برما کے مظلوم مسلمان اور پاک سرزمین پارٹی کا احتجاجی مظاہرہ !

برما میں روہنگیا مسلمانوں پر بدھ مذہب کے ماننے والوں کی جانب سے جس طرح کے انسانیت سوز مظالم ڈھائے جارہے ہیں، سوشل میڈیا کے ذریعے ان کی تفصیلات پڑھ کر اور ان کی تصاویر اور ویڈیو کلپ دیکھ کر روح کانپ جاتی ہے کہ ایک انسان کس طرح سفاکی کے ساتھ دوسرے انسان کو گاجر مولی کر طرح کاٹ رہا ہے ،کس بے رحمی کے ساتھ انسانوں کو آگ کے الاؤ میں ڈال کرزندہ جلایا جارہا ہے۔کیا بدھا کی تعلیمات یہی تھیں جو آج ان کے پیرو کار کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔بے شرمی ،بے غیرتی ،سفاکی اور ظلم کی تمام حدیں پار کرکے برما کے روہنگیا مسلمانوں کا جو قتل عام کیا جارہا ہے اس پر جتنا اظہار مذمت کیا جائے کم ہے اس پر جتنے آنسو بہائے جائیں کم ہیں اور اس پر جتنا احتجاج کیا جائے وہ کم ہے کہ برما میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ انسانیت کے نام پر حیوانیت کا وہ شرمناک مظاہرہ ہے کہ یہ سب کچھ ہوتا دیکھ کر شاید شیطان بھی شرما جا تا ہوگا۔بد ھ مذہب کا بانی گوتم بدھ تو امن و آشتی کا درس دیا کرتا تھا اس کی تعلیمات کے مطابق تو کسی معمولی سی چیونٹی کی جان کا احترام کرنا بھی واجب تھا اور جان بوجھ کر کسی بھی جاندار کو مار دیا جانا اس کے نزدیک نہایت برا فعل تھاجو انسانی جان کے احترام کا داعی تھا ، حیرت ہے کہ آج اسی گوتم بدھ کے پیرو کا ربدھسٹ قوم کے لوگ روہنگیا کے مسلمانوں کو نہایت بے رحمی اور سنگدلی کے ساتھ گاجر مولی کی طر ح کاٹ رہے ہیں۔

برما کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے شاید یہ نہ ہوپاتا اگر مسلمان ممالک کے سربراہان آپس میں متحد ہوتے ،اگر ان میں غیرت موجود ہوتی ،اگر ان میں شرم و حیا باقی ہوتی ،اگر ان کے دلوں میں انسانوں کے لیئے رحم موجود ہوتا لیکن افسوس مسلم ممالک کے بیشتر سربراہوں نے برما میں مسلمانوں کے قتل عام پر جس مجرمانہ اور مصلحت آمیز خاموشی کا مظاہرہ کیا ہے وہ مسلمانوں کے کردار پر لگنے والا ایک ایسا بدنما داغ ہے جسے شاید کبھی نہ دھویا جاسکے گا۔بھلا ہو سوشل میڈیا ایکٹیوسٹوں کا جنہوں نے سب سے پہلے برما کے روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے سفاکانہ مظالم کی تفصیلات ،تصاویر اور ویڈیو کلپ فراہم کرکے دنیا کو تاریخ انسانی کے اس بدترین ظلم وستم سے نہ صرف آگاہ کیا بلکہ اس کے خلاف بھرپور احتجاج بھی کیا جو آج تک جاری ہے۔

تیزی کے ساتھ عوامی مقبولیت حاصل کرنے والی سیاسی جماعت پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفی کمال سمیت تمام مرکزی رہنماؤں کا شمار ان باضمیر سیاستدانوں میں ہوتا ہے جو عوامی مسائل کو اپنا ذاتی مسئلہ سمجھ کر اس کو حل کرنے کے لیئے فوری طور پر متحرک ہوجاتے ہیں اور خود کو عوامی جذبات کا ترجمان بنا کر ہر اہم معاملے پر عملی قدم ضرور اٹھاتے ہیں۔ جیسا کہ ماضی میں عوامی مسائل کے حل کے لیئے کراچی پریس کلب کے باہر کئی ہفتوں تک دیا جانے والا تاریخ ساز دھرنا اور پھر شاہراہ فیصل پر عوامی حقوق کی بازیابی کے لیئے دیا جانے والا زبردست احتجاج پاک سرزمین پارٹی کی عوام دوستی کا واضح ثبوت ہے۔

پاک سرزمین پارٹی کے لیڈر عوام دوست ہونے کے ساتھ انسان دوست بھی ہیں وہ صرف کراچی اور حیدرآبادکے ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان اور عالم اسلام میں بسنے والے تمام مسلمانوں کے ہمدرد بن کر دنیا بھر میں بسنے والے تمام مسلمانوں اور پاکستانیوں کے مسائل اور پریشانیوں کو حل کرنے کی سنجیدہ کوششیں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔پاک سرزمین پارٹی کے سیکریٹری جنرل رضا ہارون بیرون ممالک میں پاکستان ،پاکستانیت ،عوام دوستی اور انسان دوستی کے پیغام کو پھیلانے میں مصروف عمل ہیں جبکہ پاک سرزمین پارٹی کے مرکزی قائدین مصطفی کمال ،انیس قائم خانی ،وسیم آفتاب ،انیس ایڈوکیٹ،ڈاکٹر صغیر،افتخار رندھا وا اور افتحار عالم پاکستان بھر میں پاکستانیت کے جذبے کو فروغ دیتے ہوئے نفرت اور تعصب کی سیاست کے خلاف پوری قوت سے برسرپیکار ہوکر وطن دوستی کا درس دینے میں مصروف نظر آتے ہیں ۔ گوکہ پاک سرزمین پارٹی کے چئیرمین سید مصطفی کمال اور صدر انیس قائم خانی ان دنوں حج کی سعادت حاصل کرنے کے لیئے سعودی عرب میں مقیم ہیں لیکن ان کا دل و دماغ امت مسلمہ اور پاکستانی عوام کے مسائل کے حل کے لیئے مصروف عمل ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کو بر ما کے روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے انسانیت سوز مظالم کا پتہ چلا تو پی ایس پی کی مرکزی قیادت کی ہدایات کے مطابق کراچی میں موجود پی ایس پی کے رہنماؤں وسیم آفتاب ،ڈاکٹر صغیر ، افتخار عالم اور ان کے دیگر ساتھیوں نے برما کے مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کے لیئے’’ کراچی پریس کلب ‘‘کے باہر پاک سرزمین پارٹی نے ایک بھر پور احتجاجی مظاہرے کا بندوبست کیا ۔جس میں پاک سرزمین پارٹی کے قائدین کے ہمراہ پی ایس پی کے کارکنوں ،مختلف شعبوں کی نامور شخصیات ،صحافیوں ،تاجروں اور عوام الناس کی بڑی تعداد نے شرکت کرکے یہ بات ثابت کی کہ مسلمان کسی بھی ملک کا ہو اگر اس پر کوئی ظلم کیا جائے گا وہ کسی مصیبت میں گرفتار ہوگا تو پاکستان کے مسلمان خاموش نہیں رہیں گے اور خاص طور پر پاک سرزمین پارٹی برما میں مسلمانوں پر ہونے والے حالیہ مظالم کے خلاف بھر پور احتجاج کرکے دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ مسلمانوں کے خلاف تعصب کا رویہ ختم کرتے ہوئے ان پر مظالم کا سلسلہ فوری طور پر روکا جائے ورنہ مسلمانوں میں ابھی اتنی غیرت ایمانی باقی ہے کہ وہ متحدہوکر کفریہ طاقتوں کی اینٹ سے اینٹ بجا سکتے ہیں۔

برما کے روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف پاک سرزمین پارٹی کے پرامن احتجاجی مظاہرے میں پی ایس پی کے وائس چئیرمین وسیم آفتاب کی خصوصی دعوت پرراقم الحروف کو بھی شرکت کا موقع ملااور وہاں جو مناظر راقم کی نگاہوں کے سامنے سے گزرے انہیں دیکھ کر سر فخر سے بلند ہوگیا کہ اس مفاد پرست دور میں اب بھی ایسے انسان دوست سیاسی رہنما اور لوگ موجود ہیں جودنیا میں کسی بھی جگہ کسی بھی مسلمان پر ہونے والے ظلم وستم کا درد محسوس کرسکتے ہیں اور ان کی مدد کرنے کے جذبے کے ساتھ تمام خدشات ،خطرات اور مصلحتوں کو خاطر میں لائے بغیر صرف انسانی ہمدردی کے ناطے ایک جگہ جمع ہوکر پوری دنیا سمیت پاکستان کی حکومت سے برما کے مظلوم مسلمانوں کی فوری مدد کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے اس عملی جہاد کا حصہ بن رہے ہیں جس کا اجر اس فانی دنیا میں ملے نہ ملے آخرت میں ضرورملے گا۔پی ایس پی کی جانب سے منعقد کردہ اس احتجاجی مظاہرے میں کئی نکات پر مشتمل ایک اہم قرار داد بھی پیش کی گئی جس میں حکومت وقت سے مطالبہ کیاگیا کہ حکومت پاکستان برما میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم وستم پر صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے برما سے سفارتی تعلقات فوری طور پر منقطع کرلے اور برما کے مسلمانوں کے حق میں ہمارے ملک کے وزیراعظم اورصدر واضح طور پر اس مسلم کشی پر برما کے حکمرانوں سے بھرپور احتجاج کرتے ہوئے وہاں کے مظلوم مسلمانو ں کے لیئے عملی طور پر ہر طرح کی اخلاقی ،قانونی اور مالی مددکا بندوبست کریں ۔

روہنگیا کے شہر میانمار کے مسلمانوں کو گزشتہ ایک ماہ کے دوران گاجر مولی کی طرح کاٹا جاتا جارہا ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق آنگ سوچی کے حکم پرمیانمار میں صرف ایک ہفتے کے دوران 400 مسلمانوں کو سرعام بے دردی سے قتل کردیا گیا ان سفاکانہ کاروائیوں نے چنگیزخان جیسے ظالم انسان کے مظالم کو بھی مات دے دی ہے، قتل کرنے کا انداز بہت سفاکانہ ، ظالمانہ اور بے رحمانہ ہے ،انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر جاری کردہ ویڈیوز اور تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح زندہ انسان کے جسم کے گوشت کو کاٹا جارہا ہے ،زندہ انسان کی ٹانگیں کاٹ کر تڑپتا چھوڑ دیا جاتا ہے،بچوں،خواتین اور مردوں کو زندہ جلایا جارہا ہے اورخواتین کی عصمت دری کی جارہی ہے ۔ان بدترین ظالمانہ اور دہشت گردانہ کاروائیوں کے بعد بھی نہ صرف دنیا بھر کے مسلمان حکمران خاموش ہیں بلکہ عالمی سطح پر انسانی حقوق کی ترجمان تنظیموں کا ضمیر بھی شاید مرچکا ہے کیونکہ وہ ان مظلوم ترین انسانوں کے حق میں کوئی بات نہیں کررہے ۔

برما میں رہنے والے روہنگیامسلمانوں کے قتل عام کا سلسلہ اس سال فروری 2017 ء کوشروع ہوا جس کے دوران 1000 ،28اگست 2017 کو 3000،25اگست2017 کو32، اور3 ستمبر2017 کو400 مسلمانوں کو شہید کردیا گیا ۔جبکہ 80ہزارمسلمان بنگلہ دیش میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے ہیں جبکہ 7لاکھ دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں جبکہ مسلم ملک بنگلہ دیش کی مسلمان دشمن وزیراعظم نے برما کے بدھسٹوں کی جانب سے ڈھائے جانے والے مظالم سے بچنے کی کوشش میں بنگلہ دیش میں پناہ کے لیئے آنے والے روہنگیا مسلمانوں کو اپنے ملک پر ایک بوجھ قرار دیتے ہوئے انہیں قبول کرنے سے انکارکردیا ہے ۔ ان حالات میں جبکہ مسلم دنیا کے حکمرانوں نے نامعلوم مصلحتوں کی وجہ سے میانمار کے مسلمانوں پر کیے جانے والے مظالم پر بے شرمانہ اورمجرمانہ خاموشی اختیار کی ہوئی ہے ،ترکی کے صدر طیب اردگان نے ان مسلمانوں کے حوالے سے صدائے حق بلند کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ بنگلہ دیش میانمار کے مسلمانوں کو پناہ دے تو ترکی ان پناہ گزینوں کے اخراجات برداشت کرے گا ان کاکہنا ہے کہ میانمار میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ بہت افسوسناک ،شرمناک اورمسلمانوں پر ظلم ہے ،ظلم کے خلاف نہ بولنا بھی جرم ہے ۔لہذابنگلہ دیش کی سرحد چونکہ روہنگیاکے ساتھ لگتی ہے اس لیئے بنگلہ دیش کو چاہیے کہ وہ میانمار کے ستم رسیدہ مسلمانوں کو پناہ دے اور عالم اسلام متاثرین کی مکمل بحالی کیلئے بنگلہ دیش کی بھر پور مدد کرے۔ترک صدر طیب اردگان کی جرات اور عظمت کو سلام جو ہر طرح کی مصلحتوں اور دباؤ سے کو خاطرمیں لائے بغیر میانمار کے مسلمانوں کی مدد کے لیئے عملی کوششوں میں مصروف ہیں جبکہ حال ہی میں ترک صدر کی اہلیہ نے برما کا دورہ کرکے وہاں کے مظلوم اور ستم رسیدہ مسلمانوں سے بذات خود مل کر انہیں ہر ممکن مدد اور تعاون کا یقین دلایا اور انہیں بتایا کہ وہ خود کو تنہا نہ سمجھیں ترکی کی حکومت اور عوام کی ہمدردیاں ان کے ساتھ ہیں۔

دیکھا جائے تو جو کام ترکی کے صدر طیب اردگان نے کیا وہ پاکستانی حکمرانوں کو کرنا چاہیئے تھا لیکن پاکستان کی برسر اقتدار پارٹی کے سربراہ اور ان کے ساتھیوں کے لیئے سب سے اہم مسئلہ اور سوال یہ بن چکا ہے کہ نواز شریف کو اقتدار سے کیوں نکالا؟ حد ہوتی ہے بے شرمی اور بے غیرتی کی سیاسست کی کہ مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں اور ہمارے حکمران ’مجھے کیوں نکالا؟‘‘ کے بے معنی سوال کے اندر ہی الجھے ہوئے ہیں انہیں اتنی فرصت ہی نہیں کہ وہ میانمار کے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کا احساس کرکے ان کے دکھ درد اور تکلف کو محسوس کرسکیں۔ حکمران جماعت کی جانب سے تو روہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر کوئی بیان تک نہیں دیا گیا لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستانی عوام کی طرف سے ان مظالم پر شدید ردعمل سامنے آرہا ہے جس کا اظہار وہ سوشل میڈیا کے ذریعے بھرپور طریقے سے کررہے ہیں ،مسلمانان پاکستان اپنے مظلوم مسلمان بھائیوں کوظلم سے نجات دلانے کیلئے سراپائے احتجاج ہیں جبکہ چند مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے بھی برما کے مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کرتے ہوئے احتجاجی مظاہرو ں کا سلسلہ شروع کیاہوا ہے جس میں پاک سرزمین پارٹی کا نام سرفہرست ہے جس نے کراچی میں سب سے پہلے کراچی پریس کلب کے باہر روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ اظہار ہمدردی و اظہاریکجہتی کے لیے ایک کامیاب اور پرامن عوامی مظاہر ہ کیا جس کو الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پربھی دکھایا گیا اور یوں پاک سرزمین پارٹی کے بعد بہت سی سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے مسلمانوں پر مظالم کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شروع کیا جو تاحال جاری ہے ،جبکہ اب تو دنیا بھر میں برما کے مسلمانوں کے حق میں عام لوگ سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔بدھ مت کے دہشت گردوں کی مسلمانوں کے خلاف سفاکانہ اور ظالمانہ کاروائیوں پر انسانیت کا درد رکھنے والا ہر عام مسلمان مختلف ذرائع سے اپنا احتجاج ریکارڈ کروارہا ہے ۔دنیا بھر کے مسلمانوں کا اب یہ متفقہ مطالبہ ہے کہ برما کے انسانوں کو ظلم سے فوری نجات دلائی جائے ۔

مذہب اسلام کا ایک بنیادی اصول یہ بھی ہے کہ جو مسلمان زیادہ طاقتور ہو وہ اپنے کمزور مسلمان بھائیوں کی اس وقت تک مدد کرے جب تک ان کو ظلم سے نجات نہ مل جائے ، اس وقت مسلم دنیا میں دفاعی اعتبار سے سب سے زیادہ مضبوط مسلم ملک پاکستان ہی ہے جو عالم اسلام کی واحد ایٹمی طاقت بھی ہے،لہذا عرب ممالک سمیت تمام مسلم دنیا امت مسلمہ کے وسیع مفاد کی خاطر اپنے اختلافات پس پشت ڈال کر عالمی سطح پر مسلمانوں کی نمائندگی درست اور موثر طور پر کرے تو ان مظالم کا سلسلہ رک سکتا ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ مسلم ممالک کے فوجیوں پر مشتمل مشترکہ اسلامی فوج مسلمانوں کے پاس موجود ہے مگر مسلمانوں کا کوئی ایسامتفقہ طاقتور رہنما موجود نہیں ہے جو برما سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اسلامی مشترکہ مسلم فوج کو حکم دے کہ وہ ظلم کے خلاف علم جہاد بلند کرتے ہوئے روہنگیا کے مظلوم مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا سلسلہ فوری طو ر پررکوانے کے لیئے عملی کاروائیوں کا آغاز کرے جبکہ مسلم دنیا کی جانب سے برماحکومت کو سخت پیغام دینے کیلئے اس کا سفارتی بائیکاٹ کیا جائے،اس کے سفیروں کو ناپسندیدہ شخصیات قرار دے کر ملک بدر کیا جائے اور برما سے اس وقت تک سفارتی تعلقات ختم کردیے جائیں جب تک وہاں کے مسلمانوں پر ظلم وستم کا سلسلہ ختم نہیں ہوجاتا۔

بدھ مذہب کے پیروکاروں کی جانب سے برماکے روہنگیا مسلمانو ں کی سفاکانہ نسل کشی پر عالمی دنیا کی بے رخی و بے حسی قابل غور ہے ۔ امریکہ اور یورپ میں چند انسان قتل ہوجائیں تو ان کی سزا ملکوں پر ڈرون حملوں کی صورت میں دی جاتی ہے اور ان کی ہر طرح کی امداد بند کرکے ان کو معاشی طور پر تباہ کردیا جاتا ہے جبکہ بہت سے ممالک کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی بھی کوشش کی جاتی ہے جبکہ مسلمان اگر لاکھوں کی تعداد میں بھی وحشیانہ انداز میں قتل کردیئے جائیں تو امن عالم کے علمبرداروں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔اس کھلے تضاد کو اب ہر مسلمان محسوس کرنے لگا ہے کہ اقوام متحدہ و امریکہ اور یورپ کے ہاں امن عالم کویقینی بنانے کیلئے دو طرح کے دستور و قانون رائج ہیں یعنی مسلمان کٹ مرجائے تو کوئی کارروائی نہیں اور اگر کوئی انگریز ناگہانی آفت کا شکار ہوجائے یا نائن الیون جیسا کوئی حادثہ وقوع پذیر ہوجائے تو اس کے بعد مسلم دنیاکے ممالک کا ناطقہ بند کرنا اور اسے معاشی اور عملی طور پر نیست و نابود کرنا لازمی ہے۔سوال یہ ہے کہ مسلم حکمرانوں کی حمیت و غیرت کہاں مرگئی ہے جو مذہب اسلام کے پیرو کار ہیں اور انہیں اپنے مذہب کے ذریعے یہ پیغام ملا ہے کہ مظلوم بھائی کی مدد کرو اور اس پرظلم کرنے والو ں کوروک دوکیونکہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں کہ دنیا کے کسی کونے میں بھی مسلمان کونقصان پہنچے یا اس پر ظلم کیا جائے تو لازم ہے کہ کوئی مردمجاہد علم جہاد بلند کرتے ہوئے ظالموں اور جابروں کو ان کے کئے کی سزا دے کر مسلمانوں کو عدل و انصاف فراہم کرکے امن و سلامتی کے ساتھ زندگی گزارنے کا موقع فراہم کرے۔ ظلم کے خلاف جہاد کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے وہ عمل اور زبان سے ہو تو بہت بہتر ہے ورنہ کم ترین درجہ یہ ہے کہ اگر کسی مسلمان کو حق بات کرنے کی صورت میں اپنی جان جانے کا خوف لاحق ہو تو وہ مسلمان کم سے کم ظلم کرنے والے کو اپنے دل میں ضرور برا سمجھے۔ برما کہ مسلمانوں کو اب باتوں اور مظاہروں سے زیادہ ایسے مسیحا کی ضرورت ہے جو ان کو فوری طور پر مدد فراہم کرنے کے لیئے عالم اسلام کو متحرک کرسکے پاکستان،سعودی عرب، ترکی اور ایران سمیت تمام اسلامی ممالک کی حکومتیں اور عرب ممالک کی اسلامی سربراہی فوج پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے مظلوم مسلمان بھائیوں کی مدد کے لیئے عملاً حرکت میں آئیں۔اﷲ تعالیٰ مجھ سمیت ہر مسلمان کے دل کے اندر اﷲ کا خوف اور دوسرے مسلمان کی جان کی حرمت کا جذبہ پیدا فرمائے تاکہ اگر دنیا کے کسی بھی ملک میں کسی مسلمان قوم پر ظلم وستم کیا جائے تو دنیا بھر کے تمام مسلمان اس کے خلاف متحد ہوکر اٹھ کرے ہوں اور کفریہ طاقتوں کو ایسا سبق چکھائیں کہ پھر کسی کافر کو کسی مسلمان پر ظلم کرنے کی جرات نہ ہوسکے۔(آمین)۔

Fareed Ashraf Ghazi
About the Author: Fareed Ashraf Ghazi Read More Articles by Fareed Ashraf Ghazi : 119 Articles with 126912 views Famous Writer,Poet,Host,Journalist of Karachi.
Author of Several Book on Different Topics.
.. View More