دسترس

تحریر: شعیب الطاف
دس سال پہلے یہ جگہ بہت خوبصورت ہوا کرتی تھی۔۔ اتنی خوبصورت کہ مشہور تھا یہاں پر پریاں اترتی ہیں ، بوڑھے میاں نے چائے کا سِپ لینے سے پہلے شاید عادتاً پیالی میں پھونک ماری جس سے ان کی بوسیدہ عینک جس کے ایک طرف دھاگہ باندھ کے اس کو سہارا دیا ہوا تھا کے شیشے دھندلے ہو گئے۔ ۔۔ ان کا لہجہ ایسا تھا جیسے کسی جوان میت کا افسوس کر رہے ہوں ۔ یہ وادی ناران میں بابو سر روڈ کا ایک کنارہ تھا، جہاں ایک بوڑھے میاں ایک چھوٹی سی ہوٹل نما دکان سجائے بیٹھے تھے۔ ان کے کھوکھے سے چائے بسکٹ، موٹے والے کیک رس ، نمکواور بچوں کی پسندیدہ اشیاء مل جاتی ہونگی سو ہم بھی ان کے پاس ذرا رک گئے تھے اور سیاحوں کے رش اور رونق پہ بات ہو رہی تھی۔ وہ بات جاری رکھتے ہوئے بولے ـ" تب یہاں تک آنا آسان نہیں تھا، سڑکیں کچی تھیں ، جیپ ٹریک تھے یا اوپر گھوڑوں اور خچروں کے ذریعے ہی جانا ممکن تھا۔ اور ہمت والے لوگ ہی ادھر کا رخ کیا کرتے تھے ، جن میں زیادہ تعداد غیر ملکیوں کی ہوتی تھی" ۔ ایک گہرا سکوت چھا یا اور میں نے اشتیاق بھرے لہجے میں اس سکوت کو توڑا، پھر کیا ہوا چاچا جی ؟؟

بوڑھے میاں اپنی جگہ سے اٹھے اور سرگوشی کے سے لہجے میں بڑبڑائے ، " پھر ترقی ہو گئی پتر ۔ ۔ ۔ سڑکیں بن گئیں اور یہ علاقہ سب کی " دسترس" میں آ گیا۔ پریاں بھاگ گئیں اور لوگ اپنی پریاں ساتھ لانے لگے" ۔

یہ کہہ کر وہ مجھے حیرت زدہ چھوڑ کر نئے آنے والے گاہکوں کی طرف متوجہ ہو گئے۔ میں نے ارد گرد نظر دوڑائی تو رفتہ رفتہ مجھ پہ بوڑھے میاں کی بات میں چھپا ہوا درد اور اس کے معانی آشکار ہونے لگے۔ ۔۔ ہر طرف ایک ہجوم، لوگوں کا بے ترتیب ہجوم۔ جا بجا لگے ہوئے خیمے اور اور سب سے تکلیف دہ کچرا ۔ ۔ ۔ ہر طرف بکھرے ہوئے شاپنگ بیگ ، منرل واٹر کی بوتلیں ، جوس کے خالی ڈبے، بسکٹ، چاکلیٹ نمکو لیز وغیرہ کے ریپرز، کہیں بچا کھچا کھاناایسے ہی پھینک دیاگیا۔ کہیں خراب پھل پھینک دیے ، کہیں چھلکوں کا ڈھیر۔۔۔ اور المیہ یہ اتنے ہجوم نے بد تہذیبی کی انتہا کرتے ہوئے فطری حاجت جس کو جہاں محسوس ہوئی وہیں رفع کر لی اور ایک جنت نما ماحول کو تعفن زدہ کر دیا۔ اُف خدایا بادی النظر میں یہ سب محسوس کیوں نہیں ہوتا میں نے خود کلامی کی۔ ابھی اسی کشمکش میں تھا کہ سامنے سڑک پہ سیاہ رنگ کی دو لینڈ کروزر گاڑیاں گزریں ، جن میں پوری آواز میں انڈین گانے چل رہے تھے۔۔۔ پیچھے والی گاڑی کا سن روف کھلا تھا اور بظاہر کسی بڑے امیر اور پڑھے لکھے گھرانے کا ایک نوجوان اور ایک چھوٹی بچی باہر نکلے ہوئے تھے، انہوں نے ایک شاپر گھما کر باہر اچھال دیا جو سڑک کے کنارے گرا اور شیشے کی بوتل ٹوٹنے کی آواز دور تک گئی۔ ۔ ۔ واہ ری تہذیب !!! میرے منہ سے بے اختیار نکلا۔۔ ۔

کون لوگ ہیں آخر ہم، کس قسم کی قوم ؟؟؟ قوم یا اجڈ اور بد کرداروں کا ہجوم ، کب ہمیں اپنی ،اپنے ملک اور یہاں کی چیزوں کی قدر ہوگی؟؟؟ میں نے سوچ میں ڈوبے سیگریٹ سلگایا اور ایک گہرا کش لگا کر ایک درخت کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ ۔ ۔

ہم بہت ایڈوانس اور مہذب بنتے ہیں مگر اس جنت نظیر علاقے کے حسن کو برباد کرنے کے ذمہ دار ہم خود ہیں ۔ یہ علاقہ اگر ان کے پاس ہوتاجن کو ہم کفار کہہ کر حقارت سے دیکھتے ہیں ، یورپ کو مذہبی جنونیت میں گالی سمجھتے ہیں ، تو کیا وہ اس کے ساتھ ایسا سلوک کرتے؟؟؟ تو جواب ہے بالکل بھی نہیں ۔۔۔۔ وہ اس کی قدر کرتے، اسے کچرا کنڈی نہ بناتے، پریاں بھگا کر وحشت نہ بھرتے یہاں ، بلکہ اسے محفوظ بناتے۔ اس پر فخر کرتے، مثالی بنا کر دنیا کو دکھاتے کہ دیکھو ہمارے پاس کیسی کیسی نعمت ہے۔

میں سوچنے لگا کہ کب ہم نے اپنے بچوں اور آئندہ نسل کو اچھا انسان بنانے کا سوچا؟؟؟ کبھی بھی نہیں، ہمارے درمیان تو بس ایک دوڑ لگی ہوئی ہے مقابلے کی دوڑ۔ ۔ ۔ ڈاکٹر، انجینئر ، پائلٹ، سی ایس پی آفیسر بنانا ہے بس اپنے بچوں کو ، مہنگے سکولوں میں داخل کر وا دیتے ہیں اپنی اولاد کو ، بھاری فیسیں ادا کر کے سمجھتے ہیں بس ہمارا کام ختم۔ ۔۔۔ ارے ے ے ے بھائی ان کو اچھا انسان کون بنائے گا، ان کو اخلاقیات کون سکھائے گا، ملک سے محبت، رشتوں کا احترام ، رہن سہن کے اطوار، ذاتی اور مضافاتی صفائی کے معاملات کون بتائے گا؟ کون سکھائے گا کہ بیٹا راہ چلتے پتھر ہٹا دینا بھی نیکی ہے، اچھی بات بھی صدقہ ہے، کسی ضرورت مند کے کام آنا بھی اﷲ کو پسند ہے، کو ن تربیت دے گا کہ بیٹا سفر میں ؂یا تفریخ گاہوں میں جاؤ تو صفائی کا خیال رکھنا، پھل خریدو تو ساتھ ایک لفافہ اضافی لے لو کہ ان کے چھلکے اس میں ڈالتے جاؤ اور کچرا کسی بھی جگہ گھما کر پھینکنے کی بجائے تھوڑا خیال کر کے کسی کچرا دان یا ڈسٹ بن میں ڈال دو، گاڑی پہ سفر کے دوران گاڑی کے اندر ہی کسی شاپر میں رکھ چھوڑو اور کسی مناسب مقام پر پہنچ کر وہاں کے کچرا دان میں ڈال دینا۔ کون بتائے کہ تفریح اپنی ذات میں دل کی خوشی کا نام ہے نہ کہ دوسروں کی ماؤں بہنوں کو گھور کر اور چھپ کر ان کی تصاویر بنانے کا، ٹریفک جام کی صورت میں لمبی لائن میں لگنے کی بجائے ایک طرف سے سب سے آگے نکلنے کی کوشش کا عمل اس ٹریفک جام کے دورانیہ کو تین سے چار گنا کر دیتا ہے، غیر ملکیوں کا مذاق اڑا کر ہم جن سفلی جذبات کی تسکین کرتے ہیں وہ دراصل ہماری ثقافت کے منہ پہ تمانچہ ہے، دریا کے کنارے مذاق کرنا جان لیوا ہو سکتا ہے، کون کہے کہ بیٹا صفائی نصف ایمان ہے ، ، ، ، ، کیونکہ جس مولوی نے سکھانا تھا وہ فرقہ بند ہو کے لڑوانے میں مصروف ہے۔ جس استاد نے سکول میں سکھانا تھا وہ ٹیوشن اور اکیڈمی کے چکے میں ہے، جن والدین کا فرض تھا وہ سب کچھ پیسے اور پوزیشن پہ چھوڑ کے بیٹھے ہیں ۔

ہم دے کیا رہے ہیں نسل نو کو؟؟؟ یہ بچے بڑے ہو کیسے ایک اچھا معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں ؟؟ میرے اندر کا اضطراب بڑھ گیا۔۔۔

میرے درون میں کوئی عزم نو چیخا ۔ ۔ ۔ میں ان شاء اﷲ اپنا پورا کردار ادا کروں گا۔ میں خود بھی ان چیزوں کا خیال رکھوں گا اور اپنے احباب کو بھی ترغیب دوں گا ان معاملات میں سدھار لانے کی کوشش کروں گا۔ ۔ ۔
ایک گہری سانس لی اور مجھے محسوس ہو ا کہ تعفن زدہ ماحول میں " پریاں" نہیں صرف " ہم انسان " ہی زندہ رہ سکتے ہیں ۔ ۔ ۔ میں اٹھا اور گاڑی کی طرف چلتے ہوئے بوڑھے میاں پہ الوداعی نظر ڈالی جن کے چہرے کی بے شمار جھریاں اور عینک کے شیشوں کے پیچھے بوڑھی تھکی ہاری مایوس آنکھیں مجھے چیخ چیخ کے کہہ رہی تھیں GOOD LUCK پتر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

Dr Muhammad Adnan
About the Author: Dr Muhammad Adnan Read More Articles by Dr Muhammad Adnan: 27 Articles with 24814 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.