اورنج میٹرو ٹرین ……لاہور کے باسی جلد تکمیل کے منتظر

سپریم کورٹ کے حکم پر اورنج لائن میٹروٹرین پراجیکٹ پر کام جاری رکھنے کے حکم کے بعد اس کو پایہ تکمیل پہنچانے کے عمل میں تیزی آگئی۔ پاکستان کی پہلی میٹرو ٹرین ’’اورنج لائن‘‘ پر 27 کلومیٹر طویل اس منصوبے کا مجموعی طور پر 80 فیصد کام مکمل ہو گیا ہے۔ لاہور میں 165 ارب روپے کی لاگت سے تیار ہونے والے پاکستان کے پہلے میٹرو ٹرین منصوبے ’’اورنج لائن‘‘پر کام جاری ہے ۔ لاہور میں چین کے تعاون سے اورنج لائن ٹرین منصوبے پر کام کا آغاز 2015 میں کیا گیا، اس ٹرین کے 26 میں سیدو اسٹیشنز انڈرگراؤنڈ ہیں۔ ڈیرہ گجراں سے چوبرجی تک پیکج ون کا 87.4 فیصد، چوبرجی سے علی ٹاؤن تک پیکج ٹو کا 63 فیصد، پیکج تھری ڈپو کا 82.4 فیصد، جبکہ پیکج فور اسٹیبلینگ یارڈ کا 82 فیصد کام مکمل ہوچکا ہے۔ 32 فیصد الیکٹریکل اور مکینیکل کام بھی ہوچکا ہے، جبکہ ٹرانزٹ اتھارٹی کے مطابق چین میں میٹرو ٹرین کے تمام 27 سیٹ تیار ہوچکے ہیں اور اب تک ٹرین کے 5 سیٹ لاہور پہنچ چکے ہیں اور جلد ہی مزید 4 سیٹ پاکستان پہنچیں گے۔ اورنج لائن میٹرو ٹرین پراجیکٹ چین کے تعاون سے پنجاب حکومت نے 25 اکتوبر 2015 کو شروع کیا تھا۔ ابتدائی طور پر 164 ارب روپے کا پراجیکٹ بڑھتا ہوا 260 ارب روپے تک پہنچ گیا۔ 28 جنوری 2016 کو منصوبے کے خلاف سول سائٹی سمیت دیگر کئی درخواستوں پر لاہور ہائیکورٹ نے حکم امتناعی جاری کیا اور پنجاب حکومت کو تاریخی عمارتوں کی 200 فٹ حدوو میں اورنج لائن منصوبے پر کام سے روک دیا۔لاہور ہائی کورٹ نے درخواست گزاروں کے خدشات پر جن مقامات پر اورنج ٹرین پر کام روکنے کا حکم دیا تھا ان میں شالیمار باغ، چوبرجی، زیب النساء کا مزار، گلابی باغ، لکشمی چوک، جنرل پوسٹ آفس، ایوان اوقاف، سپریم کورٹ لاہور کی رجسٹری، سینٹ اینڈریوز نولکھا چرچ اور بابا موج دریا بخاری کا مزار شامل ہیں۔منصوبے کے 11 مقامات پر ایک سال 10ماہ تک تعمیراتی کام بند رہا۔ پنجاب حکومت نے حکم امتناعی سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

گزشتہ دنوں سپریم کورٹ نے پنجاب حکومت کو اورنج لائن میٹرو ٹرین منصوبہ جاری رکھنے کی مشروط اجازت دیتے ہوئے لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قراردے کر پنجاب حکومت کی درخواست منظور کرلی۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے اورنج لائن ٹرین کا منصوبہ روکنے سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے پنجاب حکومت کو اس منصوبے کو جاری رکھنے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے اس بارے میں 31 شرائط بھی رکھی ہیں جن میں تاریخی عمارتوں کی حفاظت کے لیے دس کروڑ روپے مختص کرنے کے ساتھ ساتھ ایک وسیع البنیاد کمیٹی بھی قائم کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کمیٹی میں محکمہ آثار قدیمہ کے علاوہ متعلقہ محکموں کے حکام اور ایک ریٹائرڈ جج بھی شامل ہوں گے جس کی تعیناتی کی منظوری سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی جانب سے ہو گی۔ عدالت کے فیصلے کے مطابق یہ کمیٹی ایک سال کے لیے بنائی جائے گی۔ اس فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ اس منصوبے کی تکمیل کے بعد دو ہفتوں تک ٹرین آزمائشی بنیادوں پر چلائی جائے گی، جس میں ٹرین کی تھرتھراہٹ کو بھی مانیٹر کیا جائے گا تاکہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ کہیں ٹرین کی تھرتھراہٹ مقررہ حد سے زیادہ تو نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق پنجاب یونیورسٹی کے سینئر آرکیالوجی پروفیسر اور سینئر جج کو نامزد کیا گیا کہ اگر تعمیرات کے دوران ورثے کو نقصان پہنچتا ہے تو صوبائی حکومت کمیٹی کو 130 ملین روپے اس کی مرمت کے لیے ادا کرے گی۔ اسی طرح دوسری کمیٹی لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے باعث تعمیراتی کام کے معطل ہونے پر نقصان کا تخمینہ لگائے گی۔

سپریم کورٹ نے اورنج ٹرین منصوبے کو مکمل کرنے کی مشروط اجازت دی تو انتظار میں بیٹھی پنجاب حکومت بھی متحرک ہوگئی۔ منصوبے کی بروقت تکمیل کے لیے مشاورتی اجلاس بلائے۔ افسران کی ڈیوٹیاں بھی لگائیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اورنج لائن میٹرو ٹرین کے منصوبے کا جائزہ لینے بغیر پروٹوکول پہنچ گئے۔ وزیر اعلیٰ نے مختلف اسٹیشنز کا دورہ کیا اور پیش رفت کا جائزہ لیا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے متعلقہ افسران کو ہدایت کی کہ منصوبے کی جلد تکمیل کے لیے پوری جان لگا دیں۔ کام کی رفتار کو مزید تیز کیا جائے۔ تاخیر کا ازالہ محنت، عزم اور جذبے کے ساتھ کریں گے۔ وزیر اعلیٰ نے جین مندر کے قریب انڈر گراؤنڈ سٹیشن کا بھی معائنہ کیا۔ وزیراعلیٰ کو منصوبے پر ہونے والی پیش رفت کے بارے میں بریفنگ دی گئی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہبازشریف کا کہنا تھا کہ اﷲ تعالیٰ کا شکر اداکرتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے اورنج لائن ٹرین منصوبے کے حوالے سے مثبت فیصلہ دیا ہے۔ دن رات کام کرکے ا س منصوبے کو جلد ازجلد پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے۔ اب یہ منصوبہ انشااﷲ جلد سے جلد مکمل ہوجائے گا اور عوام اس سے بھرپور استفادہ ہوسکیں گے۔اگر یہ منصوبہ عدالت تک نہ پہنچتا تو یہ 25دسمبر تک مکمل ہوچکا ہوتا اور عوام اس سے بھرپور استفادہ کررہے ہوتے ،منصوبے میں تاخیر کی وجہ سے متعلقہ علاقوں کے لوگوں کی زندگی اجیرن بنی رہی اور اس میں آنے والے اخراجات مزید بڑھ گئے۔بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ آئندہ الیکشن سے پہلے اورنج لائن ٹرین منصوبے مکمل ہونا مشکل ہے، کیونکہ کئی مقامات پر ابھی تک بہت زیادہ کام باقی ہے، جسے دن رات کام کرکے بھی مکمل کرنا مشکل ہے، جبکہ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف آئندہ الیکشن سے پہلے اورنج لائن ٹرین کومکمل کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے اور امید ہے کر بھی لیں گے، کیونکہ اگر یہ منصوبہ الیکشن سے پہلے مکمل ہوجاتا ہے تو انہیں سیاسی طور پر بہت فائدہ ہوگا، وہ اس منصوبے کے نام پر عوام سے زیادہ ووٹ لے سکیں گے، اس لیے وہ اس منصوبے کو الیکشن سے پہلے مکمل کرنے کے حوالے سے بہت سنجیدہ ہیں، اسی لیے انہوں نے عملے کو کام جلد از جلد مکمل کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ بہرحال لاہور کے باسی اس معاملے کوسیاسی نگاہ سے نہیں دیکھتے، بلکہ وہ اس بات کے متمنی ہیں کہ جلد از جلد یہ منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچے، تاکہ ٹریفک کے مسائل میں کمی واقع ہوسکے۔

پنجاب حکومت کے ترجمان کا کہنا تھا کہ پروجیکٹ میں 8 ماہ کی تاخیر کے باوجود اورنج لائن میٹرو ٹرین پروجیکٹ کی مالی لاگت نہیں بڑھی، صوبائی حکومت 8 ماہ کی تاخیر کا سود بھی ادا نہیں کرے گی، کیونکہ یہ ایک فکس ریٹ کا معاہدہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت نے اورنج لائن میٹرو ٹرین کی تعمیراتی کام کو جاری رکھنے کے لیے پہلے ہی سپریم کورٹ کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے اقدامات شروع کردیے ہیں۔ پنجاب حکومت کو سپریم کورٹ کی کسی شرط پر کوئی اعتراض نہیں ہے، حتیٰ کہ ہم پہلے بھی ان چیزوں پر عمل کررہے تھے جن پر اب سپریم کورٹ نے روشنی ڈالی ہے۔ صوبائی حکومت اس منصوبے کی کامیابی کے لیے تمام اقدامات کررہی ہے۔ البتہ ایسے تمام اقدامات تحریری طور پر نہیں ہیں اور ہم ایپکس عدالت کی دی گئی شرائط پر خوش ہیں، ہم نے ایسی شرائط پر عملدرآمد شروع کردیا ہے اور تعمیراتی کام کی مانیٹرنگ کے لیے مطلوبہ تیکنیکی اشیا کے حصول کو ممکن بنا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت چیکنگ میٹر کو بھی قابل حصول بنارہی ہے، تاکہ کریک، وائبریشن وغیرہ کو جانچا جاسکے۔ ایسے میٹر پاکستان میں دستیاب نہیں ہیں، حکومت انہیں باہر سے درآمد کرے گی۔ حکومت نے پارکنگ ایریاز کی منتقلی شروع کردی، اس کے علاوہ ایپکس عدالت کی ہدایات کی روشنی میں تاریخی مقامات کی تزئین پر بھی کام شروع کیا ہے۔ سپریم کورٹ کی ہدایات پر صوبائی حکومت نے تاریخی ورثے کے لیے ایک فنڈ کا بھی انتظام کیا ہے۔ معاہدے کی شرائط کے مطابق اورنج لائن میٹرو ٹرین پروجیکٹ کے لیے دوبارہ ادائیگی کا شیڈول سات برس بعد شروع کیا جائے گا۔ وہاں دوبارہ ادائیگی کے لیے 7 ماہ کا رعایتی وقت ہوگا، اس طرح پروجیکٹ کی لاگت میں رقم نہیں بڑھے گی۔

لاہور کی اورنج میٹرو ٹرین پر بعض سیاسی حلقوں کی جانب سے بھی کافی تنقید کی جارہی ہے، لیکن سپریم کورٹ کی طرف سے اورنج ٹرین منصوبے کو مکمل کرنے کی اجازت ملنے کے بعد لاہور کے باسی دو وجہ سے بہت خوشی ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ اس منصوبے کے مکمل ہونے سے لاہور کے باسی ہی اسی طرح فائدہ اٹھاسکیں گے، جس طرح میٹرو بس سروس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ میٹرو بس سروس شاہدرہ سے گجومتہ تک کا سفر صرف 40منٹ میں سہولت کے ساتھ طے کیا جاتا ہے، اب اورنج لائن ٹرین منصوبہ مکمل ہونے کے بعد اس سے بھی 27کلومیٹر کا فاصلہ صرف 45منٹ میں طے کیا جاسکے گا اور وسری وجہ یہ ہے کہ اورنج لائن ٹرین منصوبے کی وجہ سے لاہور کے باسی گزشتہ دو سال سے شدید تکلیف برداشت کر رہے ہیں، جس سے اب جان چھوٹ جائے گی۔ 2015سے اورنج لائن ٹرین کے روٹ پر تمام راستے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، جس کی وجہ سے آدھ گھنٹے کا سفر ڈیڑھ گھنٹے میں طے کرنا پڑتا ہے۔

واضح رہے کہ لاہور اورنج ٹرین پاکستان میں اپنی طرز کا پہلا منصوبہ ہے، دنیا کے 50 سے زیادہ ممالک کے 148شہروں میں زیرزمین ٹرین چلتی ہے۔ اورنج لائن میٹرو ٹرین کے تحت 27 ٹرینیں چلائی جائیں گی اور ہرٹرین پانچ بوگیوں پر مشتمل ہوگی۔ بوگیوں میں معمر، معذور افراد اور خواتین کے لیے الگ نشستیں مختص کی گئی ہیں۔ اورنج لائن میٹرو ٹرین اہل لاہور کے لیے عوامی جمہوریہ چین کا شاندار تحفہ ہے جو پبلک ٹرانسپورٹ کو نئی جہت عطا کرے گا۔ یہ چین کی طرف سے پاکستان میں سو فیصد لاگت کے ساتھ مکمل کیا جانے والا جدید انفراسٹرکچر اور ماس ٹرانزٹ کا پہلا منصوبہ ہے۔ اورنج لائن میٹرو ٹرین پراجیکٹ پر مجموعی لاگت ایک کھرب 65 ارب روپے آئے گی۔ ٹرین کا روٹ علی ٹاؤن رائے ونڈ روڈ سے شروع ہو کر براستہ ٹھوکر نیاز بیگ ملتان روڈ، کینال ویو، ہنجر وال، وحدت روڈ، اعوان ٹاؤن، سبزہ زار، شاہ نورسٹوڈیو، صلاح الدین روڈ، بند روڈ، سمن آباد، گلشن راوی، چوبرجی، لیک روڈ، جی پی او، لکشمی چوک میکلوڈ روڈ، ریلوے اسٹیشن، سلطان پورہ، یو ای ٹی، باغبان پورہ، شالا مار باغ، پاکستان منٹ، محمود بوٹی، سلامت پورہ، اسلام پارک اور ڈیرہ گجراں نزد قائد اعظم انٹر چینج رنگ روڈ تک ہو گا۔ شروع میں روزانہ اڑھائی لاکھ افراد استفادہ کریں گے، بعد ازاں یہ تعداد پانچ لاکھ افراد یومیہ تک بڑھ جائے گی۔ عام حالات میں اڑھائی گھنٹے میں طے ہونے والا یہ 27کلو میٹر فاصلہ اورنج ٹرین کے ذریعے صرف 45منٹ میں طے ہو گا۔ اس طرح یہ ضلع لاہور کے جنوبی، وسطی اور مشرقی حصوں کے درمیان تیز رفتار سفر کی سہولت مہیا کرے گا۔ اس میں 26 اسٹیشن، ایک ڈپو اور ایک سٹیبلنگ یارڈ بھی تعمیر کیا جائے گا۔ ٹرین کے 24 اسٹیشنز ایلیویٹڈ اور 2انڈ ر گراؤنڈ تعمیر ہوں گے۔ میٹرو ٹرین کو پہلے پانچ سال تک چین کا عملہ آپریٹ کرے گا، بعد ازاں اس کو پاکستانی عملہ چلائے گا۔ میٹرو ٹرین برقی توانائی سے چلے گی، اس طرح یہ سروس گاڑیوں کے دھوئیں سے پیدا ہونے والی خطر ناک آلودگی کم کرنے میں مددگار ثابت ہو گی۔ میٹرو ٹرین کو بجلی فراہمی کے لیے 12ارب روپے کی لاگت سے دو گرڈ اسٹیشن بھی بنائے جائیں گے۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 631284 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.