چربی کم ہوتی ہے۔

گدھے کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ مئی جون کی گرمیوں میں اس کی صحت اچھی ہو جاتی ہے اور برسات میں یہ دبلا ہو جاتا ہے اس کی وجہ ہے اس کا سادہ لوح ہونا۔بر سات میں جب میدان میں گھاس چرنے کے بعد دیکھتا ہے توساری گھاس موجود پاتا ہے تو اسے بہت صدمہ ہوتا ہے کہ ’ہائے کچھ چر نہیں سکا‘‘ ۔ اور مئی جون میں اس کے برعکس ہوتا ہے۔کہیں کہیں پر گھاس ہوتی ہے جسے چرنے کے بعد خوش ہوتا ہے کہ ’’سب چر لیا‘‘ اور یہی خوش فہمی اس کی صحت پر مثبت اثر ڈالتی ہے۔

اردو ادب میں بھی گدھے کی موجودگی پائی جاتی ہے ۔کرشن چندرنے گدھے پر معرکہ خیزناول’ایک گدھی کی سرگزشت‘ بھی لکھا ہے۔یہ ناول بہت مشہور ہوا تھا۔(پڑھے لکھے)لوگوں کو آج بھی یاد ہے۔شعرا حضرات نے بھی اس بیچارے گدھے کو ادب میں خوب دوڑایا ہے۔مختارؔبدری نے تو اپنی کتاب ’اردو شاعری میں جانور‘میں گدھے کے لیے چار صفحات الاٹ کیے ہیں اور بے شمار کہاوتیں اور اشعار درج کیے ہیں۔’ابن صفی‘ نے بھی اپنی کسی جاسوسی ناول میں لکھا تھ اکہ ’گدھا بیچارہ اپنی شائستگی کے لیے ہی بدنام ہے‘‘۔

’گدھا‘ گالیوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔کرائم برانچ سی․آئی․ڈی․ میں ایک ڈی ․وائی․ ایس․ پی․ ہوا کرتے تھے نام تھا شری رام شرما،کسی تفتیش کے سلسلہ میں کسی انسپکٹرپر ناراض ہوتے تھے تواس طرح کی گالی دیتے تھے کہ وہ بیچارہ اپنی ہنسی بڑی مشکلوں سے روک پاتا تھا۔ وہ کہتے تھے ’اما! تم تو ہم سے بھی بڑے گدھے ہو‘۔

گدھے پر محاورے اور کہاوتیں بھی بہت ہی دلچسپ ہیں مثال کو طور پر حضرت عیسیٰ کا گدھا اگر مکہ میں بھی ہو تو اس کی صورت اور سیرت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔کسی کوسزا دینے میں گدھے کا استعمال کیا جاتا تھا،مجرم کا سر منڈا کر ، چہرے پر سیاہی لگا کر ، جوتوں کا ہار گلے میں ڈال کر گدھے پر الٹا بٹھا کر شہر میں گھمایا جاتا تھا(اس طرح کی حرکتیں آج بھی دیکھنے سننے میں آتی ہیں)۔محاوروں میں ’میری بات گدھے کی لات‘، ’زر ہے تو نر ہے نہیں تو کمہار کا خر ہے‘، ’ کسی کے کہنے سے دھوبی گدھے پر نہیں چڑھتا‘،’کھیت کھائے گدھا مارا جائے جولاہا‘، ’کیا کابل میں گدھے نہیں ہوتے؟‘، ’گدھا گیا تو گیا ، رسّی بھی لے گیا‘، ’گدھا پیٹے گھوڑا نہیں ہوتا‘، ’گھوڑا گدھا ، ایک بھاؤ‘، ’گدھا گیا دُم کی تلاش میں ،کٹا آیا کان‘، ’گدھوں سے ہل چلیں تو بیل کیوں بسائیں‘، ’ گدھے کا کھایا نہ پاپ میں نہ پُن میں‘، ’اﷲ میاں اپنے گدھے کا پنجیری کھالائیں تو کسی کا کیا؟‘، ’ضرورت پر گدھے کوباپ بنانا ہی پڑتا ہے‘، ’گدھے کوگدھا ہی کھُجاتا ہے‘، ’گدھے پر کتابیں لادنے سے وہ عالم نہیں ہو جاتا‘،’خدا مہربان تو گدھا پہلوان‘۔

یہ کچھ کہاوتیں اور محاورے ہیں جنہیں لوگ اپنی باتوں میں استعمال کرتے رہتے ہیں۔ان کے علاوہ بھی بہت سے محاورے ہوں گے جن میں سے کچھ آپ کو بھی معلوم ہوں گے، انہیں بھی آپ اس میں شامل کر سکتے ہیں۔

۲۰۱۷؁ء کے عام انتخاب سے بھی گدھے کا تعلق قائم ہو چکا ہے۔ بھارت کے پانچ صوبوں میں۴؍فروری ۲۰۱۷ ؁ء سے ۹؍مارچ ۲۰۱۷؁ءتک انتخابی ماحول میں پتہ نہیں کیا کیادیکھنے اور سننے کوملا وہ تو خیر الگ بات ہے ، خاص بات تو یہ ہے کہ اس دور میں گدھے کا بھی بڑا بول بالا رہا ۔اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ اور بھارت کے وزیر اعظم کے بیچ میں پتہ نہیں کب گدھے کا رشتہ قائم ہو گیا۔۲۰۱۷؁ء کے اتر پردیش کے اسمبلی انتخاب کے دوران اکھلیش یادو نے امتابھ بچن کو یہ مشورہ دیا تھا کہ ’آپ صدی کے عظیم فن کار ہیں اس لیے ’گجرات کے جنگلی گدہوں کی پبلیسٹی نہ کیا کریں‘۔

اس بات پر مودی جی برا مان گئے حالانکہ وہ صرف دلّی کے نہیں ہیں پورے بھارت کے وزیر اعظم ہیں لیکن ان کو برا لگ گیا اوراتر پردیش کے بہرائچ کی انتخابی ریلی میں گدھا پنجیری کی ایک تقریر بھی کر ڈالی انھوں نے فرمایا’’اکھلیش یادو کو پتہ نہیں کہ گدھا بھی ہمیں پریرنا دیتا ہے اور اگر دِل و دماغ صاف ہو تو پریرنا بھی لے سکتے ہیں۔گدھا اپنے مالک کا وفا دار ہوتا ہے۔ گدھے کا مالک جتنا کام چاہتا ہے، گدھا کرتا ہے۔وہ کم سے کم خرچے والا ہوتا ہے۔بھائیو ں بہنوں!گدھا کتنا ہی بیمار ہو، کتنا ہی خالی پیٹ ہو، کتنا ہی تھکا ہوا ہولیکن اپنے مالک کے لیے کام کرتا رہتا ہے۔اکھلیش جی!یہ سوا سو کروڑ دیش واسی میرے مالک ہیں۔وہ جتنا کام مجھ سے لیتے ہیں میں بغیر چھٹی لیے کرتا ہوں،تھکا ہوں یا بھوکا ہوں ہر حال میں کرتا ہوں۔گدھا کی پیٹھ پر چینی لدی ہے یا چونا لدا ہے گدھا کبھی بھید بھاؤ نہیں کرتا۔دونوں حالت میں اس کے حوصلے بلند رہتے ہیں۔

مودی جی نے بڑی صحیح مثال دی ہے۔گدھے پر کتاب لاد دو تب بھی اس کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑنے والا۔وہ یا تو بوجھا ڈھوئے گا یا ناگواری کی حالت میں ’دو لتّی‘ جھاڑے گا‘۔مودی جی توکبھی گدھے سے پریرنا لیتے ہیں اور تقریر کا ایک موضوع بنا لیتے ہیں، کبھی صفائی مزدوروں سے پریرنا لیتے ہیں اور جھاڑو لیکر پارکوں میں پہنچ جاتے ہیں۔کبھی یوگیوں سے پریرنا لیتے ہیں اورپسینہ پوچھنے کے لیے ترنگے کو انگوچھے کی طرح گلے میں لپیٹ کر یوگا کرنے لگتے ہیں۔کبھی کسی مہاپُرُش سے پریرنا لیں تاکہ ان کو پتہ چلے کہ کتھنی اور کرنی میں فرق نہیں کیا جانا چاہئے ۔جو کہا گیا ہے اس پر عمل کیا جانا چاہئے،’سب کا ساتھ سب کاوکاس‘ ملکی کی ترقی کے نذریہ سے بڑا اچھا نعرہ ہے لیکن عملی طور پر یہ نعرہ جھوٹا اور کھوکھلا ہے۔ کیونکہ مسلمان اور دلت ’سب‘ میں شامل نہیں ہیں۔انہوں نے ان کے ’پرتاڑنا‘ کی ذمہ داری اپنے اُن بھکتو کو دے رکھی ہے جنہوں نے کسی بھی گدھے سے کوئی پریرنا نہیں لی ۔

Shamim Iqbal Khan
About the Author: Shamim Iqbal Khan Read More Articles by Shamim Iqbal Khan: 72 Articles with 67204 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.