اساتذہ کا احترام ؟

 بارہ سے پندرہ سال کے بچے سکول سے نکلے اور باہر سڑک پرآگئے، اُن کے بیگ کلاس روم میں ہی رکھے تھے، باہر آکر انہوں نے سڑک سے گزرنے والوں کا راستہ روک دیا، کچھ نعرے لگائے، پھر یہ خبر تصویر سمیت میڈیا تک پہنچائی گئی۔ یہ منظر ایک گاؤں کا تھا۔ یہ بچے اپنے ہی سکول کے سربراہ یعنی ہیڈ ماسٹر کے خلاف احتجاج کر رہے تھے، ’’سکول میں پینے کا صاف پانی موجود نہیں ہے، ہم مضر صحت پانی پینے پر مجبور ہیں ․․ ہیڈ ماسٹر سکول اور کلاس روم کی صفائی کرواتا (ہیڈ ماسٹر کے لئے صیغہ واحد ؟) ہے، ہیڈ ماسٹر فنڈز کی خورد برد میں ملوث ہے، کرپشن کے خلاف آواز اٹھانے پر انتقام کا نشانہ بناتا ہے، طلبا کے سامنے اساتذہ سے توہین آمیز رویہ اختیار کیا جاتا ہے․․․‘‘۔ ضلع کے ڈپٹی کمشنر سے احتجاج کرنے والوں نے کاروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ خبر چیخ چیخ کر بتا رہی ہے، کہ بچوں کو استعمال کیا گیا، انہیں انہی کے کسی معزز ومحترم استاد نے اپنے مقاصد کے لئے تعلیم کا سلسلہ منقطع کرکے ’’غیر نصابی سرگرمی‘‘ کرنے پر مجبور کیا، ورنہ بچے کیا جانیں کہ کرپشن کس چڑیا کا نام ہے؟ کرپشن کے راز فاش ہونے پر کس طرح اساتذہ کو انتقام کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے، اور یہ بھی کہ جب ہیڈ ماسٹر کو قابو کرنا ہو تو کس بڑے عہدے کی حامل شخصیت کے پاس درخواست بھیجنی چاہیے؟ اس انتہائی معمولی واقعہ کے پس منظر میں بہت بھیانک حقائق ہیں، ا ن کے دورس نتائج برآمد ہوں گے، ان پر توجہ دینا وقت کی بہت بڑی ضرورت ہے۔

جن اساتذہ نے بچوں کو اپنے ہی ہیڈماسٹر کے خلاف احتجاج پر اکسایا، وہ خوب جان لیں کہ احتجاج کرنے والوں میں سے بڑے ہو کر جو بچے حقیقی شعور کی منزل کو پہنچیں گے،تب ان کے دل سے مذکورہ استاد کی عزت رخصت ہو چکی ہو گی، وہ کبھی عزت کرے گا بھی تو مجبوراً، ورنہ استاد صاحب نے اپنے عمل سے خود کو اس عزت سے محروم کرلیا۔ دوسرا پہلو یہ ہوگا کہ بہت سے بچوں کے دل میں بڑے ہونے کے باوجود بھی ہیڈ ماسٹر صاحب کی عزت بحال نہیں ہوگی، وہ سمجھیں گے کہ آخر کوئی تو بات تھی جس کی وجہ سے استاد اُن کے خلاف تھے؟ اگر بچے ہیڈماسٹر کے لئے صیغہ واحد استعمال کرتے ہیں، تو ماسٹر صاحب کو ’آپ‘ کیوں کہیں گے؟ سب لوگ مل کر ہی ایک دوسرے کے احترام کی عمارت کو مکمل کرسکتے اور خوبصورت بنا سکتے ہیں۔ اساتذہ اور سربراہ ادارہ کے انہی رویوں نے ہی سرکاری سکولوں کو ناکامی کی منزل کو پہنچا دیا ہے، ورنہ تعلیم کی یہ حالت نہ ہوتی۔

شاید اقدار اور ماحول تبدیل ہونے کی وجہ ہی ہے کہ کسی زمانے میں سکولوں میں زیر تعلیم بچوں سے سکول میں صفائی وغیرہ کے لئے الگ سے ہفتہ منایا جاتا تھا، جس میں اساتذہ کی نگرانی میں بچے سکول کی عمومی صفائی کا فریضہ سرانجام دیتے تھے، یہ نہیں تھا کہ کلاس رومز میں جھاڑو دیئے جاتے تھے، بلکہ مجموعی طور پر جہاں کہیں ریپر یا پتّے وغیرہ پڑے ہوتے تو انہیں اٹھا کر ٹھکانے لگایا جاتا تھا، ہفتہ صفائی کا مقصد کوئی بچت مہم بھی نہیں تھی کہ مزدوروں والا کام بچوں سے لیا جاتا، بلکہ یہ صفائی بچوں کی تربیت کا حصہ تھی، کہ جہاں وہ رہتے ہیں، اس ماحول کی صفائی کا خیال رکھنا ان کا اپنا فرض ہے، چھوٹے موٹے کام بچے بھاگ بھاگ کر کرتے تھے۔ چند دہائیاں قبل تک دیہات میں اساتذہ بچوں سے اپنے ذاتی کام بھی کرواتے تھے، جہاں سے احترام میں کمی شروع ہوئی، ایسے واقعات دیہات میں اب بھی رونما ہو جاتے ہیں۔ مگر اب احکامات یہ ہیں کہ بچوں سے قطعاً کوئی بھی کام نہ کروایا جائے، حتیٰ کہ اپنی مدد آپ کے تحت ہونے والے کام، جو کہ بچوں کی تربیت کا حصہ ہوتے تھے، وہ بھی ختم ہوگئے۔ جس سے ان کے اذہان میں یہ بات راسخ ہو چکی ہے، کہ ان کے لئے ایسا بندوبست موجود ہوکہ انہوں نے کوئی بھی کام خود نہیں کرنا۔ اگرچہ اس طرح کے کام کی اجازت دینے سے اساتذہ بچوں سے غیر ضروری کام بھی کروالیتے ہیں، مگر خصوصی مہمات کے تحت کام نہ کروانااور بچوں کی کام کرنے کی عملی تربیت نہ کرنا، ان کا مستقبل خراب کرنے کے مترادف ہے۔ چھوٹی عمر کے بچوں کا احتجاج اور انہیں ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر کے خلاف استعمال کرنا قابلِ مذمت عمل ہے، اساتذہ کو بے عزت کرنے کے بے شمار حربے پہلے ہی سرکاری ذرائع سے آزمائے جارہے ہیں، اب بچوں سے بے عزت کروانے کی کمی تھی ، سو وہ بھی شروع ہے۔

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 428610 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.