اعلیٰ حضرت‘ امام احمدرضا محدث بریلوی حالات و افکاراور علمی و دینی خدمات

بسم اللّٰہ الرحمٰن الر حیم

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی رحمۃ اﷲ علیہ کی علمی و روحانی شخصیت تقریباً سو سال سے عالم اسلام پر بادل بن کر چھائی ہوئی ہے……آپ ۱۸۵۶؁ ء کو بھارت کے شہر بریلی میں پیدا ہوئے اور ۱۹۲۱؁ء کو وہیں وصال فر ما یا……آپ اس دور میں پیدا ہوئے جب بر صغیر کے حالا ت دگرگوں تھے ایک خونی انقلا ب آنے والا تھا، مسلمانوں کے حالات اور افکا ر واعمال میں ایک ہیجان بر پاتھا ، ایسی تحریکیں چل پڑی تھیں جنہوں نے ایمان ویقین کو کمز ور کر دیا تھا ۔ آپ نے جب ہوش سنبھا لا تو اپنی خدادادایمانی اور علمی قوت سے گرتے ہوؤں کو بچایا ، آپ نے مسلمانوں کے ایمان ویقین کو متز لز ل اور عشق ومحبت کو برباد ہونے نہ دیا اور عشق رسول ﷺ کی ایسی شمع روشن کی جس نے تاریک فضاؤں کوآج تک روشن کیاہوا ہے ‘آپ نے عشق رسول ﷺ کے ذریعے مسلمانوں میں زندگی کی ایک ایسی لہر دوڑائی جس نے مُردوں کو زندہ کر دیا…… آپ نے دور جدید کی شکستوں اور ناکامیوں میں مسلمانوں کی رہنمائی فرمائی …… آپ نے پوری اسلامی تاریخ سے کشید کرکے مسلم ثقافت پیش کی …… آپ نے روایتی حکمت ودانش کو زندہ رکھا …… آپ نے جدید سائنس کے مقابل اسلا م کا دفاع کیا …… آپ نے عالمی بر ادری کا اسلا می تصورپیش کیا اور حقیقی اسلامی بر ادری کا تحفظ کیا …… آپ نے عصر جدید کو مذہب اور تصوف کی شاندا رروایات کو پامال نہ ہونے دیا …… آپ نے مسلمہ اسلامی عقائد کی حفاظت کی …… وہ عقائد جو اسلا م کی اساس ہیں……آپ ایک عظیم مد بر اورجہاں دیدہ مبصر تھے…… آپ کی اصل اہمیت یہ ہے کہ وقت نے آپ کو سچااور صحیح ثابت کیا اور وقت کی گو اہی سچی اور اٹل ہوا کرتی ہے ۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کی عظمت کا کیا کہنا جس کی ایک نشانی تویہ ہے کہ جو علو م وفنون آپکے علم میں تھے اور ان علو م وفنون میں آپ نے تصانیف بھی یادگار چھوڑیں مگر ان کے علاوہ مستقبل کے ان علوم وفنون کی نشان دہی بھی کی جواس وقت تک باقاعدہ وجود میں بھی نہیں آئے تھے……ایک نشانی یہ کہ آپ نے ملت اسلامیہ کے دینی ، اخلاقی ، معاشی ، تعلیمی اور سیا سی مسائل کا جو حل پیش کیاتھا‘ ایک صدی گزر جانے کے باوجود عالم اسلا م کے مسائل کے لیے آج وہ اسی طرح مؤثر ہیں ……ایک نشانی یہ کہ آپ کی حیات وتعلیمات اور علمی آثار پر دنیا کے چار براعظموں : بر اعظم ایشیاء ، بر اعظم یورپ، بر اعظم امریکہ اور براعظم افریقہ کی جامعا ت اور تحقیقی اداروں میں کا م ہوا اورمسلسل ہورہا ہے‘ جس کی تفصیلات کتاب’’امام احمد رضا اور عالمی جامعات‘‘(مرتبہ :پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد و ڈاکٹر اقبال احمد اخترالقادری) میں شائع ہو چکی ہیں ۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا نے اپنے علمی تبحر سے علمائے اسلا م اور حکمائے اسلا م کی یاد تازہ کر دی اور ان کے شاند ار تسلسل کو قائم رکھا ۔ منقو لات اور معقولات میں آپ نے اردو، فارسی اور عربی میں جو لا تعداد تصانیف اور شرح وحواشی پیش کیں ان سے آپ کی حیرت انگیز و سعت علمی اور عظمت کا اند ازہ ہوتاہے …… آپ کے بہت سے قلمی مخطوطات کے عکس موجود ہیں ۔ آپ نے اپنے فتوؤں کا ایک عظیم ذخیر ہ چھوڑا ہے جو منقولا ت اور معقولات کا جامع ہے ۔ ’’فتا وٰی رضویہ‘‘ کی بارہ جلدیں متعدد بار ہند وستان وپاکستا ن سے شائع ہوچکی ہیں‘ اس کے علمی مقام کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب رضا فاؤنڈیشن‘ لاہور نے اسے جدیدترتیب و تخریج کے ساتھ شائع کیا توقدیم بارہ جلدوں کا مواد تیس جلدوں میں پھیل گیا …… تاریخِ فتاوٰی میں ’’ فتاوٰ ی رضویہ‘‘ اپنی نظیرآپ ہے۔اس کے ایک ایک فتوے میں بیسیوں حوالے ہیں جن کو پڑھ کر غیر مفتی بھی مفتی بن جاتا ہے ۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کے زمانے میں حضور اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والے اورنبوت کا دعوٰ ی کرنے والے پیدا ہوئے توآپ نے ناموس مصطفی ﷺ کی حفاظت فرمائی اور نا م نہاد ین کی سخت مزاحمت فرمائی ، مسلسل رسالے لکھے اور فتاوٰی جاری کیے ……عشق رسول ﷺ میں ڈوبا آپ کا سیرت نبوی ﷺ پر گراں قدرعلمی ذخیرہ پایا جاتا ہے، سیر ت نبوی ﷺ سے متعلق اگر آپ کے رسائل اور فتاوٰی جمع کیے جائیں تو سیرت النبی ﷺ پرالگ سے ضخیم کتاب تیار ہوسکتی ہے……حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم غور سے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ ان کی ہر کتاب میں سیرت ہی سیرت جگمگا رہی ہے……فن شاعر ی میں نعت کو اتنا بلند کیا کہ پوری اردو شاعر ی تکتی رہ گئی …… انہوں نے ادب وشاعر ی کو مجازی محبوبوں سے نجات بخشی اور حقیقی محبو ب کا ایسا رنگ دکھا یا کہ سارے رنگ پھیکے پڑگئے ……آپ نے نعتیہ شاعری سے ملت میں ایک نئی روح پھونک دی ……آپ کا نعتیہ کلا م’’ حدائق بخشش‘‘ کے نام سے ہزاروں کی تعداد میں چھپ چکا ہے،جبکہ عربی شاعری کا ایک مجموعہ ’’بساتین الغفران ‘‘ کے عنوان سے جامعہ از ہر‘مصر کے استا د شیخ سید حازم محمد احمد عبد الرحیم المحفوظ نے مرتب کیا ہے جو ۱۹۹۷؁ ء میں لا ہور سے شائع ہوچکا ہے ۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا سنت کے حامی اور بدعت کے سخت مخالف تھے ……ان کے عہد میں معاشرے میں بہت سی بد عات رائج ہوگئی توآپ نے سختی سے ان کا رد فرمایا اورایک ایک بد عت کے ردمیں تحقیقی مقالے ، رسالے اور فتاوٰی صادر فرمائے ……آج ہمارے معمو لات میں بھی بہت سی ایسی چیز یں داخل ہوچکی ہیں جن کی اعلیٰ حضرت نے سخت مخالفت فرمائی تھی ،آپ کے افکار وخیالات کی روشنی میں ہمیں اپنی اصلا ح کی طرف بھی توجہ دینی جائے ……اس صدی کے اوائل میں جدید علو م عقلیہ نے جوانوں کو مبہوت کر دیا تھا ……اعلیٰ حضرت نے اپنے عہد کے سائنسد انوں کو چیلنج کر کے جوانوں کو حیران کر دیا اور ان کا ایمان متز لز ل نہ ہونے دیا ……’’ ۱۷ ؍دسمبر ۱۹۱۹ ؁ء کو کششِ ثقل کے نتیجے میں آفتاب میں گھاؤ پیدا ہونگے جس سے زمین کے بعض علا قوں میں قیامت صغرا بر پاہوگی‘‘ ……جب اعلیٰ حضرت کو انگریزی اخبار Daily Express(شمار ہ ۱۸؍اکتو بر ۱۹۱۹؁ء)کاتر اشہ ترجمہ کر کے یہ خبر سنائی گئی تو آپ نے اس خبر کو لغو قراردیا ۔ پھر اس پیش گوئی کے ردمیں ایک مقالہ ’’ معین مبین بہر دورشمس وسکو ن زمین ‘‘ قلم بند فرمایا جس میں ۱۷؍دلائل سے پر وفیسرالبر ٹ ایف پورٹا کا رد فرمایا ،چنانچہ ۱۷ ؍دسمبر ۱۹۱۹ء ؁کو سب نے دیکھا کہ اعلیٰ حضرت نے جو فرمایا تھا وہی سچ ثابت ہوا ……آپ نے اس رسالے کے بعد علم ھیئت پر دو دقیق مقالے’’فوز مبین در رد حرکت زمین‘‘اور’’الکلمۃ الملھمہ فی الحکمۃ المحکمہ لوھاء فلسفہ المشئمہ‘‘ قلم بند فرمائے ‘جن میں جد ید وقدیم فلسفیو ں اور ایسے سائنسد انوں کا رد فرمایا جو اسلام کے خلاف اپنی منطقی تحقیقات پیش کر رہے تھے ۔

اسلا می حکومت مزاج کے اعتبا رسے غیر مذہبی نہیں ، خالص مذہبی ہے کیونکہ اسلام ہی ایسا مذہب ہے جو زندگی کے تمام شعبوں میں ہماری رہنمائی کرتاہے ……اعلیٰ حضرت کے آخر ی زمانے میں۱۹۱۹؁ء سے ۱۹۲۱؁ء کے درمیان تحریک خلافت اور تحریک ترک موالا ت چلیں اور ہند ومسلم بھائی بھائی کی باتیں ہونے لگیں توآپ نے اس خیال کی سخت مز احمت ومخالفت فرمائی اور’’ دوقومی نظریہ‘‘ کا احیا ء کیا ‘ یہ وہ زمانہ تھا جب بانی پاکستان محمد علی جنا ح اور ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال بھی ایک قومی نظریہ کے حامی تھے۔ آپ کی انقلابی جد جہد نے ان دونوں قائدین کی رہنمائی کی اور وہ اسلام کے دو قومی نظریہ کے قا ئل و داعی ہوئے …… ہم ابھی تک اعلیٰ حضرت کے سیاسی تد بر کو سمجھ نہیں سکے ……انہوں نے اپنے رسالے ’’المحجۃ المؤتمنہ ‘‘ میں دوقومی نظریہ کی خوب تفصیل سے وضاحت فرمائی ہے ……

نصاب تعلیم ، اسلا می طر ز حکومت میں بنیا دی اہمیت کا حامل ہے ……اعلیٰ حضرت نے جدید نظام تعلیم کے خلاف سخت جد وجہد فرمائی جو انگریز حاکموں نے مسلمانوں کے مزاج و معاشرت کے بدلنے اور اسلا م کے دور کر نے کے لیے نا فذکیاتھا ……آپ نے نظام تعلیم اور اقتصادی نظام کا ایک خاکہ پیش کیا ……جس کا تفصیلی ذکر علامہ جلا ل الدین قادری نے کتاب ’’ امام احمد کا نظر یہ ء تعلیم ‘‘ ، پر وفیسر رفیع اﷲ صد یقی نے رسالہ ’’فاضل بریلوی کے معاشی نکا ت جدید معاشیات کے آئینے میں‘‘ اور کمیبرج یونیورسٹی کے انگر یز نو مسلم استاد ڈاکٹر محمد ہارون نے رسالہ ’’ امام احمد رضا کا عظیم اصلاحی منصوبہ ‘‘ میں تفصیل سے بیان کیا ہے ……بلا شبہ اعلیٰ حضرت اپنے دور کی ایک عظیم شخصیت تھے‘ ان کا علم ہمہ گیر اور عالمگیر تھا‘ ان کے اثرات بھی ہمہ گیر اور عالمگیر ہیں ……ہمیں ہر قسم کے تعصب اور تنگ دلی سے بالا تر رہ کر ان کی حیرت انگیزعلمی خدمات کا اعتراف کرنا اور ان کے کمالات سے استفادہ کرناچاہیے ……
 

Dr.Iqbal Ahmad
About the Author: Dr.Iqbal Ahmad Read More Articles by Dr.Iqbal Ahmad: 30 Articles with 42749 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.