کرنسی نوٹوں کا گردشی نظام

نومبر ۲۰۱۶کی ۸ تاریخ شاید ہندوستان کی معاشی تاریخ میں ایک تاریخی دن تھا۔ کرپشن کی روک تھام اور تجوریوں ، پانی کی ٹینکیوں میں محفوظ کالادھن ملک سے باہر نکالنے سے روکنے کے لیے بھارت کے وزیر اعظم نے ایک ہزار اور پانچ سو کے نوٹو ں پر اچانک سے پابندی لگا دی تھی۔ انھوں نے یہ پابندی اس قدر رازداری سے اور اچانک لگائی کہ کابینہ میں بیٹھے وزراء کو بھی اس کی خبر نہ ہوئی تھی۔ اس وقت ان وزراء کے موبائل بھی باہر پڑے تھے۔اس پابندی نے پورے بھارت میں ہلچل مچا دی تھی۔ تقریبا پورا بھارت ہی متأثر ہوا تھا۔ سوائے غریب طبقے کے کہ جو ہزار اور پانچ سو کے نوٹ کو دیکھنے کو بھی ترستے ہیں۔ظاہر ہے اس پابندی سے بڑے بڑے لوگوں کو مسلہ پیدا ہو گا۔ کیونکہ ہر کوئی اپنے جیبوں میں پانچ سو سے کم نوٹوں کو رکھنا اپنی توہین رکھتا ہے۔ اس طرح کسی نے اگر اب کوئی خرید و فروخت کرنی ہو گی تو سو سو کے نوٹوں کی گڈیاں لے کر چلے گا۔ وزیر اعظم صاحب نے اپنے بیان میں کہا تھا ان کا مقصد ٹیکس کی چوری سے بچنا، دہشت گردوں کو فنڈ کی فراہمی اور جعلی نوٹو ں کی مارکیٹ کو روکنا تھا۔ یہ ایک بہت بڑا فیصلہ تھا کیونکہ ایک دم سے بڑے نوٹوں کو مارکیٹ سے ختم کردینا گویا اپنی معیشت کے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے برابر تھا لیکن اس کے ساتھ جیسے ہی وہ نوٹ ختم کیے تھے ساتھ نئے نوٹ مارکیٹ میں نکال لیے تھے۔ وقت طور پر تو سمگلنگ، جعلی نوٹ مارکیٹ میں روک دیے گئے تھے۔ اور ساتھ میں جیسے جیسے بینکوں سے پرانے نوٹوں کا نئے نوٹوں سے تبادلہ ہوتا گیا، بڑے بڑے گیانی لوگ سامنے آتے گئے جن کے پاس نوٹوں سے الماریاں بھری پڑی تھیں۔ ویسے اگر نئے نوٹ مارکیٹ میں نہ لائے جاتے تو کچھ وقت کے لیے معیشت کو دھچکا تو ضرور پہنچتا لیکن بہت سے مہاجن ، سمگلر، ٹیکس چور پکڑے جاتے۔ اُس وقت بھی آٹھ سے دس کروڑ روپے کا تبادلہ نہیں کیا گیا۔ اب اس کی کیا وجہ تھی، یہ تو نوٹ تبدیل نہ کرنے والے ہی جان سکتے ہیں۔ایسا ہی کچھ پاکستان میں بھی ہونا چاہیے۔ لیکن اس کے لیے شرط ایماندار حکومت کی موجودگی ہے، نہ کہ وہ حکمران جن کے اپنے اکاؤنٹس تو بھرتے جاتے ہیں لیکن عوام کی جیبیں خالی ہوتی جاتی ہیں۔ایسا ایک فیصلہ کہ ہزار اوردپانچ ہزارکے نوٹ ختم کیے جا رہے ہیں۔ اور زیادہ سے زیادہ ایک ماہ کا وقت دیا جائے نوٹوں کو تبدیل کرانے کے لیے۔ اور پھر یوں ہو گا کہ جنھوں نے اپنی ٹینکیاں بھری ہوئی ہیں، یا الماریاں ان نوٹوں سے سجائی ہوئی ہیں وہ کھل کر سامنے آئیں گے۔ہرنوٹ تبدیل کرانے والے کا ڈیٹا اکٹھا کیا جائے۔اخبارات میں جب یہ اعلان شائع ہو کہ نوٹ بند ہو رہے ہیں اور فلاں تاریخ تک چھوٹے نوٹوں سے تبدیل کیے جا سکتے ہیں تو اس اعلان کے ساتھ یہ بھی شائع ہو کہ جو بھی تبدیل کرانے آئے گا، وہ ساتھ تفصیل بھی لائے گا کہ اس نے یہ نوٹ کیسے حاصل کیے؟ ظاہر ہے جو محنت سے کماتے ہیں ان کے لیے تو کوئی مشکل نہیں ہو گی لیکن رشوت خوروں، کمیشن ایجنٹوں ، مخصوص پرسنٹیج مقرر کرکے رقم اکٹھی کرنے والوں، ٹیکس چوروں وغیرہ کے لیے ایک ثبوت دینا بھی مشکل ہوگا۔ نوٹ بے شک تبدیل کر دیے جائیں لیکن باقاعدہ ڈویژنل سطح پر ایک ٹیم بنائی جائے جو یہ کالا دھن تبدیل کرانے والوں کی تحقیق کرے۔ ظاہر ہے ایمانداری سے کی گئی تحقیق میں سارا کچا چٹھا سامنے آئے گا۔ تو کیا حکوقت وقت ان سے ڈیل کرے گی؟ اگر اﷲ سے ڈرنے والی حکومت ہوئی تو ان سیاہ بختوں کو سیدھا جیل کی کال کوٹھڑی میں بھیجنے سے نہیں ہچکچائے گی۔ یقینا یہ حکومت کا ایک بڑا فیصلہ ہو گا۔ لیکن اس کے فائدے بھی بہت ہوں گے۔ سب سے پہلا اور بڑافائدہ تو یہ ہو گا کہ سب کالا دھن جمع کرنے والے بڑے نوٹوں کو تبدیل نہیں کرائیں گے کیونکہ ان کو حساب دینا پڑے گا۔ مثال کے طور پر اگر پچیس لوگ ہزار کا ایک ایک نوٹ تبدیل نہیں کراتے یہ پچیس ہزار بنتے ہیں۔جب یہ تبدیل نہیں ہوں گے تو گویا یہ حکومت کو فائدہ ہو گا۔ حکومت اس بچت کی رقم سے عوام کے فائدے کے بہت سے کام کر سکتی ہے۔ میرا تجزیہ ہے کہ کم سے کم بھی بیس سے تیس فیصد لوگ نوٹ تبدیل نہیں کرائیں گے یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ اتنے ہی فیصد نوٹ تبدیل نہیں کرائے جائیں گے۔ اور یہ کوئی معمولی رقم نہیں ہو گی۔ اربوں روپے حکومت کو فائدے کی مدمیں جائیں گے۔ ایک کھری اور ایماندار حکومت ان اربوں کی رقم سے عوام کے مفاد میں ہزاروں کام شروع کر سکتی ہے۔ نئے کارخانے لگا کر ان کو روزگار مہیا کیا جا سکتا ہے۔ پرانے ہسپتالوں کو بہتر سے بہترین کیا جا سکتا ہے اور سہولیات میں اضافہ کیا جا سکتا ہے اور نئے ہسپتال تعمیر کیے جا سکتے ہیں۔ تعلیمی ادارے بنائے جا سکتے ہیں۔ طلبأ کو وظائف دیے جا سکتے ہیں۔ بہت سے کام کیے جا سکتے ہیں، شرط بس صادق اور امین حکمرانوں کی موجودگی ہے۔یہاں تو یہ حال ہے کہ پانامہ لیکس کا سہارا لے کر امریکہ نے پاکستان میں سیاست کی آڑ میں کُھل کھیلنے کا فیصلہ کیا ہے۔یہ ابھی کی تازہ خبر ہے پانامہ لیکس دراصل امریکہ کی چال تھی۔ ڈان لیکس نے یہ راز عیاں کیا ہے کہ امریکی سی آئی اے نے پانامہ لیکس کا تانا بانا بُنا ہے۔ چونکہ طاقت کے بل بوتے پر تو اس کو ابھی تک کسی بھی مقام پر خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی تو اس طریقہ سے وہ مختلف ممالک میں انتشار پھیلا کر اپنی مرضی کی حکومت لانا چاہتا ہے۔ اس مقصد کے لیے اس نے پانامہ آف شور کمپنیوں کا شوشا چھوڑا۔ (ویسے اپنی جگہ کی بات ہے کہ ان آف شور کمپنیوں کے مالکان کے کے کاروبار تو کافی عرصہ سے کر رہے تھے تو پھر یہ سازش دو تین سال میں کیسے بنائی گئی؟) یہ اعلان ایک طرف ڈان لیکس نے کیا ہے تو دوسری طرف سویٹزر لینڈ کے ایک بینک کے اہلکار براڈلے برکن فیلڈ نے یہ بات سی این بی سی کو اپنے ایک انٹرویو میں کہی ہے۔ خیر جہاں سے بھی یہ خبر افشاء کی گئی ہے، پاکستان کے عوام یہ جان گئے ہیں کہ پاکستان کے حکمران پاکستان کا پیسہ لوٹ کر باہر لے جاتے ہیں اور وہاں اپنے ذاتی کاروبار میں لگاتے ہیں۔ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص کی ۶ سال پہلے کل آمدن ۶ لاکھ روپے ہو اور چھ سال بعد یہ آمدن بڑھ کر ۶ ارب روپے ہوگئی ہو۔نہ کوئی حساب ، نہ کوئی کتاب۔ اور پھر جب سب کچھ ثابت ہو جائے تو پھر صدا بہ صحرا لگاتے پھرو کہ مجھے کیوں نکالا۔۔ اوپر سے ہمارے وطن میں انصاف کی یہ صورتحال ہے کہ ساری دنیا کو علم ہے کا دس فیصد کا کھیل کون کب سے کیسے کیسے کھیلا کرتا تھا۔ پھر دس فیصد سے بڑھ کر پچیس اور پچاس فیصد ہو گیا۔ سرے کے محلات خریدے گئے۔ لیکن نیب، ایف آئی اے اور کوئی بھی تفتیشی ادارہ یہ ثابت نہ کر سکا کہ پاکستان میں کوئی دس فیصد کا کھیل بھی کھیلا کرتا تھا۔ ظاہر ہے اس میں عدالتی نظام کا کیا قصور ہے؟ اس کے سامنے تو جو ثبوت چاہے وہ کاغذی ہوں یا تصویری۔۔ وہی مکمل نہیں تھے، تو عدالت کیسے کسی کو کرپشن میں شامل شدہ ثابت کرتی۔ اس نے تو باعزت بری ہی کرنا تھا۔ ہمارے معاشی نظام کو خراب کرنے میں سب سے بڑا ہاتھ اسی کرپشن کا ہے۔ جس دن یہ کرپشن ختم ہوگئی اس دن ان شاء اﷲ پاکستان کو ترقی کرنے سے اور آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ معاشی نظام کو بہتر کرنے کی ایک بہترین تجویز اوپر دی گئی ہے۔ نہ صرف معاشی نظام بہتر ہو گا بلکہ پاکستان میں بہت سے منصوبے شروع کیے جا سکتے ہیں-
 

Ibn e Niaz
About the Author: Ibn e Niaz Read More Articles by Ibn e Niaz: 79 Articles with 64102 views I am a working, and hardworking person. I love reading books. There is only specialty in it that I would prefer Islamic books, if found many types at .. View More