نئی شاہراہِ ریشم۔۔۔معاشی ترقی کی معراج

عالمی سیاست و معیشت میں چین تیزی سے ابھررہا ہے۔ اس نے ایک ایسے ملک کی حیثیت اختیارکرلی ہے، جو امریکا اور یورپ کیلئےبہت بڑا خطرہ ہونے کے ساتھ ساتھ کئی ابھرتے ہوئے ممالک کا ساتھی اور معاون بھی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ چین خود بھی مضبوط ترہوتاجائے گا اور کئی دوسرے ابھرتے ہوئے ممالک کو بھی ساتھ ملاکر عالمی سیاست و معیشت پر متصرّف ہوتا چلا جائے گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا چین نے کوئی طویل المیعاد حکمتِ عملی ترتیب دی ہے؟ چین کے دانشور اس نکتے پر بحث کرنے لگے ہیں کہ آگے چل کر دنیا کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالنے کے حوالے سے چینی قائدین نے کیا سوچ رکھا ہے۔ کئی خطے ہیں جو چین کی طرف سے کسی واضح اشارے کے منتظر ہیں۔ اس معاملے میں افریقا کا کردار خاص طور پر اہم ہے۔

۲۰۱۱ء میں پیکنگ یونیورسٹی میں اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز کے ڈین وانگ جیسی نے کہا تھا کہ ہر ملک طویل المیعاد بنیاد پر کامیابی سے ہمکنار رہنے کیلئےایک جامع حکمت عملی اپناتا ہے۔ یہ حکمت اس کے مفادات کے تابع ہوتی ہے۔ تمام ممکنہ خطرات کو ذہن نشین رکھتے ہوئے ان کا بہتر انداز سے سامنا کرنے اور مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے پر توجہ دی جاتی ہے۔ چین نے ایسی کوئی حکمتِ عملی تیار کی ہے یا نہیں، اس سوال پر بحث ہوسکتی ہے۔ اور یہ کہ چین کی قیادت نے اب تک ایسی کوئی دستاویز طشت از بام نہیں کی ہے جسے چین کی عظیم حکمتِ عملی کے طور پر دیکھا اور پرکھا جاسکے۔

تب سے اب تک چین نے علاقائی اور عالمی میدان میں بہت کچھ کیا ہے، جس سے اس کے عزائم کا اندازہ لگانے میں مدد ملتی ہے۔ چینی قیادت کے بیانات اور مباحث سے بھی بہت کچھ کھل کر سامنے آرہا ہے مگر اب تک حکومت کی اعلیٰ ترین سطح سے ایسی کوئی جامع دستاویز پیش نہیں کی گئی جس کی بنیاد پر کہا جاسکے کہ چین دو یا تین عشروں میں مجموعی طور پر کیا کرنا چاہتا ہے، یقیناًیہ ان کی معاشی پالیسی کااہم رازہے تاکہ وقت سے پہلے دشمنوں کوتیاری کاموقع نہ ملے۔

چینی اسکالر بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ملک کو ایسی جامع حکمتِ عملی کی ضرورت ہے، جو مفادات کا تعین کرتی ہو، ملکی سیاست کے تقاضے پورے کرتی ہو اور خارجہ امورکے حوالے سے قیادت کی بھرپور اور بروقت راہ نمائی کرتی ہو۔ بنیادی طور پر، جیسا وانگ جیسی نے بیان کیا، یہ طے کیا جانا ہے کہ چین کی معاشی و عسکری قوت میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کس طور ممکن ہے، سفارت کاری کے میدان میں ملک کس طور آگے بڑھے گا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سیاست، سفارت، معیشت اور عسکری قوت کے حوالے سے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ کس طور فراہم کیا جاسکے گا۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ چین کی بڑھتی ہوئی قوت کے پیش نظر امریکا کیا حکمتِ عملی اختیار کرے گا۔ امریکا کو اس پورے معاملے میں کلیدی نکتے کی حیثیت حاصل ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکا ایک طرف تو چین کا واضح حریف ہے اور دوسری طرف اس کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر بھی ہے۔ دونوں ممالک اگر عالمی سطح پر بالا دستی کے حوالے سے معرکہ آرائی کریں گے تومعاملات بہت الجھیں گے کیونکہ دونوں کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری کے محاذ پر بھی بہت کچھ مشترکہ ہے۔ چین نے امریکا میں بہت بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رکھی ہے اوراس کے علاوہ امریکا،چین کاایک ٹریلین ڈالرسے زائدکا مقروض بھی ہے۔ یہ سب کچھ راتوں رات ختم نہیں کیا جاسکتا۔

چائنا یونیورسٹی آف پولیٹیکل سائنس اینڈ لاکے اسکالرکائی تُو کہتے ہیں کہ عالمی سیاست و معیشت میں کلیدی کردار ادا کرنے کی خواہش کو عملی جامہ پہنانے سے متعلق چینی قیادت کے عزائم کے حوالے سے بحث چین کے دانشوروں نے ۲۰۰۵ء میں شروع کردی تھی۔ ان ۱۳برس میں بہت کچھ سوچا اور کہا گیا ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ چین کیلئےاب اپنے علاقے تک محدود رہنا ممکن نہیں رہا۔ وہ عالمی سیاست، معیشت اور سفارت میں بلند تر مقام اور زیادہ نمایاں کردار چاہتا ہے۔ چین نے عسکری قوت میں اضافے پر توجہ دی ہے۔ یہ سب کچھ بہت بڑے پیمانے پر ہو رہا ہے۔ دنیا بھر میں وہ تمام ممالک چوکنّے ہوگئے ہیں جنہیں چین کے عزائم سے اپنے مفادات خطرے میں پڑتے دکھائی دے رہے ہیں۔ چین کا سب سے بڑا ہتھیار معاشی قوت کا ہے۔ بہت بڑے پیمانے پر پیداوار اور برآمدات نے کئی ممالک کی معیشت کو انتہائی خطرناک صورتِ حال سے دوچار کر رکھا ہے۔پیکنگ یونیورسٹی کے سالانہ جریدے’’ریویو آف چائنازانٹر نیشنل اسٹریٹجی‘‘ سے بھی چین کی طویل المیعاد حکمتِ عملی کے حوالے سے بہت کچھ جاننے کو ملتا ہے۔

۲۰۱۳ء میں شی جن پنگ کے اقتدارمیں آنے کے بعدسے چین اندرونی اوربیرونی سطح پر بہت سی تبدیلیوں سے گزراہے۔ ایسے میں توقع کی جانی چاہیے کہ چینی اسکالر طویل المیعاد حکمتِ عملی کے حوالے سے بحث کو وسعت دیں گے۔ اب اچانک چین نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشئیٹیو (بی آر آئی) شروع کیا ہے۔ اس کے تحت نئی شاہراہِ ریشم معرضِ وجود میں لائی جا رہی ہے۔ چین پاک اقتصادی راہداری (سی پیک) بھی اسی کا اہم حصہ ہے۔ چین کی نئی جامع حکمتِ عملی میں بحری امور کو بھی خاطر خواہ اہمیت دی گئی ہے۔ چین عالمی بحری راہداریوں میں اپنے لیے کوئی بڑا خطرہ نہیں چاہتا۔ اس کی بحری تجارت اس امر کی متقاضی ہے کہ کوئی بھی قوت راستے میں دیوار کھڑی نہ کرے جس کیلئے پاکستان کی جغرافیائی حیثیت کسی معجزے سے کم نہیں جس کی وجہ سے چین نے دنیامیں معاشی برتری کابین الاقوامی ایجنڈہ ترتیب دیاہے۔

چین کے سامنے سب سے بڑی دیوار امریکا ہے۔ چینی قیادت کو جو کچھ بھی کرنا ہے امریکا کو ذہن نشین رکھتے ہوئے کرنا ہے۔ چینی قیادت بحری معاملات میں وسیع تر کردار چاہتی ہے۔ چین کی بحریہ بھی علاقائی معاملات سے ہٹ کر بحرہند میں بہت کچھ کرنے کا عزم رکھتی ہے۔ کئی ممالک سے چین کے دوستانہ تعلقات ہیں۔ان سے تجارتی روابط بھی ہیں اور چینیوں نے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری بھی کر رکھی ہے۔ ان تمام ممالک کیلئےکسی بھی قسم کا خطرہ ابھرنے کی صورت میں چین کو تیاررہناہے تاکہ انہیں یہ احساس ہو کہ مصیبت کی گھڑی میں چین ان کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کی سکت ہی نہیں رکھتا، دلچسپی بھی لیتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ چین اب بحری معاملات میں زیادہ آگے بڑھنا چاہتا ہے۔ تجارت اورسرمایہ کاری کوزیادہ سے زیادہ وسعت دے کر چین اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کی خاطر بحری قوت میں اضافے کا پابند ہے۔
چین کا معاملہ یہ ہے کہ اس کی ترقی کا سفر خاموش رہا ہے۔ اس نے اپنی معاشی قوت میں اضافے کاسفراس طورجاری رکھا کہ کسی کوکانوں کان خبر نہ ہوئی۔ ڈینگ ژیاؤ پنگ کے دور میں اس امر کی ضرورت محسوس کی گئی کہ چین کی معاشی قوت میں غیر معمولی اضافے کیلئےکچھ سوچا جائے، طویل المیعاد حکمتِ عملی تیار کی جائے۔ تب تک چینی معاشرہ بند تھا۔ فولادی پردے بہت حد تک پڑے ہوئے تھے۔ باہر کی دنیا کو چین کے بارے میں کچھ زیادہ معلوم نہ تھا۔ ایسے میں لازم تھا کہ جدید دور کے تقاضوں کے مطابق چینی معاشرے کے دروازے کھولے جائیں۔ ڈینگ ژیاؤ پنگ کے دور ہی میں چین کو باقی دنیا سے بہتر مراسم کے قابل بنانے کے بارے میں سوچنے کا آغاز ہوا۔ یہ سب کچھ وقت کا تقاضا تھا۔ چین کیلئےباقی دنیا سے زیادہ لاتعلق رہنا ممکن ہی نہ تھا۔ اس حقیقت کو نظر انداز کرنا بھی ممکن نہیں کہ چین نے عشروں کی محنت کے ذریعے اپنے ہاں ہنر مندوں کی ایک فوج تیار کی تھی۔ یہ لوگ مقدر آزمانے کیلئےکہیں بھی جانے کو تیار اور بے تاب تھے۔ اس کیلئےچینی معاشرے کو کھولنا لازم تھا۔ ڈینگ ژیاؤ پنگ نے البتہ اس نکتے پر زور دیا کہ بین الاقوامی معاملات میں زیادہ گرم جوشی دکھانے کے بجائے مرحلہ وار آگے بڑھا جائے تاکہ اندرون ملک کوئی بڑی خرابی پیدا نہ ہو۔ دنیا بھر میں جو تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں ان کے اثرات چینی معاشرے پر بھی مرتب ہونے لگے تھے۔ لازم تھا کہ لوگوں کی سوچ کنٹرول کرنے کیلئےبین الاقوامی امور میں کچھ مدت کیلئےlow profile کی پالیسی اختیار کی جاتی اور وہ اختیار کی گئی۔

یونیورسٹی آف پنسلوانیا میں سیاسیات کے استاد اور فارن پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (فلاڈیلفیا) میں سینئر فیلو ایوری گولڈ سٹین کہتے ہیں کہ ۱۹۹۰ء کےعشرے کی آمد کے ساتھ ہی چین میں اعلیٰ ترین سطح پر محسوس کیا جانے لگا تھا کہ اب ایک ایسی جامع اور ہمہ گیر حکمتِ عملی تیار کرنا پڑے گی جو اگلے ڈھائی تین عشروں کے حوالے سے اہداف اور مقاصد کا تعین کرے اور اس حوالے سے قوم کو تیار کرنے کی راہ بھی سُجھائے۔ محض معاشی قوت میں اضافے سے ہٹ کر بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت محسوس کی جانے لگی۔ چین جدید ترین علوم کے میدان میں آگے بڑھناچاہتاتھا۔ ملک میں نوجوانوں کی فوج تیارتھی جوبھرپور جوش و جذبے کے ساتھ دنیابھرمیں اپنی صلاحیتوں کالوہا منوانے کیلئےبے تاب تھی۔ چین کے ہنرمند پوری دنیا میں پھیل کرزیادہ سے زیادہ زرمبادلہ کمانا چاہتے تھے تاکہ قومی معیشت قابلِ رشک حد تک مستحکم ہو۔

۱۹۹۰ء کے عشرے کی ابتدا نے چین میں اصلاحات کا عمل بھی شروع کیا۔ عوام نے محسوس کیا کہ حکومت انہیں کچھ دینا چاہتی ہے۔ میڈیا پر عائد پابندیوں کو ہلکا کیا گیا۔ لوگوں کو زیادہ کھل کر زندگی بسر کرنے کے قابل بنانے کا عمل شروع کیا گیا۔ دنیا بھر میں تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں۔ سوویت یونین کی تحلیل سے سرد جنگ بھی ختم ہوئی۔ اس جنگ کے ختم ہونے سے مغرب کی بالا دستی کا نیا دور شروع ہوا۔ امریکا واحد سپر پاور تھا۔ یورپ اس کے ساتھ تھا۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد کی دنیا میں دونوں نے مل کر معیشت، سیاست اور سفارت کے میدان میں خوب فوائد بٹورے۔ عالمی مالیاتی نظام کو اپنی مٹھی میں کرنے کے بعد امریکا اور یورپ نے دنیا بھر میں اپنی مرضی کے فیصلے مسلط کیے اور جن ممالک نے بات ماننے سے انکار کیا اُن پر جنگ مسلط کردی گئی۔ مشرق وسطیٰ کو عدم استحکام سے دوچار رکھنے پر توجہ دی گئی۔ اس کا ایک مقصد تو اس خطے کو ابھرنے سے روکنا تھا اور ضمنی مقصد چین اور دیگر ابھرتی ہوئی قوتوں کو ایک خاص حد تک رکھنا بھی تھا۔

ایوری گولڈسٹین کہتے ہیں کہ چین کیلئےسب سے بڑا چیلنج یہ تھا کہ اس کی ابھرتی ہوئی قوت امریکا اور یورپ کو پریشان نہ کرے اور بھارت کو بھی مشتعل کرنے سے باز رہے۔ وہ بہت خاموشی سے آگے بڑھ رہا تھا۔ علاقائی ممالک میں سرمایا کاری بڑھانے کے حوالے سے اس نے غیر معمولی احتیاط سے کام لیا۔ چینی قیادت جانتی تھی کہ اگر ملک تیزی سے آگےبڑھے گا تو امریکا اور یورپ ملک کر علاقائی اور عالمی دونوں ہی سطح پر مشکلات پیدا کریں گے۔ بھارت جنوبی ایشیا میں چین کاسب سے بڑاحریف رہاہے۔ چین کے عزائم بھانپنے کی صورت میں بھارتی قیادت کے بدکنے کا بھی خطرہ تھا۔چین کیلئےلازم تھا کہ ایسا کوئی اشارا نہ دے جس سے کسی بھی ملک کو خطرات محسوس ہوں۔ چینی قیادت کیلئےیہ سب سے بڑاچیلنج تھا۔

سنگہوا یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل اسٹریٹجک اینڈ ڈیویلپمنٹ اسٹڈیز کے ڈائریکٹر اور CSCAP چائنا نیشنل کمیٹی کے رکن چُو شُو لونگ کہتے ہیں کہ ۱۹۹۷ء میں چینی قیادت نے علاقائی سلامتی کے حوالے سے نئی سوچ اپنائی۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کو بحیرۂ جنوبی چین اور اس سے ملحق سمندر میں من مانی کرنے سے روکنے کیلئےنئی سیکیورٹی ڈاکٹرائن کا اپنانا لازم تھا۔ چین کو ایشیا و بحرالکاہل کیلئےایسا سیکیورٹی کا نظام درکار تھا جو ایک طویل مدت تک کارگر ثابت ہو اور کسی بھی بڑی طاقت کے اثرات سے محفوظ ہو۔

اب تک الگ تھلگ رہنے والے چین نے حالات کے تقاضوں کو محسوس کرتے ہوئے پڑوسیوں سے روابط بہتر بنانا شروع کیے، ایسا کرنا لازم تھا۔ سب سے پہلے اس نے علاقائی سطح پر روابط بہتر بنائے تاکہ آگے چل کر یہی ممالک اس کے بلند تر عزائم سے نہ صرف یہ کہ خوفزدہ نہ ہوں بلکہ اِس کا ساتھ بھی دیں۔ ایک طرف تو چینی قیادت نے جنوب مشرقی ایشیائی ریاستوں کی تنظیم آسیان سے تعلقات بہتر بنانے پر توجہ دی اور دوسری طرف شنگھائی تعاون تنظیم قائم کرکے علاقائی سطح پروسیع تراشتراکِ عمل کی راہ ہموار کی۔ شمالی کوریا کے پیدا کردہ جوہری بحران سے نمٹنے کیلئےچھ فریقی مذاکرات میں بھی چین نے بڑھ چڑھ کرحصہ لیا۔

اکیسویں صدی میں چین نے اب تک معاملات کو بخوبی چلایا ہے اور قدم قدم پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ ایک بڑی طاقت کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں کو اچھی طرح سمجھتا ہے۔ چین نے علاقائی سطح پر روابط مستحکم ہو جانے کے بعد بین الاقوامی سطح پر بھی اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ مصروف رکھنے کا اہتمام کیا ہے۔ اس نے بین الاقوامی اداروں، تنظیموں اور گروپوں میں بھی اپنی موجودگی یقینی بنانے پر خوب توجہ دی ہے۔ ۲۰۰۲ء میں چین کی کمیونسٹ پارٹی کے سیکرٹری جنرل جیانگ ژی من نے کہاتھاکہ چین کو اب اپنی حدود سے نکل کر دوسروں کو اپنانا ہوگا اور انہیں یہ احساس دلانا ہوگا کہ وہ ہر جگہ موجود ہے۔ یہی وہ حالات ہیں جن کی وجہ سے امریکا،افغانستان میں اپنی بدترین شکست وریخت ،جاری ہزیمت اوردنیامیں پاک چین کی بڑھتی ہوئی ممکنہ معاشی برتری سے اس خطے میں اپنی دائمی ناکامی پرمشتعل ہے اورپاکستان پراپنادباؤ بڑھانے کیلئے جہاں بھارت کی پیٹھ ٹھونک رہاہے وہاں اسرائیل کوبھی اس خطے میں اپنے مقاصدکیلئےاستعمال کررہاہے۔

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 350278 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.