حادثاتی سیاستدانوں کی کشمیر پالیسی

کچھ جنگیں سرحدوں سے دور تلوار اور بندوق سے نہیں نفسیاتی اور جذباتی انداز سے لڑی جاتی ہیں . ان جنگوں میں فولاد نہیں ذہن استعمال ہوتے ہیں اور ایسے ہی ذہن قوموں کے مقدر بدل دیتے ہیں. انہی ذہنوں کا عکس آج دنیا کے نقشے پہ کھینچی ہوئی لکیروں کی صورت نظر آتا ہے . یہ ذہن اسقدر زرخیز ہوتے ہیں کہ ان میں نہ صرف اپنے ہدف حاصل کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے بلکہ یہ ذہن دور کسی پہاڑی یا صحرائی علاقے میں بیٹھ کر قوموں کو لڑا رہے ہوتے ہیں ، ان کے جذبات میں غصے کا ایندھن بھرتے ہیں اور جب حالات کا رخ موڑنے کا وقت آتا ہے تو یہ ان جذباتی لوگوں کو اپنے انداز میں ایک ایسے مقام پر لے آتے ہیں جہاں تباہی ان کا مقدر ہوتی ہے .

1909 میں اپنے تحقیقی پرچے کو مکمل کرنے کے لیے آکسفورڈ یونیورسٹی کا ایک طالب علم پہلی بار مشرق وسطی گیا اور اس نے خلافت عثمانیہ کے شام کا بغور مشاہدہ کیا .1910 سے 1914 تک اسی نوجوان نے مشرق وسطی میں کافی وقت گزارا اور اس نے یہاں کے ریگستانوں اور شہروں کے نقشے ترتیب دیے. اس دوران یہ نوجوان جو اب ایک حساس ادارے کا ملازم اور فوج میں افسر تھا عربوں کی صفوں میں ایسا داخل ہوا کہ انھیں یہ سمجھ نہ آ سکی کہ ایک جاسوس انکی زبان بولتے ہوئے انکی پوشاک میں انکی تاریخ بدل رہا ہے . یہ نوجوان آج بھی برطانوی جنگی تاریخ کا حصہ ہے اور اس کا نام کرنل لارنس تھا جو لارنس آف عربیہ کے نام سے جانا جاتا ہے . کرنل لارنس 1927 میں کراچی بھی گیا اور وہاں بھی کچھ وقت گزارا مگر اسکی مشکوک حرکتوں کی وجہ سے اسے واپس برطانیہ بلوا لیا گیا . یہ وہی کراچی ہے جو آج آگ اور خون کا منظر پیش کرتا ہے . آج وجہ تحریر کراچی نہیں کچھ اور ہے اور کرنل لارنس کا تذکرہ میری تحریر سے متعلقہ ہے اس لیے اسی سے آغاز کیا .

کرنل لارنس جیسے ذہن اور شخصیات کی کہانیوں میں ایک بات جو ہمیں مشترک نظر آتی ہے وہ انکی مستقبل کے حوالے سے پیشن گوئیاں ہیں . ان کا علم ان کے تجربے کی بنیاد پہ تھا اور یہی وجہ ہے کہ ان ذہنوں کو آج بھی دنیا کے بڑے بڑے حساس اداروں کے سکولوں میں پڑھایا جاتا ہے . کرنل لارنس کی کہانی کو بیان کرنے کا مقصد پڑھنے والوں کو تاریخ کا درس دینا نہیں بلکہ آج کے پاکستانی پالیسی میکرز سے اس کا موازنہ ہے . پاکستان کی حکومت میں حادثاتی طور پر سیاست دان اور وزیر بننے والے وزیر اور انکی نالائقی پہ جہاں شرم آتی ہے وہیں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا کبھی انکو کسی نے کشمیر پالیسی کی اہمیت کا احساس بھی دلوایا ہے ؟

حال ہی میں کشمیر میں ایک انقلاب کی تازہ کروٹ نے ہندوستان کی حکومت کی پریشان کر دیا اور ہندوستان نے حسب توفیق کشمیریوں کے لہو سے ڈل اور وولر کو رنگین کیا مگر وہ رسمی بیان جو کبھی حکومت پاکستان کی جانب سے آیا کرتا تھا نہ کہیں سننے کو ملا اور نہ کسی پریس نوٹ کی صورت پڑھنے کو. کیا میاں منظور وٹو ،قمر زمان کائرہ ، آصف زرداری اور یوسف رضا گیلانی یہ بھول گئے ہیں کہ جو پانی وہ پیتے ہیں اس میں وہی لہو شامل ہے کہ جسکی آمیزش سے پنجاب کی زمینیں سیراب ہوتی ہیں اور انہی زمینوں کی فصل سے پاکستان کی خوراک کی ضروریات پوری ہوتی ہیں .

کشمیر پالیسی کا اسقدر برا حال اس سے پہلے نہ کسی حکومتی دور میں ہوا اور نہ ہو گا. کشمیر اشو پر لکھنے والے، بولنے والے اور لکھوا کر چھپوانے والوں کے علاوہ پاکستان اور آزاد کشمیر کا سنجیدہ طبقہ اس بات سے باخوبی واقف ہے کہ آزاد کشمیر کی بے نام سی حکومت کی عالمی برادری میں کیا اوقات ہے . ایسی صورت حال میں دید بان اور مدبر پالیسی میکرز جو حکومت پاکستان کی منسٹری فار کشمیر افیرز میں بیٹھے ہیں سوائے دوروں ، شاہ خرچیوں اور عیاشیوں کے کچھ نہیں کر پا رہے.

دوسری جانب یہی حالت آزاد کشمیر کی ہے . وہاں آپریشن آزادی نہیں آپریشن کرپشن چلایا جاتا ہے . ایک کا گند دوسرا صاف کرتا ہے یعنی ایک سیاسی گروپ دوسرے کی بدفعلی پہ پردہ ڈالتا ہے تاکہ دوسرا جب حکومت میں آئے تو ایسا ہی کرے . وزرا اور افسروں کا انداز زندگانی مغل شہزادوں جیسا ہے کسی بھی انداز سے نہیں لگتا کہ یہ حد متارکہ جنگ والے کشمیر کے لیڈر ہیں . برطانیہ ان وزیروں کا سب سے پسندیدہ صحت افزا مقام ہے . مجھے یاد ہے ایک بار کسی محفل میں ایک ایسے ہی آزاد کشمیر کے افسر نے ہاتھ میں ہندوستانی شراب کا گلاس پکڑا تھا اور رمضان کی تعظیم میں وہ افطاری کے بعد مدہوش یہ فرما رہے تھے کہ کون کہتا ہے کہ ہم ہندوستان سے پیچھے ہیں دیکھو انکا شراب بھی اتنا بد مزہ ہے کہ گجرات اور جہلم کے سپلائر اس سے اچھی شراب بنا لیتے ہیں .

قمر زمان کائرہ کو کشمیر اور گلگت بلتستان کا قلمدان دیا گیا تو سہیل وڑائچ کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے فرمایا کہ یہ سیاست، وزارت بس ایک حادثہ ہے . میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ حادثوں میں وزیر بننے والے سیاست دانوں کو کشمیر جیسی حساس منسٹری دینا کہاں کی عقلمندی ہے ؟ یہ سچ ہے کہ لوٹ مار کا بازار گرم ہے اور اس بازار میں کشمیر جیسے مال کو بیچنے کی کوشش کی جا رہی ہے .

سرینگر کے مسلمانوں کو پاکستانی بھائی چارگی پہ پہلے ہی شک تھا مگر اب پاکستان کی سرد مہری اسے یقین میں بدل رہی ہے . کشمیر کی سرحد پہ بسنے والے لاکھوں کشمیریوں کی شہادت اور افواج پاکستان کی قربانیوں کو جس ڈھٹائی سے یہ حکومت خانہ سرد میں ڈال رہی ہے اس پہ افسوس کے سوا کچھ نہیں کیا جا سکتا . اس وقت کی حکومت صرف صدر پاکستان کو نیک اور پارسا ثابت کرنے میں لگی ہے . جس شخص سے ہاتھ ملانے کے بعد برطانیہ کا اخبار یہ لکھے کہ وزیر اعظم برطانیہ کو صدر پاکستان سے ہاتھ ملانے کے بعد یہ دیکھنا چاہیے کہ انکی ساری انگلیاں موجود ہیں اور جو مدت سے اپنے مشکوک کردار اور حرکات کی وجہ سے میڈیا رپورٹس کا مرکز ہو اور جس کے دور حکومت میں سابقہ حکمرانوں کے انداز میں آزاد کشمیر کو وزیر امور کشمیر کے بیٹوں کے ٹریڈ پرمٹ اور وزیر اعظم کے بیٹوں کے کاروبار کے لیے منڈی بنا دیا گیا ہو وہاں پہ اس صدر اور اسکی حکومت کی کیا عزت ہو گی پڑھنے والے خود فیصلہ کریں کہ ایسی صورت حال میں یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ کیا ہم حکومت پاکستان سے گزارشات کر رہے ہیں یہ قبضہ گروپ سے جس نے پہلے پاکستان کو آ دبوچا اور اب آزاد کشمیر پہ ہاتھ صاف کر رہا ہے جبکہ دوسری جانب پاکستان کا دشمن پاکستان کے گرد اپنا دائرہ تنگ کر رہا ہے . اگر میری کہی ہوئی باتیں خام خیالی ہیں تو سب سے پہلے یہ سوچنے کی بات ہے کہ موجودہ حکومت کی کشمیر پالیسی ہے کیا ؟ اور اگر نہیں ہے تو پھر اس نہ ختم ہونے والی جنگ اور آزاد کشمیر کی ڈمی حکومت کا کیا مقصد ہے . زلزلہ آیا تو لوگوں نے پیسے بنائے، جہاد کے نام پہ وزیروں کے بچے امریکہ اور برطانیہ پہنچے . اسی طرح مہاجر ین کشمیر کے کیمپوں میں بااثر لوگوں نے اپنی ہوس پوری کی . کیا یہی کشمیر پالیسی ہے ؟

یا پھر کشمیر پالیسی وہ ہے جسکا تذکرہ خود مختاری کی حامی جماعتیں کرتی ہیں. سابقہ وزرا اعظم آزاد کشمیر نے جب جب پاکستانی سیاست دانوں کو نہ خوش کیا انھیں گھر بجھوا دیا گیا. ایسا تو ڈوگرہ دور میں بھی نہ ہوتا تھا . کبھی ممکن ہو سکا تو اس دور کو بھی شواہد کے ساتھ پڑھنے والوں تک پہنچاؤں گا.

آج کا پاکستان دہشت گردی اور کرپشن دونوں میں خود کفیل ہے . حکومتی مشینری سے لیکر کرکٹ ٹیم تک سب پہ پیسہ کھانے کے الزامات ہیں. پاکستان ایک حقیقت ہے اور اسے قائم رہنا ہے مگر ظلم کے خلاف خاموش رہنا سب سے بڑا ظلم ہے . آزاد کشمیر کی حکومت پاکستان کی حکومت سے اثر لیتی ہے . جب جب پاکستان میں کرپشن عروج پہ ہوتی ہے آزاد کشمیر ایک منڈی بن جاتا ہے . آزاد کشمیر کی سیاسی اور غیر سیاسی جماعتیں اور ان میں ہونے والی گروپ بندیاں پہلے ہی انھیں عوام میں غیر مقبول بنا چکی ہیں. یہی حالت کچھ صحافی حلقوں کا ہے جو اپنی ساری طاقت فضول کے ایشوز پہ لکھ، بول اور بلوا کہہ کر رہے ہیں.

یہ وقت اپنی مرضی کے جج ، تھانیدار ، پٹواری اور استاد بھرتی کروانے کا نہیں بلکہ اس صورت حال کو پرکھنے کا ہے کہ جس کا اندازہ مجھ جیسا عام سے آدمی سینکڑوں میل دور بیٹھے کر رہا ہے مگر حکومت پاکستان کی کشمیر منسٹری کو نہیں ہو پا رہا . کرنل لارنس جیسے کچھ بیرونی ہمدرد آج مکمل طور پر پاکستان کی مشنری میں کسی نہ کسی صورت شامل ہو چکے ہیں اور اس صورت حال میں ضرورت اس بات کی ہے کہ عربوں کی تاریخ بدلنے والوں کے کسی بھی ایسے ارادے کی تکمیل سے پہلے ہم خود کو بدل لیں.

پاکستان کی بیچاری عوام کو چینی اور بجلی کے مسئلے میں الجھایا گیا ہے تاکہ وہ حکومتی ایوانوں میں ہونے والے کاروبار کو محسوس نہ کر پائیں . گو کہ میری یہ بات صدارتی محل تک نہ پہنچ پائے گی مگر لاکھوں کشمیریوں کی جانب سے میں صدر پاکستان اور پاکستان کے بڑے بڑے مدبرین کو غلام محمد قاصر کی زبانی یہ کہنا چاہوں گا
کشتی بھی نہیں بدلی دریا بھی نہیں بدلہ
اور ڈوبنے والوں کا جذبہ بھی نہیں بدلہ

ہے شوق سفر ایسا اک عمر سے یاروں نے
منزل بھی نہیں پائی رستہ بھی نہیں بدلہ
Anwaar Raja
About the Author: Anwaar Raja Read More Articles by Anwaar Raja: 71 Articles with 70550 views Anwaar Ayub Raja is a professional Broadcaster, voice over artist and linguist for Urdu and Mirpuri languages. Soon after graduating from University o.. View More