امریکی صدر کا دورئہ بھارت۔۔۔ اصل مقاصد

اوبامہ ایشیا کے دس روزہ دورے پر آئے اور چلے گئے اس دورے کا مقصد امریکہ کیلئے منڈیوں کی تلاش تھی۔ جبکہ اس کا در پردہ مقصد جو کہ اصل مقصد تھا وہ چین کے خلاف ایک مضبوط محاذ قائم کرنا تھا ۔ یہ دونوں مقاصد صرف اور صرف امریکہ کے مفاد میں ہیں اور اس کیلئے وہ کچھ بھی کر گزرنے کو تیا ر ہے چاہے پورے ایشیا کا امن داؤ پر لگ جائے یا پوری دنیا کا ۔ ان مقاصد کے حصول کیلئے اوبامہ نے اپنے دورے کا آغاز بھار ت سے کیا اور اسی سے امریکہ کی امن پسندی کا راز کھل جاتا ہے کہ اس نے ایک ایسے ملک کا انتخاب کی جو انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزی کا مرتکب ہے اور اسی ملک میں کھڑے ہو کر اوبامہ نے اعلان کیا کہ وہ بھارت کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خلا ف کام کرتے رہیں گے یعنی اس نے بھارت کی ریاستی دہشت گردی سے دانستہ طور پر آنکھیں چرا لیں جو وہ کشمیر میں کر رہا ہے۔ بلکہ اس نے تو بھارت کو خوش کرنے کا ہر حربہ آزمایا کیونکہ اس کے خفیہ مقاصد کے حصول میں وہ انتہائی کارآمد ثابت ہو سکتا ہے ۔ منڈیوں کی تلاش بھی اپنی جگہ اہم ہے کیونکہ یہ تلاش اسلحے کیلئے تھی ۔ امریکہ کو اپنا اسلحہ فروخت کرنے کیلئے کسی بھی قیمت پر خریداروں کی ضرورت ہے بلکہ وہ اس کیلئے دنیا کے امن کو تہہ و بالا کر سکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس نے بھارت کو خوش کرنے کیلئے سلامتی کونسل میں اس کی مستقل رکنیت کی حمایت کا اعلان کیا حالانکہ وہ اس کے کردار سے واقف ہے اور جانتا ہے کہ جنوبی ایشیا میں بھارت ایک بدنا م ملک ہے اور اس کے کسی سے بھی مثالی تو چھوڑیے دوستانہ تعلقات بھی نہیں ۔ پاکستان کو تو اس نے روز اول سے ہی قبول نہ کیا اگر اسے ویٹو پاور دی جائے تو کیا امریکہ نہیں جانتا کہ اس کے مابعد کے اثرات کیا ہونگے؟ بنگلہ دیش پر بھارت کا الزام ہے کہ نکسلائٹ کو ان کا تعاون حاصل ہے چین سے تو اس کے تعلقات ساری دنیا کے سامنے ہیں کہ کبھی ان میں خوشگواری نہ آسکی بلکہ اس کے مقابلے میں کھڑا ہونے کی کوشش میں ہی اس نے سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کا ڈول ڈالا ۔ جبکہ دوسری طرف وہ پاکستان کے خلاف بھی ایک ایسی پوزیشن میں آنا چاہتا ہے کہ وہ اسے مزید نقصان پہنچا سکے اور پاکستان کے حق میں اٹھنے والی ہر آواز کو دبا سکے۔ پاکستان اور چین کے بارے میں تو بھارت ببانگ دہل اپنی نیت اور عزائم کا اظہار کر تا رہتا ہے ۔ لیکن سری لنکا میں تامل ناڈو کے راستے اور تاملوں کے ذریعے اس نے کئی دہائیوں تک خون کی جو ہولی کھیلی وہ بھارت ہی کا مخصوص کردار ہے۔ اس لئے صدرِ امریکہ کو بھارت کی رکنیت کی حمایت کا اعلان کرنے سے پہلے خوب سوچ لینا چاہیئے تھا اور پوری دنیا کی ٹھیکیداری کا دعویٰ کرنے والا امریکہ اگر جنوبی ایشیا کو بھارت کے حوالے کرنے کے جرم میں شریک ہونے سے صاف انکار کرتا تو شاید اس کی ساکھ میں کچھ بہتری آجاتی لیکن چونکہ اسے منڈیوں کی تلاش ہے اور بھارت ایک ارب بھوکی ننگی اور بے گھر آبادی کا ملک ہے یوں اس مصنوعات کی کھپت کا فی ہو سکتی ہے اور انسانیت کے خلاف اس کا کردار بھی سب کے سامنے ہے جو کچھ وہ کشمیر میں کر رہا ہے اگر کسی مسلمان ملک میں وہ سلوک کسی اقلیت کے ساتھ کیا جائے تو امریکہ بشمول مغربی ممالک کی اکثریت چیخ اٹھے بلکہ یہ بھی بعید نہیں کہ اس ملک پر حملہ کر دیا جائے امریکہ کے ریکارڈ پر ایسے کئی حملے موجود ہیں لیکن باوجود اس کے کہ بارک اوبامہ نے کشمیر کے مسئلے پر مدد کا وعدہ کیا تھا۔ بھارتی دورے کے موقع پر اس نے صرف اتنا کہا کہ اگر پاکستان اور بھارت چاہے تو امریکہ کشمیر کے مسئلے کے حل میں مدد کر سکتا ہے کیا امریکہ کے صدر کی معلومات اتنی ناقص ہیں کہ وہ نہیں جانتا کہ بھارت کشمیریوں کی کسی صورت حق خود ارادیت دینے پر تیار ہیں اور اکیسویں صدی میں بھی وہ غلامی پر یقین رکھتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس نے کشمیر کی لاکھوں کی آبادی کو غلام بنا رکھا ہے ۔ اوبامہ نے دہشت گردی سے صرف تین دن تک متاثر ہونے والے شہر ممبئی کا تو خصوصی دورہ کیا وہاں کے بچوں کے ساتھ رقص کیا لیکن کشمیر میں جاری موت کے رقص کے سامنے بے بس انسانوں کی بے بسی کا عالم تک بھی دیکھنا گوارہ نہ کیا حالانکہ بھارت سرکار اگر ممبئی میں اس کی سیکیورٹی پر اربوں روپے لگا سکتی تھی تو کشمیر میں بھی اس کی حفاظت کا بندوبست کر سکتی تھی ۔ لیکن ایسا جان بوجھ کر نہ کیا گیا تاکہ کشمیر کے حالات اور وہا ں کے لوگوں کی بے بسی کو پوشیدہ ہی رکھا جا سکے اور امریکہ کو بھی کشمیر کے مسلمانوں سے ظاہر ہے کوئی دلچسپی نہیں تھی اسے تو اسلحہ بیچنا تھا جو آزادی کیلئے لڑتے ہوئے لوگوں کے خلاف استعمال کیا جاسکے ۔ ظاہر ہے اسے ہر حال میں بھارت کو خوش کرنا تھا کیونکہ اسے منڈیوں کی تلاش ہے اور بھارت کے ساتھ حالیہ معاہدوں سے اسے امید ہے کہ پچاس ہزار امریکیوں کو روزگار مل سکے گا اور ان پچاس ہزار افراد کیلئے امریکی صدر پورے جنوبی ایشیا کے امن کی قربانی دے سکتا ہے ۔ اسی لئے تو سلامتی کونسل کی رکنیت کیلئے وہ بھارت کی حمایت پر آمادہ ہے جبکہ دنیا پانچ ویٹو پاورز کے اختیا ر سے پہلے ہی نالاں ہے اور ان ارکان میں بھی امریکہ جس طرح سے اس اختیا ر کا استعمال کر تا ہے وہی دنیا کی تباہی کیلئے کافی ہے اور اگر بھارت کو بھی ان ٹھیکیداروں میں شامل کر دیا کر دیا گیا تو دنیا ایک اور عذاب میں مبتلا ہو جائے گی۔

امریکی صدر نے اگرچہ برطانوی وزیرِاعظم کی طرح پاکستا ن کے خلا ف کوئی بیان تو نہیں دیا تاہم بھارت کی شان میں قصیدے پڑھے گئے اس سے جو معاہدے کیے گئے اس کی ترقی کو جس طرح سراہا گیا اس کو ہائی ٹیک اور ایٹمی ٹیکنالوجی دینے کی پابندی میں جس طرح نرمی کی ضرورت پر زور دیا پاکستان سے ممبئی حملوں کے ذمہ داروں کو جس طرح کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا گیا اور پاکستان کے موقف کی کوئی حمایت یا تائید نہ کی گئی کشمیر کو درخور اعتنا نہ سمجھا گیا اور یہا ں تک کہ بھارت کی سلامتی کونسل کی رکنیت کی حمایت کا اعلان کیا گیا ان سب باتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ بھارت کو پاکستان کے مقابلے میں کتنی اہمیت دیتا ہے ۔ دہشت گردی کے خلا ف جنگ کے نام پردہشت گردی میں اس نے پاکستان کو مبتلا کر رکھا ہے جبکہ اس کی اصل ہمدردیاں بھارت کے ساتھ ہیں۔ دوسری طرف پاکستان کیلئے اس کی امداد اس قدر مشروط ہوتی ہے کہ پاکستانی قوم کے ہاتھ پائو ں باندھ دیئے جاتے ہیں ۔ یہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے ۔ اسمبلی میں قرارداد منظور کرنے اور امریکی سفیر سے احتجاج کرنے سے بڑھ کر ہماری حکومت کو سخت رویہ اپنا کر امریکی امداد اور دوستی سے ہاتھ کھینچ لینا چاہیئے اور اپنے قومی وقار اور عزت ِ نفس پر مزید سودے بازی ختم کر دینی چاہیئے۔
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 508857 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.