تین مناظر تین حقائق

 پہلا منظر:آپ کچھ پریشان نظر آرہے ہیں کیا ہوا؟کچھ نہیں بھائی ، بس اک جانور لیا تھابکرا منڈی سے ،اور آپ کو تو معلوم ہے کہ کتنا تکلیف دہ عمل ہوتا ہے جانور کی خریداری،جی ہاں مجھے معلوم ہے ،پر آپ کے ساتھ ہوا کیا؟دھوکا ہوا ، بکرا سمجھ کر لیا تھا اور قیمت بھی بکرے کی ہی اداء کی تھی یعنی مہنگا لیا تھا،مگر گھر آکر انہونی ہوگئی کہ وہ بکری نکل آئی!!ہیں ںں ںں ں کیا؟؟ جی بھائی ہم نے مکمل تسلی وتشفی کرکے ہی بکرا خریدا تھا ،نا جانے کس طرح دھوکہ ہو گیا ،
ــــدوسرا منظر: بھائی بیمار لگ رہے ہو طبعیت تو ٹھیک ہے نا؟یار بازار سے تربوز خرید کر لایا تھا،جب سے کھایا ہے طبعیت بوجھل سی محسوس ہورہی ہے ،پر کیوں؟تربوز تمہارے مزاج کے موافق کے نہیں ہونگے، نہیں یار مجھے موافق تو ہے پر آج ایک نئی جگہ سے خرید کر لایا تھا ،لال وسرخ تو بہت تھے اندر سے ،پر ذائقہ الگ سا تھا ،کھانے کے بعد طبعیت بگڑ گئی ،نا جانے اندر کیا تھا؟؟،
تیسرا منظر:نہیں نہیں یہ بالکل نہیں ہو سکتا ،کل تو اس بھینس نے پورے ۱۰کلو دودھ دیا تھا پھر آج یہ ۴ کلو کیسے دے سکتی ہے؟ تم جاؤ اور دیکھو مزید دودھ ہوگا ، اور دودھ ہے ہی نہیں تو کہاں سے نکالوں؟ مگر ایسا کیسے ممکن ہے ؟ ۱۰ کلو سے اچانک ۴ کلو پر کیسے آسکتی ہے؟

یہ تین مناظر تھے جو آپ کے لئے یقینا چونکنے اور حیرانی کا باعث بن گئے ہونگے کہ یہ سارے معاملات کس طرح سے ہوئے ؟ جان لیں یہ سب حقیقی واقعات ہیں جن میں ہمارے کئی جان پہچان والے اپنے قیمتی پیسے اور وقت برباد کر چکے ہیں ، بعد از تحقیق جو صورتحال سامنے آئی آپ بھی ملاحظہ فرمائیں:
ــپہلے واقعہ میں بکرا ،بکری کیسے بن گیا؟ اس کی حقیقت کچھ یوں ہے کہ بیوپاری حضرات جانتے ہیں کہ قربانی کیلئے عموما نر جانور ہی پسند کیا جاتا ہے اور مادہ کی قربانی کم کی جاتی ہے جبکہ شریعت میں مادہ جانور کی قربانی افضل ہے ، لہذا اسی وجہ سے نر جانور کی قیمت بھی مادہ کے مقابلے میں زیادہ ملتی ہے تو وہ لوگ عیاری یہ کرتے ہیں کہ بکری کے تھنوں کو موڑ کر اس پر اس انداز سے ٹیپ یا کوئی اور چپکنے والی چیز لگاتے ہیں کہ تھن اوپر کی جانب مڑ جاتے ہیں اور پھر وہ نر کے اعضاء نما نظر آتے ہیں ، بہت غور سے دیکھنے پر ہی معلوم ہوتا ہیکہ یہ مردانہ اعضاء نہیں ہیں ،سرسری نظر سے دیکھنے پر تو معلوم ہی نہیں ہوسکتا ،جبکہ منڈی میں ایک تو رش ،دوسرا وقت کی قلت،اور تیسرا خریدار بیچارا اناڑی! جسکیوجہ سے وہ اس طرح کا جانور خرید لاتا ہے ،اسپر مستزاد یہ کہ یہ ظالم بیوپاری اس جانور کی پیشاب گاہ میں ایلفی ڈال کر اس کو بند کر دیتے ہیں تاکہ یہ پیشاب نہ کر سکے اور خریدار پر حقیقت نہ کھلے ، لیکن اس کی وجہ سے جانور سارا دن تڑپتا رہتا ہے اور پیشاب بھی نہیں کر سکتا ،بہرحال اس عمل سے وہ بکری کو بکرا بنادیتے ہیں،

دوسرے واقعہ کی اصل صورتحال ایک جاننے والے سے معلوم ہوئی جو ایک غریب شخص ہے ،اس نے بتایا کہ میں بھی یہ کام کرچکا ہوں وہ اسطرح کہ کافی دن سے کام دھندا نہیں مل رہا تھا ،پریشان تھا کہ ایک دوست نے مشورہ دیا کہ تم تربوز لے آؤ اسوقت سستے ہیں ،سبزی منڈی میں پانچ سو کی بوری ہے،لاکر فروخت کرلو تین چار سو کی دیہاڑی بن جائے گی ،میں تربوز لے آیا ،گھر آکر مجھے تمام کے تمام کچے محسوس ہوئے چند ایک کو کاٹ کر دیکھا تو اندازہ ہوا کہ سب ہی کچے اور سفید ہیں میں تو سر پکڑ کر بیٹھ گیا کہ میرے پیسے ضائع گئے ،میں نے یہ صورتحال اسی مستشار دوست کو بتائی تو اس نے ایک پڑیا لال رنگ کی مجھ کو تھمادی اور کہا کہ اس کو کسی برتن میں ڈال کر محلول بنالینا اور پھر ایک انجکشن لیکر اسکو اس محلول سے بھر کر ہر تربوز میں لگادینا ،میں نے ایسا ہی کیاتو سب کے سب تربوز اندر سے لال سرخ ہوگئے اور حد درجہ میٹھے بھی! پھر میں نے ان کو فروخت کرکے اپنی دیہاڑی کھری کرلی!! غور کریں کہ نامعلوم کونسا کیمیکل تھا جس کو محلول بنا کر تربوز میں بھر دیا گیا اور تربوز میٹھے ہوگئے ،مگر اس سب میں کھانے والے پر جو بیتی ہوگی یہ تو کھانے والے ہی بتا سکتے ہیں،

جبکہ تیسرے واقعہ کی حقیقت ٌ تصریہ ٌ ہے کہ لوگ گائے بھینس کو بیچنے سے چار پانچ دن قبل اس کا دودھ دوہنا بند کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے اس کے دودھ والی جگہ بھری بھری نظر آتی ہے جس سے خریدار یہ سمجھتا ہے کہ یہ جانور دودھ زیادہ دیتا ہے ،حالانکہ ایسا ہوتا نہیں ،کیونکہ ایسا جانور ایک دو دفعہ تو دودھ کثرت سے دیتا ہے مگر پھر وہ اپنی سابقہ حالت پر لوٹ آتا ہے ،اس عمل کو شریعت نے ٌ تصریہ ٌ کا نام دیا ہے ، اس طرح کے جانور کو ٌ مصراۃ ٌ کہتے ہیں ، مسلم شریف ٌ کتاب البیوع ٌ میں اسکی ممانعت کی حدیث آئی ہے کہ آپﷺ نے اس عمل قبیح سے منع فرمایا ہے ،اور ساتھ ساتھ جس کے ساتھ یہ عمل ہوجائے تو اسکو جانور لوٹانے کا اختیار دیا ہے ،آج کل تو یہ صورتحال ہیکہ یہ عمل بہت ہی عام ہے حتی کہ ہمارے ایک دین دار دوست ہیں اور دین کی کافی معلومات رکھتے ہیں ،ان کو بھی اس عمل کی بابت معلوم نہیں تھا بتانے پر ان کو معلوم ہوا تو کہنے لگے کہ یہ عمل تو ہم خود کرتے آرہے ہیں اور اس کو برا نہیں سمجھتے تھے ،اور پھر انہوں نے اس عمل سے توبہ کی،اگر حدیث شریف کے مطابق آج خریدار کو اسطرح کے جانور کے لوٹانے کا اختیار مل جائے تو پھر فروخت کر نے والے کو اپنے جانور کے لوٹائے جانے کا خوف لاحق رہے گا اور وہ یقینا اس عمل سے اور لوگوں کو دھوکا دینے سے باز رہے گا۔
 

Ahsan Ullah
About the Author: Ahsan Ullah Read More Articles by Ahsan Ullah: 2 Articles with 1290 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.