بدعت ائمہ اور محدثین کے نزدیک ١٣

(24) امام عبد الوھاب بن احمد علی الشعرانی رحمۃ اللہ علیہ (973ھ) :-

امام عبد الوھاب بن احمد علی الشعرانی اپنی کتاب ’’الیواقیت و الجواہر فی بیان عقائد الاکابر‘‘ میں ایک استفتاء کے جواب میں بدعت حسنہ کے شرعی حکم کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

31. (فإن قلت) : فهل يلحق بالسنة الصحيحة في وجوب الإذعان لها ما ابتدعه المسلمون من البدع الحسنة؟ (فالجواب) : کما قاله الشيخ في الباب الثاني و الستين و مائتين : إنه يندب الإذعان لها ولا يجب کما أشار إليه قوله تعالي : (وَرَهبَانِيّة أبْتَدَعُوها مَا کَتَبْنٰها عَلَيْهِم) (الحديد، 57 : 27) وکما أشار إليها قوله صلي الله عليه وآله وسلم : (من سن سنة حسنة، (1) فقد أجاز لنا ابتداع کل ما کان حسناً وجعل فيه الأجر لمن ابتدعه ولمن عمل به مالم يشق ذلک علي الناس). (2)

’’اگر تو اعتراض کرے کہ بدعت حسنہ میں سے جو نئی چیز مسلمانوں نے اختیار کی ہے کیا وہ وجوب اقرار میں سنت صحیحہ کے ساتھ (درجہ میں) مل جاتی ہے؟ اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ اس نئی چیز یعنی بدعت حسنہ کا اقرار کرنا مندوب ہے نہ کہ واجب جیسا کہ اس چیز کی طرف اللہ تعاليٰ کا یہ قول اشارہ کرتا ہے ’’ورھبانیۃ ابتدعوھا ما کتبنٰھا علیھم‘‘ (الحدید، 57 : 27) ’’انہوں نے اس رہبانیت کو از خود شروع کر لیا تھا یہ ہم نے ان پر فرض نہیں کی تھی‘‘ اور جیسا کہ اسی چیز کی طرف حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان اشارہ کرتا ہے (من سن سنۃ حسنۃ) ’’جس نے کوئی اچھا طریقہ شروع کیا اور ہر وہ چیز جو اچھی ہو اسے شروع کرنا ہمارے لیے جائز ہے اور اس میں شروع کرنے والے کے لئے اور اس پر عمل کرنے والے کے لئے اجر رکھ دیا گیا ہے جب تک اس اچھی چیز پر عمل کرنا لوگوں کو مشقت میں نہ ڈالے۔‘‘

1.

1. مسلم، الصحيح، 2 : 705، کتاب الزکوٰة، باب الحث علي الصدقه، رقم : 1017
2. نسائي، السنن، 5 : 55، 56، کتاب الزکاة، باب التحريض علي الصدقه، رقم : 2554
3. ابن ماجه، السنن، 1 : 74، مقدمة، باب سن سنة حسنة أو سيئة، رقم : 203
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 357. 359
5. ابن حبان، الصحيح، 8 : 101، 102، رقم : 3308
6. دارمي، السنن، 1 : 141، رقم : 514

2.

شعراني، اليواقيت والجواهر في بيان عقائد الأکابر، 2 : 288

(25) اِمام احمد شہاب الدین ابن الحجر المکی الہیتمی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 974ھ) :-

اِمام ابن حجر مکی ’’الفتاويٰ الحدیثیہ‘‘ میں ایک سائل کا جواب دیتے ہوئے رقمطراز ہیں :

32. و قول السائل نفع اﷲ به وهل الاجتماع للبدع المباحة جائز جوابه نعم هو جائز قال العزالدين بن عبدالسلام رحمه اﷲ تعالي البدعة فعل مالم يعهد في عهد النبي صلي الله عليه وآله وسلم و تنقسم إلي خمسه أحکام يعني الوجوب والندب الخ وطريق معرفة ذلک أن تعرض البدعة علي قواعد الشرع فأي حکم دخلت فيه فهي منه فمن البدع الواجبة تعلم النحو الذي يفهم به القرآن والسنة ومن البدع المحرمة مذهب نحو القدرية ومن البدع المندوبة احداث نحو المدارس والاجتماع لصلاة التراويح ومن البدع المباحة المصافحة بعد الصلاة ومن البدع المکروهة زخرفة المساجد والمصاحف أي بغير الذهب والا فهي محرمة وفي الحديث ’’کل بدعة ضلالة و کل ضلالة في النار‘‘(1) وهو محمول علي المحرمة لا غير. (2)

’’اور سائل کا یہ قول (اللہ تعاليٰ اس سائل کو نفع دے) کہ کیا بدعت مباحہ کے لئے اجتماع جائز ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہاں ایسا کرنا جائز ہے، شیخ عز الدین بن عبدالسلام فرماتے ہیں : بدعت ایسا فعل ہے جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں نہ تھا اور بدعت کو پانچ اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے یعنی واجب اور ندب۔ ۔ ۔ الخ، اور اس کی پہچان کا طریقہ کار یہ ہے کہ بدعت کو قواعد شرعیہ پر پرکھا جائے گا پس جس حکم میں وہ بدعت داخل ہو گی تو وہ حکم اس پر لاگو ہو گا الغرض بدعت واجبہ میں سے نحو کا علم سیکھنا ہے جس سے قرآن اور سنت کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے، اور بدعت محرمہ میں سے نئے مذہب کا بنانا جیسے قدریہ، اور بدعت مندوبہ میں سے قیام مدارس اور نماز تراویح جماعت کے ساتھ ادا کرنا، اور بدعت مباحہ میں نماز کے بعد مصافحہ کرنا، اور بدعت مکروہہ میں سے مساجد اور قرآن کی تزئین و آرائش کرنا یعنی سونا استعمال کئے بغیر بصورت دیگر یہ بدعت محرمہ ہوگی اور حدی۔ رضی اللہ عنھم میں جو یہ الفاظ ہیں کہ ’’کل بدعۃ ضلالۃ‘‘ اور ’’کل ضلالۃ فی النار‘‘ اس سے مراد بدعت محرمہ ہے اس کے علاوہ اور کچھ مراد نہیں ہے۔‘‘

1.

1. ابوداؤد، السنن، 4 : 200، کتاب السنة، باب في لزوم السنة، رقم : 4607
2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 44، کتاب العلم، باب ما جاء في الأخذ بالسنة، رقم : 2676
3. ابن ماجه، السنن، مقدمه، باب اتباع السنة الخلفاء الراشدين، 1 : 15، رقم : 42
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 126
5. ابن حبان، الصحيح، 1 : 178، رقم : 5

2.

ابن حجر مکي، الفتاويٰ الحديثية : 130

(26) شیخ محمد شمس الدین الشربینی الخطیب رحمۃ اللہ علیہ (977ھ) :-

دسویں صدی ھجری کے معروف شافعی عالم دین الشیخ محمد شمس الدین الشربینی الخطیب اپنی کتاب ’’مغنی المحتاج الی معرفۃ معانی الفاظ المنہاج‘‘ میں لفظ ’’وَتُقْبَلُ شَهادَة مُبْتَدِعٍ لاَ نُکَفِّرُه‘‘ کے ذیل میں شیخ عزالدین بن عبد السلام کے حوالے سے لکھتے ہیں :

33. البدعة منقسمة إلي واجبة و محرمة و مندوبة و مکروهة و مباحة. قال و الطريق في ذلک أن تعرض البدعة علي قواعد الشريعة، فان دخلت في قواعد الإيجاب فهي واجبة کالاشتغال بعلم النحو أو في قواعد التحريم فمحرمة کمذهب القدرية و المرجئة و المجسمة و الرافضة. قال والرد علي هؤلاء من البدع الواجبة : أي لأن المبتدع من أحدث في الشريعة مالم يکن في عهده صلي اﷲ عليه وسلم، أو في قواعد المندوب فمندوبة کبناء الربط و المدارس و کل إحسان لم يحدث في العصر الأول کصلاة التراويح، أو في قواعد المکروه فمکروه کزخرفة المساجد و تزويق المصاحف، أو في قواعد المباح فمباحة کالمصافحة عقب الصبح و العصر و التوسع في المآکل والملابس، و روي البيهقي بإسناده في مناقب الشافعي رضي اﷲ تعالي عنه : أنه قال : المحدثات ضربان : أحدهما ما خالف کتابا أو سنة أو إجماعا فهو بدعة و ضلالة : و الثاني ما أحدث من الخير فهو غير مذموم.

’’بدعت واجبہ، محرمہ، مندوبہ، مکروھۃ اور محرمہ کے تحت تقسیم ہوتی ہے اور انہوں نے کہا اس کا طریقہ یہ ہے کہ بدعت کو قواعد شریعت کے مطابق پرکھا جائے گا۔ اگر وہ وجوب کے قواعد میں داخل ہوئی تو وہ بدعت واجبہ ہو گی جیسے علم النحو کے حصول میں مشعول ہونا یا وہ بدعت قواعد تحریم میں داخل ہو گی تو پھر وہ بدعت محرمہ ہو گی جیسے مذہب قدریہ، مرجئہ، مجسمہ اور رافضہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان تمام (باطل مذاہب) کا رد کرنا بدعت واجبہ میں سے ہے کیونکہ مبتدع (بدعتی) نے شرعیت میں ایسی چیز ایجاد کی ہے جو کہ حضور علیہ السلام کے زمانے میں نہ تھی یا پھر وہ مستحب کے قواعد میں داخل ہو گئی تو وہ بدعت مستحبہ ہو گی جیسے سرائے اور مدارس وغیرہ تعمیر کرنا اور ہر وہ اچھی چیز جو پہلے زمانے میں ایجاد نہ ہوئی ہو جیسے نماز تراویح وغیرہ. یا پھر وہ قواعد مکروہ میں داخل ہو گی تو وہ بدعت مکروہ ہو گی جیسے مسجدوں کی تزئین اور مصاحف پر نقش نگار کرنا یا وہ قواعد مباح میں داخل ہو گی تو وہ مباح کہلائے گی۔ جیسے (نماز) فجر اور عصر کے بعد مصافحہ کرنا، کھانے اور پینے میں وسعت (اختیار) کرنا اور اسی طرح امام بیہقی نے اپنی سند کے ساتھ مناقب شافعی میں بیان کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ محدثات کی دو قسمیں ہیں ان میں سے ایک وہ جو کتاب و سنت یا اجماع کے مخالف ہے وہی بدعت ضلالہ ہے اور دوسری وہ جو خیر میں سے ایجاد کی گئی ہو پس وہی بدعت غیر مذموم ہے۔‘‘

شربيني، مغني المحتاج الي معرفة معاني ألفاظ المنهاج، 4 : 436

جاری ہے---
Mohammad Adeel
About the Author: Mohammad Adeel Read More Articles by Mohammad Adeel: 97 Articles with 93897 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.