حضرت ارقم بن ابی ارقم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ

جب آپ ﷺ کو نبوت عطا ہوئی تو آپ ؐ نہایت رازداری کے ساتھ فریضہ تبلیغ ادا فرماتے رہے۔یہ وہ دور تھا جس میں کئی اصحاب دائرہ اسلام میں داخل ہوئے جو چُھپ چُھپ کر مکہ کی سنسان گھاٹیوں میں نماز پڑھتے تاکہ مشرکین مکہ کو خبر نہ ہو۔اہل ِ حق کی اس قدر احتیاط کے باوجود بھی دو ، تین ایسے واقعات پیش آئے جب مشرکین نے نماز پڑھنے والوں پر حملہ کردیا۔ اگرچہ مسلمانوں نے ان حملوں کا بھر پور جواب دیا لیکن اس بات کا سخت اندیشہ پیدا ہوگیا کہ کہیں مشرکین مکہ سے کھلم کھلا تصادم شروع نہ ہوجائے۔ پس تصادم سے بچاؤ کے پیش نظر آپ ؐ مسلمانوں کے لئے مکہ میں کوئی محفوظ جگہ تلاش کرنے لگے جہاں وہ حفاظت کے ساتھ جمع ہو کر نماز پڑھ سکیں۔ابھی ایسی جگہ کی تلاش جاری تھی کہ قریش کے ایک قبیلہ بنو مخزوم کاایک نوجوان آپ ؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا۔ ’’ یا رسول اﷲ! میرے ماں باپ آپ ؐ پر قربان ، میرا وسیع مکان کوہ ِ صفاکے دامن میں بیت اﷲ کے قریب واقع ہے۔ میں اسے آپ ؐ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔ مشکرین کی مجال نہیں کہ اس مکان میں داخل ہوسکیں ‘‘۔آپ ﷺ نوجوان کے اس جذبہ ایثار پر بہت خوش ہوئے اور پیش کش کو قبول فرمایا۔ یوں اس مکان کو اسلام کی پہلی پناہ گاہ اور دار الاسلام بننے کا عظیم شرف حاصل ہوا اور مسلمان 7 نبوی ؐ تک اسی مکان میں جمع ہوکر نماز پرھتے اور آپ ؐ سے اسلامی تعلیمات کا درس حاصل کرتے رہے۔ سید الشہداء حضرت حمزہؓ اور حضرت عمر فاروق ؓ نے دارالاسلام میں آکر ہی اسلام قبول کیا۔اس نوجوان صحابی رسول ؐ کانام حضرت ارقم بن ابی ارقم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تھا۔

آپ ؓ کا تعلق قبیلہ بنو مخزوم سے تھا جو قریش کا ایک بڑا معزز خان دان تھا۔ زمانۂ جاہلیت میں فوج کی سپہ سالاری اور فوجی کیمپ کے انتظام کا عہدہ اسی خان دان کے پاس تھا۔ اس کے علاوہ آپ ؓ کا سلسلہ نسب مرہ بن کعب پر سرور دو عالم حضرت محمد ﷺ سے جا ملتا ہے۔مرہ آپ ؐ کے جد اعلیٰ قصی بن کلاب کے داد اتھے۔جب سن دو ہجری میں غزوات کا سلسلہ شروع ہوا تو بدر ، اُحد ، احزاب ، خیبر ، حنین غرض کوئی ایسا معرکہ نہیں تھا جس میں آپ ؓ نے شریک ہوکر جان بازی کا حق ادا نہ کیا ہو۔

حضرت ارقم بن ابی ارقم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ایک نہایت پرہیز گار ، متقی اور عبادت الٰہی میں مصروف رہنے والے بزرگ تھے۔ ایک مرتبہ ثواب حاصل کرنے کی غرض سے بیت المقدس میں نماز پڑھنے کا ارادہ کیا اور سفر کی تیاری کرکے آپ ؐسے اجازت لینے آئے۔ آپ ؐ نے دریافت فرمایا۔ ’’کہاں کا ارادہ ہے ؟‘‘۔حضرت ارقم ؓ نے عرض کیا۔ ’’بیت المقدس جانا چاہتا ہوں ‘‘۔آپ ؐ نے فرمایا۔ ’’ بیت المقدس جانے کا مقصد کیا ہے ۔ تجارت کے لئے یا کسی اور ضرورت کے لئے ؟ ‘‘۔ عرض کیا۔ ’’ صرف ثواب حاصل کرنے کی غرض سے بیت المقدس میں نماز پڑھنا چاہتا ہوں ‘‘۔ آپؐ نے فرمایا۔ ’’ مسجد نبوی ؐ کی ایک نماز مسجد حرام ( بیت اﷲ ) کے سوا دنیا کی تمام مساجد کی ہزاروں نمازوں سے بہتر ہے ‘‘۔آپ ؐ کا یہ ارشاد گرامی سن کر آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے بیت القدس جانے کا ارادہ ترک کردیا۔

حضرت ارقم بن ابی ارقم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنی ساری زندگی اتباع رسول ؐ پر مبنی گزاری۔ ایک روایت کے مطابق آپ ؓ نے 55 ہجری میں وفات پائی۔ آپؓ کی وصیت کے مطابق فاتح ایران حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے اُن کی نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں مدفون ہوئے۔

Shoukat Ullah
About the Author: Shoukat Ullah Read More Articles by Shoukat Ullah: 205 Articles with 266065 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.