سِنگھا ڑوں کی دنیا(مزاحیہ انشائیہ)

سنگھاڑوں کا رنگ روپ کسی بیان کا محتاج نہیں، اک نور کی گھٹا میں لپٹی ہوئی مکھن کی’ ڈلی‘ کو سنگھاڑا کہا جا تا ہے۔ جب اس کی تراش خراش کر کے شیشے کے کیسوں میں سجا کر رکھا جاتا ہے تو چاندی بھی منہ چھپانے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ اس کا’ بلیک اینڈ وائٹ‘ جسم اپنے اندر وہ جاذبیت رکھتا ہے کہ نظر اس پر یوں چسپاں ہو جاتی ہے جیسے لوہا مقناطیس سے چمٹ جاتا ہے۔ یا یوں لگتا ہے جیسے کسی افریقی حسینہ کی موٹی موٹی سفید آنکھیں اپنے ہونے کا احساس دلا رہی ہوں۔سنگھاڑا ایک غضب کا پھل ہے، بس ایک چھوٹی سی ’گٹھلی‘ میں کائنات سمٹ آئی ہے۔ دن رات کا اس سے زیادہ سہانا سنگھم کائنات میں کہیں مل ہی نہیں سکتا۔جیسے کسی نقرئی دوشیزہ نے سیاہ فر کا کوٹ پہن لیا ہو۔ کبھی کبھی تو ایک چھِلے ہوئے سنگھاڑے کو دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے کسی ’گوری کنواری‘ نے نقاب کر لیا ہو، اور پھر بھی ادھر ادھر دیکھ رہی ہو !!

سنگھاڑا موسمِ سرما کے آغاز ،جسے خزاں کا موسم بھی کہا جاتا ہے ،میں تشریف لاتا ہے اور پھر سردیوں کا موسم مزے سے گزار کر اگلے سال دوبارہ آنے کا وعدہ کر کے چلا جاتا ہے۔ ایک پیارا، ننھا منا سا مہمان جو نہ صرف من بھاتا ہے بلکہ مزے بھی کراتا ہے۔

اس کے کھانے سے جسم میں طاقت آتی ہے۔ اس سے طبیعت سکون پاتی ہے اوریوں لگتا ہے جیسے انسان بادام اور مکھن اکٹھا ہی ’زینتِ شکم‘ کر رہا ہو۔اس کی ایک اور صفت بھی ہے کہ یہ زیادہ نرم و ملائم تو ہو سکتا ہے لیکن کڑوا بالکل نہیں ہوتا۔ اس لحاظ سے تو یہ بادام پر بھی برتری لے جاتا ہے جو کبھی کبھی اتنا کڑوا نکل آتا ہے کہ ایک کڑوا بادام کھائے ہوئے ایک کلو میٹھے باداموں کامزا ستیا ناس کر دیتا ہے۔ سنگھاڑا اس طرح کی بغاوت نہیں کرتااور اپنے عہد پر پورا اترتا ہے اگرچہ کسی وقت ’کچا کچا‘ ضرور لگ سکتا ہے ۔

سنگھاڑوں کا دور، سکولوں اور کالجوں کی پڑھائی کے عروج کا دور بھی ہے۔ اتفاق سے ہمارے سرکاری کالجوں کی اکثریت میں طلبہ کی یونیفارم ’ڈارک گرے‘ پینٹ اور سفید شرٹ ہے ۔ جبکہ طالبات سیاہ برقعے اوڑھتی ہیں یا چادر لیتی ہیں۔ آپ محسوس کر رہے ہوں کہ ہم ان سب کو سنگھاڑوں کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ آپ بالکل درست سمجھے ہیں۔ ہم سنگھاڑوں کے موسم میں یا یوں کہہ لیں کہ’ سنگھاڑوی‘ مہینوں میں جب سڑک کے ساتھ خراماں خراماں چلتے ہوئے کالج پہنچتے ہیں تو ہمیں یکدم یوں لگتا ہے کہ سنگھاڑے دفعتاً بڑے ہو گئے ہیں: کسی نے پینٹ ،شرٹ اور کسی نے شلوار، قمیض اور کسی نے برقعہ پہن لیا ہے۔یا یوں لگتا ہے جیسے سنگھاڑے ریڑھیوں سے اتر کر کالج میں چلے آئے ہیں۔

اس موسم میں ہر طرف سنگھاڑوں کی ریڑھیوں کی لمبی قطاریں لگ جاتی کہ جیسے سنگھاڑوں کی بہار آ گئی ہو۔ اور سنگھاڑے بیچنے والے گاہکوں کو پکار پکار کے سنگھاڑوں کی دنیا کی طرف بلا رہے ہوتے ہیں۔ ایک انار اور سو بیمار والی ضرب المثل تو آپ نے سنی ہو گی ،اب سنگھاڑے کی ضرب المثل بھی سن لیں:
ایک سنگھاڑا ،سب کو پیارا

آپ نے اپنی زندگی میں کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا ہو گا جسے سنگھاڑا پسند نہ ہو ، ایسا شخص مل سکتا ہے جسے مکھن پسند نہ ہو ، ایسی عورت مل سکتی ہے جسے اخروٹ پسند نہ ہو ، ایسا لڑکا مل سکتا ہے جسے ’ملوق‘ پسند نہ ہو، ایسی لڑکی بھی مل سکتی ہے جسے ’بھنڈی ‘پسند نہ ہو۔ لیکن ایسا انسان کبھی نہیں مل سکتا جسے سنگھاڑا پسند نہ ہو۔

سنگھاڑوں کا نہ صرف روپ ایسا ہے کہ انہیں کبھی نظر نہیں لگ سکتی، ان کا ذائقہ بھی ایسا ہے جسے کوئی پھل مات نہیں دے سکتا۔ اسے پھلوں کا شہزادہ چاہے نہ کہا جائے، وہ ذرا اس کا قد’ بیٹھواں ‘ اور رنگت سیاہی مائل ہے ،لیکن ذائقے میں اسے پھلوں کا سلطان ضرور قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ بات ہم کسی جانب داری سے نہیں کہہ رہے کہ ہم سنگھاڑوں کا کوئی کاروبار کرتے ہیں ، یا ہم ریٹائرمنٹ کے بعد سنگھاڑوں کا بزنس کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔یا کوئی بھی اور بات جو آپ کی سوچ میں آ سکتی ہو۔ نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ ہم سنگھاڑے کو میرٹ پے نمبر دے رہے ہیں۔

دنیا کی ظالمانہ تاریخ میں غریبوں کے ساتھ ہمیشہ زیادتی ہوئی ہے۔ کمزور قوموں پر ہمیشہ ظلم روا رکھا گیا ہے۔ ان کو پس ماندہ رکھنے کے منصوبے بنائے گئے ہیں ان کے علاقے تاراج کئے گئے ہیں، لیکن اب وقت آگیا ہے کہ نیٹ اور کمپیوٹر کی اس ترقی یافتہ دنیا میں سنگھاڑوں کو بھی ان غریب اقوام کی طرح ان کا جائز مقام دلایا جائے ،ایسا کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے کہ آنے والے اور موجودہ دور میں سبزیوں اور پھلوں کی اہمیت میں اضافہ ہونے جا رہا ہے۔ اس ہونے والے اضافے میں پہلے سے مقرر کردہ معیاروں کو بھی بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔ جیسے افریقی اقوام پرمغربی ،گوری اقوام نے مظالم کے پہاڑ ڈھائے اورمذید ستم یہ کہ مغرب ہی مہذب کہلایا۔ بدنامِ زمانہ سامراجیت اور اس کی صدیوں پر محیط تاریک تاریخ ، گوروں کا منہ کالا کرنے کے لئے کافی ہے، لیکن دنیا کی معلوم تاریخ میں کالوں سے ظلم کی داستانیں رقم نہیں ہوئیں کیوں کہ وہ دل کے گورے تھے جیسا کہ یہ سنگھاڑا بھی ہے۔ اگرچہ کالوں میں بھی ظالم لوگ ضرور ہوں گے، لیکن بدنامِ زمانہ کالا شایدنہ ملے گا، لیکن ایسے گورے ایک دو نہیں ہزاروں مل جائیں گے۔ سنگھاڑا اپنے ان کالے افریقیوں کا بھی نمائندہ ہے جو سامراجیت کی چکی میں پس پس کے سنگھاڑے کے آٹے جیسے ہو گئے ہیں یہاں ہمارا اشارہ کمزوری کی طرف ہے نہ کہ رنگ کی طرف۔وہ بچارے مر کر بھی نیک نامی سے محروم رہے۔ یہی حال ہم نے بچارے سنگھاڑوں کا کیا ہے !!

سنگھاڑوں کے فوائد اگر آپ کسی حکیم سے پوچھیں تو پھر روٹی کی جگہ بھی سنگھاڑے ہی کھائیں گے اس لئے بہتر ہے کہ ان کے متعلق زیادہ معلومات اکٹھی نہ کی جائیں ورنہ دوسری اجناس زوال پذیر ہو جائیں گی اور سنگھاڑا ملنا مشکل ہو جائے گا ۔ جیسا کہ ہیرے جواہرات، سونا اور پلاٹینم ہو بھی چکے ہیں ۔

سنگھاڑے کو دیکھ کر کائنات میں جگہ جگہ پھیلے’ بلیک ہول‘(Black hole )بھی اپنا ڈر کھو بیٹھتے ہیں اور کائنات میں بلیک ہولوں کی جگہ سنگھاڑے نظر آنے شروع ہو جاتے ہیں۔اور بلیک ہولوں سے منسوب خوف وہراس ایک جانے پہچانے ذائقے میں بدلا بدلا سا لگتا ہے۔

سنگھاڑا ، تصوف کے میدان میں بھی قدم رکھتا نظر آتا ہے کہ اپنے اندر اتنی خوبصورت ’گری‘ چھپائے ہوئے کالا کوٹ پہنے رکھتا ہے۔ جیسے تصوف اپنے اندر کو چھپانے کی بات کرتا ہے اور ظاہر میں کمتر بننے کی نصیحت کرتا ہے یا دوسرے الفاظ میں وہ کہتا ہے کہ دنیا کی فکر پر آخرت کی فکر کو ترجیح دویا باہر پر اندر کو ترجیح دو۔ اس بات کی عملی تصویر سنگھاڑا ہے۔ اگرچہ کچھ لوگ اسے چھیل کر بھی نمائش کے لئے سجا دیتے ہیں۔

یہ سنگھاڑوں سے متعلق ہمارے جذبات ہیں اگر کسی کو سنگھاڑوں سے ہم سے بھی زیادہ لگاؤ ہو اور اسے ہماری کوئی بات مناسب نہ لگی ہو تو ہم اس کا سنگھاروں سے اتنا قریبی تعلق ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے معذرت خواہ ہیں کہ ہماری تحریر سے اس کی دل آزاری ہوئی جب کہ ہمارا ایسا کوئی مقصد یا مطلب نہ تھا ۔۔۔۔۔۔۔
 

Niamat Ali
About the Author: Niamat Ali Read More Articles by Niamat Ali: 178 Articles with 288072 views LIKE POETRY, AND GOOD PIECES OF WRITINGS.. View More