پاکستان کیسے بنا ۔۔۔ آنکھوں دیکھا حال

ایک مفکر کا قول ہے کہ وہ قوم جو اپنے اسلاف کے کارناموں سے بے خبر ہے وہ اس قابل نہیں کہ دنیا میں زندہ رہے، بدقسمتی سے آج ہمارا حال بھی ایسی قوم جیسا ہے، پاکستان کو بننے کے بعد بگڑنے کے منحوس اور شرمناک دن بھی دیکھنے پڑ رہے ہیں، وہ بچے جنھوں نے تشکیلِ پاکستان کے وقت دنیا میں آنکھ کھولی اب ستر سال کے بوڑھے ہو چکے ہیں بلکہ ان کے بچے بھی بچوں والے ہو چکے ہیں لیکن افسوس صد افسوس کہ وہ سرزمینِ مقدس جس پر معرضِ وجود میں آنے والی ریاست نے کروڑوں انسانوں کے مشامِ جان کو آزادی کی خوشگوار فضاؤں سے مہکایا، اس اَمر کی منتظر ہی رہی کہ اس کے سبزہ زاروں اور چمنستانوں میں خوابِ غفلت کا شکار لوگوں کو کوئی یہ بتائے کہ تمہیں فراغت ِ دامن کی یہ ہوائیں کچھ یونہی میسر نہیں آگئیں بلکہ اُنھیں نکہت و نور سے معمور کرنے کیلئے فہم و فراست، محنت و جانفشانی اور عشق و محبت کی انتہائی لگن سے سرشار فرزندانِ ملت نے برسہا برس تک جہد ِمسلسل کے ذریعے جاں گسل جدوجہد کی ہے، آزادی وہ نعمت ہے جس سے آج ہم بہرہ ور ہیں ایک طویل جنگ کے بعد حاصل کی گئی ہے، یہ ہمارے بڑوں کی محنت اور اﷲ تعالیٰ کی رحمت کا ثمر ہے، کسی کی دی ہوئی خیرات نہیں جیسا کہ اکثر ہندو اور انگریز تاریخ دان یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ مسلمان حصولِ پاکستان کے سلسلے میں اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم، اپنی جدوجہد اور حکمت و تدبر کے علاوہ کسی کے بھی زیر باراحسان نہیں ہوتے بلکہ اس کے بر عکس یہ ہندوؤں کی کانگریس تھی جس نے انگریزوں کی سرپرستی میں جنم لیا اور پرورش پائی، یہ ہندو تھے جنھوں نے پاکستان کے حصے کی دولت اور رقبے کو برطانیہ سے خیرات میں حاصل کیا جو آج بھی ہمارے وجود کو ختم کرنے کیلئے دانت پیس رہے ہیں، جتنی ضرورت آج اس اَمر کی ہے کہ پاکستان کے بچے بچے کے دل پر حصولِ پاکستان کی جدوجہد کی تاریخ رقم کر دی جائے، پہلے کبھی نہ تھی، انھیں معلوم ہونا چاہئے کہ مسلمانوں کے متعلق ہندو بنیے کے کیا عزائم تھے۔

آج ستر سال کا پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک ایٹمی قوت بن کر اُبھرا ہے ، ہمیں یہ مت بھولنا چاہئے کہ اس کی بنیادوں میں لاکھوں مسلمان ماؤں بہنوں کی عصمتوں، عفتوں کی قربانیاں اور لاکھوں نوجوان، بچوں اور بوڑھوں کے بے گوروکفن جسموں کا خون شامل ہے، یہ دنیا کے نقشے پر ایک معجزہ ہے اور معجزے ختم ہونے کے لیے رو پذیر نہیں ہوتے، تقسیم ہند اور قیامِ پاکستان بلاشبہ برصغیر کے عظیم لیڈر قائد ِاعظم محمدعلی جناحؒ کی فہم و فراست اور عقل و دانش کا عظیم فیصلہ تھا جو کلمہ طیبہ کی بنیاد پر مسلمانوں کو اپنی مذہبی آزادی کیلئے عطیہ خداوندی کی صورت میں ملا مگر جن حالات میں ملا جس طرح تقسیم ہند ہوئی اور جس طرح تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت تاریخ میں نقش ہوئی۔ ان واقعات کی یاد تازہ کرنے کیلئے میں نے اُس شخص کو ڈھونڈنا شروع کیا جس نے پاکستان کو اپنی آنکھوں سے بنتے دیکھا ہو، گوجرانوالہ کے تاریخی قصبہ قلعہ دیدار سنگھ میں 105 سالہ عبدالحمید خاں سے ملاقات ہوگئی،میری درخواست پر وہ چند لمحے بیتے دنوں کی یاد کیلئے دینے پر آمادہ ہو گئے، پاکستان بنتے وقت وہ 36 سالہ کڑیل جوان تھے، آج بھی ایک ایک لمحہ کسی فلم کی صورت میں ان کے دماغ میں موجود ہے، اس پیرانہ سالی میں ان کی یاداشت ان کا بھرپور ساتھ دے رہی ہے، کانوں سے اونچا سنتے ہیں جس کی وجہ سے میرے سوال اور ان کے جوابات ٹرانسلیٹ کر کے اُن کا پوتا جمال ناصر مجھے بتا رہا تھا، کچھ دیر کیلئے تو میں بھی ماضی کے جھروکوں میں کھو گیا تھا اور سوچ رہا تھا کہ کتنے عظیم لوگ تھے جنھوں نے اپنی نسل اور اسلام کیلئے ایسی قربانیاں دیں جن کا صلہ قیامت کے دن اﷲ کے ہاں ہی ملے گا، دنیا کی کوئی مال و متاع اس کا نعم البدل ہو ہی نہیں سکتا۔ عبدالحمید خان صاحب نے بتایاکہ وہ وزیر آباد میں قیام پذیر تھے کہ 1946ء میں کاروبار کے سلسلے میں اپنے رشتہ داروں کے ہاں یو پی (اُتر پردیش) رام نگر چلے گئے، اس دوران پاکستان بننے کی تحریک عروج پر تھی، پورے ہندوستان میں قائد ِاعظم محمد علی جناحؒ کا ڈنکا بن رہا تھا، ہندوؤں اور سکھوں نے مذہبی انتہا پسندی کرتے ہوئے مسلمانوں کا عرصۂ حیات تنگ کر رکھا تھا، بات بات پر مسلمانوں پر حملے ایک معمول بن چکا تھا، مسلمانوں کو تو شودروں سے بھی نیچے سمجھا جاتا تھا۔ عبدالحمید خاں اس وقت ماضی کی گہری سوچوں میں کھوئے ہوئے تھے، ایک لمبی آہ بھر کر گویا ہوئے کہ اس وقت مسلمانوں کی بچیوں کی عفتیں اور عصمتیں بھی غیر محفوظ ہو چکی تھیں، لوگ اپنے گھروں میں بھی غیر محفوظ تھے، ایک ہی امید کی کرن تھی اور وہ تھی قائد ِاعظم محمد علی جناحؒ کی شخصیت جن کے جام پر ہندوستان کی پوری مسلم برادری ایک تھی، آخر کار وہ لمحہ آگیا جب 14 اگست 1947ء کو مسلمانوں کے لیے الگ ریاست ’پاکستان‘ کے قیام کا اعلان ہوا، میں کاروباری سلسلے میں اپنے گاؤں رام نگر سے باہر تھا، شور شرابہ، ہلا گلہ شروع ہوچکا تھا، گاؤں واپسی پر راستے میں ہی مجھے پتہ چل گیا کہ میرے تمام رشتہ داروں کو ہندوؤں نے قتل کر دیا ہے، قریبی رشتہ دار ہمسائے بھی قتل ہو چکے ہیں، ہر طرف خوف و وحشت کا عالم، گلی گلی موت رقص کر رہی تھی، مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جارہا تھا اور ان کی جائیدادوں پر قبضہ کیا جارہا تھا، اپنی جانیں بچانے کیلئے مسلمان پاکستان کا رُخ کر رہے تھے مگر سب راستے بند ہوچکے تھے، قتل و غارت گری کا بازار گرم تھا، ہر طرف لاشے ہی لاشے نظر آرہے تھے، ایک دوست کے ہمراہ ریاست رام پور آگیا، وہاں لکھنؤ سے ملٹری کی گاڑی آئی جس کا ہم کئی دنوں سے انتظار کر رہے تھے، اُس میں ایک بڑا افسر تھا وہ آوازیں لگا رہا تھا کہ چلو چلو پاکستان، جو رہا گیا اُسے موقع نہیں ملے گا، ہم نے اُن کیساتھ جانے میں ہی عافیت محسوس کی، ریلوے اسٹیشن پہنچنے، 16 گھنٹوں کا سفر تھا، ہندو بلوائی راستے میں جگہ جگہ گاڑی کھڑی کر لیتے اور حملے کی کوشش کرتے، ہمارے ساتھ بیٹھے فوجی اِدھر سے گولیاں چلاتے اور ہم آگے بڑھتے، راستے میں ٹرین کی پٹڑی کے ساتھ نعشوں کے انبار لگے ہوئے تھے، عجیب قیامت کا منظر تھا، میرے ساتھ بیٹھے ایک فوجی نے جو مسلسل کئی دنوں سے ٹرین پر ڈیوٹی دے رہا تھا، گن مجھے پکڑا دی اور کہا ’’خان صاحب! اب میرا بازو کام نہیں کر رہا، آپ رائفل پکڑ لیں ‘‘، گاڑی کے اندر بھی نعشیں اور باہر بھی نعشیں تھیں، زندگی کی سانسیں ختم ہوتی محسوس ہو رہی تھیں کہ آخر کار ایک طویل سفر کے بعد رات بارہ بجے کے بعد ہم واہگہ پہنچ گئے، وہ لمحہ میں کبھی نہیں بھول سکتا جب ہمارے مردہ جسموں میں جان پڑ گئی اور ہم پاکستان زندہ باد کے نعرے مارے ہوئے لاہور ریلوے اسٹیشن سے باہر آئے، ریلوے اسٹیشن کے اندر اور باہر لاشوں کے ڈھیر لگے تھے اور تعفن و بدبو سے دماغ پھٹ رہے تھے،یہ آگ اور خون کا دریا تھا جسے ہم عبور کرکے جب ہم پاکستان پہنچے تو ہماری ساری تھکان ، پریشانی اور وحشت ناک سفر ایک جھٹکے کے ساتھ دماغ سے نکل گیا، ہم یوں اُچھل اُچھل کر نعرے لگا رہے تھے جیسے ہم اپنی جنت میں آگئے ہوں۔ یہ کہانی سناتے ہوئے بابا جی عبدالحمید خاں کے جھریوں بھرے چہرے کے تاثرات سے یہ بات بخوبی عیاں تھی کہ جس کا خواب ستر سال پہلے دیکھا تھا آج وہ پاکستان نہیں بن سکا، وہ بار بار قائد ِاعظم محمد علی جناحؒ، محترمہ فاطمہ جناح، نوابزادہ لیاقت علی خان کا تذکرہ کر تے ہوئے اپنے بوڑھے ہاتھ آسمان کی طرف اُٹھا کر اُنھیں دعائیں دے رہے تھے اور بڑے شوق سے بتا رہے تھے کہ میں نے سری نگر سے لاہور جاتے ہوئے وزیر آباد ریلوے اسٹیشن پر قائد ِاعظمؒ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا، میں نے حیدرآباد میں محترمہ فاطمہ جناح کو دیکھا، پھر اُن کی آنکھوں کی چمک ماند پڑ گئی اور وہ غمگین ہوگئے کہ آج کا پاکستان وہ نہیں جس کا خواب دیکھا تھا، جہاں انصاف کا بول بالا ہوگا، شریعت ِمحمدیؐ کے مطابق چلنا ہوگا، ہر طرف امن و آشتی کا بول بالا ہوگا، آج تو پاکستان کو لوٹنے والے بہت ہیں، اس دھرتی کا کوئی نہیں سوچ رہا۔ انتہائی جذباتی ہوتے ہوئے عبدالحمید خاں خاموش ہوگئے اور میں نے کاغذ قلم سمیٹ کر اُن سے اجازت لینے میں ہی عافیت سمجھی، میرے اُٹھتے ہی اُنھوں نے گھمبیر آواز میں کہا کہ نئی نسل کو بتا دو کہ آزادی کی نعمت آسانی سے حاصل نہیں ہوتی، خدارا! اس کی قدر کرو، یہ ٹکڑا کسی جنت سے کم نہیں۔

Atiq Yousuf Zia
About the Author: Atiq Yousuf Zia Read More Articles by Atiq Yousuf Zia: 30 Articles with 25398 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.