یوم اقبال اور امید اقبال

امریکہ وروس ایٹمی پاور بنے..مسلمان سوچتے ہی رہ گئے
فرانس وبرطانیہ ایٹمی قوت بنے.. مسلمان دیکھتے ہی رہ گئے
چین انڈیا ایٹمی طاقت بنے.. مسلمان ہاتھ ملتے ہی رہ گئے
مگر کب تک؟آخر کب تک
ارے وہ ہم ہی تو تھے جو نہ دھمکی سے ڈرے،
نہ دباؤ سے دبے،نہ لالچ پر بکے، نہ جھکے
بلکہ سینہ تان کر تمام تر رکاوٹوں کے باوجود
ان کفریہ طاقتوں کی حکمرانی کو چیلنج کرکے
پہلی اسلامی ایٹمی طاقت کا تاج امت مسلمہ کے سر پر سجا دیا
اور دنیا سوچتی،جلتی اوردیکھتی کی دیکھتی رہ گئی
جب یہ شاعری نہیں حقیقت ہے
تو اقبال کیوں نہ کہے
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرانم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
(تفصیلی پوسٹ سے اقتباس)
مفکر پاکستان حکیم الامت علامہ اقبالؒ
ڈے پر خصوصی تحریر

قدرت نے ایک بےقرار روح کو منطقی ذھن،قلندرانہ مزاج،صوفیانہ طبعیت، شاعرانہ تخیل عطا کر کےجس پیکر خاکی میں جلوہ گر کیا اسےہم اقبال کے نام سے جانتے ہیں شعراء کی صف میں علامہ اقبال وہ شاعر ہیں جنہوں نےمشرق و مغرب کےمیخانےدیکھے،دونوں کی خوبیوں اور خامیوں سے واقف قوموں کے عروج وزوال،اس کے اسباب اور تاریخ پر گہری نظر رکھ کر اس سے ٹھیک ٹھیک سبق حاصل کرنے والے تھے۔مسلم اور امت مسلمہ کی عظمت سابقہ کی بحالی کے لئے درمند دل کے مالک تھے۔وہ نشےمیں مست ھوکر جذبات سےنہیں بلکہ دل سے کہتے تھے۔بات دل سے نکلتی اور دل پر اثر کرتی، انہوں نے جو کہا وہ دنیا کے کتب خانوں کے بجائے لوگوں کے دلوں اور سینوں میں آج تک محفوط ہے۔ان کا اک شعر ہے
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

جس وقت انہوں نے یہ شعر کہاتھا اس وقت پوری امت مسلمہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی امید کی کوئی کرن نہ تھی امت مسلمہ کی حالت زار کو دیکھ کر یہ بات دیوانے کا خواب لگتی تھی مگرآج عرب وعجم،افریقہ و ایشیاء کے 50سےزائد آزاد اسلامی ممالک دیکھ کر اس مرد قلندر کی بصیرت کوداد دئیے بغیر نہیں رہ سکتے۔

اس شعر کی روشنی میں پاکستان کی مردم خیز سرزمین پر نظر ڈالیں تو کھیل وثقافت،حرب وشجاعت ھر میدان میں بےمثال نام سامنے آتے ہیں کہ جوکھیلےہی نہیں دنیاکو کھیلنا سکھا گئے،
کرکٹ،ہاکی،سکواش،سنوکروغیرہ کے میدانوں پر ورلڈ چیمپیئن کی شکل میں پاکستان کا سبز ہلالی پرچم جب جب لہرایا تو مجھے
کہنا پڑا۔۔۔۔
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے

امت کی مظلوم بہن کی آنکھ کا آنسو اور بھائیوں کا لہو مجھےمجبور کرتاہے کہ طاؤس و رباب کی باتیں چھوڑ کر شمشیر وسناں پر آجاؤں۔میدان جنگ میں ہمیں ایک مکار اور بزدل دشمن کا سامناہے جس سے ہم کئ جنگیں لڑ چکے ہیں۔ بر وبحر، زمین وآسمان،پہاڑ ومیدان کہیں بھی ہم نے دشمن کو مایوس نہیں کیا
اگر دشمن فضاؤں میں آیا تو ہم ایم ایم عالم بن کر ملے،پہاڑوں پر چڑھا تو ہم کرنل شیر خان بن کر ملے جب بھی جہاں بھی جس شکل میں آیا ھم اسے تیار ملے ایک دو نہیں نشان حیدر پانے والے قطار در قطار ملے ۔۔ہم لڑے ہی نہیں دنیا کو لڑنا سکھا گئے

اسلحہ سازی کی صنعت میں الخالد اور الضرار ٹینک، پی این ایس سعد،پی این ایس حمزہ ،پی این ایس الخالد جیسی آبدوزیں ھمارا سرمایہ ہے۔ دشمن نے اگنی اور پرتھوی میزائل بناکر ھمیں مرعوب کرنا چاہا توسوہنی دھرتی کے نامور سپوتوں نے بابر، ابدالی،غوری اور غزنوی میزائل بناکر دشمن کو بتادیا کہ ابدالی اور غزنوی آج بھی زندہ ھیں پانی پت کے میدان سجاکر تودیکھو کل کی طرح تمہیں آج بھی منہ کی کھانی پڑے گی غوری وغزنوی کے فرزند اور ابدالی کے بیٹے بیدار ہوشیار اور جنگ کے لئے تیار ملیں گے۔
صرف انڈیا نہیں پوری دنیا مقابل کیوں نہ ہو پھر بھی تیار ھیں۔ ایٹم کی دنیاپر عیسائیوں کمیونسٹوں ہندؤوں کی حکمرانی سب نے دیکھی اور یہ بھی دیکھاکہ امریکہ وروس ایٹمی پاور بنے۔۔ مسلمان سوچتے ھی رہ گئے،
فرانس وبرطانیہ ایٹمی قوت بنے۔۔ مسلمان دیکھتے ہی رہ گئے،
چین انڈیا ایٹمی طاقت بنے۔۔۔ مسلمان ہاتھ ملتے ہی رہ گئےمگر کب تک؟آخر کب تک
ارے وہ ہم ہی تو تھے جو نہ دھمکی سے ڈرے، نہ دباؤ سے دبے،نہ لالچ پر بکے، نہ جھکے بلکہ سینہ تان کر تمام تر رکاوٹوں کے باوجود ان کفریہ طاقتوں کی حکمرانی کو چیلنج کرکے پہلی اسلامی ایٹمی طاقت کا تاج امت مسلمہ کے سر پر سجا دیا اور دنیا سوچتی،جلتی اوردیکھتی کی دیکھتی رہ گئ
جب یہ شاعری نہیں حقیقت ہے تو اقبال کیوں نہ کہے
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرانم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
اقبال کی نظر وفکر کو پاکستان تک محدود کرنا چاہوں بھی، تو نہیں کر سکتا ان کی نظر میں نیل کے ساحل سے تابخاک کاشغر پوری امتِ مسلمہ ایک قوم ہے۔چین وعرب اور ہندوستان ہی کیا؟ سارا جہاں ہمارا وطن ہے۔ تاریخی اور عالمی نکتہ نظر سے فرماتے ہیں کہ
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندۂ صحرائی یا مرد کہستانی
11ستمبر2001کے بعداقبال ہی کے الفاظ کےعین مطابق جب عالم فاضل اپنا دین وایمان بیچ رہےتھے تو ایک افغان ملا عمرکی بےعلمی نے لاج رکھ لی۔ صحرائے عرب کے شہزادے شیخ اسامہ اور کہستان کےمردمجاھد ملاعمر مجاھد ،مقاصد کی نگہبانی کا اس دور میں حق ادا کر چلے۔
گذشتہ سولہ سالہ عالمی حالات پر اس شعر کی روشنی میں نظر ڈالئیے۔۔ میں جب عراق کے صحراؤں اور افغانستان کے کہستانوں میں امریکہ اور صلیبی لشکروں کو ذلت وشکست کے زخم چاٹتا دیکھتاھوں تو مجھے پھر یاد آتا ہے
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے

اگر آج بھی ھم اقبال کی نظرسےالحاد، مغرب ،مغربی تہذیب اور علوم کو دیکھیں اور فلسفۂ اقبال کی روشنی میں اپنی مذہبی، معاشی،دفاعی، تعلیمی اور خارجہ پالیسی بنائیں تو ہم حقیقت میں آزاداور دنیا کی امامت کے قابل ہو جائیں گے اقبال ڈے کےساتھ وہ دن بھی آئے گا جس کا خواب اقبال نے دیکھا تھا
آخر شب گریزاں ھو گی جلوۂ خورشید سے
یہ جہاں معمور ہو گا نغمۂ توحید سے
لاالہ الا اللہ۔۔۔۔ لا الہ الا اللہ
نواب فاتح

نواب فاتح
About the Author: نواب فاتح Read More Articles by نواب فاتح: 13 Articles with 29384 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.