لمحہ فکریہ

آج پہلی دفعہ لکھنے کی جسارت کرہی ہوں. وجہ ہماری نئی نسل اور آج کل کے حالات ہیں. یہ سیاست یا سیاستدانوں کی بات نہں جس پر ہم ڈرائنگ روم میں بیٹھکر خوب زور اور شور سے گفتوشنید کریں یا مہنگائی کا رونا روئیں . آج جو موضوع ہے وہ ہمارا سرمایہ یعنی ہماری نئ نسل یعنی ہمارے بچے. جن کی تعلیم اور تربیت ہم پر فرض ہے. پڑھنے والوں کے ذہن میں یہ ضرور آرہا ہوگا کہ یہ کیا بات ہوئی کہ کیا ہم اپنے بچے کی تعلیم اور تربیت نہں کر رہے اور بعض پڑھنے والوں کے بچے تو ماشااللہ اعلی تعلیم یافتہ بھی ہونگے تو وہ سوچ کر بتائیں کہ کیا نہں قربانیاں دی ہونگی انھونے اپنی اولاد کے لئیے. تو قارئین مجھے کوئی حق نہں کہ میں کسی کی تربیت پر انگلی اٹھاوں. میرے لئے تمام والدین قابل احترام ہیں کیونکہ ہم سب اپنا آرام اور بہت کچھ پیچھے چھوڑ کر صرف اپنی اولاد کے بہتر مستقبل کےلئے ہی دن رات ایک کرتے ہیں. اس لئے یہ کیسے سوچ لیا آپنے کہ میرا مقصد کسی کا دل دکھانا ہے اور اج کی زندگی میں ہر ایک کو لیکر چلنا بہت مشکل ہے ایسے میں ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ ہم کہیں اس بھاگتی دوڑتی زندگی میں کہیں کچھ بھول تو نہں رہے؟ ہم اپنا اصل سرمائے کو اپنی مصروفیت میں نظرانداز تو نہں کرہے! اور اسی غفلت کا فائدہ کوئی دوسرا تو نہں اٹھارہا ہے. انکے دماغ میں کوئی غلط بات تو نہں بھرہا یا ہمارے بچے کی معصومیت کو کوئی نقصان تو نہں ہورہا اور اب انٹرنیٹ ہمارے لئیے اتنا ہی ضروری ہے جیسے ہمارے لئیے دل کی دھڑکن یا خون کی گردش. ہم اس حقیقت سے آنکھیں نہں چراسکتے ایک رپورٹ کے مطابق آٹھ سے بارہ سال کے بچے دن میں 6 گھنٹے اور تیرہ سال اور اسے سے زائد عمر کے بچے دن میں سو دفعہ اپنے اکاؤنٹ کو چیک کررہے ہوتے ہیں. بس یہاں آکر ہم سب کی سوچ ایک ہوجاتی ہے کہ اس الیکٹرونک میڈیا کے دور میں ہم کیسے انھیں روکیں اب جبکہ بچہ اپنا اسکول کا ہوم ورک بھی لیپ ٹاپ پر کررہا ہوتا ہے. واقعی یہ کیسے ممکن ہے؟ یہ بہت مشکل ہے مگر ناممکن نہں. سب سے پہلے ہمیں انکو یہ اعتبار اور اعتماد دینا ہوگا کہ بیٹا ہم تمھارے ساتھ ہیں چاہے وہ تمھارا چھوٹا سا ہوم ورک ہو یا بڑے سے بڑا پروجیکٹ. ہم انکے روزمرہ کے کاموں میں کچھ اس طرح شامل ہوجائیں کہ انکو احساس رہے کہ ماں یا باپ میں سے کوئی انکے ساتھ ہے اور پھر اس بات کا یقین کہ بیٹا اگر غلطی ہو جائے تو باہر والے سے زیادہ ہم تمھارے خیرخواہ ہیں. آج بچہ اپنی تعلیمی تربیت گاہ میں بھی محفوظ نہیں اور پھر نئے زمانے کے نئے اصول کہ بچے کو وقت سے پہلے بہت کچھ بتادیا جائے چاہیے اسکی عمر ہو وہ سمجھنے کی یا اسکا ذہن ان باتوں کو قبول کرے یا نہیں. ایسے میں ماں اور باپ دونوں کی ہی ذمہ داری اور فرض ہے کہ اس بچے کہ ذہن میں غلط خیالات پھیلنے سے پہلے ہی اسکو اللہ کا خوف دیں اور کچھ اسطرح محسوس کروائے کہ کوئی دیکھے یا نہ دیکھے اللہ اسے دیکھ رہا ہے کیونکہ وہ ماں سے بھی زیادہ ستر گنا پیار کرتا ہے اور حدود کا تعین کہ ہماری حد کہاں ختم ہوتی ہے. اسکے دوست, یہ وہ تعلق ہے جو بچے کی شخصیت پر ماں باپ کے بعد سب سے بڑا تعلق یا گہرا اثر پڑتا ہے اور اسکا اختیار کسی بھی ماں باپ کے پاس نہں ہے اور اج ماں باپ اور بچوں کا بنیادی اختلاف بچوں کی دوستی ہے جسکو لیکر گھروں میں جھگڑے بھی ہوجاتے ہیں اور ہر کوئی ڈاکٹر نعمان علی خان نہیں ہوتا جو اپنے دوست کو دیکھتے ہوئے نماز کی طرف راغب ہوگئے اور آج ایک بہترین مسلمان اسکولر میں شمار ہوتے ہیں اور کہیں ہمیں ایسے بھی بچے ملتے ہیں جن کو ورغلا کر (بظاہر اسلام محبت) مگر اسلام کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے ان بچوں کو گھر سے تربیت نہں ملتی کہ آپ جائیں اور ماردیں کسی کو بھی اسلام کے نام پر. یہ دوست ہی ہوتے ہیں جو صحیح اور غلط کا راسته بتاتے هیں اب یہ انٹرنیٹ کی دوستی بھی ہوسکتی ہے. مجھے یاد ہے ہمیں کہا جاتا تھا بیٹا باہر کسی سے بات نہ کرنا اور نہ کچھ کھانا اگر کوئی کچھ دے. مگر اب دشمن تو گھر پر ہے یعنی نیٹ. ہمیں ان کو روکنا نہں ہے بس صحیح استعمال سیکھانا ہے کیونکہ ہم اپنے بچوں کو وقت کی رفتار کے ساتھ چلنا بھی سکھائیں. ہمیں انکو البیرونی یا عبدلقدیرخان جیسے لوگ بنابنا ہے جس سے نہ صرف ملک کا بلکہ اسلام کا نام بھی روشن ہو اور ان لوگوں کو ہم بتاسکیں جو یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں جیسے اسلام میں صرف برے لوگ یا چھوٹی ذہنیت کے لوگ ہوتے ہیں. ہمیں یہ تاثر غلط ثابت کرنا ہے اور ہمیں صرف صحیح سمت کا تعین کرنا ہے اپنے بچوں سے ایک قدم آگے رہکر. اس کے لئیے ہمیں سب سے پہلے اپنے آس پاس کے ماحول یعنی اپنے بہن بھائی, دوست اور اپنی کمیونٹی کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کیونکہ بچہ گھر سے سیکھتا ہے تو ہمیں اپنے اختلافات کو ہٹاکر اور اس دکھاوے کی زندگی کو چھوڑ کر کچھ تو ایسے قدم اٹھانے ہونگے جس سے ہمارا بچہ ہمیں ہی آئڈیل بنائے اور ان رکاوٹوں کو دور کو دور کرتے ہوئے آگے بڑھے اور اسکے لئے ہمارے پاس ہمارے نبی پاک(صلی الله علیه وسلم) کی تعلیم موجود ہے. اور ہمیں ان لوگوں کو بھی جواب دینا ہے جو یہ چائتے ہی نہیں کہ ہم بحثیت قوم ترقی کریں. میں یہ فیصلہ سب پر چھوڑتی ہوں کہ وہ کس طرح اپنی نئی نسل کو آگے لیکر چلیں اور دنیا اور آخرت میں سرخرو ہوں-
جزاک اللہ.

Saba Shakeel
About the Author: Saba Shakeel Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.