دوسوسالہ بین الاقوامی سرسید کانفرنس کے انعقاد پر شعبہ اردو کو مبارک

ہم طالب علموں کو اپنے اساتذہ کرام پر فخر ہے کہ انھوں نے اس موقع پر بیرون اور اندرون ملک سے ایسے اسکالرز کو جمع کیا، اور ہم جیسے طالب علموں کو انھیں سننے کا موقع ملا۔ سرسید احمد خان کی دوسوسالہ پیدائش پر جس طرح اس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا ایک اچنبھا سا لگتا ہے۔ مگر ڈاکٹر تنظیم الفردوس اور ڈاکٹر روف پاریکھ نے اس خواہش کو حقیقت کا روپ دے دیا۔

مبارک باد! شعبہ اردو زندہ باد۔ ایک خوبصورت بین الاقوامی کانفرنس کے انعقاد پر یقیناً شعبہ اردو اور خصوصاً ڈاکٹر تنظیم الفردوس، ڈاکٹر روف پاریکھ، ڈاکٹر شاداب احسانی، ڈاکٹرتہمینہ عباس، ڈاکٹر ذکیہ رانی، ڈاکٹر انصاراحمد، ڈاکٹر خالد امین، جناب سلمان، جناب شاکر، ڈاکٹرشمع افروز، محترمہ عائشہ ناز اور دیگر خواتین و حضرات جو میری یادداشت میں اس وقت نہیں آرہے ہیں، مگر تمام ہی لوگوں کا اس میں برابر حصہ ہے، اس کے علاوہ شعبہ اردو کے غیرتدریسی عملے میں جناب نوید، جناب وحید اور خصوصاً عبدالرحمن کی کاوشیں کسی سے کم نہیں تھیں۔ ہم طالب علموں کو اپنے اساتذہ کرام پر فخر ہے کہ انھوں نے اس موقع پر بیرون اور اندرون ملک سے ایسے اسکالرز کو جمع کیا، اور ہم جیسے طالب علموں کو انھیں سننے کا موقع ملا۔ سرسید احمد خان کی دوسوسالہ پیدائش پر جس طرح اس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا ایک اچنبھا سا لگتا ہے۔ مگر ڈاکٹر تنظیم الفردوس اور ڈاکٹر روف پاریکھ نے اس خواہش کو حقیقت کا روپ دے دیا۔ اس عالمی کانفرنس جس کا موضوع تھا "سرسید احمد خان دو سو سالہ یادگاری بین الاقوامی کانفرنس ادب، تاریخ اور ثقافت: جنوب ایشیائی تناظر اور سرسید احمد خان" 16 تا 18 اکتوبر 2017 یعنی تین دن تک مسلسل جاری رہی۔ اس کانفرنس کے اشتراک میں ہائرایجوکیشن کمیشن، اسلام آباد اور انجمن ترقی اردو پاکستان اور خصوصاً ڈاکٹر فاطمہ حسن نے بڑا کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر فاطمہ حسن کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ جس کام کی ٹھان لیتی ہیں، اسے پایہ تکمیل تک پہنچاتی ہیں، یہ خوبی اٗن کی کامیابیوں کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ ساتھ ہی انجمن کے تمام عاملین بھی اس کانفرنس کی کامیابی میں برابر شریک رہے۔ اس موقع پرانجمن نے تین کتابیں شائع کیں "آثارالصنادید" جسے حیات رضوی امروہوی نے مرتب کیا۔ نہایت اعلیٰ کاغذ پر طباعت اور خوبصورت تصاویر اس کتاب کو منفرد بنارہی ہیں۔ ڈاکٹررخسانہ صبا نے "جہاتِ سرسید" اور ڈاکٹر تہمینہ عباس نے "قومی زبان اور سرسید شناسی" مرتب کی۔ ساتھ ہی ڈاکٹر ذکیہ رانی کی تحقیق وتالیف"توقیتِ سرسید احمد خان تحقیقی تناظر" جسےحلقہ شاداب احسانی نے شائع کیا، ان چاروں کتابوں کی تقریب رونمائی بھی اس کانفرنس کا حصہ تھی۔

ڈاکٹر تنظیم الفردوس نے اپنے تمام منتظمین کے ساتھ اپنے ہونہار شاگردوں کو بھی اس کانفرنس میں اس طرح شریک کیا کہ تمام لوگ ہی اس کا حصہ بن گئے اور ہر کوئی اپنا حصہ ڈالنے میں پیش پیش رہا۔ اس کانفرنس کا افتتاحی اجلاس پیر 16 اکتوبر 9 بجے تا 11 بجے سماعت گاہ کلیہ فنون وسماجی علوم میں منعقد ہوا۔ جس کی صدارت شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر محمد اجمل خان نے کی۔ مہمانان اعزاز میں جناب جاوید انوار (چانسلر سرسید یونی ورسٹی آف انجنیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی سابق شیخ الجامعہ، کراچی یونی ورسٹی، پروفیسر ڈاکٹر اختربلوچ (شیخ الجامعہ شہید بے نظیر بھٹو یونی ورسٹی لیاری) اور سابق سینیٹر عبدالحسیب خان نے شرکت کی۔ قرآت حافظ محمد آصف نے کی اور نعت محترمہ حرا شبیرنے پڑھی۔ خطبہ استقالیہ سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر تنظیم الفردوس (صدر شعبہ اردو) نے تمام بیرون اور اندرون ملک سے آئے مندوبین کو خوش آمدید کہا۔ اس موقع پر پروفیسر ڈاکٹرجعفر احمد (معروف دانشور اور ماہر تعلیم) نے ایک کلیدی خطبہ پیش کیا۔ پروفیسر فتح محمد ملک اپنی ناسازی طبع کی وجہ سے تشریف نہ لاسکے۔ اس موقع پر سرسید احمد خان پر باباے اردو کی ایک ریکارڈ کی گئی تقریر بھی حاضرین کو سنائی گئی۔ خطبہ سپاس پروفیسر ڈاکٹر محمد احمد قادری (رئیس کلیہ سماجی علوم، جامعہ کراچی) نے پیش کیا۔ صدارتی خطبہ شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر اجمل خان نے پیش کیا۔ اس موقع پر ڈاکٹر راحت افشاں نے اظہار تشکر کے کلمات ادا کیے۔ اس پروگرام کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر رخسانہ صبا انجام دے رہی تھیں۔ڈاکٹر رخسانہ صبا اپنی نظامت کے ذریعے تقریب میں ایک روح پھونک دیتی ہیں۔ عام نظامت کاروں سے ہٹ کر وہ بہترین انداز میں اس فن کو اپناتی ہیں۔ اٗن کو بھی بہت مبارک ہو۔

پہلے دن سات نشستوں کا اہتمام کیا گیاتھا۔ پہلی نشست کا انعقاد سماعت گاہ، کلیہ فنون وسماجی علوم میں کیا گیا۔ اس نشست کا عنوان "سرسید احمد خان: احوال و آثار" تھا۔ دوسری نشست کا انعقاد سمعی و بصرے مرکز، کلیہ فنون و سماجی علوم میں کیا گیا۔ اس کا عنوان "سرسید احمد خان: علمی و ادبی خدمات" تھا۔ تیسری نشست سماعت گاہ شعبہ تاریخ میں منعقد کی گئی۔ اس نشست کا عنوان "سرسید احمد خان: ادبی ادارے اور علمی مراکز و شخصیات"(الف) تھا۔ چوتھی نشست سماعت گاہ شعبہ سیاسیات میں منعقد کی گئی اس کا عنوان بھی "سرسید احمد خان: ادبی ادارے اور علمی مراکز و شخصیات"(ب) تھا۔ پانچویں نشست سماعت گاہ کلیہ فنون و سماجی علوم میں ہوئی۔ اس کا عنوان "سرسید احمد خان: تعلیمی و تانیثی تصورات" تھا۔ چھٹی نشست سماعت گاہ، شعبہ تاریخ میں منعقد ہوئی۔ اس کا عنوان "سرسید احمد خان اور ادبی جہات" تھا۔ اس دن کی ساتویں اور آخری نشست سماعت گاہ، شعبہ سیاسیات میں ہوئی۔ اس کا عنوان: "سرسید احمد خان اور سیاسی و ملّی افکار" تھا۔ پہلے دن کے تمام سیشن خوش اسلوبی سے اپنے اختتام کو پہنچے۔
دوسرے دن یعنی 17 اکتوبر کو آٹھویں نشست سے آغاز ہوا جو کہ سماعت گاہ، کلیہ فنون و سماجی علوم میں منعقد ہوئی۔ اس کا عنوان "سرسید احمد خان اور تہذیب و ثقافت" (الف) تھا۔ نویں نشست سمعی وبصری مرکز، کلیہ فنون و سماجی علوم میں منعقد ہوئی۔ اس کا بھی عنوان: "سرسید احمد خان اور تہذیب و ثقافت" (ب) تھا۔ دسویں نشست سماعت گاہ، شعبہ تاریخ میں منعقد ہوئی۔ اس کا عنوان: "سرسید احمد خان اور ادبی و تنقیدی نظریات" تھا۔ گیارھویں نشست کا انعقاد سماعت گاہ، شعبہ سیاسیات میں ہوا۔ اس کا عنوان :" سرسید احمد خان اور مشرقی علوم و فنون السنہ" (الف) تھا۔ بارھویں نشست سماعت گاہ، کلیہ فنون و سماجی علوم میں ہوئی۔ اس نشست کا عنوان " سرسید احمد خان اور مشرقی علوم و فنون السنہ" (ب) تھا۔ تیرھویں نشست سمعی و بصری مرکز، کلیہ فنون و سماجی علوم میں ہوئی۔ اس کا عنوان: سرسید احمد خان: تاریخ و سیاست" تھا۔ چودھویں نشست کا انعقاد سماعت گاہ، شعبہ تاریخ میں ہوا۔ اس کا عنوان: سرسید احمد خان اور رسائل و جرائد" تھا۔ اس دن کی پندرھویں اور آخری نشست سماعت گاہ شعبہ سیاسیات میں منعقد ہوئی۔ اس کا عنوان: "سرسید احمد خان: افکار و اذکار" تھا۔

تیسرے دن یعنی 18 اکتوبر کو اختتامی اجلاس تھا جس کا انعقاد سماعت گاہ، کلیہ فنون و سماجی علوم میں کیا گیا۔ شیخ الجامعہ بوجہ نجی مصروفیت کے تشریف نہ لاسکے۔ مگر ان کی جگہ پروفیسر ڈاکٹر محمد احمد قادری (رئیس کلیہ سماجی علوم، جامعہ کراچی) تشریف لائے۔ اس اختتامی اجلاس کا آغاز بھی تلاوت کلام پاک سے ہوا، اس کے بعد نعت رسول مقبول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم پیش کی گئی۔ پروفیسر ڈاکٹر تنظیم الفردوس نے اظہارخیال کیا۔ اور تمام مندوبین اور حاضرین کا شکریہ ادا کیا، خصوصاً اپنے ساتھ کام کرنے والے تمام منتظمین و اراکین کو خوب خوب داد دی۔ ایک لمحے پر ڈاکٹرصاحبہ جامعہ سے اپنی وابستگی اور اپنے اساتذہ کے حوالے سے بتاتے ہوئے جذباتی ہوگئیں۔ اس موقع پر بیرون اور اندرون ملک سے آئے مہمانوں نے بھی اس کانفرنس کی کامیابی پر ڈاکٹرتنظیم الفردوس، ڈاکٹرروف پاریکھ اور ڈاکٹرشاداب احسانی کی کوششوں کا اعتراف کیا۔ ڈاکٹر شاداب احسانی جو آج کل علیل ہیں، اللہ انھیں صحتِ کاملہ عطا فرمائے، آمین۔ ناسازی طبع کے باوجود اس اختتامی تقریب میں شریک ہوئے۔ حاضرین نے آپ کی آمد پر کھڑے ہوئے کراستقبال کیا۔ ڈاکٹر روف پاریکھ نے اظہارتشکر کرتے ہوئے اُن تمام احباب اور اداروں کا بھی شکریہ ادا کیا جنھوں نے اس کانفرنس میں کسی بھی حیثیت میں حصہ لیا ۔ ڈاکٹر روف پاریکھ صاحب نے اپنی زعفرانی باتوں سے حاضرین کو ہنسنے کا موقع دیا مگر ایک موقع پر ڈاکٹر صاحب اپنے منتظمین و اراکین کو داد دیتے ہوئے خود بھی جذباتی ہوگئے۔ اس اختتامی اجلاس کی نظامت ڈاکٹر راحت افشاں نے کی۔

بیرون اور اندرون ملک سے تشریف لائے مندوبین میں چند اہم ڈاکٹر ابوسفیان اصلاحی(علی گڑھ)، ہینزورنرویسلر(سویڈن)، ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم (قاہرہ)، ڈاکٹراشفاق حسین (کینڈا)، ڈاکٹر خواجہ محمد اکرام الدین (دہلی)، محترمہ حمیدہ معین رضوی(لندن)، ڈاکٹر عشرت معین سیما (جرمنی)، تلمیذ فاطمہ برنی (ڈیلس)، پروفیسر ڈاکٹرتحسین فراقی(لاہور)، پروفیسر ڈاکٹرانواراحمد(ملتان)، جناب قاسم بگھیو (اسلام آباد)، پروفیسر ڈاکٹر نجیب جمال، ڈاکٹر ناصرعباس نیر، ڈاکٹر ضیاء الحسن، ڈاکٹر رفاقت علی شاہد (لاہور)، پروفیسر ڈاکٹر یوسف خشک اور پروفیسرڈاکٹرصوفیہ خشک (خیرپور)، ڈاکٹرآغاناصر، پروفیسر ڈاکٹرضیاالرحمن (کوئٹہ) ، جناب فصیح الدین (پشاور)،ڈاکٹرطارق محمود ہاشمی، عبدالعزیز ملک (فیصل آباد)، ڈاکٹرعلی کمیل قزلباش، ڈاکٹرعابد حسین سیال (اسلام آباد)، ڈاکٹرزاہد حسین چغتائی (راولپنڈی)، ڈاکٹراشفاق بخاری (نوشہرہ) اور دیگر مندوبین جن کی شرکت نے اس کانفرنس کو اہم بنادیا، مگر راقم کو اس وقت تمام نام یاد نہیں آرہے ہیں، اُن سب کو اور کراچی سے جتنے بھی مندوبین اور مہمانوں نے شرکت کی سب کومبارک باد۔

اس عالمی کانفرنس میں ایک سب سے بڑی کمی جو محسوس کی گئی وہ خاص طور پر ہمارے نشریاتی اداروں کی لاپروائی تھی۔ ایک بین الاقوامی کانفرنس کے لیے میڈیا کے وہ حضرات جو صحافت اور ادب کو اپنا اوڑھنا بچھونا کہتے ہیں، ان میں سے بھی کسی نے اس کانفرنس کو اہمیت نہیں دی۔ عجیب بات ہے کہ جامعہ کی سطح پر غیرضروری باتوں کو یہ چینلز اتنی اہمیت دیتے ہیں کہ ایک ہی چینل کی دو دو ڈی ایس این جی جامعہ کے اندر نظر آتی ہیں۔ مگر دنیا بھرسے اتنے بڑے اسکالرز یہاں موجود تھے اور ہمارا میڈیا سو رہا تھا۔ جامعہ کراچی میں جہاں ایک مثبت اور عالمی سطح پر علم و دانش کے پروگرام ہورہے تھے، وہاں وہ نام نہاد صحافی کہاں تھے، جو ہر خبر کے لیے کیمرا لے کر پہلے سے پہلے کی دوڑ میں ہمیشہ آگے رہتے ہیں۔ اس مرتبہ کیوں وہ سب سے پیچھے رہ گئے؟

صابر عدنانی
About the Author: صابر عدنانی Read More Articles by صابر عدنانی: 34 Articles with 79731 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.