نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کِشتِ ویراں سے-ایک تقریر

صدرِ ذی حشم، قابلِ صد احترام اساتذہ کرام اور راہِ علم کے ہمسفرو ! السلام علیکم:
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذر ا نم ہو تو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی

حکیم الامّت علامہ محمد اقبالؒ کا یہ شعر مایوسی کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں امید کی ایسی کرن کی مانند ہے جو پژمردہ اور یاسیت میں ڈوبے قلوب و اذہان کو حیاتِ نو کا پیغام دیتی ہے۔ حالات چاہے کتنے ہی دگرگوں اور اعصاب شکن کیوں نہ ہوں مسلسل اور درست سمت میں کی گئی جدوجہد سے تبدیل ہو جاتے ہیں بشرطیکہ کہ صبر و استقامت اور عملِ پیہم کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے۔یہی پیغام قرآن کا بھی ہے کہ " لاتقنطو من رحمۃِ اللہ" کہ اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہوں۔دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ خدا کی ذات پر مضبوط عقیدے اور سعی مسلسل نے قوموں کو بڑے بڑے فرعونوں ، نمرودوں اور شدادوں سے نجات سے ہم کنار کیا۔ذرا بیٹیوں کو زندہ درگور کر دینے والے معاشرے کا تصور کیجیے کہ کس طرح خزاں و یاس ، فتنہ و فساد اور کینہ و عناد کا موسم گل و گلزار ، امن و آشتی اور محبت و اخوت میں بدل گیا۔

صدرِ ذی وقار! مایوس آدمی مٹی کے اس ڈھیر کی طرح ہوتا ہے جس کے ذرات کو ہلکی سی آندھی اڑا کر فضا میں منتشر کر دیتی ہے۔ذرا تاریخ پر نظر دوڑائیے کہ اگر آقائے نامداﷺ کے تین سو تیرہ جاں نثار مایوسی اور یاس کا لبادہ اوڑھ لیتے تو کس طرح اپنے سے کئی گنا بڑے لشکر کو شکست سے دوچار کرتے؟ اقبالؒ اس امّت کو اسی جذبہ حریت اورامیدو رجا کی دولت سے مالامال کرتے ہیں ۔یہی دولت قوموں کے بکھرے ہوئے شیرازے کو جوڑنے کے لیے درکار ہوتی ہے۔افسوس صد افسوس کہ آج یہی دولت اس ملّت کیلیے کسی گمگشتہ خزانے سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی۔اقبالؒ نے اسی گمگشتہ دولت کے کھو جانے کا نوحہ کچھ اس طرح کیا ہے کہ
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا

صاحبِ صدر! قیامِ پاکستان سے قبل ہم ایک قوم تھے مگر ایک وطن کی تلاش میں سرگرداں تھے اور آج ہمارے پاس ایک وطن ہے مگر افسوس کہ ہم ایک قوم کو تلاش کر رہے ہیں۔اس کی تباہیوں اور بربادیوں کے تذکرے چہار سو زباں زدِ عام ہیں ۔یہ ملک اب اس کشتی کی مانند ہے جس سے کبھی کنارا دور ہو جاتا ہے اور کبھی یہ خود ہچکولے کھانے لگ جاتی ہے۔اس کے حکمرانوں اور باشندوں نے آدھا ملک گنوا کر بھی تاریخ سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔

جنابِ صدر! اقبال کے اسی کلام کو حرزِ جاں بنا کر ہمارے ہمسایہ ملک ایران نے اپنے افراد کو ایک عظیم قوم کی لڑی میں پرو دیا مگر ہم ہیں کہ انتشار در انتشار کے راستے کے راہی بنے ہوئے ہیں۔اس کی ڈگمگاتی ہوئی کشتی کو کس نے پار لگانا ہے۔ کیا آسمان سے فرشتے نازل ہوں گے؟ فرشتے بھی اسی وقت اترتے ہیں جب تین سو تیرا اپنا سب کچھ خدا کی راہ میں لے کر میدانِ عمل میں نکلتے ہیں۔خدا اس وقت دس قدم چل کر ہمارے پاس آتا ہے جب ہم ایک قدم چل کر اس کے پاس جائیں گے۔ بدقسمتی سے ہم نے سمجھ رکھا ہے کہ پہلا قدم بھی خدا ہی چل کر ہمارے پاس آئے مگر سن لو یہ خدا کی سنّت نہیں ہے۔

جنابِ میرِ مجلس! کیا ہوا کہ زردار اور ساہوکار اس ملک کی عوام کو بھوک اور افلاس کی چکی میں پیس کر ہلاک کر دینا چاہتے ہیں؟ کیا ہوا کہ اس کے بڑے بڑے وزیر اور مشیر غیر ملکی آقاؤں کی ملنے والی خیرات کے آگے سجدہ ریز ہو گئے ہیں اور اپنی حرص و ہوس کو خدا بنا لیا ہے؟ کیا ہوا کہ آج ہمارے سب سے بڑے صوبے کا نظامِ تعلیم عالمی بینک، یو ایس ایڈ ، آئی ایم ایف اور دیگر سامراجی ایجنسیوں کے ہاتھوں فروخت ہو چکا ہے اور اس کے خادمین خائنین کے منصب پر فائز ہو چکے ہیں۔کیا ہوا کہ لارڈ میکالے کے شاگردوں نے ہماری تہذیب اور قومی زبان کو تعلیمی اداروں سے بے دخل کرنا شروع کر دیا ہے؟ کیا ہوا کہ سامراج کے ایجنٹوں نے ملکی معیشت کا دیوالیہ کر کے بیرون ملک ایک ایک ہزار دوکانوں پر مشتمل پلازے تعمیر کر لیے ہیں؟ کیا ہوا کہ سامراجی ایجنٹوں نے غریب کے چولہے کو بجھا کر اپنے محلوں میں چراغاں کر لیا ہے؟ ان سب حالات کو کون بدلے گا؟ کوئی اور نہیں صرف ہم بدلیں گے۔ہاں میں او آپ۔ یہی لوگ حالات کا پانسہ پلٹیں گے جو میرے سامنے بیٹھے ہیں۔اقبالؒ نے اسی زمین کو کشتِ ویراں کہا اور ہماری غیرت و حمیت اور سعی پیہم کو نمی سے تعبیر کیا ۔ اٹھیے ایک عظیم الشان انقلاب کے نقیب بن کر۔الٹ دیجیے اس فرسودہ نظام کی بساط۔ بہا دیجیے اپنے جسم کا سارا پسینہ اور خون۔پھر پھوٹے کا اسی کشتِ ویراں سے ایک سہانا منظر۔ اپنی آغوش میں ایک انقلاب لیے ہوئے جو بہا لے لے جائے گا ساری بے انصافیوں اور ظلمتوں کو۔اس انقلاب کا یہی وقت ہے۔ ہاں یہی ثانیہ اور یہی لمحہ ہے انقلاب کی طرف سفر شروع کرنے کا .بقولِ شاعر
جب اپنا قافلہ عزم و یقیں سے نکلے گا
جہاں سے چاہیں گے رستہ وہیں سے نکلے گا

وطن کی ریت ذرا ایڑھیاں رگڑنے دے
مجھے یقیں ہے کہ پانی یہیں سے نکلے گا
Ishtiaq Ahmad
About the Author: Ishtiaq Ahmad Read More Articles by Ishtiaq Ahmad: 52 Articles with 168544 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.