میڈیا خود بھی اپنی اداؤں پر غور کرے

دنیا میں نت نئی ایجادات سا منے آ رہی ہیں ہر نئی چیز دنیا کو اپنے سحر میں گرفتار کیئے جا رہی ہے ۔ روز کو ئی نا کو ئی سا ئنسی چیز مارکیٹ میں آ کر ہمارے ذہن کے دریچوں کو ہلا رہی ہے۔ ہر ملک سے کو ئی نا کو ئی چیز اس دنیا کی ما رکیٹ کا حصہ بن ر ہی ہے چا ہے وہ الیکٹرونکس کی ہو یا جیو لری ، کپڑوں کے ڈیزائن ہو ں یا کھا نے کی چیز یں فر نیچر کے ڈیزائن ہوں یا بچوں کے کھلو نے۔ ہر ملک دوسرے کو”معاشی ”مات دینا چا ہتا ہے ان میں سے چند ایک ایجادات تو صرف امیر ممالک کے لئے بنا ئی جا تی ہیں اور باقی زیادہ ترغریب ممالک کے عوام کے دلوں پر ”راج“ کر نے کے لئے بنا ئی جا تی ہیں جن میں بچوں کے کھلونے آرٹیفیشل جیولری وغیرہ ہیں ۔ اور ہر انسان اپنی اولاد کے لئے ان کو خریدتا ہے تا کہ اس کی اولاد ان سے دل بہلا سکے۔اگر اسی طرح الیکڑونکس کی بات کی جا ئے تو اس میں بھی اتنی جدت آ چکی ہے تو ایک چیز گھر بندہ لے کے نہیں پہنچتا اس سے بہتر دوکانوں پر پہنچ چکی ہو تی ہے ۔ یہ چیزیں تو بھیجی ہی استعمال کے لئے جاتی ہیں مگر کہا جا تا ہے نہ کہ چیز خود بری نہیں ہو تی اس کا استعما ل اچھا یا برا ہو تا ہے۔ اور یہی ہوا ریڈیو ٹی وی کے آ نے کے بعد جدید”میڈیا“کے تصور نے جنم لیا اور جو جدت دنیا کو دکھا ئی وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی۔ ٹی وی چینلز نے لا ئسنس حا صل کر نے کے بعد جس حیا ئی کے سر ٹیفکیٹ حا صل کئے ہیں۔ وہ بھی اپنی اہمیت خود بیان رہے ہیں اور اسی بے غیرتی کے سر ٹیفیکٹ کو بھرپور طریقے سے اسے استعمال کر رہے ہیں۔ ٹی وی چینلز تو اپنا کام کر رہے ہیں یہ لو گ دین و دنیا سب کچھ بھول کر اپنی دھن میں مگن نظر آ تے ہیں انہیں اس بات سے کو ئی غر ض نہیں کہ ان کی پالیسیوں ان کے پروگراموں ، ڈراموں ،فلموں، سٹیج شوز ، اور میوزک سے کیا کیا مشکلات لوگوں کو درپیش آ رہی ہیں ان کو صرف اپنے کاموں اور پیسوں کے لالچ کی پٹی بندھی ہو تی ہے میڈیا کسی تہذیب کا علم بردار ہو تا ہے مگر یہاں تو کو ئی اور ہی قا نون نظر آ تا ہے ۔ ان کی وجہ سے آ ج دنیا اور خصوصاً پاکستان میں بے حیا ئی کا نہ ختم ہو نے والا طوفان آ چکا ہے وہ شاید کبھی ختم ہو ۔ان کے کارناموں کی وجہ سے عورت خود کو گھر میں قید سمجھنے لگی ہے وہ اپنے گھریلو کاموں سے بغاوت کر رہی ہے ٹی وی چینلز پر دکھا ئی دینے والی رنگ برنگی زندگی حاصل کر نا چا ہتی ہے انڈیا کو تو چھوڑیں اپنے ملک کے ڈراموں کو ہی لے لیں یہاں بھی بے حیا ئی پھیلا نے کی دوڑ لگی ہو ئی ہے کو ئی بھی رائٹر اپنے ڈراموں میں پیار و محبت کے سین اور جذبات بھڑکانے والے بول لکھنا اپنے لئے ضروری سمجھتا ہے چاہے اس ڈرامے میں باقی کو ئی کام کی بات ہو نہ ہو عشق ضرور نظر آ جا تا ہے۔اور یہی حال ہماری فلموں کا ہے جس میں عورت بے ہودہ کپڑوں میں ملبوس ہو کر ذومعنی اور ولگر بولوں(منجی ایک جوانیاں دو۔ کٹھیاں سونا پیا، جپھی کوٹ کے پا گجرا،جدوں چلی ساواں دی نیری دو انار ہل گئے۔ سوری قا رئین بکواس بول نہیں لکھ سکتا اپنے کالم میں) پر اپنے جسم کی نما ئش کر تی نظر آ تی ہے بات یہیں ختم نہیں ہو تی یہ لوگ تو اپنی ثقافت اپنی روایات، تہذیب، مذہب کو بہت پیچھے چھوڑ چکے ہیں کو ئی یہ تو بتا دے کہ کیا پنجاب میں لڑکی کھیتوں میں جا کے ناچ ڈانس کر تی ہے؟سر عام بر ہنہ کپڑو ں میں ملبوس ہو کر غیروں کے بازوﺅں میں جا تی ہے عشق لڑاتی نظر آ تی ہے یا کسی اور صو بے میں ایسا کچھ ہو تا ہے؟راقم کو کو ئی تو ایسا علاقہ بتا دیا جا ئے ہم بھی دیکھ آ ئیں کہ آیا وہاں جو ہو رہا ہے میڈیا آئینے کی طر ح ہمیں وہی دیکھا رہا ہے۔ حالانکہ حقیقت سے ان باتوں کا تعلق بہت کم ہے ۔کوئی کسی جگہ ڈھکے چھپے کو ئی پیار کی بات کر لیتا ہوگا مگر جس طرح سے میڈیا میں دکھا یا جاتا ہے وہ نا ممکن ہے میڈیا اپنی عوام کو گمراہ کر رہا ہے اس کے ساتھ ساتھ ان کے جذبات بھڑکانے والے بولوں سے ہزاروں گھر تباہ بر باد ہو رہے ہیں جن کی وجہ سے لڑ کے لڑکیو ں کے نو عمری میں ہی جذبات ایک دوسرے کی طر ح متوجہ ہو نے لگے ہیں گھروں سے بھا گنے، قتل ہو نے، قتل کر نے، بچے بیچنے،ناجائز تعلقات کے واقعات تسلسل سے رونما ہو رہے ہی اور یہ میڈیا اپنا قصور سمجھے بغیر بھا گنے اور گھریلو حا لات سے تنگ لوگوں کی خبریں مر چ مصالحہ سے لگا کر ان کی بچی ہو ئی عزت بھی مٹی میں ملا دیتا ہے ۔ جب کہ حقیقت میں یہی میڈیا ان سا ری برائیوں کا ذمہ دار ہے اس کے ساتھ ساتھ وہ رائٹرز ذمہ دار ہیں جو بکواس لکھ کر لوگوں کے جذبات بھڑکا کر اپنے لئے فائدے حا صل کر نا چا ہتے ہیں ان کو روز آخر ت کا کو ئی خیال نہیں بس راتوں رات ارب پتی بننے میں لگے ہو ئے ہیں۔ فن کار بھی اس کام میں اپنا جسم دیکھا کر پتہ نہیں کیا حا صل کر نا چا ہتے ہیں ان کا موقف یہ ہو تا ہے کہ یہ ڈریس جو ہم زیب تن کر تے ہیں معا شرے میں پہنے جا تے ہیں حقیقت میں ایسا کچھ نہیں میڈیا جو ڈریس دیکھتا ہے اس کو دیکھ کے لوگ ان کی طرف متوجہ ہو تے ہیں ۔ اب بھی ملک میں سے بے حیائی کا کچھ حصہ ختم کیا جا سکتا ہے اگر یہی میڈیا اپنا کردار ادا کرے اور اپنے پروگراموں میں اپنے ڈراموں میں اسلامی تہذیب کو اجا گر کر ے ۔ ہم اس میڈیا کو ختم کرنے کا نہیں کہہ رہے کیو نکہ اسکی وجہ سے لاکھوں لوگوں کا گھر بار چل رہا ہے اور لوگ محنت سے کما رہے ہیں بس اس بے حیا ئی کو ختم کر کے مساوات، بھا ئی چا رے، اسلامی تشخص، تہذیب، مذہب ، اور شہیدوں کے بارے میں ڈرامے پیش کیئے جا ئیں اور حکومتی سطح میں یہ کام پہلے ہو نا چا ہیئے کیو نکہ حکومتی سرپرستی کے بغیر ہمارے لوگ تو اپنے گھر کے سامنے ایک اینٹ تک نہیں لگتے ۔ حکومت کو چا ہیئے کہ کیبل اور ٹی وی چینل کے کنڑولر ادارے کو احکامات جاری کر ے کہ وہ ان کاموں کی طر ف توجہ دے اور ٹی وی چینلز کو اس بات کا پابند کر ے۔ اور ٹی وی چینلز بھی اسے اپنی اخلاقی ذمہ داری جانتے ہو ئے اس پر عمل کریں۔ میڈیا آ ئے روز مغربی یلغار اور حکمرانوں پر کیچڑ نہ اچھا لے ۔ بلکہ اسلامی تہذیب اور پنجاب حقیقی عکس بیان کرے۔
Muhammad Waji Us Sama
About the Author: Muhammad Waji Us Sama Read More Articles by Muhammad Waji Us Sama: 118 Articles with 121085 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.