سیدھی راہ

آج میں آپکے سامنے ایک ایسا مسئلہ بیان کرنے جا رہا ہوں جو شائد آپ سب کیلئے کوئی بڑی بات نہ ہو لیکن میرے لئے یہ اِک بڑا مسئلہ ہے۔ اِس مسئلے کا سامنا مجھے ہر آئے دن کرنا پڑتا ہے۔ دراصل بات کچھ یوں ہے کہ ابھی حال ہی میں مجھے ایک سُنت عمل کا علم ہوا ہے جس سے شاید آپ میں سے بھی کچھ حضرات واقف نہ ہوں اور وہ سُنت یہ ہے کہ اگر آپ کسی سواری پر سوار ہیں تو راہ کی بائیں جانب کو اختیار کریں اور اگر پیدل ہیں تو ہمیشہ راہ کی دائیں جانب چلیں۔ یہ جان کر خوشی ہوئی کہ ہمارے اِس مُلک کے ٹریفک کا قانون بھی اِسی سُنت کے مطابق ہے۔ یعنی اگر آپ سواری پر سوار ہیں تو بائیں جانب وگرنہ دائیں جانب چلیں۔ چونکہ ہماری ٹریفک پولیس اِس سنت کے پہلے حصے پر تو زبردستی عمل کرواتی ہے لیکن دوسرے حصے کا کبھی ذکر نہیں کیا گیا اِس لئے عوام یہی سمجھتی ہے کہ پیدل چلتے ہوئے بھی راہ کی بائیں جانب کو ہی اختیار کرنا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ شاہرائیں ہوں یا بازار یا کوئی گلی محلہ ‘ پیدل چلنے والے ہمیشہ راستے کہ بائیں جانب ہی چلتے نظر آتے ہیں۔ ٹریفک پولیس کے مطابق دائیں جانب چلنے کا ثمر یہ ہے کہ آپ سامنے سے آتی ہوئی گاڑی کو بآسانی دیکھ سکتے ہیں اور ایسے میں کسی بھی ناخوشگوار واقعہ سے بچ سکتے ہیں۔

آپ سب سوچ رہے ہوں گے کہ اِس پوری بات میں مسئلہ کیا تھا؟ دراصل یہی تو مسئلہ ہے کہ اگر کسی بازار وغیرہ میں چلتے ہوئے اِس سُنت پر عمل کیا جائے تو ہر ہر قدم پر آپکو ایک ایک دھکے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کہیں کسی کا کندھا آپکے کندھے سے ٹکرا رہا ہے تو کہیں کسی کا پاؤں آپکے پاؤں پر آرہا ہے۔ اور اگر مخالف شخص سخت طبیعت کا ثابت ہوا تو شائید آپکو کچھ کھَری کھَری سنا بھی جائے اور ایسے میں ہو سکتا ہے کہ آپکو اَن پڑھ, جاہل اور بیوقوف جیسے چند القابات سے بھی نواز دیا جائے۔ اگر تو آپ بول پڑے کہ بھیا میں تو صحیح جانب کو چل رہا ہوں۔۔۔ غلط تو آپ ہیں تو پھر اپنی خیر منائیے۔۔۔ آپکے مخالف کو چونکہ اِس بات پر پورا یقین ہے کہ بائیں طرف کو ہی چلنا دُرست ہے لہذا اُسکے بگڑ جانے کے امکانات زیادہ ہیں اور مُمکن ہے کہ وہ چلانا بھی شروع کر دے ۔ ایسے میں اگر دو چار بندے اور بھی جمع ہو گئے تو قصوروار آپکو ہی ٹھہرائیں گے۔۔۔ روڈ ہو یا بازار‘ کوئی مُحلہ ہو یا کوئی گلی۔۔۔ دائیں جانب چلتے ہوئے ہمیشہ ہی اِس مسئلے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔۔۔

ہمارے اِس اسلامی جمہوریہ پاکستان کا کوئی بھی شعبہ ہو‘ اگر آپ سیدھے ہاتھ پر چلنے کی کوشش کریں گے تو لاکھ رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کہیں کوئی سامنے سے آکر آپکو ٹکراتا ہے تو کہیں کوئی دائیں بائیں سے۔ سرکاری شعبہ ہو یا غیرسرکاری , آپکو کسی صورت بھی سیدھے ہاتھ نہیں چلنے دیا جائے گا اور اگر آپ پھر بھی اپنی راہ کے اِس تعین پر بضِد ہیں تو آپکو اُن تمام نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا جو قانوناً اور شریعۃً اُلٹے ہاتھ پر چلنے والے کا مقدر ہونے چاہیے تھے۔ غرض اِس پورے ماحول میں جہاں سب اُلٹے ہاتھ کو ہی چلتے ہیں, اب سیدھے ہاتھ پر چلنا نہایت معیوب سمجھا جاتا ہے اور اگر کوئی چلنا بھی چاہے تو بالآخر شکست اُسکا مقدر ہے۔

کیا ایسا ممکن ہے کہ کوئی اِس مُلک میں رہتے ہوئے, کسی بھی شعبے میں سیدھے ہاتھ کو چلے اور اُسکو کِسی رکاوٹ کا سامنا بھی نہ کرنا پڑے۔ اور وہ اپنی ترقی کی منازل بآسانی طے کرتا رہے؟؟؟ اگر یہ ممکن نہیں تو میں اور آپ اِسکو ممکن بنا سکتے ہیں۔ ہمیں اس بات کا عہد کرنا ہوگا کہ ہم دنیا کے جس جس شعبے میں بھی اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں, ہمیشہ سیدھی راہ ہی چلیں گے۔ اور اگر ایسا ممکن نہیں تو کم از کم سیدھے ہاتھ چلنے والوں کا ساتھ دیں گے اور اُنکے لئے کوئی رُکاوٹ کھڑی نہیں ہونے دینگے۔۔۔
Adil Bhaiya
About the Author: Adil Bhaiya Read More Articles by Adil Bhaiya: 3 Articles with 3109 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.