خلیفہ ثانی حضرت عمر بن خطاب ؓ

عمر بن خطاب 586 ء کو پیدا ہوئے۔ابو بکر صدیق کے بعد مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ ،نبی آخر الزمان محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے خسر اور تاریخ اسلام کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔آپ کا لقب فاروق، کنیت ابو حفص، لقب و کنیت دونوں محمد صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کے عطا کردہ ہیں۔ آپ کا نسب نویں پشت میں رسول اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم سے جا ملتا ہے۔آپ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی نویں پشت میں کعب کے دو بیٹے ہیں مرہ اور عدی۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم مرہ کی اولاد میں سے ہیں، جبکہ حضرت عمر عدی کی اولاد میں سے ہیں۔عمر بن خطاب عشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا :ابوبکر رضی اﷲ تعالی عنہ جنتی ہیں، عمر رضی اﷲ تعالی عنہ جنتی ہیں، عثمان رضی اﷲ تعالی عنہ جنتی ہیں، علی رضی اﷲ تعالی عنہ جنتی ہیں، طلحہ رضی اﷲ تعالی عنہ جنتی ہیں، زبیر رضی اﷲ تعالی عنہ جنتی ہیں، عبدالرحمن رضی اﷲ تعالی عنہ جنتی ہیں، سعد رضی اﷲ تعالی عنہ جنتی ہیں ، سعید رضی اﷲ تعالی عنہ جنتی ہیں، ابوعبیدہ رضی اﷲ تعالی عنہ جنتی ہیں۔ ان کا شمار علماء و زاہدین صحابہ میں ہوتا ہے۔ ابو بکر صدیق کی وفات کے بعد 23اگست 634ء مطابق 22جمادی الثانی 13ھ کو مسند خلافت سنبھالی۔آپ ایک باعظمت، انصاف پسند اور عادل حکمران مشہور ہیں۔ ان کی عدالت میں مسلم و غیر مسلم دونوں کو یکساں انصاف ملا کرتا تھا، عمر بن خطاب کا یہ عدل و انصاف انتہائی مشہور ہوا اور ان کے لقب فاروق کی دیگر وجوہ تسمیہ میں ایک وجہ یہ بھی بنی۔

جب حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے لوگوں کو اسلام کی دعوت دی تو حضرت عمر نے آپ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی سخت مخالفت کی۔ آپ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی دعا سے حضرت عمر نے اسلام قبول کر لیا۔ اس لیے آپ کو مراد رسول بھی کہا جاتا ہے۔ہجرت کے موقعے پر کفار مکہ کے شر سے بچنے کے لیے سب نے خاموشی سے ہجرت کی مگر آپ کی غیرت ایمانی نے چھپ کر ہجرت کرنا گوارا نہیں کیا۔آپ نے تلوار ہاتھ میں لی کعبہ کا طواف کیا اور کفار کے مجمع کو مخاطب کر کے کہا ’’تم میں سے اگر کوئی شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کی بیوی بیوہ ہوجائے اس کے بچے یتیم ہوجائیں تو وہ مکہ سے باہر آکر میرا راستہ روک کر دیکھ لے‘‘مگر کسی کافر کی ہمت نہ پڑی کہ آپ کا راستہ روک سکتا۔ مواخات مدینہ میں قبیلہ بنو سالم کیسردار عتبان بن مالک کوآپ کا بھائی قراردیا گیا۔

ابن سعد فرماتے ہیں کہ ہم لوگ ایک دن حضرت امیر المؤمنین کے دروازے پر بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک کنیز گزری ۔ بعض کہنے لگے یہ باندی حضرت کی ہے۔ آ پ (حضرت عمر) نے فرمایا کہ امیر المؤمنین کو کیا حق ہے وہ خدا کے مال میں سے باندی رکھے۔ میرے لیے صرف دو جوڑے کپڑے ایک گرمی کا اور دوسرا جاڑے کا اور اوسط درجے کا کھانا بیت المال سے لینا جائز ہے۔ باقی میری وہی حیثیت ہے جو ایک عام مسلمان کی ہے۔ جب آپ کسی بزرگ کو عامل بنا کر بھیجتے تھے تو یہ شرائط سنا دیتے تھے :
گھوڑے پر کبھی مت سوار ہونا۔
عمدہ کھانا نہ کھانا۔
باریک کپڑا نہ پہننا۔
حاجت مندوں کی داد رسی کرنا۔
اگر اس کے خلاف ہوتا تو سزائیں دیتے۔

عمر بن خطاب ہجری تقویم کے بانی ہیں۔ ان کے دور خلافت میں عراق، مصر، لیبیا، سرزمین شام، ایران، خراسان، مشرقی اناطولیہ، جنوبی آرمینیا اور سجستان فتح ہو کر مملکت اسلامی میں شامل ہوئے اور اس کا رقبہ بائیس لاکھ اکاون ہزار اور تیس (2251030)مربع میل پر پھیل گیا۔ عمر بن خطاب ہی کے دور خلافت میں پہلی مرتبہ یروشلم فتح ہوا۔ اس طرح ساسانی سلطنت کا مکمل رقبہ اور بازنطینی سلطنت کا تقریبا تہائی حصہ اسلامی سلطنت کے زیر نگین آ گیا۔ عمر بن خطاب نے جس مہارت، شجاعت اور عسکری صلاحیت سے ساسانی سلطنت کی مکمل شہنشاہیت کو دو سال سے بھی کم عرصہ میں زیر کر لیا۔ نیز اپنی سلطنت و حدود سلطنت کا انتظام، رعایا کی جملہ ضروریات کی نگہداشت اور دیگر امور سلطنت کو جس خوش اسلوبی اور مہارت و ذمہ داری کے ساتھ نبھایا وہ ان کی عبقریت کی دلیل ہے۔

ایک غلام ابو لولو فیروز نے آپ کو فجر کی نماز میں مسجد نبوی میں خنجر سے حملہ کیا اور تین جگہ وار کیے۔ آپ ان زخموں سے جانبر نہ ہوسکے اور یکم محرم سن 23ھ بمطابق 7نومبر644 دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔ آپ کے بعد اتفاق رائے سے حضرت عثمان کو امیر المومنین منتخب کیا گیا۔

Abid Ali Yousufzai
About the Author: Abid Ali Yousufzai Read More Articles by Abid Ali Yousufzai: 97 Articles with 76234 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.