بدعت ائمہ اور محدثین کے نزدیک ١٦

(33) علامہ مرتضيٰ حسینی الزبیدی الحنفی رحمۃ اللہ علیہ (1205ھ) :-

علامہ مرتضيٰ زبیدی حنفی معروف ماہر لغت ہیں وہ اپنی شہرہ آفاق لغت ’’تاج العروس من جواہر القاموس‘‘ میں بدعت کی تعریف اور تقسیم نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

42. و قال ابن السکيت : البدعَة : کُلُّ محدثة و في حديثِ قِيامِ رَمَضَانَ (نعمت البدعة هذِه)(1) و قال ابن الأثير البدعة بدعتان : بدعة هدًي، و بدعة ضلال، فما کان في خلاف ما أمر اﷲ به فهو في حيز الذّم والإنکار، وما کان واقعا تحت عموم ما ندب اﷲ إليه و حضَّ عليه أو رسوله فهو في حيز المدح، وما لم يکن له مثال موجود کنوع من الجود والسخاء و فعل المعروف فهو من الأفعال المحمودة، ولا يجوز أن يکون ذلک في خلاف ما ورد الشرع به؛ لأن النبي صلي الله عليه وآله وسلم قد جعل له في ذٰلک ثوابا فقال من سنّ سُنة حسنة کان له أجرها و أجر من عمل بها وقال في ضِدّه ومن سنّ سنة سيّئة کان عليه وزرُها ووِزرُ من عمل بها(2) و ذٰلک إذا کان في خلاف ما أمر اﷲ به ورسوله صلي الله عليه وآله وسلم قال : ومن هذا النوع قول عمر رضی الله عنه : نِعمت البدعة هذه. لمَّا کانت من أفعال الخير وداخلة في حيز المدح سماها بدعة ومدحها؛ لأن النبي صلي الله عليه وآله وسلم لم يسُنَّها لهم، و إنما صلّاها ليالي ثم ترکها، ولم يحافظ عليها، ولا جمع الناس لها، ولا کانت في زمن أبي بکر رضی الله عنه، وإنما عمر رضی الله عنه جمع الناس عليها و ندبهم إليها، فبهذا سمّاها بدعة، وهي علي الحقيقة سنَّة، لقوله صلي الله عليه وآله وسلم (عليکم بسنَّتي و سنَّة الخلفاء الراشدين من بعدي)(3) وقوله صلي الله عليه وآله وسلم (اقتدوا باللذين من بعدي أبي بکر و عمر)(4) و علي هذا التأويل يحمل الحديث الآخر (کل محدثة بدعة) إنما يريد ما خالف أصول الشريعة ولم يوافق السُّنَّة. (5)

’’ابن سِکِّیت نے کہا ہے کہ بدعت ہر نئی چیز کو کہتے ہیں اور جیسا کہ حدیث قیام رمضان میں ’’نعمتِ البدعۃ ھذہ‘‘ ہے اور ابن اثیر نے کہا ہے بدعت کی دو قسمیں ہیں : بدعت ھدی اور بدعت ضلال جو کام اللہ عزوجل کے احکام کے خلاف ہو وہ مذموم اور ممنوع ہے، اور جو کام کسی ایسے عام حکم کا فرد ہو جس کو اللہ تعاليٰ نے مستحب قرار دیا ہو اور اللہ تعاليٰ یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حکم پر برانگیختہ کیا ہو اس کام کا کرنا محمود ہے اور جن کاموں کی مثال پہلے موجود نہ ہو جیسے جود و سخاء کی اقسام اور دوسرے نیک کام، پس وہ اچھے کاموں میںسے ہیں بشرطیکہ وہ خلاف شرع نہ ہوں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے کاموں پر ثواب کی بشارت دی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس شخص نے اچھے کام کی ابتداء کی اس کو اپنا اجر بھی ملے گا اور جو لوگ اس کام کو کریں گے ان کے عمل کا اجر بھی ملے گا جو برے کام کی ابتداء کرے گا اس کے بارے میں فرمایا : جس شخص نے برے کام کی ابتداء کی اس پر اپنی برائی کا وبال بھی ہو گا اور جو اس برائی کو کریں گے ان کا وبال بھی اس پر ہو گا اور یہ اس وقت ہے جب وہ کام اللہ تعاليٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام کے خلاف ہو۔ اور اِسی قسم (یعنی بدعتِ حسنہ) میں سے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ قول ’’نعمت البدعۃ ھذہ‘‘ ہے پس جب کوئی کام افعالِ خیر میں سے ہو اور مقام مدح میں داخل ہو تو اسے (لغوی اعتبار سے) بدعت کہا جائے گا مگر اس کی تحسین کی جائے گی کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس (باجماعت نماز تراویح کے) عمل کو ان کے لئے مسنون قرار نہیں دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چند راتیں اس کو پڑھا پھر (با جماعت پڑھنا) ترک کردیا اور (بعد میں) اس پر محافظت نہ فرمائی اور نہ ہی لوگوں کو اس کے لئے جمع کیا اور بعد میں نہ ہی یہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے دور میں (با جماعت) پڑھی گئی پھر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو اس پر جمع کیا اور ان کو اس کی طرف متوجہ کیا پس اس وجہ سے اس کو بدعت کہا گیا درآں حالیکہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس قول ’’علیکم بسنّتی و سنۃ الخلفاء الراشدین من بعدی‘‘ اور اس قول’’اقتدوا باللذین من بعدی ابی بکر و عمر‘‘ کی وجہ سے حقیقت میں سنت ہے پس اس تاویل کی وجہ سے حدیث ’’کل محدثۃ بدعۃ‘‘ کو اصول شریعت کی مخالفت اور سنت کی عدم موافقت پر محمول کیا جائے گا۔‘‘

1.

1. مالک، المؤطا، باب ما جاء في قيام رمضان، 1 / 114، رقم : 250
2. بيهقي، شعب الايمان، 3 / 177، رقم : 3269
3. سيوطي، تنوير الحوالک شرح مؤطا مالک، 1 / 105، رقم : 250

2.

1. مسلم، الصحيح، 2 : 705، کتاب الزکوٰة، باب الحث علي الصدقه، رقم : 1017
2. نسائي، السنن، 5 : 55، 56، کتاب الزکاة، باب التحريض علي الصدقه، رقم : 2554
3. ابن ماجه، السنن، 1 : 74، مقدمة، باب سن سنة حسنة أو سيئة، رقم : 203
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 357. 359
5. ابن ابي شيبه، المصنف، 2 : 350، رقم : 9803
6. بيهقي، السنن الکبريٰ، 4 : 175، رقم : 7531

3.

1. ابوداؤد، السنن، 4 : 200، کتاب السنة، باب في لزوم السنة، رقم : 4607
2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 44، کتاب العلم، باب ما جاء في الأخذ بالسنة، رقم : 2676
3. ابن ماجه، السنن، مقدمه، باب اتباع السنة الخلفاء الراشدين، 1 : 15، رقم : 42
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 126
5. ابن حبان، الصحيح، 1 : 178، رقم : 5

4.

1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب عن الرسول صلي الله عليه وآله وسلم ، باب مناقب ابي بکر و عمر، 5 / 609، رقم : 3662
2. ابن ماجه، السنن، باب في فضل اصحاب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 / 37، رقم : 97
3. حاکم، المستدرک، 3 / 79، رقم : 4451

5.

مرتضيٰ زبيدي، تاج العروس من جواهر القاموس، 11 : 9

(34) علامہ سید محمد امین ابن عابدین الشامی رحمۃ اللہ علیہ (1252ھ) :-

علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی اپنی کتاب ’’رد المختار علی درالمختار‘‘ میں لفظ ’صاحب بدعۃ‘ کا مفہوم و مراد واضح کرتے ہوئے اور بدعت کی متعدد اقسام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

43. (قوله أي صاحب بدعة) أي محرمة وإلّا فقد تکون واجبة کنصب الأدلة للرد علي أهل الفرق الضالة و تعلم النحو المفهم للکتاب والسنة و مندوبة کإحداث نحو رباط و مدرسة و کل إحسان لم يکن في الصدر الأول و مکروهة کزخرفة المساجد و مباحة کالتوسع بلذيذ المآکل والمشارب و الثياب کما في شرح الجامع الصغير للمناوي عن تهذيب النووي و مثله في الطريقة المحمدية للبرکلي.

’’(قولہ ای صاحب بدعۃ) ان کے قول صاحب بدعت سے مراد بدعت محرمہ ہے اور اگر یہ مراد نہ ہو تو پھر بدعت واجبہ مراد ہے جیسے گمراہ فرقوں کے رد میں دلائل قائم کرنا اور علم النحو کا سیکھنا جو کہ کتاب و سنت کو سمجھانے کا باعث ہے اور اسی طرح بدعت مندوبہ ہوتی ہے جیسے سرحدی چوکیوں، مدارس اور وہ اچھے کام جو پہلے زمانہ میں نہ تھے ان کا ایجاد کرنا وغیرہ اور اسی طرح مساجد کی تزئین کرنا بدعت مکروہ ہے۔ اور اسی طرح لذیذ کھانے مشروبات اور پہننے وغیرہ کی چیزوں میں وسعت اختیار کرنا بدعت مباحہ ہے اور اسی طرح امام مناوی کی ’’جامع الصغیر‘‘ میں، امام نووی کی ’’تہذیب‘‘ میں اور امام برکلی کی ’’الطریقہ المحمدیہ‘‘ میں بھی ایسے ہی درج ہے۔

ابن عابدين شامي، رد المحتار علي درالمختار، 1 : 414

(35) شیخ محمد بن علی بن محمد الشوکانی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 1255ھ)

یمن کے معروف غیر مقلد عالم شیخ شوکانی حدیث عمر ’’نعمت البدعۃ ھذہ‘‘ کے ذیل میں فتح الباری کے حوالے سے اقسام بدعت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

44. البدعة أصلها ما أحدث علي غير مثال سابق و تطلق في الشرع علي مقابلة السنة فتکون مذمومة والتحقيق إنها إن کانت مما يندرج تحت مستحسن في الشرع فهي حسنة وإن کانت مما يندرج تحت مستقبح في الشرع فهي مستقبحة و إلَّا فهي من قسم المباح و قد تنقسم إلي الأحکام الخمسة.

’’لغت میں بدعت اس کام کو کہتے ہیں جس کی پہلے کوئی مثال نہ ہو اور اصطلاح شرع میں سنت کے مقابلہ میں بدعت کا اطلاق ہوتا ہے اس لیے یہ مذموم ہے اور تحقیق یہ ہے کہ بدعت اگر کسی ایسے اصول کے تحت داخل ہے جو شریعت میں مستحسن ہے تو یہ بدعت حسنہ ہے اور اگر ایسے اصول کے تحت داخل ہے جو شریعت میں قبیح ہے تو یہ بدعت سیئہ ہے ورنہ بدعت مباحہ ہے اور بلا شبہ بدعت کی پانچ قسمیں ہیں۔‘‘

شوکاني، نيل الاوطار شرح منتقي الأخبار، 3 : 63

(36) علامہ شہاب الدین سید محمود آلوسی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 1270ھ) :-

ابو الفضل شہاب الدین سید محمود آلوسی بغدادی اپنی تفسیر ’’روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم والسبع المثانی‘‘ میں علامہ نووی کے حوالے سے بدعت کی اقسام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

45. و تفصيل الکلام في البدعة ما ذکره الإمام محي الدين النووي في شرح صحيح مسلم. قال العلماء : البدعة خمسة أقسام واجبة، و مندوبة، و محرمة، و مکروهة، ومباحة فمن الواجبة تعلم أدلة المتکلمين للرد علي الملاحدة والمبتدعين و شبه ذلک، ومن المندوبة تصنيف کتب العلم وبناء المدارس والربط و غير ذلک، ومن المباحة التبسط في ألوان الأطعمة و غير ذلک، والحرام والمکروه ظاهران، فعلم أن قوله صلي الله عليه وآله وسلم (کل بدعة ضلالة)(1) من العام المخصوص.

و قال صاحب جامع الاصول : الابتداع من المخلوقين إن کان في خلاف من أمر اﷲ تعالي به و رسوله صلي الله عليه وآله وسلم فهو في حيز الذم والانکار وإن کان واقعاً تحت عموم ما ندب اﷲ تعالي إليه و حض عليه أو رسوله صلي الله عليه وآله وسلم فهو في حيز المدح وإن لم يکن مثاله موجوداً کنوع من الجود والسخاء و فعل المعروف، و يعضد ذلک قول عمر بن الخطاب رضي الله عنه في صلاة التراويح : نعمت البدعة هذه. (2)

1.

1. ابوداؤد، السنن، 4 : 200، کتاب السنة، باب في لزوم السنة، رقم : 4607
2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 44، کتاب العلم، باب ما جاء في الأخذ بالسنة، رقم : 2676
3. ابن ماجه، السنن، مقدمه، باب اتباع السنة الخلفاء الراشدين، 1 : 15، رقم : 42
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 126
5. بيهقي، شعب الايمان، 6 : 67، رقم : 7516
6. حاکم، المستدرک، 1 : 174، رقم : 329

2.

آلوسي، روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع المثاني، 14 : 192

’’بدعت کي تفصیلی بحث امام محی الدین النووی نے اپنی کتاب شرح صحیح مسلم میں کی ہے اور دیگر علماء نے کہا ہے بدعت کی پانچ اقسام بدعتِ واجبہ، بدعتِ مستحسبۃ، بدعتِ محرمۃ، بدعتِ مکروھۃ اور بدعتِ مباحۃ ہیں۔ بدعتِ واجب میں سے یہ ہے کہ ملحدین، مبتدعین اور اس جیسے دیگر شبہات کو رد کرنے کے لیے علم الکلام کا حاصل کرنا۔ اور بدعت مستحب کی دلیل یہ ہے کہ کوئی علمی کتاب تصنیف کرنا، مدرسے بنانا، سرائے یا اس جیسی دیگر چیزیں بنانا اس میں شامل ہے اور بدعتِ مباحۃ جیسے رنگ برنگے کھانے اور اس طرح کی چیزوں میں اضافہ وغیرہ جبکہ حرام اور مکروہ دونوں واضح ہیں۔ پس یہ جان لینا چاہئے کہ حضور علیہ السلام کے قول ’’کل بدعۃ ضلالۃ‘‘ میں عام سے خاص مراد ہے۔ اور صاحب جامع الاصول فرماتے ہیں کہ بدعات کی چند اقسام ہیں جو کام اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام کے خلاف ہو وہ مذموم اور ممنوع ہے اور جو کام کسی ایسے عام حکم کا فرد ہو جس کو اللہ تعاليٰ نے مستحب قرار دیا ہو یا اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حکم پر برانگیختہ کیا ہو اس کام کا کرنا محمود ہے اور اگر کسی (کام) کی مثال پہلے موجود نہ ہو جیسے جود و سخا کی اقسام اور دوسرے نیک کام اور جس طرح صلاۃ التراویح میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قول سے تقویت ملتی ہے کہ یہ کتنی اچھی بدعت ہے۔‘‘

جاری ہے---
Mohammad Adeel
About the Author: Mohammad Adeel Read More Articles by Mohammad Adeel: 97 Articles with 93543 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.