جعلی دودھ … کریں تو کیا کریں؟

یہ کوئی پندرہ بیس سال پہلے کی بات ہے۔ ہمارے گاؤں کے ایک گھرانے نے دودھ فروخت کرنا شروع کیا۔ پورے علاقے میں اُن کی بدنامی ہوئی۔ بڑی بوڑھیاں کہنے لگیں۔ ’’غضب خدا کا، ’’اللہ کا نور‘‘ بیچا جا رہا ہے؟ خدا کا قہر نازل ہو اِن پر۔ یہ تو خاندان ہی لالچی ہے۔‘‘ لیکن پھر کمرشلائز ذہن ہر اصول، ہر روایت کو بہا لے گیا۔ کھانے پینے کی ہر چیز بیچی اور خریدی جانے لگی۔ پانی تک بوتلوں میں پیک ہو کر آنے لگا۔ انہی دنوں ٹی وی پر اشتہار چلے ’’گوالوں کا دودھ پانی ملا اور صحت کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔ لہذا ڈبہ پیک دودھ خریدا جائے۔‘‘ لوگ اچھی صحت پانے کے چکر میں ڈبہ پیک دوودھ کی جانب دوڑ پڑے۔ ڈبہ بند دودھ کی صنعت ترقی کرتی گئی۔ ہر پانچ کلومیٹر کے علاقے میں ایک عدد ’’چِلّر‘‘ بن گیا۔ جہاں گوالوں سے دودھ خرید کر ڈبہ بند بنانے کے لیے کارخانوں میں لے جایاجانے لگا۔ مفت ملنے والے دودھ کی قیمتیں آسمانوں کو چھونے لگیں۔ آج صورت حال یہ ہے کہ گائے بھینسوں والے گھر سے بھی دودھ ملنا مشکل ہوتا ہے۔

زیادہ آمدنی کے چکر میں دودھ میں پانی ملایا جاتا تھا۔ لیکن دودھ خریدنے والی کمپنیاں اس بے ایمانی کو پکڑ لیتیں۔ اب دودھ کو گاڑھا کرنے کی ترکیبیں ہونے لگیں۔ کپڑوں کو لگایا جانے والا کلف، یوریا کھاد، بال صفا پاؤڈر، چربی اور تیل وغیرہ ڈالے جانے لگے۔ زیادہ دودھ حاصل کرنے چکر میں بھینسوں کو آکسی ٹوکسن اور بوسٹن وغیرہ کے ٹیکے لگائے گئے۔ جس سے مویشی بیمار ہو گئے۔ دودھ کی بجائے پیپ دینے لگے۔ گوالے خوش ہوتے رہے کہ ہماری بھینس کا دودھ زیادہ ہو گیا ہے۔ جو بھینس ایک وقت میں پانچ لٹر دووھ دیتی تھی، اب ساڑھے سات لٹر دینے لگی۔ لیکن ان بے چاروں کو پتا نہیں ہے کہ اس سے جانور کی عمر کم ہوجاتی ہے۔ وہ بیماریوں کا گڑھ بن جاتے ہیں۔ پچھلے سال صرف پنجاب میں 937جانور ہلاک اور 2318اسی وجہ سے بیمار ہوئے۔ ان کی بیماری بھی متعدی ہوتی ہے۔ انسان ان بیماریوں کا سب سے پہلا شکار ہوتے ہیں۔ کینسر جیسا موزی مرض انہی انجکشنز کی وجہ سے پھیلتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ، کینیڈا اور بھارت میں ان ٹیکوں پر پابندی ہے۔

جب گوالے ملاوٹ پر اُتر آئے تو کمپنیاں بھلا کیوں پیچھے رہتیں۔ انہوں نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کو غینمت جانا۔ مختلف طریقوں سے ملاوٹ شدہ دودھ میں مزید ملاوٹ کی۔ ایسے کیمیکلز ملائے گئے جو انسانی صحت کے بدترین دشمن تھے۔ مثلا دودھ کی عمر بڑھانے کے لیے ’’فارمولین‘‘ نامی کیمیکل ملایا جاتا ہے۔ یہ وہی کیمیکل ہے جو لاشوں کو گلنے سڑنے سے بچانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ دودھ کی پی ایچ بڑھانے کے لیے واشنگ پاؤڈر اور کاسٹک سوڈا استعمال ہوتے ہیں۔ ان کے علاوہ درج ذیل اشیاء بھی ملائی جاتی ہیں۔ سنگھاڑا، کیلشیم ہائیڈرو آکسائیڈ، سکم ملک پاؤڈر، پینٹ (رنگ)، چاول کا پاؤڈر، شیمپو، ری فائنڈر، بلیچنگ پاؤڈر اور لیکٹوز وغیرہ۔ مزید یہ کہ اس ملاوٹ شدہ دودھ سے کریم نکال کر اسے علیحدہ سے بیچا جاتا ہے۔ یوں سو من میں تیس من ملاوٹ ہوتی ہے۔ ڈائریکٹر لائیو سٹاک پشاور جناب ڈاکٹر معصوم شاہ کے نزدیک یہ دودھ پچاس فی صد انسانی صحت کے لیے مضر ہے۔امریکی سائنس دانوں نے بھی اسے صحت کے لیے غیر معیاری اور نقصان دہ قرار دیا ہے۔ ان کے ہاں اس میں BPAیا بیسفنول A نامی کیمیکل ہوتا ہے جو صحت کے لیے بہت زیادہ نقصان دہ ہے۔

محترم ڈاکٹر آفتاب انس کے نزدیک یہ دودھ بانجھ پن پیدا کرتا ہے۔ بچیوں کووقت سے پہلے بوڑھا کر دیتا ہے۔ جِلدی کینسر کا ذریعہ ہے۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق معدہ، پیٹ، آنکھوں،گردوں کے امراض، ہیپا ٹائٹس سی، لبلبے کی خرابی، شوگر، وقت سے پہلے بالوں کی سفیدی، ٹینشن اور قبل از وقت جنسی تبدیلیوں کا باعث ہے۔ یہ دودھ بچے کی صحت کے لیے بھی سخت خطرہ ہے۔ گزشتہ سال راولپنڈی میں بچوں کے لیے میسر دودھ کا تجزیہ کیا گیا تو اس میں ’’سالمولینا‘‘ نامی بیکٹیریا دریافت ہوا۔ ڈی جی فوڈ اتھارٹی جناب نورالامین مینگل نے اس پر پابندی عائد کر دی تھی۔ کیوں کہ یہ دودھ بچوں کی قے، پیچش اور فوڈ پوائزنگ کا باعث بن رہا تھا۔
ان کمپنیوں نے مزید ظلم یہ کیا کہ ٹی وائٹنر کو دودھ کہہ کر بیچنے لگیں۔ (حالاں کہ وہ دودھ نہیں، محض رنگ ہوتا ہے) اسی بنا پر 2016ء میں بعض کمپنیوں کو جرمانہ ہوا لیکن اس کے باوجود انھیں عقل نہیں آئی۔ 6جنوری 2018ء کو ایک مرتبہ پھر عدالت نے انھیں طلب کیا اور جعلی دودھ کے ڈبے تلف کرنے کا حکم دیا ہے۔ لیکن مشاہدے کے مطابق یہ دودھ ابھی تک سرِ عام فروخت ہو رہا ہے۔

ہمیں چاہیے کہ اولا ڈبہ بند دودھ، خشک دودھ اور ٹی وائٹنرز کا استعمال فورا بند کر دیں۔ کھلے دودھ کی حوصلہ افزائی کریں لیکن اس کے ساتھ ساتھ گوالوں کا اخلاقی معیار بھی بلند کرنا ہوگا۔ دودھ دینے والے جانوروں کو انجکشن نہ لگائیں۔ لالچ ، اخلاق ، صحت اور معیشت تینوں کی دشمن ہے۔ لہذا لالچ سے بچنے کی کوشش کریں۔ اس بارے میں آگاہی مہم چلائیں۔ گھر اور باہر ہر جگہ خود بھی ملاوٹ سے نفرت کا اظہار کریں اور اپنے بچوں کو بھی اس کے نقصانات سے آگاہ کریں۔ ملکی مصنوعات کو رواج دیں اور غیر ملکی و ملٹی نیشنل کمپنیوں کا بائیکاٹ کریں۔ اپنی صحت کا بھرپور خیال رکھیں۔ اس بارے کسی لاپروائی و سستی کا اظہار نہ کریں۔ تاکہ ہمارا پیارا وطن تندرستی و صحت کا استعارہ بن جائے۔

 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Abdus Saboor Shakir
About the Author: Abdus Saboor Shakir Read More Articles by Abdus Saboor Shakir: 53 Articles with 89904 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.