نوجوانوں کو اقبال ؒ کا شاہین بنانے کی ضرورت

نوجوان طبقہ کسی بھی ملک کی ترقی میں اکائی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر یہ اکائیاں مثبت طرز پر متحد ہو جائیں تو معاشرہ خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر ان کا بہاؤ منفی سمت پھر جائے تو پھر ہر طرف فتنہ و فساد کا طوفان تباہی مچا دیتا ہے۔ نوجوانوں کی مخلصانہ کوششوں سے ہی ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل ہو تی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی قوم نے ترقی کی اعلیٰ منازل کو چھوا ہے یا کوئی ترقیاتی انقلاب رونما ہو اہے تو نوجوان ہی اس کے روح رواں تھے۔ کسی بھی ملک کو جب دشمنوں سے خدشہ ہو ، قومی حمیت کا معاملہ ہو یا اس کی خود مختاری کو خدشات لاحق ہوں تو یہ نوجوان طبقہ ہی ہوتا ہے جو دشمن کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑا ہوجاتا ہے۔ چاہے اس کے لیے اسے اپنی زندگی کا چین و سکون داؤ پر ہی کیوں نہ لگانا پڑے۔تبھی تو اقبالؒ نے کہا تھا کہ
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں

یہی نوجوان کبھی انقلاب کے بازو بن کر ظلم و استبداد کی دیواروں میں دراڑیں ڈالتے نظر آتے ہیں تو کبھی ظالم سامراج کی غلامی کی زنجیروں کو پاؤں تلے روندتے نظر آتے ہیں۔ کبھی ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا دو نیم ہو جاتے ہیں تو کبھی ان کی ہیبت سے پہاڑ سمٹ کر رائی ہونے لگتے ہیں ۔ نوجوان کسی بھی معاشرے کا مستقبل ہوتے ہیں۔ نوجوانوں کی اسی طاقت کو سمجھتے ہوئے اقبالؒ نے برصغیر کے خواب غفلت میں سوئے، غلامی کی زنجیروں میں لپٹے اور اپنی قسمت پر نالاں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے نوجوانوں کو اپنی شاعری سے شاہین بنا دیا تو یہی نوجوان انگریزوں اور ہندؤوں سے اپنا آزاد ملک حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے ۔ صرف حالت جنگ میں نہیں بلکہ امن و امان کے زمانے میں بھی پسماندہ معاشرے کے نوجوانوں نے ہی ہمت دکھائی۔ بیداری کی مہم چلا کر محنت اور تعلیم کو اپنا نصب العین بنایاجس سے ان کا ملک ترقی کی راہوں پر گامزن ہو گیا۔ ہمارے سامنے سب سے بڑی مثال پڑوسی ملک چین کی ہے ۔ کثیر آبادی رکھنے والے اس ملک کو آج دنیا کی مضبوط ترین معاشی قوتیں رکھنے والے ممالک میں سے ایک تسلیم کیا جا رہا ہے۔ جنہوں نے قلیل مدت میں اپنی معیشت کو پروان چڑھایا ہے ۔ چین کے نوجوانوں نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں خاطر خواہ ترقی کی ہے۔

سائنس و ٹیکنالوجی، تعلیم و صنعتی ترقی کسی بھی ملک کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی سی اہمیت رکھتی ہے۔ اب ایک ایسا یونیورسل کلچر تیزی سے فروغ پا رہاہے جس میں جہالت، غربت اور بدعنوانی کے شکار ممالک کے لیے کوئی مقام نہیں۔ ایسے میں ترقی کی منازل طے کرنے کے لیے ہمارے نوجوانوں کو سینہ ٹھوک کے میدان میں اترنا ہو گا ۔ والدین اور اساتذہ پر یہ بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بچوں کی تربیت پر خصوصی توجہ دیں تا کہ آگے چل کر وہ ملک پاکستان کے وقار میں اضافے کا باعث بن سکیں۔ ان میں تعلیم کے حصول کا جنون ہو۔ ان کے افکار و نظریات کو ایسی راہ ملے کہ وہ ارض پاک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔

ترقی کا واحد راستہ تعلیم اور جستجو میں ہے۔ ضروری ہے کہ ہمارے ملک کے نوجوان بھی تعلیم و تحقیق کے میدان میں ترقی یافتہ ممالک کے شانہ بشانہ چلنے کی راہ نکالیں۔ آج کے نوجوانوں میں ایسی بیداری کی لہر جگانے کی ضرورت ہے کہ وہ وقت و حالات کے سامنے سینہ سپر ہوں۔ کیونکہ اب جنگیں میدانوں میں نہیں لڑی جاتیں بلکہ ایک ملک دوسرے ملک کو معاشی شکست سے دوچارکرنے کے لیے پر تول رہا ہوتا ہے۔ اسی حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے ہمارے نوجوانوں کواپنے مستقبل کی ایسی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے کہ وہ پاکستان کے مالیاتی و معاشی شعبے اتنے مضبوط بنائیں کہ وہ کسی بھی سپر پاور کا محتاج نہ رہے۔

آج معاشرے میں پھیلی تفریق و امتیازنوجوانوں پر گہرے اثرات مرتب کررہی ہے۔ مسلسل ناکامی کسی بھی انسان کے اندر منفی رویوں کو اجاگر کرنے کی وجہ بن سکتی ہے۔ نوکری کے حصول میں ناکامی ، معاشی ناہمواریاں، فرقہ ورانہ منافرت، بد عنوانیاں اور ناانصافیاں ایسے اسباب ہیں جو نوجوانوں کو بدظن کرنے اور انہیں مایوسی سے ہمکنار کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ایسے حالات میں نوجوان نفسیاتی عوارض کا شکار ہو جاتا ہے اور ایسا منفی فکر و انداز اپنا لیتا ہے کہ جو نہ صرف دوسروں کے لیے بلکہ اس کے اپنے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ کچھ نوجوان ایسے بھی ہوتے ہیں جو ان سماجی آفتوں کو سہہ سہہ کر بے حسی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ پھر دنیا میں بھلے کچھ بھی ہوتا رہے وہ اپنی دنیا میں مگن رہتے ہیں ۔ ایسے متضاد رویے کسی بھی معاشرے کی تنزلی کا باعث ہو سکتے ہیں۔ لیکن ہمارے نوجوانوں کو ان حالات کا مردانہ وار مقابلہ کر کے آگے بڑھنا ہو گا۔ دنیا کی ترقیاتی رفتار میں شامل ہونا ہو گا، اپنی مایوسیوں اور مسائل کو بالائے طاق رکھتے ہوئے محنت اور مصمم عزم کو اپنا شعار بنانا ہو گا۔

آج کے نوجوانوں میں بیداری اور شعور پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ انہیں پھر سے اپنے شاندار ماضی سے جوڑنے کی ضرورت ہے جن سے دشمن نے مختلف حربے استعمال کرتے ہوئے اسے بھٹکا دیا ہے۔ اسے اب نیو یارک اور واشنگٹن میں اپنا مستقبل دیکھنے کی عادت ہونے لگی ہے۔ وہ عمل سے زیادہ بے کار سوچوں میں ڈوبے رہنے کو پسند کرتا ہے۔ اسے اب بتوں سے امیدیں استوار کرنے کی عادت ہو چکی ہے اور خدا سے ناامید ہونے لگا ہے۔ لیکن نئے دور کا نوجوان ہی امید کی وہ شمع ہے جو بدعنوانیوں اور لاقانونیت کے اندھیرے میں روشنی پھیلانے کا موجب بن سکتا ہے۔ کیونکہ اگر اس کی صلاحیتوں کو صحیح سمت مل جائے تو وہ پھر سے ملک و قوم کے لیے نمایاں کردار ادا کر سکتا ہے ۔ مسلم معاشرے کی نشاۃ ثانیہ کے لیے کوئی عملی اقدامات اٹھا سکتا ہے اور اپنے ملک و قوم کی توقیر کے لیے اپنی صلاحیتیں صرف کر سکتا ہے۔

Malik Khan Sial
About the Author: Malik Khan Sial Read More Articles by Malik Khan Sial: 12 Articles with 12567 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.