علامہ ابن قیم الجوزیہؒ ( پیدائش وتعلیم:)


علامہ ابن قیمؒ ایک بڑے مفسر، محدث اور بلند پایہ عالم تھے۔ اس کا اندازہ مختلف فنون میں آپ کے تصانیف سے ہوتا ہے جن کی تعداد 100 سے زیادہ ہے۔ آپ کو ایک بڑی تعداد میں احادیث کے علاوہ صحابہ کرامؓ، تابعینؒ اور تبع تابعینؒ کے اقوال بھی یاد تھے۔
زیرنظرتحقیقی مٖضمون سے علامہ ابن قیمؒ کاتعارف،جاہ ومنزلت اور اس کا تفسیری منہج سامنے آجائےگا۔اس تحقیق کے ذریعے ہمیں بہت سے نادر کتب تک رسائی ہوئی

ابن قیمؒ سات صفر691 ہجری بمطابق 4فروری1292ء کو ملک شام میں دمشق کے نزدیک ہاوران میں عزرا گاؤں میں پیدا ہوئے۔ اُس کے بچپن کے متعلق کم معلومات ہے۔ سوائے اس کے کہ اُس نے اپنے والد صاحب سے اسلامی فقہ علم معرفت اورعلوم حدیث کی جامع تعلیم حاصل کی۔ اُس نے اپنے والد کے زیر سایہ پڑھا۔ جو دمشق میں حنبلی مسلک کیلئے وقف شدہ مدارس میں سے ایک کے نگران تھے۔ لہٰذا علمی تحقیقات، اوروقت حاضر کے مشہور ورمعروف اساتذہ صاحبان کے تعلیمات اورکارہائے نمایاں کی جستجو جاری رکھا۔ مسلم سکالر ابن کثیرؒ ابن قیمؒ کی خواہش علمیت کے بارے البدایہ والنھایہ میں فرماتے ہیں۔’’انہوں نے ایسی کتب سے علم حاصل کیا جن سے کوئی دوسرانہیں حاصل کرسکتے۔ اوراُس نے اسلاف کی کتابوں کا گہرائی سے مطالعہ کرنے اور سمجھنے کو ترقی دی۔

اساتذہ کرام:
بشمول اُس کے والد کے گرامی ابوبکر شھاب الآ مبیر تقی الدین سلیمان ،صفی الدین الہندی اوراسمعیل ابن محمد الحرّ انی سے ابن قیمؒ فیض یاب ہوئے۔ تاہم اُن میں سے سب سے زیادہ معروف ومشہور ابن تیمہؒ تھے۔جس کی صحبت میں16سال تک بحیثیت شاگردر ہے۔الحافظ ابن کثیرؒ ابن قیمؒ کی تعریف میں لکھتے ہیں۔’’اُس نے علم کی کئی شعبوں میں خصوصاََ علم تفسیر، علم حدیث اور اُصول تفسیر میں کافی مہارت حاصل کی۔جب 712 ہجری یعنی(1312ء) میں اُس کے اُستاد شیخ تقی الدین ابن تیمیہؒ مصر سے واپس ہوئےتو علمی حصول کیلئے وہ مرتےدم تک اُس کے صحبت میں رہے۔ یوں وہ علم کے مختلف شاخوں میں ایک منفر د حیثیت سے پہنچاننے لگے۔

عبادات ،عادات وا طوار:
اُس کے کئی ہم عصر اورطلباء نے اُس کے زہد وریاضت کا بغور مطالعہ کیا۔الحافظ ابن رجب اپنے تاثرات یوں بیان فرماتے ہیں۔ وہ زہدوریاضت،نماز میں طوالت کی چوٹی تک پہنچنے اورتہجد پڑھنے میں پابندی سے کام لیتے۔ ہمیشہ وہ ذکر الٰہی میں مگن رہتے اوراللہ سبحانۃ وتعالیٰ سے خوب محبت رکھتے۔ عاجزی اور مختاجی میں انتہائی حد تک خاکساری کرنے اوراللہ کی طرف توبہ و رجوع کرنے والےتھے ۔ وہ خدائی اطاعت اورغلامی کو اپناتے، بے شک ایسے معاملات میں اُن کےخواہشات اورترغیبات جیسا کوئی نہیں دیکھا۔ مزید ابن کثیرؒ اضافہ فرماتے ہیں’’ابن قیمؒ اللہ تعالیٰ سے دُعا مانگنے اورمنت وسماجت کرنے میں بڑی عاجزی کرتے، وہ خوب تلاوت فرماتے، اور اُس کے اچھے اطوار تھےاوربڑی محبت سے پیش ہوتے اورکسی کے خلاف دل میں حسد کو جگہ نہ دی۔ نہ کسی کو تکلیف دینے کی کوشش کرتےاورنہ غیب جوئی کرتے۔ میں اُن کے ہم نشینوں میں سے ایک تھا۔اور میں لوگوں میں سب سے زیادہ پیارا تھا۔میں کسی کے متعلق اُس سے زیادہ عبادت گزار نہیں جانتا۔ سجدی ریزی لمبی لمبی رکوع کیساتھ اُس کے نماز ہوا کرتے۔ اُس کے احباب اُسے ہر تنقید کرتے تاہم وہ کبھی اسے نہ چھوڑتے۔ خدا اُس پر اپنی برکت نازل فرمادیں ۔ آمین
مصادرومراجع

۱۔ ابن قيم، محمد بن أبي بكر بن أيوب بن سعد شمس الدين ابن قيم الجوزية (المتوفى: 751هـ) حادي الأرواح إلى بلاد الأ فراح المحقق: محمد حامد الفقي الناشر: مكتبة المعارف، الرياض، المملكة العربية
۲۔ البخاري، محمد بن إسماعيل أبو عبد الله البخاري الجعفي (المتوفى: 256ه) الجامع المسندصحيح البخاري المحقق: محمد زهير بن ناصر الناصر ،الناشر: دار طوق النجاة الطبعة: الأولى، 1422ه

Uzma Sagheer Janjua
About the Author: Uzma Sagheer Janjua Read More Articles by Uzma Sagheer Janjua: 19 Articles with 45305 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.