خونی انقلاب

بارشوں نے تو محض رہی سہی کسر نکالی ہے۔ اصل میں تو عوام پہلے ہی زندہ درگور تھے۔ مہنگائی کا جو سیلاب موجودہ حکومت کے دور میں آیا ' پاکستان کی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ جانتے تھے کہ پاکستان میں فی کس آمدن کیا ہے۔ جانتے تھے کہ ایک اوسط درجے کا آدمی مہینے میں کتنا کما پاتا ہے۔ یہ بھی پتہ تھا کہ جو بوجھ ڈال رہے ہیں وہ آمدن سے بہت بڑھ جائے گا ' لوگوں کی کمر ٹوٹ جائے گی لیکن چونکہ اس ملک کے غریبوں اور ناداروں کے ساتھ کوئی رشتہ نہ تھا ' ان کی کوئی آواز نہ تھی اس لئے ان کی زندگی اجیرن کر کے رکھ دی۔

غریب تو رہا ایک طرف انہوں نے تو سفید پوش طبقے کو بھی ملیامیٹ کر کے رکھ دیا ہے۔ ان کے آنے سے پہلے ایک صاحب جیولری کا کام کرتا تھے۔ بچے اچھے سکولوں میں پڑھ رہے تھے۔ دس ہزار روپے ماہانہ پر مکان کرائے پر لیا ہوا تھا۔ مجموعی طور پر یہ ایک خوشحال فیملی تھی۔ اب اس فیملی نے پچھلے چھ ماہ سے مکان کا کرایہ ادا نہیں کیا۔ دو ماہ سے دودھ والے کے پیسے نہیں دیئے۔ بچوں کی تعلیم سٹاپ ہوگئی۔ ایک بچہ اس لئے کرکٹ کا میچ کھیلنے نہ جاسکا کہ اس کے بوٹ پھٹے ہوئے تھے۔

یہ ایک دو یا دس خاندانوں کا مسئلہ نہیں۔ اس حکومت نے طبقہ امراء کو چھوڑ کر پوری قوم کا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔ شہید بی بی کے نام کی مالا جپتے جپتے اور روٹی ' کپڑا ' مکان کا لارا لپا لگاتے لگاتے قوم کے ساتھ ہی نہیں اپنے ووٹروں اور سپوٹروں کے ساتھ بھی ایسا کھلواڑ کر گئے کہ اب اس ملک کے حکمران مزے میں ہیں یا مولانا فضل الرحمٰن مزے میں ہیں۔

اگر آپ کا مشاہدہ بہت اچھا نہیں ہے تو ایک تجربہ کر کے دیکھ لیں۔ ایک روز گھنٹے بھر کے لئے درمیانے درجے کے علاقوں کا چکر لگا کر دیکھیں اور اس ایک گھنٹے میں سڑکوں اور مارکیٹوں میں موجود افراد کو گن لیں۔ ساتھ ہی یہ بھی دیکھتے جائیں کہ ان میں سے کتنے لوگ ہنس بول رہے ہیں اور کتنے لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ ہے۔ آپ محسوس کریں گے کہ لوگ اب بہت کم ہنستے ہیں۔ بہت کم مسکراتے ہیں۔ زیادہ تر کے چہرے ستے ہوئے ہوتے ہیں۔ ایک بے نام سی افسردگی ہر چہرے پر چھائی ہوئی ہوتی ہے۔ ہر آدمی مغموم نظر آتا ہے اور اس کی یہ درگت ان حکمرانوں نے بنائی ہے جنہوں نے حکومت تو بڑے شوق سے بنالی۔ پانچ سال پورے کرنے کا بھی بہت شوق ہے لیکن عوام کو ڈلیور کرنے کی سکت نہیں۔ انہوں نے آئی ایم ایف کے ساتھ ایک ایسا شرمناک معاہدہ کیا جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ عالمی سود خوروں سے معاہدہ کر آئے کہ ان بے بس لوگوں کا خون اگر یکمشت نکالا تو بہت چیخیں گے لہٰذا ان کا خون قسطوں میں نکالا جائے۔ بجلی کے بلوں میں اضافوں کی مد میں اب تک تین یا چار بار عوام کا خون نکالا جاچکا ہے اور ابھی دوبار اور نکالنا باقی ہے۔ عوام کی جان یہ تب چھوڑیں گے جب ان کی رگوں سے خون کا آخری قطرہ بھی نچڑ جائے گا۔ گڈ گورننس کیا ہوتی ہے انہیں پتہ ہی نہیں۔ مشکل حالات میں عوام کو مہنگائی کے منہ زور ریلے سے کیسے بچایا جاسکتا ہے۔ یہ جانتے ہی نہیں۔ بات کرتے ہیں غریبوں کی اور ان کی زندگیاں بھی اجیرن کر کے رکھ دیتے ہیں۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام شروع کیا تو کچھ غریبوں کو ماہانہ ایک ہزار ملنے لگے۔ اس کے بعد جتنی مہنگائی ہوئی اس سے وہ ایک ہزار بالکل ہی بے معنی ہوکر رہ گئے۔ یعنی دو ہزار کا بوجھ ڈال کر ایک ہزار دے دیا۔ یہ کہاں کی انسانیت ہے؟

لوگوں کو بھکاری بناکر رکھ دینا بھی بھلا کہاں کی شرافت ہے۔ آپ اگر غریبوں کو ان کے قدموں پر کھڑا کرنا ہی چاہتے ہیں تو انہیں چھوٹا موٹا روزگار قائم کر دیجئے۔ دو لاکھ لوگوں کو بھیک کے انداز میں ایک ایک ہزار روپے دینے کے بجائے صرف پچاس ہزار لوگوں کو ان کے پاؤں پر کھڑا کر دیجئے۔ ان کی عزت نفس کو یوں مجروح نہ کیجئے۔ ہم تو حیران ہیں کہ یہ ایک ایک ہزار روپے دینے کا فضول خیال پیش کس نے کیا کیونکہ باغیرت قومیں تو اس انداز میں نہیں سوچتیں۔ غیرت مند آدمی تو منڈی سے 500 روپے کی سبزی لاتا ہے ' بیچتا ہے اور اس میں سے ڈیڑھ سو روپے کما لیتا ہے۔ ہمارے نوٹس میں ہے کہ ایک شخص نے اپنے ایک جاننے والے سے دو ہزار روپے قرض لیا۔ ان پیسوں سے فروٹ کی ریڑھی لگائی اور اب روزانہ پانچ سو منافع کما کر گھر لے جاتا ہے۔

ذرا حساب لگائیے۔ آٹا40 روپے کلو ' گھی160 روپے کلو ' دودھ65روپے لیٹر ' دہی60روپے کلو ' مرغی کا گوشت230 روپے کلو ' ٹماٹر120 روپے کلو ' لہسن220روپے کلو ' خشک دودھ کا ایک کلو والا پیکٹ550روپے۔ دالیں200روپے کلو اور چاول 90 سے100 روپے کلو۔ سیب150 روپے کلو ' آڑو 120روپے اور پرچون مارکیٹ میں چینی130روپے کلو تک جا پہنچی ہے۔

وہ شخص کہ جس کی ماہانہ آمدنی پانچ چھ سات آٹھ یا دس ہزار روپے ہے حتیٰ کہ پندرہ سے بیس ہزار روپے بھی ہے وہ اتنی مہنگی چیزیں کیسے خرید سکتا ہے جبکہ اپنی آمدنی سے اس نے مکان کا کرایہ بھی دینا ہوتا ہے۔ بجلی اور گیس کے بل بھی دینا ہوتے ہیں۔ بچوں کی فیسیں بھی دینا ہوتی ہیں اور کچن بھی چلانا ہوتا ہے۔ کمانے والے کے ذاتی اخراجات ' بیماری' خوشی غمی ' تہوار اس کے علاوہ ہیں۔ درحقیقت حکمران لوگوں کو خونی انقلاب کی طرف لے جارہے ہیں اور وہ وقت اب زیادہ دور نظر نہیں آتا۔
Khalid Shahzad Farooqi
About the Author: Khalid Shahzad Farooqi Read More Articles by Khalid Shahzad Farooqi : 44 Articles with 45272 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.