ہم سب لبرل ہیں

لبرل ذہنی آزادی ایسی آزادی جس میں یہ احساس ہوتا ہے جو کررہے ہیں درست کر رہے ہیں اس سے کسی کو نقصان نہیں ہورہا یا تھوڑا اضافہ کردیں تو ذہنی آزادی کا اثر شخصی آزادی پر، اب آپ سوچ رہے ہوں گے یہ کیا بات ہوئی کہ ہم سب لبرل ہیں تو دیکھیں بس تھوڑا سا اپنے آپ کو، اپنے ہاتھ میں پکڑے موبائل کو اس کے زریعے کوئی دین کا کام کر رہا ہے ،تو کوئی فلاح معاشرہ کا اور دیکھا جائے تو یہ کچھ ایسا غلط بھی نہیں اکثریت سوشل میڈیا کا تعلیمی، کاروباری، اخلاقی، شرعی،دینی کاموں میں بہترین و منظم طور پر پر استعمال کر رہی ہے، مگر اس کے علاوہ یہ ایک ایسا راستہ ہے جس نے ہم سب کو لبرل ازم کی راہ کا مسافر بنادیا ہے، بس فرق تھوڑا سا یہ ہے کوئی دھیمی دھیمی چال سے چل رہا ہے، کوئی بجلی کی تیزی سے، کوئی اعتدال پسندی سے اور کوئی ٹھہر ٹھہر کر، آپ لوگ سوچ رہے ہوں گے یہ کیسی عجیب بات ہے، تو ذرا غور کریں

پہلے لڑکیوں کے پاس موبائل ہوتا تھا تو وہ اپنا نمبر کس قدر مخفی اور حفاظت سے رکھتی تھیں، کسی غلط ہاتھ میں نہ پڑ جائے، کسی غلط ہاتھ نہ لگ جائے، ایک میسج اگر رونگ نمبر سے آجانا تھا وہ پریشان ہوجاتی تھی، اور اگر یہ سلسلہ جاری رہتا تو تیسرے دن نمبر تبدیل کرلیتی یا زیادہ سے زیادہ ایک ہفتے میں، اور پھر نیا نمبر پہلے سے زیادہ حفاظت سے رکھا جاتا مگر آج کیا ہورہا ہے؟واٹس ایپ پر مخلوط گروپس میں نمبر مگر کوئی پریشانی نہیں، یہی حال فیس بک پر ہے پہلے موبائل پر انجان نمبر سے ہی کال آجاتی تو گھر کے کسی مرد کو موبائل دیا جاتا تھا کہ وہ سنیں بات کرے، مگر اب الٹی گنگا بہنے لگی ہے، چیٹ گروپس، دینی و معاشرتی کاموں کے لیے گروپس، اور اگر جنم دن ہو تو دنیا جہان سے ولادت کی مبارکباد، کیک شیک، پھول شھول کی پکس، اسمائلی ایموجیز یہی نہیں اگر نسبت یعنی انگیجمنٹ ہوجائے اسٹیٹس دیا جاتا ہے، اب اس منگنی کے ننھے سے اسٹیٹس پر ڈھیروں دعائیں، کمنٹس انجان خواتین و حضرات کی طرف سے موصول ہورہے اب جب نا محارم کی لمبی لسٹ دعائیں دے رہی ہے تو بے چارے یا بے چاری منگیتر کا کیا قصور کہ وہ اپنی آنے والی زندگی کے لیے دعا نہ کرے، آخر کو لبرل ہیں ہم..

اور تو اور ہماری اعلی و پاکیزہ سوچ کہ مخلوط ادارے نہ ہوں، پردہ ہو وغیرہ وغیرہ، مگر اس سوشل میڈیا پر ہم لوگو نے خود مخلوط ادارے تشکیل دیے ہوئے ہیں ہمارے بیان ہوتے ہیں پاکستان اس لیے حاصل نہیں کیا گیا، کہ پاکستان کی بیٹی دوپٹہ اتاردے مگر افسوس پاکستان کی بیٹی، جی ہاں قوم و ملت کی بیٹی بہترین طور پر پر آج دوپٹے پہن کر بھی وہی کام کر رہی ہے، جسے دوپٹہ اتار کر کرنے والی کر رہی ہے، یا معتبر الفاظ میں جو کام اسے زیبا نہیں دیتے وہ کام ایسی بہت سی مثالیں ہیں جنھیں لکھنے سے صرف مضمون طوالت اختیار کر جائے گا اس لیے اپنی بات کا مافی الضمیر سمجھانے کے لیے بس اتنا کہ ہماری اقدار و روایات یہ نہیں تھی جس طرف ہم چل پڑے ہیں، اور چلے ہی جارہے ہیں سوشل میڈیا کے فوائد سے انکار نہیں مگر اس کے نقصانات سے ہم سب واقف ہوتے ہوئے بھی انجان بنے ہوئے ہیں. چند سالوں میں سینکڑوں واقعات واقع ہوچکے ہیں جو ہماری نوجوان نسل سے متعلقہ تھا، کبھی خودکشی کے، تو کبھی قتل کے، کبھی اجتماعی خودکشی کے، تو کبھی اجتماعی قتل کہ کبھی لڑکے کی بربادی کے تو کبھی لڑکی کی بربادی کے، کبھی لڑکی کی لاش پنکھے سے لٹکی ملی، تو کبھی لڑکے کی لاش اسکول کے فرش سے.....
ایک ایسا زہر ہے جو رفتہ رفتہ ہماری سوچوں کو، ہمارے معاشرے کو، ہمارے مذہب کو، ہماری روایات کو، ہمارے طریقوں کو، اور ہماری نوجوان نسل کی جھجھک و شرم و حیا کو اور ہماری نوجوان نسل کے فکر و شعور کوختم کر رہا ہے، اور بخوبی اپنے مشن میں کامیاب ہورہا ہے -

میں اپنے آپ کو اس سب سے بری الذمہ نہیں کر رہے، نہ ہی ان باتوں کا کوئی خاص ہدف مگر مجھے یہ ادراک کرتے ہوئے شرمندگی ضرور ہورہی ہے، جس لبرل ازم کو ہم برا سمجھتے ہیں اسی کا حصہ ہم لوگ خود بھی بخوشی بنے ہوئے ہیں
اور میری بات پھر وہی کہ ہم سب لبرل ہیں اور مزید لبرل ہونے جارہے ہیں،
کیونکہ......
جواب آپ لوگ خود سوچ لیں

Dur Re Sadaf Eemaan
About the Author: Dur Re Sadaf Eemaan Read More Articles by Dur Re Sadaf Eemaan: 49 Articles with 46668 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.