اے اہلِ وطن تُمہیں وطن کی فضائیں سلام کہتی ہیں

 یہ اگست کی ایک صبح تھی۔ ابھی سورج نکلنے میں کچھ وقت باقی تھا، رات کی بارش کی وجہ سے ہوا میں ہلکی خنکی تھی۔ میں اپنی چھت پر چڑھ کر جھنڈا لگانے میں مصروف تھی اور لگاتے ہوئے آج سے تقریباََ 70 سال پہلے کی صبح کو یاد کرنے لگی۔ اس صبح کی اوٹ میں چھپے واقعات یاد کرنے لگی۔جب جالندھر سے روانہ ہوتی ہوئی ماں یہ سوچ کر نہال ہورہی تھی کہ میں ایسے دیس کی طرف روانہ ہورہی ہوں جہاں میری جوان بیٹیوں کی عصمتیں محفوظ ہوں گی۔ وہ لاٹھی ٹیکتی ہوئی اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھی کہ بے شک اسکے بڑھاپے کا سہارا اسکا جوان بیٹا سکھوں کی بربریت کا شکار ہوچکا ہے مگر وہ پرعزم تھی پھر بھی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اب اس جیسی ماؤں کی گود دوبارہ خالی نہیں کی جائے گی۔ اس نئے ملک میں بڑھاپے کے سہارے کو بے گناہ قتل نہیں کیا جائے گا۔ جب لاہور اسٹیشن پر چیختی چنگھاڑتی ٹرین پہنچنی ہوگی، جب بے یارو مددگار، بے سہارا لوگ اپنی جائیدادیں اپنے عزیز و اقارب سب کچھ چھوڑ کر آنے والے لوگوں کے جمگھٹے اس یقین کے ساتھ پاک سرزمین کی طرف بڑھ رہے تھے کہ اس نئے ملک میں آئیندہ ان کے مال ان کی جان ان کی جائیدادیں سب محفوظ ہوں گی۔جب واہگہ بارڈر پر پہنچنے والے لٹے پھٹے پریشان حال حال قافلے اب اس سرزمین کی طرف قدم بڑھارہے تھے جسکی آزاد فضاؤں میں سانس لینے کا انہوں نے سوچا تھا۔ جہاں اسلام کی حکومت ہوگی، جہاں قرآن کا سایہ ہوگا۔جہاں شریعت کا نفاذ ہو گا،جہاں اُنہیں کوئی ہندو تنگ کرے گا اور نہ ہی کوئی سِکھ۔

یہی سب سوچتے ہوئے میری نظر نیچے گلی میں کھڑے دو نوجوانوں پر پڑی جو اپنی بائیک کے ساتھ کھڑے کچھ کرنے میں مصروف تھے۔ میں جیسے جیسے ان کو دیکھتی گئی میرا سر ندامت سے جھکتا چلاگیا۔ میں اندازہ کرسکتی تھی کہ وہ نوجوان بائیک کا سائلنسر اتارنے میں مصروف تھے اور آج وہ پورا دن شور کرتی ہوئی بائیک کو شہر کی مختلف گلیوں سے گزاریں گے اور ان نوجوانوں کے کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے باجے اس بات کے غماز تھے کہ وہ آج سب کو یہ چیخ چیخ کر بتائیں گے کہ دیکھو ہم آزادی کے قابل نہیں ہیں مگر پھر بھی ہم آزاد ہیں! گلیوں اور سڑکوں پر گھومنے کے لیے ہم آزاد ہیں! سڑک پر کھڑے پانی میں سے اپنی شور کرتی ہوئی بائیک گزارنے اور چھینٹے اُڑانے کے لیے ہم آزاد ہیں! ون ویلنگ کرنے کیلئے ہم آزاد ہیں! سرعام قانون کا مذاق اُڑانے کیلئے اور ٹریفک کے قوانین توڑنے کیلئے ہم آزاد ہیں!۔ اگر ہم پورا دن لیپ ٹاپ، موبائل ہاتھ میں پکڑے فیس بک پر چند پوسٹیں کرنے کو اپنی آزادی سمجھتے ہیں تو ہمیں اپنی اس نام نہاد آزادی کے بارے میں سوچنا پڑے گا۔

اگر ہم آزاد ہیں تواِن 70سالوں میں آزادی کی فضاؤں میں سانس لینے کے باوجود ہم سیاسی طور پر مضبوط اور مُستحکم کیوں نہیں ہو سکے۔آج بھی ہمارے حکمران کٹھ پُتلیوں کی طرح کِسی اور کے اشاروں پر کیوں ناچتے ہیں؟ہماری اپنی قوم کی قِسمت کے فیصلے اپنے ایوانوں کی بجائے واشنگٹن اور لندن میں کیوں طے پاتے ہیں۔۔ اگر ہمیں اپنے جشن آزادی کا مان ہے تو ہمیں اپنے پانچ وقت کے فرض کی ادائیگی کے لیے بھی اسلحے کا سہارا کیوں لینا پڑتا ہے۔ اگر ہم واقعی آزاد ہیں تو ہمارا سالانہ بجٹ World Bank اور IMF کے ماہرین کیوں ترتیب دیتے ہیں۔ اگر ہماری معیشت واقعی آزاد ہے تو ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کے تمام بینکوں میں سودی نظام کیوں رائج ہے۔ اگر ہم آزاد ہیں تو ہمارا ’’اپنا تعلیمی نظام‘‘ لارڈمیکالے کا ترتیب دیا ہوا کیوں ہے۔ہمارے تعلیمی اداروں میں آزادی اور حریت کے علمبرداروں کی بجائے محکومی اور غلامی والی سوچ کے حامل نوجوان کیوں پیدا ہو رہے ہیں؟ اگر ہم واقعی آزاد ہیں تو ہمارے رسم و رواج غیروں کے سے کیوں ہیں۔ اگر ہم آزاد اور خوشحال معیشت سے تعلق رکھتے ہیں تو ہمارے نوجوان روزگار کے لئے بھاگ بھاگ دوسرے مُلکوں کی غلامی کو کیوں ترجیح دیتے ہیں۔نہ ہمارا فِکر و فلسفہ آزا د ہے ،نہ ہی ہماری سیاست آزاد ہے نہ ہی ہماری معیشت سود سے پاک اور ہمارے اپنے کنٹرول اور مفاد میں ہے پھر بھی اے اہلِ وطن آپ سب کو آزادی مُبارک ہو۔سبز اور سفید رنگ کے کپڑے پہنو،اپنی موٹر سائکلوں کے سائلنسر اُتارو، بڑے بڑے باجے پکڑو، سڑکوں پر نکلو، ون ویلنگ کرو اور خوب جشنِ آزادی مناؤ۔

Akbar Ali
About the Author: Akbar Ali Read More Articles by Akbar Ali: 2 Articles with 5406 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.