تفسیرالقرآن بااقوال شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ

،
اس آیت مبارکہ میں علامہ ابن قیم الجوزیہؒ نےدوعورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہونے کیلئے وجہ بیان کرتے ہوئے اپنے استاد کا قول نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دوعورتوں کی گواہی ایک مردکےبرابراس کی عقل کی کمزوری کی وجہ سے ہے، نہ کی دینی کمزوری کی وجہ سے ہے۔

تفسیرالقرآن بااقوال شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ

قوله تعالى: يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ اِلٰى اَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوْهُ وَلْيَكْتُبْ بَّيْنَكُمْ كَاتِبٌ بِالْعَدْلِ وَلَا يَاْبَ كَاتِبٌ اَنْ يَّكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللّٰهُ فَلْيَكْتُبْ وَلْيُمْلِلِ الَّذِيْ عَلَيْهِ الْحَقُّ وَلْيَتَّقِ اللّٰهَ رَبَّه وَلَا يَبْخَسْ مِنْهُ شَـيْــــًٔـا فَاِنْ كَانَ الَّذِيْ عَلَيْهِ الْحَقُّ سَفِيْهًا اَوْ ضَعِيْفًا اَوْ لَا يَسْتَطِيْعُ اَنْ يُّمِلَّ ھوَ فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّه بِالْعَدْلِ وَاسْتَشْهِدُوْا شَهِيْدَيْنِ مِنْ رِّجَالِكُمْ ۚ فَاِنْ لَّمْ يَكُوْنَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَّامْرَاَتٰنِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰىھمَا فَتُذَكِّرَ اِحْدٰىهُمَا الْاُخْرٰى: البقرۃ:2: 282
ترجمه: مومنو! جب تم آپس میں کسی میعاد معین کے لیے قرض کا معاملہ کرنے لگو تو اس کو لکھ لیا کرو اور لکھنے والا تم میں (کسی کا نقصان نہ کرے بلکہ) انصاف سے لکھے نیز لکھنے والا جیسا اسے خدا نے سکھایا ہے لکھنے سے انکار بھی نہ کرے اور دستاویز لکھ دے اور جو شخص قرض لے وہی (دستاویز کا) مضمون بول کر لکھوائے اور خدا سے کہ اس کا مالک ہے خوف کرے اور زر قرض میں سے کچھ کم نہ لکھوائے اور اگر قرض لینے والا بےعقل یا ضعیف ہو یا مضمون لکھوانے کی قابلیت نہ رکھتاہو تو جو اس کو ولی ہو وہ انصاف کے ساتھ مضمون لکھوائے اور اپنے میں سے دو مردوں کو (ایسے معاملے کے) گواہ کرلیا کرو ۔ اور اگر دو مرد نہ ہو تو ایک مرد اور دو عورتیں جن کو تم گواہ پسند کرو (کافی ہیں) کہ اگر ان میں سے ایک بھول جائے گی تو دوسری اسے یاد دلادے گی۔

اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰىھُمَا فَتُذَكِّرَ اِحْدٰىهُمَا الْاُخْرٰى : دو عورتوں کی شہادت اس لیے ہونی چاہئے کہ اگر ایک بھول جائے تو دوسر ی اس کو یاد دلادے۔ جمہور قراء کی قراء ت: اَنْ تَضِلَّ اور فَتُذَکِّر ہے اَنْ ناصبہ ہے تَضِلَّ اَن کی وجہ سے منصوب ہے اور فَتُذَکِّرَ کا عطف تَضِلَّ پر ہے اس لیے یہ بھی منصوب ہے۔ حمزہ کی قراء ۃ میں اِنْ شرطیہ ہے اور تَضِلَّ شرط ہے اور فَتُذَکِّرُ مرفوع ہے اور پورا جملہ بن کر جزا ہے۔ تَضِلَّ پر شرط کی وجہ سے جزم ہونا چاہئے مگر تشدید کی وجہ سے جزم نہ آسکا اور فَتُذَکِّرُ کا فاعل ضمیر ہے اور احدا ھما الاخریٰ مفعول ہے اور پورا جملہ ہو کر مبتدا محذوف کی خبر ہے اور جملہ اسمیہ بن کرشرط کی جزا ہے ذکر (یاد) نسیان (بھول) کی ضد ہوتی ہے۔

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کی عقل ناقص اور حافظہ کمزور ہوتا ہے۔ رسول اللہ نے فرمایا تھا دانشمند مرد کی عقل کو زائل کرنے والی ناقص العقل ناقص الدین عورتوں سے زیادہ میں نے اور کسی کو نہیں دیکھا عورتوں نے عرض کیا: ہماری عقل میں کیا کمی ہے فرمایا : کیا عورت کی گواہی مرد کی گواہی سے آدھی نہیں ہے عورتوں نے جواب دیا بےشک ہے فرمایا: یہ اس کی عقل کی کمی کی وجہ سے ہے عورتوں نے عرض کیا: ہمارے دین میں کیا کمی ہے؟ فرمایا: حیض کی حالت میں نہ وہ نماز پڑھتی ہے نہ روزہ رکھتی ہے کیا ایسا نہیں ہے۔ یہی اس کے دین کی کمی ہے۔
شیخ ابن تیمیۃ رحمہ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ(فَاِنْ لَّمْ يَكُوْنَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَّامْرَاَتٰنِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰىھمَا فَتُذَكِّرَ اِحْدٰىهُمَا الْاُخْرٰى)

 

Uzma Sagheer Janjua
About the Author: Uzma Sagheer Janjua Read More Articles by Uzma Sagheer Janjua: 19 Articles with 45134 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.