بدعت ائمہ اور محدثین کے نزدیک ١٥

(29) اِمام محمد عبدالرؤوف زین الدین المناوی الشافعی رحمۃ اللہ علیہ (1031ھ) :-

امام محمد عبدالرؤوف المناوی اپنی کتاب ’’فیض القدیر شرح الجامع الصغیر‘‘ میں بدعت کی تقسیم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

38. المراد بالبدعة هنا اعتقاد مذهب القدرية أو الجبريه أو المرجئه أو المجسمة و نحوهم فإن البدعة خمسة أنواع وهي هذه واجبة و هي نصب أدلة المتکلمين للرد علي هؤلاء و تعلم النحو الذي به يفهم الکتاب والسنة و نحو ذلک و مندوبة کإحداث نحو رباط و مدرسة وکل إحسان لم يعهد في الصدر الأول و مکروهة کزخرفة مسجد و تزويق مصحف و مباحة کالمصافحة عقب صبح و عصر و توسع في لذيذ مأکل و مشرب و ملبس و مسکن و لبس طيلسان و توسيع أکمام ذکره النووي في تهذيبه.

’’بدعت سے مراد مذہب قدریہ، جبریہ، مرجئہ، مجسمہ اور دیگر مذاہب باطلہ کے عقائد ہیں۔ بے شک بدعت کی پانچ اقسام ہیں اور وہ یہ ہیں پہلی بدعت واجبہ ہے اور وہ یہ کہ ان تمام مذاہب کو رد کرنے کے لئے متکلمین کے دلائل پیش کرنا اور اسی طرح علم نحو کا سیکھنا تاکہ قرآن و سنت کو سمجھا جا سکے اور اس جیسے دیگر علوم کا حاصل کرنا بدعت واجبہ میں سے ہے اور اسی طرح سرائے اور مدارس وغیرہ بنانا اور ہر اچھا کام جو کہ زمانہ اول میں نہ تھا اسے کرنا بدعت مستحبہ میں شامل ہے اور اسی طرح مسجد کی تزئین اور قرآن مجید کے اوراق کو منقش کرنا بدعت مکروھہ میں شامل ہے اور اسی طرح (نماز) فجر اور عصر کے بعد مصافحہ کرنا اور لذیذ کھانے، پینے، پہننے، رہنے اور سبز چادر استعمال کرنے میں توسیع کرنا اور آستینوں کا کھلا رکھنا بدعت مباحہ میں سے ہے۔ اس کو امام نووی نے اپنی تہذیب میں بیان کیا ہے۔‘‘

مناوي، فيض القدير شرح الجامع الصغير، 1 : 439

(30) شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 1052 ھ) :-

شیخ عبدالحق محدث دہلوی اپنی کتاب ’’اشعۃ اللمعات‘‘ میں بدعت کی اقسام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

39. بعض بدعتہا ست کہ واجب است چنانچہ تعلم و تعلیم صرف و نحو کہ بداں معرفت آیات و احادیث حاصل گردد و حفظ غرائب کتاب و سنت و دیگر چیز ہائیکہ حفظ دین وملت برآں موقوف بود، و بعض مستحسن و مستحب مثل بنائے رباطہا و مدرسہا، وبعض مکروہ مانند نقش و نگار کردن مساجد و مصاحف بقول بعض و بٍعض مباح مثل فراخی در طعامہائے لذیذہ و لباسہاے فاخرہ بشرطیکہ حلال باشند و باعث طغیان و تکبر و مفاخرت نشوند، و مباحات دیگر کہ در زمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبودند چنانکہ بیری و غربال و مانند آن، و بعض حرام چنانکہ مذاہب اہل بدع و اہو ابر خلاف سنت و جماعت و انچہ خلفاے راشدین کردہ باشند۔

’’بعض بدعتیں ایسی ہیں جو کہ واجب ہیں مثلاً علمِ صرف و نحو کا سیکھنا اور سکھانا کہ ان کے ذریعے آیات و احادیث کے معانی کی صحیح پہچان ہوتی ہے، اسی طرح کتاب و سنت کے غرائب اور دوسری بہت سی چیزوں کو حفظ کرنا جن پر دین و ملت کی حفاظت موقوف ہے۔ اور کچھ بدعات مستحسن اور مستحب ہیں جیسے سرائے اور دینی مدرسے تعمیر کرنا، اور بعض بدعات بعض علماء کے نزدیک مکروہ ہیں جیسے مساجد اور قرآن حکیم کی آرائش و زیبائش کرنا۔ بعض بدعات مباح ہیں جیسے کھانے پینے کی لذیذ چیزوں اور لباس فاخرہ کی فراوانی کا حسب ضرورت استعمال، لیکن شرط یہ ہے کہ حلال ہو اور سرکشی، تکبر و رعونت اورفخر کا باعث نہ ہو، اور دوسری ایسی مباحات جوکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں نہ تھیں جیسے کہ آٹے کو چھلنی سے چھاننا وغیرہ۔ بعض بدعات حرام ہیں ان میں اہل بدعت کے نفسانی خواہشات کی اتباع میں نئے مذاہب ہیں جو سنت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، جماعت اور خلفائے راشدین کے طریقوں کے خلاف ہیں۔

عبدالحق محدث دهلوي، اشعة اللمعات، باب الاعتصام بالکتاب والسنة، 1 : 125

(31) علامہ علاؤ الدین محمد بن علی بن محمد الحصکفی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 1088ھ) :-

علامہ علاؤ الدین محمد حصکفی بھی بدعت کی تقسیم حسنہ اور سیئۃ میں کرتے ہیں لہٰذا اذان کے بعد سلام پڑھنے کو بدعتِ حسنہ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں :

40. التسليم بعد الأذان حدث في ربيع الاخر سنة سبعمائة واحدي و ثمانين في عشاء ليلة الإثنين ثم يوم الجمعة ثم بعد عشر سنين حدث في الکل الا المغرب ثم فيها مرتين وهو بدعة حسنة.

’’اذان کے بعد سلام پڑھنے کي ابتداء سات سو اکیاسی ہجری (781ھ) کے ربیع الآخر میں پیر کی شب عشاء کی اذان سے ہوئی، اس کے بعد جمعہ کے دن اذان کے بعد سلام پڑھا گیا اس کے دس سال بعد مغرب کے سوا تمام نمازوں میں دو مرتبہ سلام پڑھا جانے لگا اور یہ بدعت حسنہ ہے۔‘‘

حصکفي، در مختار علي هامش الرد، 1 : 362

(32) اِمام ابوعبداﷲ محمد بن عبدالباقی الزرقانی المالکی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 1122ھ) :-

اِمام محمد عبدالباقی زرقانی حدیث ’’نعمت البدعۃ ہذہ‘‘ کے ذیل میں بدعت کا مفہوم اور اقسام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

41. سماها بدعة لانه صلي الله عليه وآله وسلم لم يسن الإجتماع لها، و هو لغة ما أحدث علي غير مثال سبق، و تطلق شرعاً علي مقابل السنة و هي مالم يکن في عهده صلي الله عليه وآله وسلم ثم تنقسم إلي الأحکام الخمسة و حديث کل بدعة ضلالة(1) عام مخصوص وقد رغب فيها عمر. (2)

’’باجماعت نماز تراویح کو بدعت سے اس لیے موسوم کیا جاتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے لئے اجتماع سنت قرار نہیں دیا اور لغوی اعتبار سے بدعت اس عمل کو کہتے ہیں جو مثالِ سابق کے بغیر ایجاد کیا گیا ہو اور شرعی طور پر بدعتِ سيّئۃ کو سنت کے مقابلے میں بولا جاتا ہے اور اس سے مراد وہ عمل ہوتا ہے جسے عہدِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نہ کیا گیا ہو پھر بدعت کی پانچ قسمیں بیان کی جاتی ہیں اور حدیث ’’کل بدعۃ ضلالۃ‘‘عام مخصوص ہے اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس (نماز تراویح) کی ترغیب دی ہے۔‘‘

1.

1. ابوداؤد، السنن، 4 : 200، کتاب السنة، باب في لزوم السنة، رقم : 4607
2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 44، کتاب العلم، باب ما جاء في الأخذ بالسنة، رقم : 2676
3. ابن ماجه، السنن، مقدمه، باب اتباع السنة الخلفاء الراشدين، 1 : 15، رقم : 42
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 126

2.

زرقاني، شرح المؤطا، 1 : 238

جاری ہے---
Mohammad Adeel
About the Author: Mohammad Adeel Read More Articles by Mohammad Adeel: 97 Articles with 93546 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.