پروین سعید لوگوں کو فاقہ کشی سے بچانے کے لیے 15سال سے مصروفِ کار ہیں

لوگوں کو فاقہ کشی سے بچانے کے لیے 15سال سے مصروفِ کار ہیں

پاکستان میں غربت کی شرح میںد ن بہ دن اضافہ ہورہا ہے اور ملک کی اکثریتی آبادی خط افلاس سے انتہائی نچلی سطح پر زندگی بسرکر رہی ہے۔ یہاں بھوک سے بدحال افراد کی تعداد بڑھتی جارہی ہےبلکہ اب ان میں مزدور یا دہاڑی پر کام کرنے والے افراد کے علاوہ تنخواہ دار اورسفید پوش افراد بھی شامل ہوگئے ہیں۔ کچھ عرصے قبل تک دو وقت کی روٹی نہ ملنے کے سبب ملک میں اجتماعی خودکشیوں کا چلن بھی عام ہوگیا تھا جب کہ کئی والدین سے اپنے جگر گوشوں کی بھوک برداشت نہیں ہوسکی اور انہوں نے اپنے ہاتھوں سے انہیں موت کی نیند سلادیا۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے چنداداروں نے لوگوں کو خوراک مہیا کرنے کے لیے روٹی بینک اور عوامی دستر خوان قائم کیے، جو گزشتہ ڈیڑھ عشرے سے لوگوںکی غذائی کفالت کررہے ہیں۔سب سے پہلے اس کارخیر کا بیڑا،کراچی کے ایک افلاس زدہ علاقے کی رہائشی خاتون نے انفرادی سطح پراٹھایاتھاجوگزشتہ پندرہ سال سے’’ کھانا گھر‘‘ کے نام سے’’مفت ریستوران‘‘ قائم کرکےغریب لوگوں کو فاقہ کشی سے بچانے کی کوشش کررہی ہیں۔ چند ماہ پیشتر’’کھانا گھر ‘‘کی دوسری شاخ کورنگی کے علاقے میں بھی قائم کی گئی ہے، جہاں سے دورافتادہ گوٹھوں میں تین پوائنٹس پر کھانا فراہم کیا جاتا ہے۔ اس فلاحی پروگرام کی روح رواں ایسی خاتون ہیں جن کا جنم ،امارت کی گود میں ہوا تھا، ایک پوش علاقے میں ان کی پرورش ہوئی اوران کی شادی بھی ایک صاحب ثروت شخص کے ساتھ ہوئی جن کی رہائش اسی علاقے کے ایک پر تعیش بنگلے میں تھی۔گزشتہ دنوں روزنامہ جنگ کے نمائندے نے ان کے ’’کھانا گھر‘‘ میں ان سے ملاقات کی۔ اس دوران ان کے اس فلاحی پروجیکٹ کے حوالےسے جو گفتگو ہوئی، وہ نذر قارئین ہے۔

پروین سعید نے بتایا کہ ان کے والدمحمد سعید، ٹیلی فون و ٹیلی گراف کے محکمے میں اچھے عہدے پر فائز تھے جب کہ ان سےدو بڑے بھائی مختلف اداروں میں اچھی پوزیشن پر خدمات انجام دے رہے تھے۔ اُس وقت ان کی رہائش پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی میں تھی۔ انہوں نے ماڈل اسکول سے میٹرک اور پی ای سی ایچ ایس گرلز کالج سے گریجویشن کیا،جب کہ کراچی یونیورسٹی سےصحافت میںماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔انہوں نےبتایاکہ،’’ میری خواہش تھی کہ میں صحافت جیسے معزز پیشے کو اپناؤں لیکن اُسی دور میں میری شادی ہوگئی۔ میرے شوہر خالد سعید نے کراچی یونیورسٹی سے بین الاقوامی تعلقات میں بی اے آنرز اور ماسٹرز کیا تھا اور بنگلہ دیش کے ایک اخبار ’’جونوکولٹو‘‘ کے پاکستان میںبیورو چیف اور نمائندہ خصوصی کے طور پرخدمات انجام دے رہے تھے ۔ میں جب جامعہ کراچی میں جرنلزم کی طالبہ تھی تو اسائنمنٹ کے سلسلے میں بعض اوقات پسماندہ علاقوں میں جانا ہوتا تھا، جہاں میں غریب اور مفلوک الحال افراد کے رہن سہن کابہ غور جائزہ لیتی تھی، ان آبادیوں کے بچے سخت سردی میںناکافی لباس پہنے کچرے اور غلاظت کے ڈھیر پر کھیلا کرتے تھے جب کہ خواتین پھٹے پرانے اور پیوند لگے کپڑوں میں ملبوس ٹوٹی پھوٹی جھگیوں میںکام کاج نظر آتی تھیں۔ بھوک، افلاس، مالی تنگ دستی اور معاشی بدحالی ان کے چہروں سے عیاں ہوتی تھی جسے دیکھ کر میں دکھی ہوجاتی تھی۔

لوگ بہتر سے بہتر علاقوں میں رہائش کے خواہاں ہوتے ہیں جہاں انہیں زندگی کی تمام آسائشیں اور آسانیاں میسرہوں لیکن ان دنوں میرے دل میں کسی انتہائی پس ماندہ علاقے میں گھر بنانے کی عجیب و غریب خواہش اجاگر ہوئی۔میری دلی خواہش تھی کہ میں ان افلاس زدہ لوگوں کے درمیان رہتے ہوئے ان کے روزمرہ کے مسائل قریب سے دیکھوں، ان کی پریشانیاں کم کرنے کے لیے فلاح و بہبود کے کچھ کام کروں۔ والدین کے ساتھ رہتے ہوئے تو یہ بات ناممکن تھی لیکن شادی کے بعد میں نے اپنے شوہر سے اپنی اس خواہش کا تذکرہ کیا۔ ابتدا میں انہوں نے میری مخالفت کی اور کہا کہ تم جدید سہولتوں کے ساتھ زندگی گزارنے کی عادی ہو، ایک ایسی جگہ جہاں دھول اور مٹی اڑتی ہو کیسے گزارا کروگی، لیکن میں اپنی ضد پر قائم رہی۔ 1980کے عشرے میں کراچی کے انتہائی شمال میں تقریباً 30کلومیٹر کے فاصلے پرسرجانی ٹاؤن کے نام سے ایک نئی بستی وجود میں آئی تھی جو اس وقت زیادہ تر غیر آباد تھی۔ اس زمانے میں یہاںجگہ جگہ کیکر، ببول اور خودرو پودوں کا جنگل اگا ہوا تھا، جہاں حشرات الارض، کیڑے مکوڑے، سانپ بچھو اور گوہ، نکلا کرتی تھی جب کہ گیدڑ، بھیڑئیے اور دیگر موذی جانوروں کی آوازیں بھی سنائی دیتی تھیں ۔آخر ایک دن مجبور ہوکر میرے شوہرمجھے ساتھ لے کر سرجانی کے علاقے میں گئے، وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ شاید میں علاقے کی صورت حال دیکھ کر اپنے ارادے سے باز آجاؤں گی، لیکن ہوا اس کے برعکس۔ سیکٹر 5-Dمیں مجھے کارنر کا پلاٹ پسند آگیا اور میں نے انہیںیہ پلاٹ خریدنے کے لیے مجبور کیا۔ پلاٹ کی خریداری مکمل ہونے کے بعد اس پر مکان کی تعمیر کا آغاز ہوا۔ میرے والدین اور بہن بھائیوں کو جب اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے سخت مخالفت کی لیکن میں نے سنی ان سنی کردی۔

1989ء میں ہم لوگ پی ای سی ایچ ایس کا بنگلہ فروخت کرکے اس پسماندہ علاقے میں منتقل ہوگئے۔ اس دور میں یہاںکوئی بھی شہری سہولت دستیاب نہیں تھی، نہ پانی تھا، نہ بجلی اور گیس، سڑکیں نہ ہونے کی وجہ سے ٹرانسپورٹ بھی ندارد تھی۔ زیادہ تر کچے مکانات اور گھاس پھونس کی جھونپڑیاں بنی ہوئی تھیں، جہاں معاشرے میں ’’عجیب الخلقت‘‘ کہلائے جانے والے لوگ رہائش پذیر تھے۔ بسیں،منی بسیں اور کوچز کا آخری اسٹاپ نارتھ کراچی کی 4-Kچورنگی پر بنا ہوا تھا، وہاں سے لوگ سرجانی کے علاقے تک پیدل سفر کیا کرتے تھے۔ یہاں رہائش کے بعد مجھے ایک نئے تجربے سےدوچار ہونا پڑا۔ یہ علاقہ مفلوک الحال افراد سے آباد تھا، جن کے مرد معمولی دہاڑی پر مزدوری کرتے تھے جب کہ خواتین نارتھ کراچی کے گھروں میں کام کرتی تھیںاور وہاں سے جو آمدنی ہوتی تھی وہ ان کے اہل خانہ کا پیٹ پالنے کے لیے ناکافی رہتی تھی۔بعض دفعہ کوئی کام نہ ملنے کی وجہ سے ان کے خاندان کو خالی پیٹ سوناپڑتا تھا۔یہاں ہر طرف غربت اور تنگ دستی کا راج تھا، صبح کے وقت عورتیں اور مردمیرے گھر کا دروازہ کھٹکھٹا کر دس روپے کا سوال کرتے تھے،جو میں انہیں دے دیا کرتی تھی۔ ایک دن میں نے اپنی ملازمہ سے پوچھا کہ یہ لوگ صرف دس روپے کیوں مانگتے ہیں اور ان پیسوں کا کیا کرتے ہیں، تو اس نے بتایا کہ ا س رقم سے یہ لوگ راشن خریدتے ہیں جس سے ان کے بچوںکے لیے دو وقت کا کھانا پکتا ہے۔ وہ سستا دور تھا، ہر شے ارزاںنرخوں پر دستیاب تھی، اس لیے دس روپے کی رقم ان کے لیے کافی ہوتی تھی۔ میں بھی ایسے کسی سوالی کوخالی ہاتھ واپس نہیں جانے دیتی تھی جب کہ میرے شوہر فلاحی کاموں میں میرے ساتھ تعاون کرتے تھے۔اس دوران ہمارے گھر میں دو بیٹیوں نے جنم لیا، جن کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری ایک کٹھن مرحلہ تھا۔ میں نے انہیں نارتھ ناظم آباد کے ایک اسکول میں داخل کرایالیکن اسکول کی وین صرف نارتھ کراچی تک آیا کرتی تھی۔حالاں کہ میری پرانی خادمہ میرے ساتھ ہی رہتی تھی لیکن بچیوں کو اسکول پہنچانے کی ذمہ داری ہم نے خود اٹھائی، صبح میرے شوہر انہیں اسکول چھوڑتے ہوئے دفتر چلے جاتے جب کہ دوپہر کو میں انہیں لینے جاتی تھی۔ میں باقاعدگی سے اخبارات پڑھتی تھی ، اس زمانے میں ایسی کئی خبریں نظروں سے گزریں جن میں بتایا گیا تھاکہ غریب والدین نےفاقہ کشی سے تنگ آکر اپنےبچوں کو دریا یا کنوئیں میں پھینک دیاتھا، میں سوچا کرتی تھی کہ کیا اپنے ہی بچوں کوقتل کرتے ہوئے ان لوگوں کی مامتا نہیں جاگتی ؟ 90کے عشرے میں میرے گھر کے قریب بھی ایسا ہی دردناک واقعہ رونما ہوا جس نے میری زندگی میں تلاطم برپاکردیا۔

سرجانی کے علاقے میں ایک عورت نے اپنے دو بچوں کو گلا گھونٹ کر ماردیاتھا۔ میرے شوہر اس واقعے کی رپورٹنگ کرنے گئے تو میں بھی ان کے ساتھ چلی گئی۔ میں نے اس عورت سے پوچھا کہ تم نے اپنے معصوم بچوں کو کیوں قتل کیا، تو اس نے جواب دیا،’’ اگر تم اپنے بچوں کو تین روز تک مسلسل بھوک سے بلکتا ہوا دیکھوتو شاید تم بھی اپنے جگر گوشوں کو بھوک سے نجات دلانے کے لیے اسی طرح کا قدم اٹھاؤ‘‘۔اِس جواب سے صرف میری ہی نہیں بلکہ میرے شوہر خالد کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے۔ گھر آکر بھی اس بدنصیب خاتون کے الفاظ تازیانہ بن کر میری سماعت سے ٹکراتے رہے ۔ اس دن میں نے عہد کیا کہ میں ان غریبوں کو بھوک کے ہاتھوں مرنے سے بچانے کے لیے ان کی غذائی کفالت کروں گی۔اس مقصد کے لیے میں نے اپنی جمع شدہ پونجی نکالی اور اس کام کا آغاز کیا۔ ابتدا میں، میں اپنے گھر میں کھاناپکا کر محلے کے غریب گھرانوں کو بھجواتی تھی۔اس دور میں اس علاقے میںسوئی گیس نہیں آئی تھی، اس لیے مٹی کے تیل یا لکڑی کے چولہے پر سالن پکاتی تھی جب کہ روٹیاںپکوانے کے لیے تندور پرآٹا بھیجا کرتی تھی۔ ابتدا میں علاقے کے لوگ یہ کھانا کھانے سےاحتراز کرتےتھے،کیوں کہ بعض افراد نے اس کھانے کے بارے میں مختلف قسم کے پروپیگنڈے پھیلادیئے تھےجس کی وجہ سے،وہ اس سے متعلق شکوک و شبہات اور وسوسوں کا شکار تھے۔ میں نے محلے کی خواتین کو بلایا اور ان کا شبہ دور کرنے کے لیے اپنی بچیوں کے ہمراہ ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا۔ اس کے بعد جب یہ سلسلہ بڑھا تو میں انہی میں سے کسی خاتون کو اپنی ملازمہ کے ساتھ بھیج کر آٹا ، اجناس، دال ، سبزیاں اور گوشت منگواتی تھی۔ اس کے بعد ان خواتین کے ساتھ بیٹھ کر سبزیاں کٹواتی، ان کی مدد سے چولہے پر چڑھواتی اور انہی سے روٹیاں پکواتی۔کھانا تیار ہونے کے بعد ان کے خاندان کی ضرورت کے مطابق انہی کے برتنوں میں کھانا پیک کرواکے دیتی تھی۔ کچھ لوگ گھر پر بھی کھانا کھانے آتے تھے، اس کے لیے صحن میں ہی دسترخوان لگایا جاتا۔ جب میرے پاس رقم ختم ہوگئی تو میں نے اپنے عزیز و اقارب کے سامنے دست تعاون درازکیا۔ بعض لوگوں نے کچھ روز تک ساتھ دیا جب کہ کچھ اب تک میرے ساتھ اس کارخیر میں شریک ہیں۔جنوری 2002میں اپنے سرجانی کےگھر میں، ’’کھانا گھر‘‘ کے نام سے باقاعدہ طور سے لوگوں کو کھانا کھلانے کا آغاز کیا۔ دروازے کے ساتھ ایک علیحدہ احاطہ بنا کردیواریں اٹھائی گئیں اور ان پر ٹین کی چادریں ڈال کر’’کھانا گھر‘‘ بنایا گیا، کچی زمین پر پلاسٹک کی چٹائیاں بچھائی گئیں۔ ایک مخیر شخص نے کھانا کھلانے کے لیے برتنوں کا انتظام کیا، اُنہی نے میرے خاندان پر مشتمل افراد کا ٹرسٹ بنوا کر’ ’کھاناگھر‘‘ کا سرکاری سطح پرباقاعدہ رجسٹریشن کروایا۔ اس کی مقبولیت دور تک ہوگئی اور یہاں کھانا کھانے کےلیے مزدور طبقے کےعلاوہ ایسے لوگ بھی آنے لگے جن کا شمار سفید پوش طبقے میں ہوتا ہے لیکن محدود ذرائع آمدنی اور لامحدود اخراجات کی وجہ سے ان کے اہل خانہ بھی بھوک و افلاس کا شکار تھے۔ ان کی ماہانہ آمدنی کا بیشتر حصہ بجلی، گیس کے بلوں اور سرکاری ٹیکسز کی نذر ہوجاتا ، یہ لوگ یہاں بیٹھ کر کھانا کھانے کے علاوہ اپنے بال بچوں کے لیے بھی کھانا پیک کروا کر لے جاتے تھے۔ ’’کھانا گھر‘‘ کھولنے کے بعد میں ہرآنے والے سے ’’دو ‘‘ روپیہ وصول کر تی تھی۔ ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کے توسط سے اس کی شہرت ملک کے علاوہ بیرون ملک تک پھیل گئی جس کے بعد کئی خدا ترس لوگوں اس طرف متوجہ ہوئے اور انہوں نے مالی معاونت فراہم کرنا شروع کردی۔

شروع میں 50سے 70افرادشکم سیری کے لیے آتے تھے، ایک سال بعد یہ تعداد بڑھ کر ایک سو ہوگئی۔ روزانہ مختلف سالن پکائے جاتے تھے جن کی تیاری کے لیے میں نے محلے کی ایک غریب خاتون کی خدمات حاصل کرلیں۔ میں انہیں سبزیاں ، مصالحے، گھی، تیل اور ضرورت کا دیگر سامان ان کے گھر بھجوا دیتی تھی۔وہ روزانہ دونوں وقت مجھے تقریباً تین سالن اپنے گھر میں پکا کر بھیجا کرتی تھیں، اس کے لیے میں انہیں معقول معاوضہ دیا کرتی تھی۔ روٹیاں پکانے کے لیے میں نے باقاعدہ طور سے کاریگر رکھ لیے۔ 2003میں یہاں سڑک کی تعمیر شروع ہوئی جس کی زد میں مکان کا بیرونی حصہ بھی آگیا جہاں کھانا گھر قائم تھا، اسے منہدم کردیا گیا جب کہ باقی مکان محفوظ رہا۔اس کے ٹوٹنے کے بعد میرے گھر کے دروازے پر ضرورت مندوں کا جم غفیر رہتا تھا لیکن میں اتنے بڑے ہجوم کو بٹھا کر کھانا کھلانے سے قاصر ہوگئی تھی۔میں نے ’’کھاناگھر ‘‘ دوسری جگہ منتقل کرنے کے لیے جگہ کی تلاش شروع کی، 90کی دہائی میں محکمہ کچی آبادی کی جانب سےسرجانی ندی کے دوسرے کنارے سے تقریباً ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر ’’خدا کی بستی ‘‘بسائی گئی جہاں ایسے بے گھر افراد کی آباد کاری کی گئی تھی جو بہت ہی زیادہ تنگ دست تھے۔ میں نے اپنے شوہر کے ساتھ اس علاقے کا دورہ کیا اور ایک جگہ پسند کرکے اسے کرائے پر حاصل کرلیا۔ 80مربع گز رقبے کی اس جگہ کی کھانا گھر کے طور پر تعمیر کی گئی، چھت کی جگہ شیڈ ڈالے گئے۔ باہر احاطے میں تندور بنائے گئے اور لوہے کی گرلز لگا کر کھانا تقسیم کرنے کے لیے کھڑکیاں نکالی گئیں جب کہ اس کے ساتھ پلاسٹک کی چٹائیاں بچھا کرلوگوں کے بیٹھنے کی جگہ بنائی گئی۔ درمیان میں ایک کمرہ دفترکا کام کرتاہے ، جہاں میں یا ’’کھانا گھر‘‘ کا نگران بیٹھتے ہیںجب کہ صحن میں ایک ہال بنایا گیا جس میںمیز اوربنچیں ڈالی گئی ہیں۔ جو لوگ نیچے نہیں بیٹھ سکتے وہ یہاں بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں ۔ تقریباً نصف درجن افراد کو مختلف کاموں کے لیے ماہانہ اور یومیہ تنخواہ پر ملازم رکھا گیاہے، جن میں آٹا گوندھنے، پیڑے بنانے تندور میں روٹیاں لگانے ، باہر کھانا کھلانے ، دیگچوں سےسالن نکال کر دینے اورگھر لے کرجانے اور ’’کھانا گھر ’’ میں کھلانے والوں کے لیے الگ الگ خدمت گارمقرر ہیں۔ سالن پکانے کے لیےمذکورہ خاتون گزشتہ پندرہ سال سے خدمات انجام دے رہی ہیںانہیں،12000روپے ماہانہ مشاہرہ دیا جاتا ہے۔ حال ہی میں،میں نے کھانے کی قیمت میںایک روپیہ اضافہ کردیاہے، اب میں لوگوں سے پیٹ بھر کھانے کے لیےتین روپے فی کس طلب کرتی ہوں۔ انہوں نےکہا کہ’’کھانا گھر ‘‘میں جوکھاناصرف تین روپے میں کھلایا جاتاہے، کسی بھی دوسری جگہ پر اس کی قیمت چالیس سے پچاس روپے سے کم نہیں ہوتی۔ جب ہم نے ان سے سوال کیا کہ آپ نے یہ فلاحی کام رفاہ عامہ کی غرض سے شروع کیا ہے ، تو غریب لوگوں سے کھانے کی مد میں تین روپےبھی کیوں وصول کیے جاتے ہیں توانہوں نے کہاکراچی میںاب کئی ایسے ادارے بن گئے ہیں جو لوگوں کو فٹ پاتھوں پربالکل مفت کھانا فراہم کرتے ہیں۔ لیکن جب کھانا گھر شروع کیا گیا تو اس میں باعزت طریقے سےگھر جیسے ماحول میں کھانا کھلانے کا انتظام کیا گیاتھا۔ اس میں نہ قطاریں لگوائی جاتی ہیں اور نہ انتظار کرایا جاتا ہے۔قیمت مقرر کرنے کی وجہ یہ تھی کہ لوگ محنت کریں اور ان کی عزت نفس اس وجہ سے مجروح نہ ہو کہ وہ مفت کا کھانا کھا رہے ہیں۔ پھر بغیر پیسےدیئے کھانے والے افراد تساہل پسنداور کام چور ہوجاتے ہیں، ان کے ذہن میں یہ خیال آ سکتا ہے کہ انہیں اور ان کے اہل خانہ کو پیٹ بھرنے کے لیے دو وقت کا کھاناتو مفت میں مل تو جاتا ہے تو پھر محنت مزدوری کی کیا ضرورت ہے۔آج 3500 سے 4000افراد یہاں بیٹھ کر کھانا کھانے اور گھروں کے لیے پارسل بھی لے جاتے ہیں۔ ان کاموں پر خاصے مصارف ہوتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نےبہت سے صاحب حیثیت افراد کو وسیلہ بنایا ہوا ہے، ورنہ مہنگائی میں اس قدر اضافہ ہوگیا ہے کہ ایک وقت کے کھانے کا انتظام مشکل ہوجاتا جب کہ یہاں ہزاروں روپے یومیہ کے اخراجات درپیش ہوتے ہیں۔

2005سے مجھے مخیر حضرات کا تعاون ملنا شروع ہوا، ایک صاحب نے پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لیے آر او پلانٹ کا عطیہ دیا لیکن وہ علاقے کے لوگوں کی آبی ضرورتیں پوری کرنے سے قاصر رہا او ر اس وقت ناکارہ حالت میں موجود ہے۔۔جب کھانا گھرکی شہرت غیر ممالک میں پہنچی تو امریکا میں کام کرنے والی ایک فلاحی تنظیم نے مجھے امریکا بلایا اورمستقل بنیادوں پر مالی امداد مقرر کردی۔اسی طرح امریکاسمیت دیگر بیرونی ممالک میں پاکستانی برادری کے افراد انٹرنیٹ پر میرے کام کی باقاعدہ مانیٹرنگ کرکے ہر ماہ خطیر رقومات بھیجتے ہیں۔ یہاں سے متصل پسماندہ بستیوں کے لوگوں کو کھانے کی فراہمی کے لیے تین پک اپ پوائنٹس بنائے گئے ہیں، جہاں کھانے کی فراہمی خداکی بستی کے کھانا گھر سے ہوتی ہے اور ان مراکز پر کھانے کی ترسیل کے لیےملازم رکھے گئے ہیں۔ 2007میں کورنگی صنعتی زون کی ایک خدا ترس شخصیت نے کورنگی ڈیڑھ نمبرکے یونیورسل ٹاؤن میں ’’کھانا گھر‘‘کی دوسری شاخ قائم کرنے میں تعاون فراہم کیا ہے، جس میں جگہ کے علاوہ چٹائیاں، میز کرسیاں برتن، دیگچے، دیگیں ، گیس اور بجلی کے کنکشن کے علاوہ دیگر اشیائے ضروریہ شامل ہیں۔ اس’’ کھانا گھر ‘‘ میں کھانے کی تیاری کی َمد میںبھی روزانہ کے اخراجات وہی برداشت کرتے ہیں، جو کمی بیشی ہوتی ہے وہ ہمیں پوری کرنا پڑتی ہے۔ اس علاقے میں بھی غریب گھرانوں کو خوراک کی فراہمی کے لیے تین پک اپ پوائنٹس قائم کیے گئے ہیں۔
 
اس ادارے کا نہ تواب تک کسی سرکاری شخصیت نے دورہ کیا اور نہ ہی حکومتی سطح پر کسی قسم کی مالی رقم فراہم کی گئی ہے۔ بعض سماجی شخصیات کی امداد کے اعلانات بھی محض کاغذی حد تک محدود رہے۔ سوائے ایک معروف کرکٹر کے، کسی بھی نمایاں شخصیت نے اس مرکز کا دورہ نہیں کیا۔ مذکورہ شخصیت کی آمد پرخدا کی بستی کے لوگوں کی کثیر تعداد ’’کھانا گھر‘‘ کے سامنےاکٹھاہوگئی جنہیں دیکھ کر انہوںنے’’ ڈپلومیٹک انداز ‘‘ میں 20لاکھ روپے کی امداد کااعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں یہ رقم خدا کی بستی کے لوگوں کی مدد کے لیے دیتا ہوں‘‘۔اس کے بعد لوگ میرے پاس چکر لگاتے رہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے میرے ادارے کو اپنی فاؤنڈیشن کے ساتھ منسلک کرکے ہر ماہ دو لاکھ روپے عطیے کا بھی اعلان کیا،لیکن وہ رقم نہ تو مجھے ملی اور نہ ہی علاقے کے عوام کے لیے بیس لاکھ روپے ملے۔

کچھ عرصے قبل تک مجھےاس فریضے کی ادائیگی کے سلسلےمیں اپنے شوہر اور دونوں بیٹیوںکی مدد حاصل تھی لیکن بیٹیاں رخصت ہوکر اپنے شوہروں کے ساتھ چلی گئیں جب کہ شوہر گردے کے عارضے میں مبتلا ہوکر بستر پرپڑے ہیں۔ وہ ان دنوں ڈائیلاسس پر ہیں، ان کی تیمارداری کی وجہ سےمیں بھی ’’کھاناگھر ‘‘ کو کم وقت دے پاتی ہوں، ایک صاحب کو اس کی نگرانی کے لیے ملازم رکھا ہوا ہے ، جواس کے تمام انتظامات بہتر طور سے چلا رہے ہیں، ہر دو تین دن بعد میں بھی یہاں آتی ہوں اور وہاں جس چیز کی بھی ضرورت ہوتی ہے اس کی فراہمی کے لیے انتظامات کرتی ہوںجب کہ کورنگی کے کھانا گھر کا بھی جائزہ لینے کے لیےجاتی ہوں۔ میری دلی خواہش ہے کہ لوگوں کو فاقہ کشی سے بچانے کے لیے میرا یہ منصوبہ میرے بعد بھی قائم و دائم رہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ اس کے علاوہ بھی وہ رفاہ عامہ کے دیگرکاموں میں حصہ لیتی رہتی ہیں۔ کئی بوڑھے اور بے سہارا افراد کو کھانا گھر نے ’’گودا‘ ‘لیا ہوا ہے۔ ان کے کھانے پینے ،دوا علاج، لباس اور دیگر ضرورتوں کی ذمہ داری یہاں سے پوری کی جاتی ہیں۔ لوگوں کو جاڑے سے بچانے کے لیے گرم بستروں اور لحاف کا انتظام کیا جاتا ہے، غریب اور نادار بچیوں کی شادی کے موقع پر ادارے کی جانب سے 25سے پچاس افراد کے کھانے یا جہیزکے لیےفرنیچریا واشنگ مشین یا اسی قسم کی کوئی چیز دی جاتی ہے۔مرنے والے کی تجہیز ، تکفین اور تدفین کی ساری ذمہ داری ’’کھانا گھر‘‘ کی جانب سے ادا کی جاتی ہے۔رمضان میں پورے مہینے افطارکا انتظام ہوتاہے جب کہ عید کے لیے راشن ، ملبوسات اور دیگر اشیاء فراہم کی جاتی ہیں۔اس رمضان میںیہاں پر 26لاکھ روپے کا راشن تقسیم کیا گیا تھا۔ حصول علم کے شوقین بچوں کو یونیفارم اور کتابیں فراہم کی جاتی ہیں۔ میری اور میرے شوہر کی خواہش تھی کہ غریب افراد کو علاج معالجےاور ادویات کی مفت سہولتوں کی فراہمی کے لیے ایک طبی مرکز قائم کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے لیاری ٹاؤن کے علاقے کا انتخاب کیا گیا جہاں مفلس اور غریب افراد کی کثیر تعدادآباد ہے۔ اسپتال کے لیے پلا ٹ خرید کرعمارت کی تعمیر ہوئی، خون کے ٹیسٹ کے لیے لیبارٹری بنانے کے لیے ضروری آلات خریدے گئے، ایکسرے پلانٹ لگایا گیا ، مریضوں کے لیے معائنہ گاہ بنائی گئی اور ایمرجینسی میں طبی امداد کی فراہمی کے لیے بیڈ ڈالے گئے۔ ڈاکٹروں اور دیگر طبی عملے کے بیٹھنے کے لیے میز کرسیاں رکھی گئیں، لیکن وہاں کے بعض بااثر افراد کواس پر ’’تحفظات‘‘ تھے۔ ان کی دھمکیوں سے خائف ہوکر ہم نے مذکورہ طبی مرکز بند کردیا۔ عمارت اب بھی موجود ہے لیکن اس میں موجود قیمتی آلات اور فرنیچر کو توڑ پھوڑ دیا گیا ہے یا لوگ انہیں اٹھا کر لے گئے۔

ابتدا میں مجھے اس طرح کی صورت حال سے یہاں بھی واسطہ رہا لیکن بستی کے لوگوں نے میرے ساتھ ہر قسم کاتعاون کیا ۔ علاقے کی مخدوش صورت حال کی وجہ سے سرکاری اور سماجی شخصیات اس جگہ آنے سے گھبراتی ہیں، کچے پکے، پتھریلے، گندے پانی جوہڑ، کیچڑ اور بہ مشکل پانچ فٹ چوڑے راستے اور تنگ اور غلیظ گلیوںسے ان کی گاڑیوں کا گزرنا بہت مشکل ہوتا ہے، لیکن غیر ممالک میں رہنے والے پاکستانی جب اپنے ملک آتے ہیں تووہ اس ادارے کا بھی دورہ کرتے ہیں اور تمام صعوبتوں سے گزر کر اس مرکز میں آکرہمیں کام کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ ایسے لوگوں نے مجھے کافی مالی امداد فراہم کی ہےاور مجھے خوشی ہے کہ ملک سے ہزاروں میل کے فاصلے پر رہتے ہوئے بھی وہ اپنے وطن کے مجبور و بے کس عوام کے لیے درد رکھتے ہیں لیکن کاش یہ جذبہ ملک میں رہنے والے افراد کے دل میں بھی پیدا ہوجائے اور وہ انسانیت کے ناتے مہنگائی کے ڈسے عوام کو فاقوں کی وجہ سے اجتماعی خوکشیوں یا معصوم بچوں کو قتل ہونے سے بچانے کے لیے اپنا حصہ ڈالیں۔

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 208 Articles with 192198 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.